working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

طالبان کے ساتھ مصالحتی کوششوں کا جائزہ
کارلبیو، جون گیسٹرائٹ

افغانستان میںامن وعامہ کے حوالے سے خدشات 2008ء میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئے طالبان کی باغیانہ سرگرمیاں جو 2006میں بڑھنی شروع ہوئی تھیں بدستور زور پکڑتی گئیں اور بالاآخر ان عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا سڑک کے کنارے نصب کیے گئے بم،قتل و غارت کے علاوہ حکومت اور فوجی اہمیت کے حامل مقامات کو نشانہ بنانا آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی لاقانونیت کا تقاضا تھا کہ کچھ مثبت اقدامات اٹھائے جائیں جس سے قومی تعمیر اور مناسب جنگی حکمت عملی عمل میں لائی جائے۔ چنانچہ نئی پالیسی ترتیب دی گئی۔ مزید فوجی دستے بھی طلب کیے گئے اور پہلی مرتبہ اعلیٰ امریکی افسران کے منہ سے طالبان سے گفت و شنید شروع کرنے کی باتیں سنی جارہی ہیں جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی تو ضروری ہے لیکن طالبان سے مصالحتی امور پر تبادلہ خیال کئی بحث مباحثوں کو جنم دے گا کچھ عناصر کے نزدیک یہ موت اور زندگی کا معاملہ ہے جس کی حیثیت حق اور باطل کے معرکے کے مترادف ہے۔ دوسرے عناصر اسے ایک ایسے فردِ بیمار سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی بیماری اپنی جڑیں پھیلا چکی ہے۔ اس لیے کسی مضبوط اور دیر پا حل کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

طالبان کے ساتھ بات چیت کی خبریں سب سے پہلے 2008میں میڈیا کی زینت بننا شروع ہوئیں اور تب سے ہی مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں اسی دوران یہ خبر بھی آئی کہ سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ نے ستمبر کے وسط میں طالبان کے نمائندوں اور افغان حکومت کے ارباب اقتدار کے ساتھ مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا ہے رپور ٹ کے مطابق افغانستان میں موجود برطانوی کمانڈ ربریگیڈیر مارک کاریٹن نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو حوصلہ افزأ قرار دیا ہے دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی کی طالبان لیڈر ملا عمر سے امن کی اپیل کی خبر بھی سامنے آئی اور ان کی تجویز کو امن جرگہ کی حمایت بھی حاصل رہی جو کہ افغانستان پاکستان کے عمائدین پر مشتمل تھا یہ اجلاس اسلام آباد میں ہوا علاوہ ازیں حزبِ اسلامی کے لیڈر مشہور جنگجو گلبدین حکمت یار نے بھی کرزئی حکومت سے بات چیت کا عندیہ دیا ۔

امریکہ کے سینئر افسران کی جانب سے بھی اس طرح کے بیانات نے بحث و مباحثے کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس اور امریکی فوج کے جنرل ڈیوڈ پیٹرس نے اپنے ساتھ عوامی حمایت کا دعویٰ کیا ہے کہ لوگ طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں تاکہ تنازعات کا بروقت خاتمہ ہو اور کٹر عسکریت پسندوں کو تنہا کیا جاسکے۔ گیٹس کے خیال میں عراق کی طرز پر افغانستان میں بھی ایک لمبے عرصے کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ایسے عناصر سے بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہوں۔کئی لوگوں کے نزدیک یہ ایک بنیادی تبدیلی کا اشارہ ہے کیونکہ 2001 کے بون معاہدے کے تحت نہ صرف طالبان کو نظر انداز کر کے افغان حکومت اور اداروں سے بے دخل کیا گیا بلکہ بین الاقوامی اور افغان آرمی پر بھی ان سے بات چیت کے لیے قدغن لگائی گئی تھی مگر اب مشورہ دیا گیا ہے کہ طالبان کے معتدل مزاج عناصر کو قومی دھارے میں دوبارہ شامل کر کے سیاسی بات چیت کا آغاز ایک کامیاب عمل ثابت ہوگا۔ ادھر امریکی فوج کے مشہور کمانڈر پیٹریس کی حکمت عملی کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ پیٹریس کو عراق میں ''انبار اویکنگ''اپریشن کا معمار خیال کیا جاتا ہے جہاں امریکی فوج نے سُنی عربوں میں قوم پرستی کے جذبات ابھار کر انہیں عسکریت پسندوں کی بیخ کنی کے لیے استعمال کیا اور اب وہ افغانستان میں بھی جہادیوں کے لیے ایسی ہی حکمت عملی ترتیب دینا چاہتا ہے۔

