working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

بڑے روپ چھوٹے درشن
خصوصی فیچر سجاد اظہر

عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 کے آرٹیکل 42 سب سیکشن (1) کے تحت قومی اسمبلی کے ہر ممبر اور آرٹیکل 25-A کے سب سیکشن (الیکشن ایکٹ1975 ) کے تحت ہر سینیٹر کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے تمام افراد کے اثاثوں پر مشتمل گوشوارے سالانہ بنیادوں پر الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔ ایک آئینی تقاضا سمجھتے ہوئے ایسا ہو تو رہا ہے مگر اس انداز سے کہ اس کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ زیر نظر رپورٹ پڑھ کر آپ بخوبی اندازہ کرسکیں گے کہ اراکین پارلیمینٹ کے اثاثے حقیقت میں کتنے ہیں اور انہوں نے گوشواروں میں کتنے ظاہر کئے ، یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے جن کو ازحد احتیاط سے مرتب کیا گیا ہے تاہم سہواً کسی غلطی کا ادارہ ذمہ دار نہیں ہے۔ (مدیر)

اراکین پارلیمنٹ میں سے کس نے کتنے اثاثے ظاہر کیے؟
گھر کا سامان خستہ حال ہو جائے تو لوگ اُس سے جان خلاصی کر کے نیا خرید لیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ برطانیہ میں آباد ایک میرپوری کے گھر ہوا، جہاں نئی بہو نے گھر کا پراناسامان اکٹھا کیا اور اسے اٹھا کرباہر پھینک دیا جہاں سے سٹی کونسل کا عملہ آیا اس نے سامان ٹرک میں رکھا اور لے گئے۔ اسی شام کو جب گھر کے بزرگ تشریف لائے اور انہوں نے اپنے پرانے گدے کی جگہ نیا میٹرس بچھا دیکھا تو وہ سر پکڑ کر رہ گئے۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے کہ میری زندگی بھر کی جمع پونجی ضائع ہو گئی۔ بہو سمجھ دار تھی اس لیے سمجھ گئی کہ بزرگوں نے اپنی ساری دولت بنک کی بجائے گدے میں چھپا کر رکھی ہوئی تھی۔ آخر کار تلاش کے بعد ایک کباڑ خانے سے وہ گدا حاصل کر لیا گیا جو پونڈوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس طرح بہو کی سانس میں بھی سانس آئی کہ اس کا گھر بچ گیا اور بزرگ بھی شاد ہو گئے کہ اس کی حلال کی کمائی تھی جو واپس مل گئی۔

یہ واقعہ مجھے پاکستانی پارلیمنٹرینز کے اثاثہ جات سے متعلق گوشوارے پڑھ کر یاد آیا ہے۔ اگرچہ اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ میں سے اکثر کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے اصل اثاثے یا تو چھپا کر رکھے ہوئے ہیں یا پھر ان کی مالیت بہت کم ظاہر کی گئی ہے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے اور بالکل اس میر پوری بزرگ کی طرح ہے جس نے بنک میں ساری زندگی اس لیے رقم جمع نہیںکرائی کہ اس طرح ایک طرف تو اسے ٹیکس دینا پڑے گا اوردوسری طرف اسے اس گزارہ الائونس سے بھی محروم ہونا پڑے گا جو وہ سرکار سے بے روزگار یا غریب ہونے کے ناطے حاصل کر رہا ہے۔

گذشتہ اراکین قومی اسمبلی کے کل اثاثوں کو اگر جمع کریں تو ہر رکن قومی اسمبلی کے حصے میں تین کروڑ80لاکھ روپے آتے تھے۔ موجودہ اراکین قومی اسمبلی کے اثاثوںکی اوسط شرح بڑھ کر 5کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ اراکینِ سینٹ کے پاس اس سے بھی زیادہ سرمایہ موجود ہے۔ سیاسی اور عوامی نمائندگی کا حق عام آدمی کے پاس کبھی نہیں رہا اس لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ سیاست امیر گھرانوں میں شفٹ ہو گئی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سیاست کو ہمیشہ سے امیروں کی لونڈی کہا گیا۔تقسیم سے پہلے کی سیاست ہو یا پھر بعد کی، پاکستان و بھارت دونوں طرف جاگیردار اور سرمایہ دار ہی اس پر حاوی نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ کو خالقِ پاکستان جماعت کی حیثیت حاصل ہے مگر اس پر شروع ہی سے جاگیرداروں کی جماعت کا لیبل لگ گیا۔ کانگریس میں اگرچہ درمیانے طبقے کے لوگ بھی شامل تھے لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنس گئی۔ آج پاکستان ہی نہیںبھارت میں بھی سیاست پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہو چکی ہے۔ انڈیا ٹوڈے لکھتا ہے''ایک ایسا ملک جس کے77فیصد لوگ روزانہ صرف 20روپے کماتے ہیں، 30کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اُس کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں میں سے راجیا سبھا کے آدھے ممبران اور لوک سبھا کے ایک تہائی ممبران کروڑ پتی ہیں۔ راجیا سبھااور لوک سبھا کے دس امیر اراکین کے پاس15ارب روپے سے زائد کے اثاثے ہیں۔ لوک سبھا کے ایک رکن نیسم تھنگو جن کا تعلق ناگالینڈ سے ہے اُن کے پاس 9ارب روپے سے زائدسر مایہ موجود ہے۔ یہی حالت انڈیا کی صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی ہے۔ صوبائی ممبران اسمبلی کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے۔ انڈیا کے30صوبوں کے پانچ امیر ترین ممبران صوبائی اسمبلی کے پاس20ارب روپے سے زیادہ کے اثاثے ہیں۔ اترپردیش جو کہ سب سے بڑا صوبہ ہے اور جہا ں غربت بھی بہت زیادہ ہے اُس کی وزیر اعلیٰ مایاوتی بھارت کے 30وزر ائے اعلیٰ میں سب سے امیر ہیں۔ اترپردیش کے 113ممبران صوبائی اسمبلی کروڑ پتی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں 80ممبران صوبائی اسمبلی کروڑ پتی ہیں۔''

