working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانوی مسلمان نوجوان، القاعدہ کا آسان ہدف
مجتبیٰ محمد راٹھور

برطانوی نوجوان مسلمانوں میں شدت پسندی کی سطح اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ خود برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری ایک نسل کو قربانی دینی ہوگی، 7/7کے واقعہ کے بعد برطانوی خفیہ ادارے ، دہشت گردی کی کئی ممکنہ وارداتوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود القاعدہ اور دوسری تنظیمیں نوجوانوں کو اکسا رہی ہیں۔ اس نظر میں لکھا جانے والا یہ مضمون انتہائی اہم ہے(مدیر)
برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اسی تیزی کے ساتھ ان کے مسائل میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دی ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں گزشتہ4سال کے دوران تقریباً 5لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ اور اب مسلمانوں کی آبادی 2.4ملین تک جا پہنچی ہے۔ ماہرین کے مطابق مسلمانوں میں آبادی کے اضافے کی وجہ امیگریشن کی پر کشش سہولت، شرح پیدائش میں اضافہ اور 2004سے لے کر2008کے درمیان لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا اسلام قبول کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برطانوی حکومت کے کردار نے مسلمانوں کو برطانیہ میں علیحدہ شناخت اجاگر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان برطانوی معاشرے میں اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں جس طرح دیگر گزارتے ہیں۔ بلکہ انہیں ہر روز کسی نہ کسی نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈیوڈ کولیمن جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں ان کے خیال کے مطابق مسلمان برطانیہ میں سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے مسائل کا شکار ہیں۔ اور خاص کر سیاسی سطح پر بھی ان کوخاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان کے مطابق آبادی میں اضافے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر معاملات میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہاں البتہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے مسلمان فطری طور پر اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے معاملات کے لیے متفقہ طور پر آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اور یہ آواز مستقبل کی پالیسیاں بنانے کے لیے بہترین مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ برطانیہ کے جمہوری نظام میں سب سے زیادہ سخت مذہبی طبقہ بھی ووٹ دیتا ہے اور بہت سے نسل پرست طبقہ بھی اپنا جمہوری حق استعمال کرتا ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہو گا کہ ان کی رائے کو بھی مد نظر رکھ اجائے اور ان کے معاملات میں بھی دلچسپی لی جائے۔

برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے برطانوی حکومت نے اب مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دینی شروع کر دی ہے۔ اورانہوں نے بنیادی سطح پر ایسے اقدامات اٹھانے شروع کیے ہیںجس کی وجہ سے مسلمان اپنے آپ کو برطانیہ کے دیگر لوگوں کی طرح برطانیہ کا آزاد شہری تصور کر سکیں۔ اس کے لیے حکومت برطانیہ نے مسلمان کمیونٹی کے تعاون سے مختلف پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ جن میں مسلمانوں کو ترغیب دی جارہی ہے۔ کہ وہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک برطانیہ کی ترقی کے لیے بھی کام کریں۔

اس وقت برطانیہ کے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے جو سب سے بڑی رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے الزامات ہیں11/9کو ورلڈ ٹریڈسنٹر امریکہ میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد برطانیہ میں بھی دہشت گردوں کی لہر آئی اور7/7کا واقعہ پیش آیا۔ پھر مختلف اوقات میں دہشت گردی کے کئی منصوبے بے نقاب ہوتے رہے۔ اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ مسلمان ہی ان واقعات میں ملوث پائے گئے۔

اسی طرح دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے مسلمانوں کو اب دہشت گردی جیسے نئے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے لیے اگرچہ برطانیہ میں مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں حکومت کے ساتھ مل کر اس مسئلہ پر قابو پانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن جب تک عالمی سطح پر القاعدہ جیسی متشدد مذہبی تنظیمیں وجود میں ہیں دہشت گردی کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیمیں جس عالمی جہاد کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ اس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی بالخصوص برطانیہ کو بھی نقصان پہنچانا ہے۔ القاعدہ اس کام کے لیے برطانیہ کے سادہ لوح مسلمانوں کو استعمال کر رہی ہے۔

