working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

بیت اللہ محسود ،ملانذیر اور حافظ گل بہادر کے درمیان الحاق
منصور خان محسود
افغانستان میں مزید امریکی فوج کی آمد اور قبائلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں کے تناظر میں پاکستان کے تین بڑے طالبان گروپوں کے درمیان الحاق ہوا ہے جس کے لیے ملا عمر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کو اس معاہدے پر تشویش ہے جس کے تناظر میں اس نے بیت اللہ محسود کی گرفتاری پر 50 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم کا اعلان کیا ہے۔ طالبان گروپوں کے درمیان اس معاہدے کا پس منظر کیا ہے اور اس کے کیا اثرات نکلیں گے، اس حوالے سے یہ مضمون قارئینِ تجزیات کے لیے معلومات افزا ہو گا۔ (مدیر)

جنوبی وزیرستان میں طالبان کے تین طاقت وراور اہم گروپوں نے الحاق کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے ایک گروپ بیت اللہ محسود کا ہے جو کہ محسود طالبان کے سربراہ ہیں جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان(TTP) کے بھی سربراہ ہیں۔ دوسرا گروپ مولوی نذیر کا ہے جو کہ جنوبی وزیرستان کے علاقہ وانا کے احمد زئی وزیر قبائل کے طالبان کاسربراہ ہے جبکہ گل بہادر شمالی وزیرستان کے مشہور لیڈر فقیر آف ایپی کے نواسے ہیں۔

بیت اللہ محسود اور ملا نذیر دونوں کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ قبل ازیں دونوں لیڈروں کے درمیان کافی اختلافات تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ جب اپریل 2007ء میں وانا کے احمد زئی وزیر قبائل اور طالبان نے (IMU) کے ازبک جو کہ وانا میں 2002ئمیں رہائش پذیر تھے، ان ازبکوں نے وانا میں اغوا اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا ۔ حتیٰ کہ یہ ازبک مقامی قبائل کے رسم و رواج میں بھی مداخلت کرنے لگے۔ انھوں نے اپنی ذاتی جیلیں بھی بنائی تھیں جہاں پر مقامی لوگوں کو قید کیا جاتا اور ان پر تشدد بھی کیا جاتا۔ یہ لوگ وانا میں درجنوں وزیر قبائلی سرداروں کے قتل میں ملوث تھے۔

ملا نذیر نے (IMU) کے لیڈر طاہر یلدوشیف سے مطالبہ کیا کہ وہ اور ان کے لوگ وانا کا علاقہ خالی کر کے یہاں سے نکل جائیں اور اپنے ہتھیار ملا نذیر کے طالبان کے حوالے کر دیں۔ طاہر یلدوشیف نے ملا نذیر کی دونوں شرائط ماننے سے انکار کر دیا اور یوں ملا نذیر کے طالبان مقامی وزیر قبائل کے لشکر اور ازبکوں کے درمیان خونریز جنگ شروع ہو گئی جو کہ دو ہفتوں تک جاری رہی اس جنگ میں پاکستانی فوج نے بھی ملا نذیر کی بھرپور مدد کی اور دو ہفتوں میں ازبک اور ان کے مقامی حمایتوں کو وانا سے نکال دیا گیا۔

ازبک وانا سے نکل کر محسود علاقے میں داخل ہو گئے جہاں پر بیت اللہ محسود نے ان کو رہنے کی اجازت دے دی۔ ازبکوں کو محسود علاقے میں پناہ دینے پر ملانذیر نے بیت اللہ محسود سے شدید احتجاج کیا اور بیت اللہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمارے دشمنوں کو اپنے علاقے سے باہر نکالیں۔کیونکہ یہ ازبک یہاں سے پھر وانا میں مداخلت کریں گے اور علاقے کا امن برباد ہوگا۔ بیت اللہ محسود نے ملا نذیر کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا اور دونوں لیڈروں کے درمیان چپقلش چل پڑی۔