پاکستان اس معاملے میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ اُس کے دونوں بڑے ایوانوں میں 95 فیصد اراکین کروڑ پتی ہیں۔ پاکستان کے دونوں ایوانوں میں عام آدمی نظر نہیں آتا۔ یاتو جاگیردار ہیں یا پھر سرمایہ دار جو ایک ایسے ملک کے16کروڑ عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں جس کی74فیصد یعنی 12کروڑ سے زائدآبادی روزانہ صرف2ڈالر سے بھی کم پر گذارا کر رہی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں افریقہ کی تقریباً 72فیصد آبادی روزانہ دو ڈالر سے کم پرگذارا کرتی ہے۔ پاکستان کی 40فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ 50فیصد کے پاس کو نکاسی آب کی سہولت نہیں۔ جہاں ایک ہزار میں سے 88بچے مناسب طبی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب ایک عام پاکستانی کے مسائل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کا مینڈیٹ جن کو دیا جاتا ہے وہ عام لوگ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایوانوں میں آکر عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے اثاثے بڑھانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ اگرچہ الیکشن میں حصہ لینے سے قبل ان کے لیے اثاثوں کو ظاہر کرناآئینی مجبوری ہے مگر حلف دینے کے باجود یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ وہ اس سلسلے میں درست معلومات دیں۔یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ اگر اپنے اصل اثاثے ظاہر نہیں کرتے یا پھر ان کی مالیت کم ظاہر کرتے ہیں تو اس کو چیک کرنے کے لیے یا پھر ان کا محاسبہ کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں یا پھر مروج نہیں۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی ایک بڑے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی ملتان میں وسیع زرعی اراضی بھی ہے مگر انہوں نے صرف95لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں(دیکھیے جدول ج) اور بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک روپے کے اثاثے بھی ظاہر نہیں کیے۔ کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی وہ ایوانوں میں آکر براجمان ہو جائیں(دیکھیے جدول ب)۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں خواتین کی نمائندگی بڑھائی گئی تاکہ عالمی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکے کہ وہ خواتین کے حقوق کے چمپیئن ہیں۔ مگر قومی اسمبلی میں خواتین نشستوں پر منتخب ہونے والی اراکینِ اسمبلی کی لسٹ دیکھیے یہ سب وہ ہیں جو بڑے بڑے سیاسی و کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں ان میں سے بعض کے پاس تو مرد ممبران سے بھی زیادہ کے اثاثے ہیں(دیکھیے جدول د)۔ اس طرح خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے یا پھر ملکی آبادی کے اس آدھے حصے کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں پر بھی ایلیٹ کلاس کی خواتین نے اجارہ داری بنا لی ہے۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ان کے نعرے، ان کے منشور عام آدمی کی حاکمیت کے گردگھومتے ہیں۔ لیکن عملاً صورت حال بہت مختلف ہے۔ عام آدمی محکوم ہے اور اس کے حاکموں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں کے نیچے پناہ لے رکھی ہے۔ ایک بھائی ایک پارٹی میں ہے تو دوسرا، دوسری پارٹی میں اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی انہی خاندانوں نے اجارہ داری بنا رکھی ہے۔اس طرح گذشتہ62 سالوں میں حاکم اور محکوم کے درمیان خلیج کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کو ایک بڑے داخلی انتشار کا سامنا ہے اس کو جو بھی نام دیا جائے لیکن اس کی جڑیں بہر حال طبقاتی کشمکش میں ہی ملیں گی۔پاکستان کے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کے اثاثوں کی تفصیلات ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔ اور ان تفصیلات میں سے جدول بنا کر مزید وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ یہ معلومات الیکشن کمیشن کے گوشواروں سے حاصل کی گئی ہیں۔ اس لیے اسی بنیاد پر جدول بھی بنائے گئے ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کو امیر ترین سینیٹر ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ہمارے خیال میں اسرار اللہ زہری امیر ترین سینیٹر ہیں مگر اسرار اللہ زہری نے اپنی 50ہزار ایکڑ اراضی کی قیمت درج نہیں کی۔ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک اس کی قیمت محض چند لاکھ یا کروڑ ہو اس لیے اعظم سواتی جنہوں نے ایک ارب روپے سے زائد اثاثے ظاہر کیے ان کو ہی پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے ممبران پارلیمنٹ کے اثاثوں کی مجموعی مالیت کے لیے رائونڈ فگر استعمال کیے گئے ہیں مثال کے طور پر اگر کسی کے اثاثے ایک کروڑ 99لاکھ کچھ ہزار ہیں تو اس کے لیے تقریباً دوکروڑ کی رقم درج کر لی گئی ہے جس کا مقصد نفسِ مضمون کو زیادہ سہل بنانا ہے۔
1

اے این پی کے سینئر رہنما حاجی غلام احمد بلور جن کو لوگ ان کی فلور ملوں کے وسیع کاروبار کے حوالے سے جانتے ہیں وہ این اے ون پشاور سے ایم این اے ہیں مگر انہوں نے اپنے اثاثے محض ایک کروڑ ساٹھ لاکھ 93ہزار روپے بتائے ہیں۔ مزید حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان کے بنک اکائونٹ میں دو لاکھ سے بھی کم روپے موجود ہیں پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر ارباب عالمگیر این اے 2پشاور سے ایم این اے ہیں انہوں نے اپنے اثاثے42کروڑجبکہ اپنی بیوی کے60کروڑ ظاہر کیے ہیں نور عالم خان نے 50کروڑ کی جائیداد اور 46 لاکھ کے طلائی زیورات ظاہر کیے۔ ارباب محمد ظاہر خان کے اثاثے بھی پانچ کروڑ سے کم درج ہیں۔ جبکہ ایم این اے انجینئر محمد طارق خٹک جن کا دبئی میں گاڑیوں کا کاروبار ہے وہ 20کروڑ سے زائد کے مالک ہیں۔ مسعود عباس نے اسلام آباد کے سب سے مہنگے سیکٹر ای سیون میں اپنے گھر کی قیمت محض سوا تین کروڑ بتائی ہے جس میں بھی انہوں نے خود کو آدھا حصہ دار ظاہر کیا ہے۔ جبکہ ان کے مجموعی اثاثے10کروڑ چھیانوے لاکھ سے کچھ زائد ہیں۔ اے این پی کے صدر اسفند یا ر ولی نے چارسدہ میں67ایکڑ زرخیز زرعی اراضی کی قیمت محض26کروڑ ظاہر کی ہے۔