دی سنڈے ٹائمز نے ایک15سالہ لڑکے کی کہانی شائع کی ہے۔ جس کو روزنامہ ڈان نے 18مئی2009کو شائع کیا۔اس رپورٹ کے مطابق اس 15سالہ نائجیرین نژاد برطانوی باشندے نے بتایا کہ اس کو اور دیگر 50نوعمر لڑکوں کو القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے جہاد پر آمادہ کیا۔ اور انھیں اس بات پر بھی آمادہ کیا کہ وہ پاکستان جائیں گے ۔جہاں وہ خود کش حملوں کی تربیت حاصل کریں گے۔اس رپورٹ کے مطابق 15سالہ نوجوان کا یہ بیان پہلا واقعاتی ثبوت ہے۔ جس میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ شدت پسند کیسے نوعمر لڑکوں کو جنوبی لندن کی مسجد جو 21جولائی کے دہشت گردی کے فلاپ منصوبے کے لیے استعمال ہو رہی تھی میں اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں خفیہ طور پر جہادی نیٹ ورک سے منسلک کرتے ہیں۔یہ نوعمر لڑکا ان 50نوجوانوں میں سے ایک تھا۔ جن کو شہدا کی ویڈیوز دکھا کر انھیں اس بات پر ابھارا گیا کہ وہ پاکستان جا کر جہادی تربیت حاصل کریں۔ نوجوان جس کا نام آدم تھا اس نے بتایا کہ اس نے ایک جہادی فلم دیکھی۔ جس میں ایک نوجوان کا پیغام تھا کہ مجھے شہادت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ ہم میں سے اکثر لڑکے پاکستان جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ اور ان میں سے ایک نے تو مجھے کہا تھا کہ میں اب جارہا ہوں اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ لوگوں کو تیار کر رہے تھے۔ کہ وہ برطانیہ میں واپس آکر کارروائی کریں۔

آدم جس کی عمر اب 18سال ہے۔ اس نے ایک سال پہلے اس گروپ کو چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ اس گروپ کے دیگر ارکان ابھی تک نامعلوم ہیں ۔ جب کہ آدم اس کا نقلی نام ہے۔اصلی نام اس نے ظاہر نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے جب سوچنا شروع کیا۔ تو مجھے یہ خیال آیا کہ میں کیوں بے گناہ لوگوں کی جان لوں۔ اس لیے میرے دل میں ان لوگوں کے خلاف ردعمل پیدا ہوا۔ اور میں نے ان کو چھوڑ دیا۔ اس کہانی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برطانیہ کے اندر دہشت گردی کے لیے افراد کی تیاری کے مراکز کوئی خاص نہیں بلکہ مساجد میں بھی ان کو تیار کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان مساجد سے تربیت لینے والوں کو دیگر علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں سے یہ عسکری تربیت کے لیے پاکستان روانہ ہوتے ہیں۔

اس نوجوان کی کہانی سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک دیگر شدت پسند تنظیمیں برطانیہ کے اندر مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہیں۔ اور وہ آہستہ آہستہ ایسے افراد تیار کر رہی ہیں۔ جو مستقبل میں ان کے آلہ کار بن سکتے ہیں۔اور خاص کر پاکستانی نژاد مسلمان بالخصوص اس تنقید کا نشانہ بنتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ برطانیہ کے اندر القاعدہ کے نظریات کو فروغ دینے میں اس وقت زیادہ کردار عرب ریاستوں سے آئے ہوئے مسلمانوں اور ان کی تنظیموں کا ہے جو القاعدہ کے عالمی جہاد کے ایجنڈے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ برطانیہ میں بسنے والے مسلمان مل کر دہشت گردی کے خلاف متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ اور پھر اس مسجد اور منبر کی خود نگرانی کریں۔ جہاں سے مسلمانوں کو شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتِ برطانیہ کوبھی چاہیے کہ وہ بجائے عالمی طاقتوں کے کہنے پر عمل کرے۔ بلکہ اپنے ملک کے رہنے والے باشندوں سے مل کر دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے مسائل پر قابو پائے۔

اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ برطانیہ کے اندر مسلمانوں کو ان کا جائز مقام دلایا جائے اور انھیں برطانیہ کا شہری تصور کرتے ہوئے تمام حقوق دیے جائیں۔ اور ان تمام نسل پرست طبقات کی حوصلہ شکنی کی جائے جو مذہبی کی بنیاد پر برطانیہ کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