اس نظریے پر نکتہ چینی کرنے والے طالبان کے ساتھ گفتگو کو ایک کلیدی حل قرار نہیں دیتے۔ ان کی رائے میں افغان حکومت، اقوام متحدہ اور دوسرے اتحادی ، اسلامی بنیاد پرستوں سے بات چیت کیونکر کریں گے حالانکہ انہی عناصر نے سخت گیر انداز میں افغانستان پر اقتدار مسلط رکھا ،اسامہ بن لادن کو پناہ دی اور القاعدہ اور اس کے حمایتیوں کی مدد جاری رکھی کیا اس طرح پھر طالبان کی واپسی نہیں شروع ہو جائے گی جو ایک بار پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بنے گا۔ اور کیا یہ جمہوریت کے ساتھ مذاق تصور نہیں ہوگا۔ مزید برآں ان پر امید افغانیوں کو کیا پیغام ملے گا جو اپنے ملک کے مستقبل کے لیے پریشان ہیں یا طالبان اور عسکریت پسندوں کا امریکہ اور اس کے مفادات کے متعلق کیا رویہ سامنے آئے گا۔ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق طالبان سے تعلقات قائم کرنے میں حکمت عملی کا پہلو کم اور مایوسی زیادہ جھلکتی نظر آتی ہے کیونکہ یہ ایک گنجلک اور خاصی مہنگی جنگ تصور کی جارہی ہے۔ کچھ عناصر کے نزدیک کرزئی ایسا ماحول بنانا چاہتا ہے تاکہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اور آنے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے ہاتھ پائوں مار سکے۔

آج امن و عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور طالبان کی حاصل کی ہوئی کامیابیوں کے پسِ منظر میں بات چیت کا پہلو غیر واضح شکل اختیار کر چکا ہے جیسا کہ طالبان کمانڈر ملا صابر نے ''نیوز ویک'' کو نومبر میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کوئی اس قسم کی سیاسی تبدیلی نہیں ہے جس میں ہم حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں بلکہ ہم نے تو جہاد کا آغاز اس لیے کیا ہے تاکہ ملک میں اسلامی قوانین واپس لا سکیں۔

مزید برآں طالبان کی ایک اپنی منفرد سوچ بھی ہے۔ انہیں ایسی جماعت سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کہ کمزور اتحادیوں پر مشتمل ہے مگر انہیں ایک مضبوط جہادی نظریے نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ جیسا کہ امریکہ میں سنٹرل اور سائوتھ ایشین افیر کے بیورو، اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ بوچر کے خیالات کے مطابق طالبان کے جنگجوانہ عزائم میں مختلف عناصر کا عمل دخل ہے۔ مثلاً اس میں مذہبی نظریات ہیں۔ سیاسی وابستگیاں ہیں،قبائلی سا لمیت کا عنصر کار فرما ہے اور عارضی نوکریوں کا سہارا بھی ہے وہ اپنے مشترکہ مفاد کی خاطر مل کر کام کرتے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک مرکزی اور مضبوط کمان کا فقدان پایا جاتا ہے۔ تاحال ان میں لیڈروں کی ایک جماعت ہے جو کہ کوئٹہ(پاکستان) میں ان معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے اور وہ ملا عمر کی سربراہی کو تسلیم کرتی ہے اس کے علاوہ کئی جنگجو کلیدی ممبر ہیں جن میں حکمت یار اور سراج حقانی کے علاوہ مقامی عسکریت پسند شامل ہیں جو خود مختاری اور قبائلی سا لمیت کے حوالے سے صوبے اور اضلاع کی سطح پر اپنے مفادات کی جنگیں لڑتے ہیں۔

ان مذاکرات کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ مثلاً کیا طالبان سے کوئی سمجھوتہ عمل میں آجائے گا اور یہ بات بھی خاصی مشکوک دکھائی دیتی ہے کہ''انبار'' میں اپنائی جانے والی حکمت عملی کیا افغانستان میں بھی کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں تو راسخ العقیدہ مسلمان اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اور طالبان یہ بھی کہتے کہ یہ ان کی اپنی جنگ ہے اور یہ دونوں ہی عوامل عراق کے سُنی قوم پرستوں میں مفقود تھے۔
طالبان کو گفت و شنید میں الجھائے رکھنے کا ایک معقول جواز یہ بھی ہے کہ طالبان کو اتنی آسانی سے شکست نہیں دی جاسکتی جیسا کہ جنرل پیٹرس نے اکتوبر 2008میں ہیریٹیج فائونڈیشن فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ جس سے تنازعات کو ختم کیا جاسکے۔

وہ طبقہ جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے ان کی رائے میں گفت و شنید سے طالبان میں پھوٹ ڈالی جاسکتی ہے اس سلسلے میں نظریاتی بنیادوں پر کمزور عسکریت پسندوں کو جو کہ جنگ سے عاجز آچکے ہوں اور امن سے زندگی بسر کرنے کے خواہش مند ہوں سے اپیل کر کے قائل کیا جاسکتا ہے اسی طرح سیاسی حل سے افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے جہاںتک حالیہ امریکی پالیسی کا تعلق ہے اس کی حدود اس بات کا تقاضاکرتی ہیں کہ سب سے پہلے طالبان افغانستان کے آئین کو تسلیم کریں، بندوق پھینک دیں، القاعدہ سے قطع تعلق کرلیں، حکومت کا حصہ بنیں اور نہ ہی انہیں کوئی علیحدہ علاقہ دیا جائے گا۔

