working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میں دہشت گردی کا پھیلتا ہوا عفریت
اسّی کی دہائی سے دہشت کی جو آندھی چلی۔وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایک پوری نسل کو خوف کی تجریدی صورت بنانے کے بعد اگلی نسل کو بھی نگلنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ا فراد ہوں یا ادارے کوئی بھی اس کی ستم گیری سے محفوظ نہیں۔ گذشتہ دہائیوں میں دہشت گردی نے اتنے بہروپ بدلے ہیں کہ اس کی کوئی کل سمجھ ہی نہیں آتی۔ اس نے ایسے ڈھنگ سے معاشرت ، ثقافت اور معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے کہ اس کے حصار سے نکلنے کا رستہ سجھائی نہیں دیتا اور سب تدبیریں لا حاصل ثابت ہوئی ہیں۔

ستم ظریفی یہ کہ دہشت گردی کے سبب ہونے والے مجموعی نقصان کی تلافی کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی منضبط کاوش بھی نہیں کی گئی۔ کتنی جانیں ضائع ہوئیں، کتنے خاندان اُجڑے، ذہنی اپاہجی تو دور کی بات، ابھی تک جسمانی اپاہجوں کا شماربھی نہیں کیا جا سکا۔ سرکاری اور غیر سرکاری املاک کا نقصان اپنی جگہ اور معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ بھی نہیں لیا جا سکا۔ سیاست میں در آنے والے پر تشدد رجحانات کا سراغ تو درکنار مذہب کے نام پر پھیلتی دہشت کی لہر کا مذہبی، علمی اور فکری تجزیہ اس کے صحیح تناظر میں نہیں کیا جا سکا۔ ثقافت، معاشرت جس طور دہشت گردی کے ہاتھوں اُجڑی، اس کے نوحہ خواں بھی خال خال نظر آتے ہیں۔

مستزاد یہ کہ دہشت گردی کا ملبہ بیرونی عوامل اور قوموں پر ڈالنے والے تو بہت ہیں مگر معاشرے میں پنپنے والے پُر تشدد گروہوں اور ان کے ہاتھوں میں کھیلنے والے افراد، جومحض خوشنماوعدوں کو برتنے اور جوشیلی خطابت کے زیر اثر اپنے ہی لوگوں کا خون بہانے پر آمادہ ہیں پر غور کرنے والے انتہائی کم، کیا اسے معاشرے کے عزم و استقلال کی شکست و ریخت سمجھا جائے جو خود کشی کی ڈگر پر بڑھے جا رہا ہے؟

آئندہ اوراق پر اسی تناظر میں تین تحریریں نذر قارئین کی جا رہی ہیں، جو دہشت گردی کے چند پہلوؤں کا تجزیاتی احاطہ کرتی ہیں، اگرچہ ایسی کاوشیں کم لیکن غور و فکر کا بہت سا سامان مہیا کرتی ہیں۔

(مدیر)