پیپلز پارٹی شیر پائو کے صدر اور سابق وزیر داخلہ آفتا ب احمد خان شیرپائو نے اپنی تمام جائیداد کی قیمت ڈیڑھ کروڑ سے کم بتائی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حیات آباد جیسے مہنگے علاقے میں ان کے 4کنال کے پلاٹ کی قیمت محض 2322000روپے ہے۔ نوابزادہ خواجہ محمد خان ہوتی جنہوں نے حال ہی میں پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اثاثے 11کروڑ جبکہ بنک میں موجود رقم ایک کروڑ پندرہ لاکھ ظاہر کی ہے۔مولانا محمد قاسم این اے 10 سے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے انہوں نے اپنی کوئی جائیداد یا گھر ظاہر نہیں کیا ان کے بنک اکائونٹ میں محض 91ہزار روپے ہیں اور ان کا کل اثاثہ8چارپائیاں چھ میز اور آٹھ کرسیاں ہیں۔ این اے 11سے رکن قومی اسمبلی خان زادہ خان نے چار کروڑ روپے کی جائیداد ظاہر کی ہے۔ جبکہ 80لاکھ روپے ان کی لینڈ کروزر کی قیمت ہے۔ ان کے پاس بھی بنک میں صرف پانچ لاکھ روپے موجود ہیں۔ صوابی سے آزاد حیثیت سے ایم این اے منتخب ہونے والے انجینئر عثمان خان ترکئی نے پاکستان میں 80لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے جبکہ دوحہ قطر میں ان کے گھر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی 60کنال زمین کے علاوہ اپنا کوئی کاروبار ظاہر نہیں کیا اے این پی کے محمد پرویز خان نے 6کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ این اے 14کوہاٹ سے ایم این اے پیر دلاور شاہ نے 70لاکھ اپنے گھر کی قیمت بتائی ہے جبکہ ان کے کاروباری اثاثے محض ایک کروڑ روپے کے ہیں۔ کرک سے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے مفتی اجمل خان نے اپنے کل اثاثے52لاکھ ظاہر کیے ہیںپیر حیدر علی شاہ ہنگو سے ایم این اے ہیں ان کے اثاثوں کے مالیت ساڑھے چار کروڑ روپے ہے اور انہوں نے کان کنی کو اپنا پیشہ ظاہر کیا ہے۔ این اے 17ایبٹ آباد سے مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے سردار مہتاب خان جن پر گندم سکینڈل کے تحت خرد برد کے الزامات بھی تھے انہوں نے 50لاکھ کے اثاثے اور ایک کروڑ 29لاکھ سے زائد کے قرضے ظاہر کیے ہیں۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے تقریباً سوا دو کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں۔ سردار محمد مشتاق خان ایم این اے نے حسن ابدال ، چوہڑ چوک راولپنڈی اور ڈیفنس ہائوسنگ سکیم میں سی این جی پلاٹوں کی قیمت محض 23لاکھ روپے بتائی ہے۔ سردار یوسف کے فرزندمسلم لیگ(ق) کے ایم این اے سردار شاہجہان یوسف نے اپنے کل اثاثے پانچ لاکھ ظاہر کیے ہیں جبکہ ان کے ذمے قرضے18لاکھ روپے سے زائد کے ہیں۔ سردار محمد مصطفی خان نے ایک کروڑ 80لاکھ کی جائیداد ظاہر کی ہے۔ محمد نواز خان ایم این اے نے ایک روپے کے بھی اثاثے ظاہر نہیں کیے اور اثاثوں کے خانوں میں محض یہ درج کر دیا ہے کہ وہ چھ بھائی ہیں اور ان کا حصہ چھٹا بنتا ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ کل اثاثے کتنے ہیں اور ان میں ان کا حصہ کتنا بنتا ہے۔

محبوب اللہ خان کوہستان سے ایم این اے ہیں وہ لکڑی کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اسی کاروبار کی مالیت دو ارب روپے ظاہر کی ہے جبکہ اپنے خاندانی اثاثے ایک ارب 80کروڑ روپے ظاہر کیے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ان کا بنک میں ایک روپیہ بھی موجود نہیں ہے۔ فیصل کریم کنڈی جو کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی ہیں انہوں نے اپنی زرعی اراضی محض پانچ لاکھ روپے کی ظاہر کی ہے۔ جبکہ اس سے زیادہ رقم ان کے بنک اکائونٹس میں بھی موجود ہے۔مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور وفاقی وزیر مولانا عطاء الرحمن نے صرف ایک لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے ہیں جبکہ ان کی بیوی کے پاس 50تولے زیورات ہیں۔ جے یو آئی(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ دور کی کوڑ ی لاتے ہیں مگر ان کے اثاثے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کوڑی کوڑی کے محتاج ہیں۔ ان کے بنک اکائونٹ میں صرف 3ہزار روپے موجود ہیں جبکہ ان کی جائیداد محض 26لاکھ روپے کی ہے۔ صوبہ سرحد کے ایک بڑے کاروباری خانوادے سے تعلق رکھنے والے ہمایوں سیف اللہ خان نے اپنے کل اثاثے 8کروڑ روپے سے زائد کے بتائے ہیں۔ عبدالمتین خان ایم این اے نے پونے دو کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ سوات سے اے این پی کے ایم این اے مظفر الملک نے اپنے اثاثے41کروڑ کے ظاہر کیے ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کے رہنما انجینئر امیر مقام نے 17کروڑ سے زائد کے اثاثے ظاہر کیے ہیں جبکہ ان کے پاس آٹھ کروڑ 37لاکھ روپے سے زائد کی رقم بنک میں بھی موجود ہے اور ان کے ذمے ساڑھے پانچ کروڑ کا قرضہ بھی ہے۔ چترال سے ایم این اے شہزادہ محی الدین نے اپنے اثاثوں کی مالیت 30کروڑ روپے بتائی ہے جبکہ دیر سے ایم این اے نجم الدین خان کے اثاثے16کروڑ سے زائد ہیں۔ یہ وزیر مملکت بھی ہیں۔ملک عظمت خان نے اپنا بزنس صرف ایک پٹرول پمپ بتایا ہے مگر ان کے اثاثے بھی 5کروڑ سے زائد کے ہیں۔ جبکہ لال محمد خان مالاکنڈنے اپنے اثاثے 50کروڑ کے ظاہر کیے ہیں۔ بلال رحمان نے مشترکہ جائیداد لکھ کر جان چھڑالی اور اپنے کوئی اثاثے ظاہر نہیں کیے منیر خان اورکزئی نے تقریباً4کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں۔ جواد حسین نے کوہاٹ اور اورکزئی ایجنسی میں اپنے دو گھروں کی قیمت ایک کروڑ 10لاکھ بتائی ہے۔ محمد کامران خان نے اپنے اثاثوں میں لکھا ہے کہ میرے نام پر کوئی جائیداد نہیں ہے میرے والد حیات ہیں اور میں ان کے ساتھ رہائش پزیر ہوں۔مولانا عبدالمالک وزیر کے نام بھی کوئی جائیداد نہیں ۔ شوکت اللہ نے اپنی جائیداد سات کروڑ روپے کی ظاہر کی جبکہ ان کا کاروبار باجوڑ میں کان کنی کا ہے جس کی مالیت میں انہوں نے صرف اربوں روپے لکھا ہے۔ سید اخونزادہ چٹان ایک کروڑ اسی لاکھ کے مالک ہیں۔وزیر مملکت برائے زکوٰة و عشر صاحبزادہ نور الحق قادری بھی 18کروڑ سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں۔ فاٹا سے ہی رکن قومی اسمبلی حمید اللہ جان آفریدی نے بھی چھ کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں۔ظفر بیگ بٹانی کے بتائے گئے اثاثوں کی مالیت بھی 5کروڑ دس لاکھ ہے۔ اسلام آباد سے پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے انجم عقیل خان نے31کروڑ75لاکھ سے زائد کے اثاثے ظاہر کیے جبکہ ان کی شریک حیات کے نام بھی سوا تین کروڑ روپے سے زائد کے اثاثے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف الیون کے بالکل سامنے ای الیون میںان کے ملٹی سٹوری بلڈنگ پراجیکٹ جس میں سینکڑوں فلیٹ ہیں اس کی قیمت انہوں نے محض82لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ اور غالباً یہ قیمت تو وہاں پر صرف ایک دو بیڈ فلیٹ کی ہوگی۔ اسلام آباد ہی سے مسلم لیگ(ن)کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فضل چوہدری کے اثاثے بھی تقریباً ساڑھے تین کروڑ کے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے اثاثوں کی مالیت بہت کم ظاہر کی ہے مثال کے طور پر چک شہزاد میں انہوں نے اپنے فارم ہائوس کی قیمت صرف دو کروڑ روپے بتائی ہے جس کی موجودہ قیمت 50کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی جو پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں اور آج کل اپنی ائیر لائن ایئر بلیو کے نام سے چلا رہے ہیں ان کے اثاثوں کی مالیت تقریباً 61کروڑ روپے ہے۔

