working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

دربدری اور آنے والا کل
مالاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں تقریباً29لاکھ لوگ دربدر ہو گئے ہیں اور اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ دربدر ہونے والے افراد میں روزانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی دعوئوں کے مطابق چار اضلاع میں25کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں پر اندازاً ایک لاکھ لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ جب کہ دیگر 90فیصد متاثرین نے پناہ گزین کیمپوں کی بجائے دوسرے شہروں میں اپنے عزیز، رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ اس صدی کی اندرونِ ملک سب سے بڑی انسانی ہجرت ہے جبکہ حکومت پاکستان اسے ایک ملک کے اندر تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت قرار دے رہی ہے۔

معاہدہ سوات کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشن کی بازگشت سنائی دی تو خیال تھا کہ حکومت کے پیشِ نظر کوئی ایسی حکمت عملی ضرور ہو گی جس کے تحت عام شہری کم سے کم متاثر ہوں۔ لیکن جیسے ہی اس آپریشن کا آغاز ہوا شہری ہلاکتیں بڑھنے لگیں۔حکومت نے الزام عائد کیا کہ طالبان شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں دوسری طرف عام شہریوں کا مئوقف تھا کہ سیکیورٹی فورسز ، اندھاد ھند طاقت کا استعمال کر رہی ہیں جس کا نشانہ عام شہری ہیں۔ چنانچہ مالاکنڈ، دیر، سوات اور بونیر سے لاکھوں شہری گھروں سے نکل پڑے۔ بچے،بوڑھے، جوان،عورتیں بے یارو مددگار اپنی اپنی جان بچانے کے لیے متاثرہ علاقوںسے انخلا پر مجبور ہو گئے۔یہ انخلا اتنا ایمرجنسی میں ہوا کہ متاثرین اپنے پیچھے اپنے ڈھور ڈنگر، قیمتی اشیاء حتیٰ کہ اپنے اپنے گھروں میں لاشوں کو دفنائے بغیر روانہ ہو گئے۔ اور بعض صورتوں میں چلنے پھرنے سے معذور اور بزرگ افراد کو بے یار و مددگار گھروں میں چھوڑ کر آگئے ۔جس طرح حکومت نے آپریشن کی حکمت عملی مرتب کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ عام شہریوں کا کیا بنے گا اسی طرح یہ خیال بھی نہیں کیا گیا کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں ہجرت ہوتی ہے تو مہاجرین کو کہاں رکھا جائے گا، ان کی خوراک اور روزمرہ ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔

آج جب ہم پشاور، مردان اور صوابی کے کیمپوں کی حالتِ زار دیکھتے ہیں تو ہمیں بد انتظامی کی بد ترین صورتِ حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ متاثرین کو بے رحم گرمی اور کرپٹ انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک طرف متاثرین کے لیے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں، متاثرین کے لیے ڈونر کانفرنسیں کر کے اربوں روپے اکٹھے کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف متاثرین کے کیمپوں میں جو بے چارگی کا عالم ہے اس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آخر ہم المیوں سے بھی سبق نہیں سیکھتے، ایک قدرتی آفت 2005کا تباہ کن زلزلہ تھا ،خیال تھا کہ اس کے بعد ہمیں آفتوں کا مقابلہ کرنے کا ہنر آجائے گا لیکن ہم آج بھی اتنے ہی انجان اور اتنے ہی بد انتظام ہیں جتنے پہلے کبھی تھے۔ المیے اور آفتیںاپنے ساتھ جو سبق لے کر آتی ہیں اُس کو سمجھنے کے لیے جو دل و دماغ درکار ہوتا ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہییا پھر شاید جن قوموں کے لمحے لمحے آفت زدہ ہوں وہ آفتوں سے لڑنے کا ہنر نہیں جانتیں۔

مالاکنڈ ڈویژن کے متاثرین کسی قدرتی آفت کا شکارنہیں ہوئے یہ جن حالات سے گز رکر دربدر ہوئے ہیں ان میں ریاستی اداروں کی کوتاہی بہر حال شامل ہے،ایک تو عرصے تک ان کے حقوق سے روگردانی کی گئی پھر طرہ یہ کہ ان پر طالبان کو مسلط کرنے کا پورا ماحول فراہم کیا گیا۔ چنانچہ آج29لاکھ دربدر لوگ ہر طرف سے چھلنی ہیں اور حکومت انہیں مزیدچھلنی کر رہی ہے۔ جس طریقے سے متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے اس سے ایک بہت ہی خراب ترین صورت حال اور موجودہ تنازعے سے ایک اور تنازعہ سر اٹھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کسی کو اس صورت حال کی نزاکت کا احساس نہیں بلکہ ہر کوئی موجودہ صورت حال سے اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ ایک طرف متاثرین کے دکھ اور مصائب ہیں تو دوسری طرف ان کے مصائب کو مارکیٹ کر کے پیسہ بنانے والے حرکت میں ہے۔ افسوس کہ ہم یہ سب کچھ کرتے وقت یہ نہیں سوچ رہے کہ یہ آگ کل ہمارے گھروں تک پہنچ سکتی ہے، کل ہمیں بھی دربدرہونا پڑ سکتا ہے فقط ایک روٹی کے حصول کے لیے کل ہمارے بچوں، مائوں بہنوں کو بھی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑ سکتا ہے جو قومیں المیوں اور آفتوں سے سبق نہیں سیکھتیں ان کے لیے ایسا ''کل ''آکے رہتا ہے۔
مدیر