working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

شدت پسندی سے برطانیہ میں مذہبی آزادی کو خطرہ ہے: انٹرویو....چوہدری آفتاب احمد خان
بشارت رٹوی

چوہدری آفتاب احمد کاتعلق ضلع میر پور کی معروف تحصیل ڈڈیال سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور ماہر قانون ہیں۔ اگرچہ اُن کے پاس برطانیہ کا مستقل رہائشی ویزا ہے۔ لیکن عملی طور پر وہ زیادہ تروقت وطن عزیز میں ہی گزارتے ہیں۔ برطانیہ میں کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی ہو یا آزاد کشمیر کی چوٹی کی سیاسی قیادت اِن حلقوں میں چوہدری آفتاب احمد خان ایڈوکیٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بل کہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا کہ وہ آزاد کشمیر اور پاکستانی کی سیاسی نبض شناسی کا فن بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِس معتدل مزاج نوجوان کشمیری سیاست دان سے برطانیہ میں مذہبی انتہا پسندی اور ممکنہ دہشت گردی کے حوالے سے خصوصی بات چیت کی گئی جو نذر قارئین ہے۔(مدیر)
نوجوان نسل میں سے چند عناصر ہیںجو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے اُن کی منفی سرگرمیاں منظر عام پر آئی ہیں۔ جو کہ برطانیہ اور یہاں کے لوگوں کے لیے بھی بے حد باعث تشویش ہیں میرے لیے یہ بات باعث حیرت ہے کہ برطانیہ جیسے لبرل، ماڈریٹ اور سکیولر معاشرے میں جہاں کا نظام تعلیم ، نظام زندگی ، کاروبار حکومت غرضیکہ کوئی بھی پیشہ نسلی تعصب سے بالاتر ہے۔ ایسے نظام تعلیم اور معاشرتی اقدار کے حامل ملک کے اندر نوجوانوں کا اِس طرح اِس راہ پر چل نکلنا باعث حیرت بھی اور باعث تشویش بھی۔ بہر حال میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ دنیا کے اندر بعض حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا اور غیر منصفانہ سلوک کا کِس حد تک ردِّ عمل ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اس کے باوجود بھی اِس طرز عمل کو کسی بھی وقت درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک آدھ جگہ کے سوا کہیں بھی برطانیہ کی حکومت یا اُس کی فوج کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شاید برطانیہ کے اندر انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے بعض عناصر کی اِن مذموم سرگرمیوں کو اِس حد تک مانیٹرنہیں کیا گیا جس حد تک اِس کی ضرورت تھی۔ جیسا کہ عمر بکری محمد کی مثال ہے۔ ایسے لوگوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت تھی جس میں سستی برتی گئی۔جہاں تک انسانی حقوق ، منصفانہ اور برابری و مساوات اور انسانی قدروں کا تعلق ہے تو میں یہ بات بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ برطانیہ جیسا ملک شاید ہی کوئی اور ہو جس کی مثال دی جاسکے۔ یہاں کے قوانین میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ یہی بات اور یہی اصول برطانیہ کو پورے یورپ اور دیگر دنیا میں ممتاز کرتا ہے۔ یہ ایک انتہائی خوب صورت ، بردبار ، لبرل اور ماڈریٹ معاشرہ ہے جہاں زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے تمام لوگوں کو برابری کے مواقع موجود ہیں۔ پھر بھی باصلاحیت اور محنتی انسان کے لیے برطانیہ جیسے خوب صورت معاشرتی قدروں کے حامل ملک میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی تفریق کا کوئی تصور ہے۔ میں بلامبالغہ یہ سمجھتا ہوں کہ برطانیہ کے اندر ہماری نوجوان نسل کا مستقبل انتہائی روشن اور تابناک ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں آگے بڑھنے کے لیے رشوت یا کِسی سفارش کو قطعاً نہیں بلکہ ایمانداری،دیانت داری ، صلاحیت اور استعداد کو بھی زاد راہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں نہ صر ف ہماری بلکہ ہر رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے آگے بڑھنے اور اپنے مستقبل کو خوب صورت بنانے کے بھرپور مواقع موجود ہیں۔ البتہ اگر ہم میں سے کچھ کوتاہ اندیش اپنے لیے، اپنے ملک برطانیہ کے لیے اور اپنی کمیونٹی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی خاطر منفی سرگرمیوں اور منفی رجحانات کی طرف مائل ہوں تو ایسے لوگوں پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اُن کی حرکتوں سے نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری دنیا میں اُن کے ہم مذہبوں جن کی اکثریت انتہائی پرامن اور معصوم ہے کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ اور اگر کبھی ان کی منفی سرگرمیاں سامنے آئیں تو ہمارے بے گناہ ، پرامن اور معصوم شہریوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بد قسمتی سے ماضی میں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی برطانیہ میں زیادہ فعال کردار ادا نہیں کر سکی۔