افغانیوں کے لیے جدوجہد کے حوالے سے گفتگو میں الجھانے کی حکمت عملی کچھ نئی نہیں ہے اپریل 2003میں صدر حامد کرزئی نے کابل میں علماء کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے مصالحتی منصوبے کا اعلان کیا اور 2005میں افغان حکومت نے ایک آزاد کمیشن کا قیام عمل میں لایا جو کہ امن واما ن کے زمرے میں ایک بہترین کوشش تھی پھر اگلے سال افغانستان کی قومی اسمبلی نے عام معافی کی منظوری دے دی۔

زیادہ تر لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مصالحتی کوششوں میں یکسوئی اور گہرائی کا فقدان رہا ہے جیسا کہ سٹینک زئی کی رائے ہے کہ افغان حکومت اور ا س کے بین الاقوامی حواریوں نے متنازعہ پیغامات دئیے ہیں جن میں کسی واضح پیرائے میں بات نہیں کی گئی اس طرح مصالحتی کوششوں کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ حکومتی عام معافی کاتب ہی وزن ممکن تھا جب افسران بالا وضاحت کرتے کہ ملا عمر سے کیا سلوک برتا جائے گا کیونکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے تحت تو پہلے ہی سخت پابندیاں عائد ہو چکی ہیں جن کی دسترس سے رہائی ممکن نظر نہیں آتی۔

مصالحتی اقدامات کے زمرے میں گفت و شنید کو آگے بڑھانے کے لیے ہاں یا ناں کی واضح پالیسی پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ جہاں تک طالبان کے مزاج اور فطرت کا تعلق ہے یا افغانستان کے سماجی ڈھانچہ کا انحصار ہے اس کی رو سے یہ گھمبیر مسائل کا مرقع ہے مزید برآں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ طالبان سے گفت وشنید کے جنگ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ کیا اس طرح جنگ ہاری یا جیتی جا سکتی ہے؟ جب کہ مصالحتی کوششوں کے حمایتی بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان نے عوامی سطح پر ابھی تک مذاکرات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی انہوں نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور مستقبل میں بھی ان سمجھوتوں پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بہر حال اس وقت سب سے اہم ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان میںہر قیمت پر امن بحال کرنا ہو گا۔

کچھ عناصر کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اتحادیوں کا بہتر پوزیشن میں ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے انہیں آرمی کی طاقت میں اضافہ اور کارروائیاں بڑھانا پڑیں گی۔ موجودہ صورتِ حال میں مصالحتی کوششیں اتنی ثمر آور ثابت نہیں ہوں گی کیونکہ اس وقت حالات کا جھکائو طالبان کی سمت ہے۔

افغانستان میں فوجی طاقت کے اضافے کے باوجود وہاں فتح حاصل نہیں ہو سکتی مصالحتی کوششیں بھی حکمت عملی کی مد میں بہتر ہتھیار ہیں۔ اس طرح طالبان کو بھی مجبور کر کے امن کی فضا بہتر بنائی جاسکتی ہے اور اس کے لیے حکومت کو بھی عوام سے رشتے قائم کرنا ہوں گے جیسا کہ ایک افغان پالیسی کے ماہر جان ناتھن نے پچھلے سال ٹائم میگزین میں لکھا تھا کہ مصالحتی کوششوں کی اصل روح نچلی سطح پر تبدیلی میں مضمر ہے جبکہ افغان عوام حکومت کے لیے اجنبی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اگر حکومت ان تک رسائی حاصل کر کے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھے تو ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت میں اس قدر پرجوش نہ رہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومت کو دیر پا اور تعمیری اقدامات کرنے ہوں گے مثلاً ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہو گا امن و امان کے لیے اصلاحات نافذ کرنا ہوں گی جیسا کہ افغانستان کے نئے وزیر داخلہ حنیف ایتمار نے تجویز کیا ہے کہ رشوت ستانی کو جڑ سے اکھیڑنا ضروری ہے اور فوج کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہو گا۔ ترقیاتی کاموں اور حکومت کی عام آدمی تک خدمات کے اثرات کے بغیر یہ کہنا نہایت مشکل ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائیاں امن کی نوید سنائیں گی۔ مصالحتی کوششوں میں علاقائی ممالک مثلاً پاکستان اور انڈیا کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان میں بنیادی مسائل کی نشاندہی کو ممکن بنایا جاسکے۔

در حقیقت مصالحتی کوششوں کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ طالبان سے بات چیت بڑھانی ہو یا کوئی اور مثبت اقدامات کرنے ہوں عوام کی نظریں حکومت پر جمی ہیں اب ایک دو ٹوک حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور ان کی ویران آنکھوں میں محبت کے دیپ دوبارہ روشن ہوں۔