2

وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف بھی تقریباً پونے 8کروڑ کے اثاثے رکھتے ہیں۔ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر بھی ایک کروڑ 93لاکھ سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے اپنی جائیداد کی تفصیلات تو دی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اُن کے مختلف کاروباروں میں کتنے شیئرز ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ اب ان کی پراپرٹی اور شیئرز کی مالیت کیا ہے۔ انہوں نے 42لاکھ سے زائد کے بنک اکائونٹس اور 43لاکھ کی کیش رکھنے کا بتایا ہے۔ جبکہ فیض آباد میں ایک بنک میں بھی ان کے پاس تقریباً50لاکھ روپے ہیں۔ راولپنڈی سے رکن قومی اسمبلی ملک ابرار احمد نے بھی تقریباً50لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ حاجی پرویز خان جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک آدمی ہیں ان کے پاس بھی ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے ،ایک سی این جی سٹیشن اور اڈیالہ میں 400کنال اراضی ہے۔ محمد حنیف عباسی بھی تقریباً پونے دو کروڑ کے مالک ہیں وہ اسلام آباد میں فارما سوٹیکل فیکٹری میں آدھے حصے دار ہیں جس کا حصہ انہوں نے محض 75لاکھ بتایا ہے۔ اٹک سے رکن قومی اسمبلی شیخ آفتاب بھی ایک کروڑ 19لاکھ سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے محض 18کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے ہیںجن میں سے 13کروڑ سے زائد ان کے پاس کیش میں ہے وزیر مملکت برائے دفاعی پیداوار سردار سلیم حیدر خان بھی ایک کروڑ 25لاکھ روپے کے مالک ہیں۔ صحافی اور کالم نگار ایاز امیر صرف 4لاکھ روپے کے مالک ہیں جبکہ 3لاکھ کی اور ڈرافٹنگ بھی ان کے ذمہ ہے۔ چکوال سے ہی ایم این اے محمد فیض ٹمن بھی تقریباًسوا کروڑ کے مالک ہیں۔ جہلم کے راجہ محمد صفدر خان نے صرف 90ہزار کا بنک بیلنس ظاہر کیا ہے اور ان کے پاس کسی قسم کی کوئی جائیداد نہیں ہے جبکہ جہلم ہی سے ایم این اے راجہ محمد اسد خان نے بھی صرف 18لاکھ کے اثاثے بتائے۔ سرگودھا سے ندیم افضل گوندل 2 کروڑ70لاکھ کے مالک ہیں۔ جبکہ ان کے ذمے تقریباً28لاکھ کا قرضہ بھی ہے۔ چوہدری غیث احمدمہلہ بھی پونے تین کروڑ کے مالک ہیں۔ داخلہ کے وزیر مملکت تسنیم احمد قریشی ایک کروڑ 10لاکھ کے مالک ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کے چوہدری انور علی چیمہ بھی تقریباً سواکروڑکے اثاثے رکھتے ہیں اور ان اثاثوں کے ساتھ ان کے پاس بنک میں موجود کیش رقم ایک کروڑ روپے سے زائد کی ہے۔ 6کروڑ سے زائد کے اثاثے انہوں نے اپنے بیٹے کے نام منتقل کر دیے ہیں۔ سید جاوید حسنین شاہ بھی پونے دو کروڑ کے لگ بھگ اثاثے رکھتے ہیں۔ خوشاب سے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر سمیرا ملک نے تقریباً15کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں۔ بنی گالہ میں انہوں نے 11کنال کے پلاٹ کی قیمت صرف85لاکھ بتائی ہے۔جہاں پر ایک کنال 50لاکھ سے اوپر ہے۔ ملک شا کر بشیر اعوان نے صرف ڈیڑھ کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں۔ نوابزادہ ملک احمد خان میانوالی سے ایم این اے ہیں انہوں نے ساڑھے 23کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں ۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنے گھر کی قیمت 20کروڑ بتائی ہے یقینا صرف یہی ایک ایم این اے ہیں جنہوں نے اپنے گھر کے درست ویلیو بتائی۔ عمر حیات روکھڑی بھی ساڑھے تین کروڑ کے مالک ہیں انہوں نے لارنس پور ٹیکسٹائل میں اپنے شیئرز 11530بتائے ہیں جبکہ لاہور میٹرو بس سروس میںصرف 46لاکھ کے شیئرز بتائے ہیں بھکر سے عبدالمجید خانان خیل دس کروڑ کے مالک ہیں۔ بھکر ہی سے رشید اکبر خان نوانی صرف80لاکھ کی جائیداد کے مالک ہیں جبکہ ان کے پاس بنک میں 48لاکھ سے زائد موجود ہے۔ فیصل آباد سے طارق محمود باجوہ بھی سات کروڑ سے زائد کے مالک ہیں ملک نواب دسیر کے پاس صرف 50لاکھ کے اثاثے ہیں عاصم نذیر ایم این اے بھی 2کروڑ سے زائد کے مالک ہیں۔ فیصل آباد سے پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رکن قومی اسمبلی راحیلہ بلوچ کے پاس صرف17لاکھ روپے کے اثاثے ہیں۔ فیصل آباد سے رانا محمد فاروق سعید خان ڈیڑھ کروڑ کے مالک ہیں۔ رانا آصف توصیف ساڑھے پانچ کروڑ کے مالک ہیں۔ چوہدری سعید اقبال تقریباً سات کروڑ کے اثاثے رکھتے ہیں۔ ان کی پانچ فلور ملیں ہیں جبکہ دیگر کاروباروں کی تعداد الگ ہے۔ کریسنٹ فلور مل کی مالیت انہوں نے ساڑھے سات کروڑ لکھی ہے جس میں اپنے شیئرز محض 15100روپے ظاہر کیے ہیں۔ صاحبزادہ محمد فضل کریم کے پاس بھی پانچ کروڑ سے زائد کے اثاثے ہیں جبکہ 58لاکھ سے زائد کے پرائز بانڈز ہیں۔ چوہدری اعجاز ورک کے پاس ڈیڑھ کروڑ اور عابد علی ایم این اے کے پاس ڈھائی کروڑ کے اثاثے ہیں۔ حاجی محمد اکرم انصاری صرف27لاکھ روپے کے مالک ہیں۔ جھنگ سے سید عنایت علی شاہ 15کروڑ کی اراضی کے مالک ہیں غلام بی بی بھروانہ ساڑھے چاڑ کروڑ کی مالکہ ہیں۔ سابق وفاقی وزیر سید فیصل صالح حیات ساڑھے چار کروڑ کے اثاثے رکھتے ہیں۔ جبکہ شاہ جیو نہ ٹیکسٹائل ملز کی انہوں نے قیمت صرف 1742500بتائی ہے۔ ممتاز صنعتکار شیخ وقاص اکرام نے بھی ایک کروڑ سے کم اثاثے بتائے ہیں حالانکہ ان کی گھی ملیں اور ایک پٹرول اسٹیشن بھی ہے۔ آزاد رکن قومی اسمبلی صائمہ اختر بھروانہ نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں، سلطان باہو کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے صاحبزادہ محبوب سلطان نے بھی ڈیڑھ کروڑ روپے سے کم کے اثاثے بتائے ہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے خاتون رکن قومی اسمبلی فرخندہ امجد نے صرف 100تولہ زیورات اور 30ہزار کی کیش رقم اپنے اثاثوں میں ظاہر کی ہے۔ ٹوبہ سے ہی رکن قومی اسمبلی محمد جنید انور نے تقریباً29کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں جبکہ ان کے پاس پانچ کروڑ 68لاکھ کے پرائز بانڈز بھی ہیں۔ ریاض فتیانہ بھی تقریباً سوا دو کروڑ کے مالک ہیں۔ گوجرانوالہ سے ایم این اے عثمان ابراہیم نے تقریباً15لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ غلام دستگیر خان نے صرف 24لاکھ کے اثاثے بتائے ہیں۔ چوہدری محمد بشیر ورک بھی ساڑھے پانچ کروڑ کے مالک ہیں۔ پیپلز پارٹی کے امتیاز صفدر وڑائچ نے صرف 70لاکھ ، رانا نذیر احمد خان نے دو کروڑ روپے،پاکستان مسلم لیگ(ن) کے حاجی مدثر قیوم نہرہ نے تقریباً اڑھائی کروڑ ، جسٹس (ر)افتخار احمد چیمہ نے ایک کروڑ 90لاکھ، سائرہ افضل تارڑ نے اپنی 29قلعے زمین کی قیمت ایک کروڑ 45لاکھ بتائی ہے۔ جبکہ چوہدری لیاقت عباس بھٹی نے تقریباً 7کروڑ کے اثاثے بتائے ہیں گجرات سے ایم این اے چوہدری وجاہت حسین نے 10کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔جس میں سے دو کروڑ سے زائد ان کے پاس بنک میں موجود ہیں وفاقی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار جو کہ سروس انڈسٹریز کے مالک ہیں انہوں نے اپنے مجموعی اثاثے سات کروڑ ستانوے لاکھ سے زائد بتائے ہیں مگر سروس انڈسٹریز میں اپنا کوئی حصہ ظاہر نہیں کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات اور گجرات سے رکن قومی اسمبلی قمر زمان کائرہ نے ساڑھے پانچ کروڑ اور محمد جمیل ملک نے تقریباً30لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں جبکہ ہالینڈ میں ان کے کاروبار کی مالیت ایک ملین یورو تقریباً دس کروڑ سے زائد ہے۔ جمیل احمد ملک جو کہ گجرات سے مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے ہیں ان کے پاس پاکستان میں اثاثوں کی مالیت61لاکھ جبکہ ہالینڈ میں کاروبار کی مالیت 14کروڑ روپے ہے۔ منڈی بہائو الدین سے محمد طارق تارڑ نے اڑھائی کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے ۔ پیپلز پارٹی کے نذر محمد گوندل نے8کروڑ ، مسلم لیگ(ن) کے خواجہ محمد آصف نے تین کروڑ کی جائیداد، جبکہ 65لاکھ کی گاڑیاں ظاہر کی ہیں۔ ان کے ذمے بنکوں کے قرضوں کی مالیت تقریباً 6کروڑ سے زائد ہے۔ وفاقی وزیر بہبود آبادی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اڑھائی کروڑ کے اثاثے اور 80لاکھ روپے نقد ظاہر کیے ہیں۔ سیالکوٹ سے رانا عبد الستار سب سے غریب رکن اسمبلی ہیں جن کے پاس ایک ٹیڈی کوڑی بھی نہیں اور نہ ہی کوئی جائیداد ہے۔صاحبزادہ سید مرتضیٰ امین ایک کروڑ 90لاکھ ، زاہد حامد نے تقریباً18کروڑ،سمیرا یاسر رشید کے پاس صرف 60تولے زیور ہیں۔ طارق انیس کے پاس65لاکھ، احسن اقبال کے پاس اڑھائی کروڑ، محمد ریاض ملک کے پاس ساڑھے چار کروڑ کے اثاثے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز شریف بھی 21کروڑ سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں۔ جبکہ بلال یاسین صرف 12لاکھ روپے کے مالک ہیں۔ میاں مرغوب احمد تقریباً 40لاکھ، سردار ایاز صادق ساڑھے تیرہ کروڑ، شیخ روحیل اصغر ساڑھے سات لاکھ،خواجہ سعد رفیق کی جائیداد 50لاکھ روپے کی ہے جبکہ ان کے پاس 3کروڑ 34لاکھ کے پرائز بانڈز ہیں۔ سہیل ضیاء بٹ کے پاس صرف 16لاکھ روپے کے اثاثے ہیں۔ نذیر بھٹہ کے پاس 24کروڑ کے اثاثے ہیں۔ محمد افضل کھوکھر کے پاس8کروڑ،طارق بشیر ایڈوکیٹ کے پاس ساڑھے چار کروڑ روپے، ثمینہ خالد گھرکی کے پاس345تولے سونا80لاکھ کے پرائز بانڈز، 18لاکھ کا فرنیچر اور تقریباًڈیڑھ لاکھ روپے نقد موجود ہے۔رانا افضل حسین تقریباً پونے پانچ کروڑ ، رانا تنویر حسین کے پاس تقریباً22کروڑ روپے، میاں جاوید لطیف پانچ لاکھ روپے، سردار محمد عرفان ڈوگر کے پاس پونے سات کروڑ ، چوہدری برجیس طاہر کے پاس تقریباً ڈیڑھ کروڑ، چوہدری بلال احمد ورک کے پاس اڑھائی کروڑ، مہر سعید احمد ظفر کے پاس ساڑھے آٹھ کروڑ کے اثاثہ جات ہیں تاہم انہوں نے بنک آف پنجاب سے4کروڑ کا قرض بھی لے رکھا ہے۔ مظہر حیات خان نے ساڑھے چھ کروڑ ، وسیم اختر شیخ کے پاس اڑھائی کروڑ، سردار آصف احمد علی کے پاس ڈیڑھ کروڑ، رانا اسحاق کے پاس ساڑھے آٹھ کروڑ، سردار طالب حسین نکئی کے پاس 9کروڑ روپے ، رائے غلام مجتبیٰ کھرل کے پاس ایک کروڑ13لاکھ روپے، ساجد الحسن کے پاس اڑھائی کروڑ، سید صمصام بخاری کے پاس 22 کروڑ روپے ، میاں منظور احمد وٹو کے پاس 7کروڑ روپے، خرم جہانگیر وٹو کے پاس سوا چھ کروڑ کے اثاثے ہیں۔