جیسا کہ ان کا کردار ہونا چاہیے تھا۔ لیکن الحمد اللہ آج یہ کمیونٹی برطانوی معاشرے میں انتہائی فعال ہر شعبہ ہائے زندگی میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے برطانیہ کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے پارلیمنٹ اور لوکل کونسلوں کے اندر ان کی بھرپور نمائندگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جہاں تک تیسری نسل کا جوان ہو کر اپنی شناخت کھونے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلیوں کا رونما ہونا قانون قدرت اور مکافات عمل ہے۔ ظاہری بات ہے کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والے اور یہاں سے ہجرت کر کے جانے والوں کے درمیان فرق تو ضرور ہوگا لیکن جہاں بھی والدین نے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم و تربیت دی۔ اچھی مذہبی تعلیم دی۔ اسلام کی بنیادی روح سے روشناس کرایا۔ وہ آج بھی قابل فخر مسلمان اور بہترین برطانوی شہری ہیں۔ میں اِس بات کی انتہائی شدت سے ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ برطانیہ میں ہمارے تارکین وطن اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے وقف کر دیں۔ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ انہی نسلوں کے روزمرہ کے معاملات اُن کے اُٹھنے بیٹھنے اُن کے ہم پلہ لوگوں اور جن دوستوں کے ساتھ وہ وقت گزارتے ہیں اُن پربھی نظر رکھنی چاہیے تاکہ یہ نوجوان نسل غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ سکے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین مسلمان تو بنائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن کو ایک اچھا برطانوی شہری بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ برطانیہ کا یہ حق ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم برطانیہ کی ترقی، خوش حالی، اور یہاں کی بلند انسانی معاشی اور معاشرتی قدروں کی مضبوطی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں۔ اِس میں ذرا بھی شک نہیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی اِس وقت دنیا کا نمبر ون مسئلہ بن چکی ہے یہ ایک ایسا عفریت ہے جو کنٹرول ہونے میں نہیں آرہا۔ یہ صرف مٹھی بھر عناصر ہیں ۔ذ ہنی پسماندگی کا شکار یہ لوگ اپنا طرز زندگی دوسروں پر بزور طاقت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بے گناہ معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اِن کے ہاتھوں مذہبی مقامات ، مساجد، امام بارگاہیں، اور دوسرے مندر اور گرجا گھر تک محفوظ نہیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں آج سب سے بڑا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ان لوگوں کے اقدامات نے پاکستانی فوج کو دنیا کے سامنے شرمندہ کر رکھا ہے۔ اِن مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے افسوس ناک واقعات کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کو مل کر کوشش کر نی چاہیے پاکستان کو اِس جنگ میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بلکہ بھرپور طریقے سے پوری دُنیا پاکستان کی مدد کرے۔ ہم جدید تعلیم ، ملک میں سستا اور فوری انصاف لوگوں کو سوشل لائف مہیا کر کے اِس برائی کا راستہ روک سکتے ہیں۔

حالات کے ستائے ہوئے لوگ جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جن کو انصاف تک رسائی کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے احساس محرومی کا شکار افراد اِن مٹھی بھر عناصر کے شکار جلد بن جاتے ہیں۔ اِ س وقت پوری دُنیا کو مل کر اس برائی کو ختم کرنا ہوگا۔ بالخصوص پاکستان دہشت گردی کے خلاف اِس جنگ میں بہت بڑی قربانی دے رہا ہے۔ اس کے ہزاروں بے گناہ شہری اور بہادر مسلح افواج کے آفیسر نوجوان قومی سلامتی کے ضامن دیگر اداروں جیسے پولیس اور نیم فوجی دستے شامل ہیں کے جوان دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ برطانیہ میں ہماری نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ کِسی بھی ایسی سرگرمی سے دور رہیں جس سے اُن کی زندگی اور اُن کے والدین اُس معاشرے میں پریشانی سے دوچار ہوں۔ اور پاکستانی کمیونٹی تضحیک کا نشانہ بنے۔ ہمارے نوجوانوں کو ایک اچھا برطانوی شہری بن کر برطانیہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اِس سے جہاں اُن کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گا وہاں ہماری پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی بھی آسانی سے زندگی گزار سکے گی۔