بڑے روپ چھوٹے درشن
کیا آپ یہ یقین کر سکتے ہیں کہ بڑے بڑے سیاسی، کاروباری خانوادوں سے تعلق رکھنے والی ان ہستیوں کے پاس اس قدر قلیل اثاثے ہوں گے؟
3

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی سات کروڑ روپے سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مخدوم جاوید ہاشمی تقریباً 7کروڑ روپے رانا محمود الحسن (این اے 150) تقریباً40لاکھ روپے اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بتائے گئے اثاثوں کی مالیت صرف ان کے بنک اکائونٹس ہیں جن کے تحت 95لاکھ روپے ان کے بنک اکائونٹس میں موجود ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے گوشواروں میں نہ تو اپنی کوئی جائیداد ظاہر کی اور نہ ہی گاڑی، البتہ اپنی شریک حیات کے200تولے زیورات کا اندراج ضرور کیا ہے لیاقت علی خان نے تقریباً60لاکھ روپے، سید دیوان عاشق حسین بخاری نے سات کروڑ روپے، محمد صدیق خان بلوچ نے تقریباً7کروڑ ، حیات اللہ خان ترین نے16کروڑ روپے، رضا حیات ہراج تقریباً5کروڑ روپے، حامد یار ہراج نے تقریباًساڑھے چارکروڑ روپے، سید عمران احمد شاہ نے تقریباً65لاکھ روپے،غلام فرید 2کروڑ 30لاکھ روپے، زاہد اقبال نے ایک ارب24کروڑ، ملک نواز لنگڑیال پونے آٹھ کروڑ، سردار منصب علی ڈوگر ساڑھے تین کروڑ، سلمان محسن گیلانی نے تقریباً ایک کروڑ 35لاکھ روپے، رانا زاہد حسین نے تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے، چوہدری نذیر احمد جٹ نے چار کروڑ25لاکھ روپے، پاکستان سے باہر چھ لاکھ ڈالر(تقریباً)پانچ کروڑ اور سعودی عرب میں ایک ملین ڈالر تقریباً آٹھ کروڑ کا کاروبار ظاہر کیا ہے اس طرح ان کے مجموعی اثاثوں کی تعداد17کروڑ 25لاکھ روپے بنتی ہے۔ عظیم دولتانہ نے تقریباً 6کروڑ روپے، تہمینہ دولتانہ نے 16 کروڑ 29 لاکھ روپے سے زائد جبکہ انہوں نے ایک کروڑ97لاکھ روپے سے زائد کا قرض بھی دینا ہے۔ این اے 170سے طارق محمود نے ساڑھے دس کروڑ، خواجہ شیراز نے 3کروڑ دس لاکھ، سابق صدر فاروق احمد خان لغاری نے تقریباً ساڑھے29کروڑ، محمد سیف الدین کھوسہ نے تقریباً ایک کروڑ روپے، محمد جعفر لغاری 338ایکڑ رقبے کے مالک ہیں جس کی انہوں نے قیمت نہیں بتائی البتہ کچھ رقبے اور گھروں کی قیمت تقریباً58لاکھ روپے بتائی ہے۔ میر دوست محمد مزاری نے چار کروڑ37لاکھ روپے، محسن علی قریشی 80لاکھ روپے، حنا ربانی کھر تقریباً67لاکھ روپے، این اے 178سے جمشید احمد نے کوئی اثاثے اور بنک بیلنس شو نہیں کیے۔ معظم علی خان تقریباً ساڑھے تین کروڑ،عبد القیوم جتوئی ایک کروڑ46لاکھ روپے، سردار بہادر احمد خان تقریباً دس کروڑ روپے، سید ثقلین بخاری 28لاکھ روپے، عارف عزیز شیخ 9کروڑ روپے،عامر یار ملک تقریباً2کروڑ روپے، محمد بلیغ الرحمن دو کروڑ80لاکھ روپے، میاں ریاض حسین پیرزادہ تقریباً5کروڑ روپے، مسعود مجید تقریباً6کروڑ روپے، میاں اختر خادم تقریباً3کروڑ روپے، شمشاد بیگم23لاکھ روپے، سید ممتاز گیلانی(این اے189) تقریباً6لاکھ روپے، عبد الغفور چوہدری تقریباًڈیڑھ کروڑ روپے، محمد افضل سندھو تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے، وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی ایک کروڑ 13لاکھ روپے، میاں عبد الستار پونے 6کروڑ سے زائد، مخدوم شہاب الدین سوا بارہ کروڑ، جہانگیر خان ترین70کروڑ 70لاکھ سے زائد جبکہ ان کے ذمے تقریباً40کروڑ روپے کا قرضہ بھی ہے۔ این اے 196سے جاوید اقبال وڑائچ 5کروڑ82لاکھ روپے سے زائد، محمد ارشد خان لغاری تقریباً70لاکھ روپے، نعمان اسلم شیخ تقریباً ایک کروڑ روپے، وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ دو کروڑ 30لاکھ روپے، میاں عبد الحق35لاکھ روپے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سردار علی محمد خان مہر4چار کروڑ 20لاکھ روپے(انہوں نے جھل مگسی میں ہی 30دکانوں کی مالیت صرف5لاکھ روپے ظاہر کی ہے) ،صدر مملکت آصف علی زرداری کی بہن اور پیپلز پارٹی کی شعبہ خواتین کی صدر محترمہ فریال تالپور4کروڑ7لاکھ سے زائد(انہوں نے ٹنڈو اللہ یار میں52ایکڑ اراضی کی قیمت محض سوا سات لاکھ روپے، کلفٹن کراچی میںگھر کی قیمت75لاکھ روپے ظاہر کی ہے)میر منور علی خان تالپور2کروڑ 70لاکھ روپے سے زائد ، میر اعجاز حسین جھاکھرانی90لاکھ روپے سے زائد، میر ہزارخان بجارانی دو کروڑ80لاکھ، غلام مرتضیٰ خان جتوئی10کروڑ سے زائد، سید ظفر علی شاہ8کروڑ سے زائد، ڈاکٹر عذرا افضل سوا چار کروڑ روپے، سید غلام مصطفی شاہ پانچ کروڑ 36لاکھ سے زائد، نواب علی وسان دو کروڑ 21لاکھ سے زائد، پیر سید صدر الدین راشدی3کروڑ15لاکھ روپے، پیر سید فضل علی شاہ 20لاکھ روپے، مخدوم امین فہیم کے مختلف گھروں کی مالیت10کروڑ سے زائد ہے تاہم انہوں نے ہالہ میں موجود اپنی سینکڑوں ایکڑ اراضی کی مالیت ظاہر نہیں کی۔ سید طیب حسن تقریباً55لاکھ روپے، صلاح الدین تقریباً29لاکھ روپے، سید عامر علی شاہ 2کروڑ 30لاکھ روپے سے زائد، سید نوید قمرایک کروڑ7لاکھ سے زائد، شمشاد ستار بچانی ایک کروڑ78لاکھ سے زائد، غلام علی دو کروڑ22لاکھ سے زائد،سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا تقریباً5کروڑ50 لاکھ سے زائد، پیر آفتاب حسین شاہ63لاکھ روپے سے زائد، میر منور علی خان تالپور دو کروڑ70لاکھ روپے سے زائد، نواب محمد یوسف تالپور دو کروڑ 81لاکھ روپے سے زائد، ارباب ذکاء اللہ ایک کروڑ90لاکھ روپے، ڈاکٹر غلام حیدر29لاکھ روپے، نواب عبد الغنی ساڑھے چار کروڑ روپے،رفیق احمد جمالی تقریباًاڑھائی کروڑ روپے، ڈاکٹر طلعت اقبال مہر ایک کروڑ70لاکھ روپے، فقیر محمد منگریو ایک کروڑ 90لاکھ روپے، غلام دستگیر راجہ دو کروڑ71لاکھ روپے سے زائد، روشن دین جونیجو ایک کروڑ16لاکھ روپے سے زائد جبکہ ان کے ذمے تقریباً دو کروڑ روپے بنکوں کا قرضہ بھی ہے، ڈاکٹر عبد الواحد سومرو تقریباً 40لاکھ روپے، سید ایاز علی شاہ شیرازی ایک کروڑ 18لاکھ روپے سے زائد، عبد القادر پٹیل تقریباً13لاکھ روپے، سہیل صفدر خواجہ تقریباً15کروڑ روپے، ایس اے اقبال قادری ایک کروڑ72لاکھ روپے سے زائد، ڈاکٹر عبد القادر خانزادہ 60لاکھ روپے سے زائد، عبد الرحیم25لاکھ روپے سے زائد، شیخ صلاح الدین85لاکھ روپے سے زائد، فرحت محمد خان20لاکھ روپے سے زائد، سفیان یوسف ساڑھے تین کروڑ سے زائد، ڈاکٹر ندیم احسان تقریباً33لاکھ روپے، نبیل احمد گبول تقریباًڈیڑھ کروڑروپے سے زائد، ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈراور وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستارایک کروڑ 16لاکھ روپے سے زائد، خوش بخت شجاعت تقریباً60لاکھ روپے،(انہوں نے 150تولہ زیورات کی مالیت صرف ایک لاکھ ظاہر کی ہے۔ جو کہ 42لاکھ روپے سے زائد ہے) وسیم اختر8کروڑ 35لاکھ روپے،عبدالرشیدگوندل ایک کروڑ35لاکھ روپے، سید حیدر عباس رضوی تقریباً ایک کروڑ روپے، ڈاکٹر ایوب شیخ تقریباً45لاکھ روپے، سید آصف حسنین تقریباً60لاکھ روپے، اقبال محمد علی خان38لاکھ روپے، ساجد احمد ایک کروڑ دس لاکھ روپے سے زائد، شیر محمد بلوچ تقریباً13لاکھ روپے، سید ناصر علی شاہ تقریباً70لاکھ روپے، ساجداحمد ایک کروڑ دس لاکھ روپے سے زائد،شیر محمد بلوچ تقریباً13لاکھ روپے،سید ناصر علی شاہ تقریباً 70لاکھ روپے، سردار الحاج محمد عمر گورگی5کروڑ روپے سے زائد، این اے 261سے مولوی آغا محمد61500روپے، این اے 262سے حاجی روزن الدین سوا دو کروڑ، سردار محمد اسرار ترین جن کی بلوچستان میں کوئلے کی کانیں، زرعی زمین، ماربل کی کانیں بھی ہیں مگر انہوں نے ان سب کی مالیت ایک کروڑ روپے ظاہر کی ہے۔ مولوی نعمت اللہ ژوب نے ساڑھے تیرہ لاکھ روپے، میر احمد ان بگٹی نے تقریباً90لاکھ روپے، تاج محمد جمالی نے تقریباًاڑھائی کروڑ روپے، میر ہمایوں عزیز کرد نے تقریباًتین کروڑ ، ڈاکٹر آیت اللہ درانی نے جائیداد کی قیمت نہیں لکھی ان کے دیگر اثاثے ساڑھے تین لاکھ روپے،محمد عثمان ایڈوکیٹ ایک کروڑ25لاکھ روپے، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف6کروڑ روپے سے زائد، احسان اللہ ریکی نے نہ تو اپنا کوئی کاروبار ظاہر کیا اور نہ ہی جائیداد لیکن اس کے باوجود ان کے پاس 27لاکھ روپے کی گاڑی موجود ہے۔ یعقوب بزنجو نے ایک کروڑ 30لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خوتین کے اثاثے
بیگم عشرت اشرف مسلم لیگ(ن) ایک کروڑ41لاکھ سے زائد یہ ان کی 110ایکڑ زرعی اراضی کے علاوہ جو ان کو وراثت میں ملی، جاوید ہاشمی کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی 3کروڑ روپے سے زائد، قدسیہ ارشد تقریباًپونے بارہ کروڑ روپے، مسلم لیگ(ن) کی طاہرہ اورنگ زیب تقریباً پونے دو کروڑ روپے، بیگم نزہب صادق تقریباً ایک ارب 53کروڑ روپے (اس میں ان کے اور ان کے خاوند دونوں کے اثاثے شامل ہیں) نگہت پروین میرکے پاس صرف 35تولے زیورات اور 13ہزار روپے نقد ہیں، خالدہ منصور تقریباً75لاکھ روپے، شہناز سلیم ملک تقریباً90لاکھ روپے، پروین مسعود بھٹی تقریباً ایک کروڑ20لاکھ روپے، سبین رضوی تقریباً دو کروڑ روپے، شیریں ارشد خان دو کروڑ روپے سے زائد، ثریا اصغر تقریباً اڑھائی لاکھ روپے، تسنیم صدیقی تقریباً 64لاکھ روپے ،نثار تنویر تقریباً58لاکھ روپے، شاہین اشفاق ایک کروڑ 4لاکھ روپے، انوشہ رحمان 11 کروڑ 45لاکھ روپے سے زائد، رخسانہ بنگش4کروڑ25لاکھ سے زائد،شہناز وزیر علی ڈیڑھ کروڑسے زائد،پلوشہ خان 5لاکھ سے زائد، بیلم حسنین24کروڑ روپے سے زائد، مہرین انور راجہ تقریباً75لاکھ روپے(جبکہ ان کے پاس80تولے زیور چوری ہو گیا)، فرزانہ راجہ تقریباً ایک کروڑ25لاکھ روپے، جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر تقریباً اڑھائی کروڑ روپے، فوزیہ حبیب تقریباً 6کروڑ 40لاکھ روپے شکیلہ خانم راشد تقریباً7کروڑ20لاکھ روپے،یاسمین رحمان پانچ کروڑ روپے سے زائد، ثمینہ مشتاق پگانوالہ تقریباً21لاکھ روپے، بیگم نسیم اختر چوہدری ایک کروڑ57لاکھ روپے سے زائد،نوشین سعید9کروڑ سے زائد، کشمالہ طارق تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے، شہناز شیخ تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے، ڈاکٹر دونیا عزیز تقریباً48لاکھ روپے جبکہ انہوں نے اسلام آباد میں اپنے ایگرو فارم کی قیمت صرف35لاکھ ظاہر کی ہے جو کہ 35کروڑ سے زائد کاہے ۔
4

ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ 16کروڑ سے زائد،بشریٰ رحمان پونے پانچ کروڑ، ماروی میمن تقریباً سوا دو کروڑ روپے، شیری رحمن تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زائد، نفیسہ شاہ تقریباً25لاکھ روپے، فرح ناز اصفہانی(جو کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کی بیوی ہیں) پونے آٹھ کروڑ روپے(یہ تمام اثاثے امریکہ میں ہیں)۔ ربیعہ سعادت قائم خانی ساڑھے چھ کروڑ روپے۔ فوزیہ وہاب تقریباً45لاکھ روپے، شگفتہ جمالی تقریباً75لاکھ روپے، مہرین رزاق بھٹو تقریباً70لاکھ روپے، ڈاکٹر ناہید شاہد علی تقریباً اڑھائی لاکھ ، کشور زہرہ90لاکھ روپے، فوزیہ اعجاز خان تقریباً ساڑھے چھ کروڑ روپے، عمرانہ سعید جمیل سوا چار کروڑ ، شگفتہ صادق تقریباً12لاکھ روپے۔ فضہ جونیجو ایک کروڑ30لاکھ سے زائد، رینا کماری(اثاثے گزشتہ سال کے مطابق لکھے ہیں)بشریٰ گوہر ایک کروڑ 40لاکھ روپے، جمیلہ27لاکھ روپے، خورشید بیگم27لاکھ روپے، عاصمہ ارباب عالمگیر ایک ارب74کروڑ روپے۔ مہر النساء آفریدی سوا دو کروڑ روپے سے زائد،فرحت خان ساڑھے چار کروڑ سے زائد، ڈاکٹر امتیاز سلطان بخاری تقریباً ایک کروڑ روپے، فرزانہ مشتاق دو کروڑ85لاکھ سے زائد، زبیدہ جلال4کروڑ80لاکھ سے زائد، ڈاکٹر ظل ہما تقریباً 10لاکھ روپے، آسیہ نذیر ایک کروڑ 23لاکھ روپے۔

اقلیتی اراکین قومی اسمبلی کے اثاثہ جات
شہباز بھٹی 14لاکھ روپے، رمیش لال تقریباً40لاکھ روپے، لال چند دو کروڑ62لاکھ سے زائد، ہمیش کمار ملانی تقریباً40لاکھ روپے، درشان 10لاکھ روپے،ڈاکٹر نلسن عظیم تقریباً40لاکھ روپے،ڈاکٹر آرائش کمار تقریباً 5کروڑ سے زائد، اکرم مسیح تقریباً 65لاکھ روپے، کشن چند پروانی تقریباًساڑھے تین کروڑ روپے، منور لال تقریباً پونے چار کروڑ روپے۔

سینیٹ کے اراکین کے اثاثے
الیکشن کمیشن نے اپنی حالیہ دستاویز میں جن سینیٹرز کے اثاثے شائع کیے ان میں سے آدھے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ صرف موجودہ سینیٹرز کے اثاثے ہی درج کیے جارہے ہیں۔

سینیٹر طارق عظیم تقریباً ساڑھے تین کروڑ جبکہ ان پر دو کروڑ 95لاکھ روپے سے زائد کا قرضہ ہے۔ وسیم سجاد تقریباًپانچ کروڑ 70لاکھ روپے،محمد اسحاق ڈار82کروڑ سے زائد،ڈاکٹر بابر اعوان تقریباً ساڑھے 32کروڑ روپے، سردار جمال لغاری تقریباًپونے دو کروڑ روپے، سید جاوید علی شاہ تقریباً اڑھائی کروڑ روپے، رضا ربانی تقریباً اڑھائی کروڑ، محمد علی درانی تقریباً چھ کروڑ روپے،نعیم حسین چیمہ تقریباً6کروڑ روپے، علامہ ساجد میر تقریباً50لاکھ روپے،ایس ایم ظفر تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ روپے، ہارون خان تقریباً60کروڑ روپے،گلشن سعید3کروڑ 82لاکھ سے زائد، نیلوفر بختیار تقریباً پونے چار کروڑ روپے، احمد علی دو کروڑ10لاکھ روپے، عبدالغفار قریشی تقریباً45لاکھ روپے،عبد الرازق نعیم ایک کروڑ22لاکھ سے زائد، ڈاکٹر صفدر عباسی ایک کروڑ 25لاکھ سے زائد(انہوں نے دو کروڑ سے زائد بنکوں کا قرضہ بھی دینا ہے)، سید طاہر حسین مشہدی تقریباًساڑھے تین کروڑ روپے،ڈاکٹر خالد محمود سومرو تقریبا20لاکھ روپے، بابر خان غوری تقریباً14کروڑ 50لاکھ سے زائد، ڈاکٹر جاوید لغاری سوا دو کروڑ روپے، ڈاکٹر عبد الخالق پیرزادہ 72لاکھ سے زائد،موجودہ چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک دو کروڑ 17لاکھ سے زائد جبکہ ان کے ذمہ 56لاکھ سے زائد کے قرضے بھی ہیں ،رتنا بھگوان داس چاولہ نے پندرہ کروڑ کے قرضے شو کیے ہیں جبکہ ان کے اثاثے تقریباً25لاکھ سے زائد ہیںہمیش صدیقی 18کروڑ سے زائد، عمار احمد خان ایک ارب دس کروڑ سے زائد، سلیم سیف اللہ 11کروڑ سے زائد، مولانا گل نصیب خان30ہزار روپے، محمد غفران تقریباً22کروڑ روپے، طلحہ محمود 18کروڑ سے زائد،پروفیسر خورشید احمد تقریباً80لاکھ روپے، راجہ محمد ابراہیم خان41لاکھ سے زائد، وقار احمد خان ایک کروڑ روپے سے زائد جبکہ انہوں نے 88لاکھ سے زائد قرض بھی دینا ہے۔ گلزار احمد خان تقریباً18لاکھ جبکہ انہوں نے تقریباً 20کروڑ کا قرض بھی دینا ہے۔

5


حاجی محمد عدیل تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے، الیاس احمد بلور تقریباً14کروڑ روپے،اعظم خان سواتی ایک ارب14کروڑ روپے سے زائد، فوزیہ فخر زمان خان 60لاکھ روپے سے زائد، عافیہ ضیاء 22لاکھ سے زائد ، شاہد حسن بگٹی ایک کروڑ80لاکھ روپے، ڈاکٹر اسماعیل بیلدی تقریباً58لاکھ روپے ، میر اسرار اللہ خان زہری کے پاس تقریباً سات کروڑ کیش روپیہ موجود ہے جبکہ ان کی اراضی تقریباً51ہزار ایکڑ سے زائد ہے جس میں ان کے سات بھائی، دو بہنیں اور بیٹے حصہ دار ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد کے گھر وںکی قیمت درج نہیں کی اور نہ ہی اپنی جائیداد کی قیمت درج کی ہے۔محبت خان مری تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے لیکن انہوں نے اپنی کوئلوںکی کانوں کی قیمت درج نہیں کی۔ عبد الرحیم خان مندوخیل کے پاس 6لاکھ روپے کیش موجود ہے مگر انہوں نے اپنی32ایکڑ اراضی کی قیمت ظاہر نہیں کی۔ ڈاکٹر عبد المالک تقریباً75لاکھ روپے، جان محمد جمالی تقریباً دو کروڑ 25لاکھ روپے، میر ولی محمد بادینی تقریباً10کروڑ روپے، مولانا عبد الغفور حیدری ساڑھے چھ لاکھ روپے، رحمت اللہ کاکڑ 13لاکھ سے زائد، ریحانہ یحییٰ بلوچ تقریباًساڑھے 32کروڑ روپے ، سونیا رئوف تقریباً18لاکھ روپے، کلثوم پروین90لاکھ سے زائد، عبد الرازق ساڑھے 25کروڑ سے زائد، عبد الرشید35لاکھ روپے، انجینئر رشید احمد خان ایک کروڑ62لاکھ سے زائد کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