حافظ گل بہادر جو کہ شمالی وزیرستان کے طالبان کے سربراہ ہیں ان کے پہلے بیت اللہ سے کافی اچھے تعلقات تھے اور دسمبر2007ء میں جب بیت اللہ نے (TTP) کی بنیاد رکھی تو حافظ گل بہادر کو (TTP ) کا نائب امیر مقرر کیا گیا لیکن جلد ہی گل بہار(TTP) سے علیحدہ ہو گئے ۔اُن کے اور بیت اللہ کے درمیان اختلافات کی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ بیت اللہ محسود پاکستانی فوج اور حکومت سے لڑنے کو جائز قرار دے رہے تھے جبکہ گل بہادر پاکستانی فوج اور حکومت سے لڑنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ(TTP) سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

جنوری2008ء میں ملا عمر جو کہ افغان طالبان کے امیر المومنین ہیں انہوں نے بیت اللہ کے پاس اپنا ایک ایلچی بھیجا اور بعد میں ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے (TTP) کی پاکستانی فوج اور حکومت سے لڑنے کی پالیسی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اگر آپ لوگ جہاد کرنا چاہتے ہیں تو افغانستان آکر امریکیوں کے خلاف لڑیں تاکہ افغانستان کو آزاد کیا جاسکے۔ ملا عمر نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ پاکستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والی لڑائی کا سارا فائدہ مسلمانوں کے دشمنوں کو ہور ہا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں طالبان اور فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی سے عام لوگ طالبان کو ناپسند کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے جہاد او ر مجاہدین کا نام بدنا م ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ طالبان کا پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا حرام ہے۔ اس لیے پاکستان میں موجود تمام طالبان افغان جہاد میں حصہ لینے کے لیے افغانستان آئیں اور افغانستان کو امریکی اور نیٹو فوجوں کی غلامی سے آزاد کرائیں۔
وزیرستان کے تینوں بڑے طالبان کمانڈرز نے ایک مہینے کی گفت و شنید کے بعد اعلان کیا کہ بیت اللہ محسود،ملا نذیر اور حافظ گل بہادر نے آپس کے تمام اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک نئے اتحاد کا اعلان کیا ہے اور اس اتحاد کا نام شوریٰ اتحاد مجاہدین کر رکھا گیا ہے جس کی 13رکنی شوریٰ ہوگی جو کہ اتحاد کو چلائے گی۔

ملا نذیر کو اس اتحاد کا سربراہ چنا گیا لیکن اُنہوں نے سربراہی کرنے سے انکا رکر دیااس کے بعد ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ تینوں لیڈر باری باری اس گروپ کی سربراہی کریں گے۔اس میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تینوں گروپ اپنے اپنے علاقے اور معاملات میں خود مختار ہوں گے اور کوئی گروپ دوسرے گروپ کے علاقے اور معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور دشمن کا مقابلہ سب مل کر کریں گے۔

ملا نذیر نے اس میٹنگ کے پندرہ دن بعد ایک قبائلی جرگہ سے وانا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ جو 17000نئے تازہ دم فوجی دستے افغانستان بھیج رہا ہے، ان کو فاٹا کی سرحدوں پر متعین کیا جائے گا اور اس بات کا خاصا امکان ہے کہ امریکی فوجی براہ راست فاٹا کے علاقے میں داخل ہو جائیں تاکہ طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کیا جاسکے اور فاٹا سے افغان طالبان کو کوئی مدد نہ مل سکے اور امریکی افغانستان پر اپنا قبضہ اور مستحکم کر سکیں۔

ملا نذیر نے واضح کیا کہ وزیر ستان کے تینوں بڑے اور طاقت ور گروپوں کے اتحاد کا ایک اہم مقصد اس امریکی خطرے سے نمٹنا ہے اور اکیلے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی طاقت کسی بھی گروپ میں نہیں ہے۔

امریکی اور یورپی میڈیا نے بھی اس اتحاد کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور کہا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد ایک تو افغانستان میں جاری مزاحمت کو اور تیز کرنا ہے اور دوسرا ممکنہ امریکی حملے کے پیش نظر طالبان کا اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔

امریکی فوج اور میڈیا بار بار یہ بیان دے رہے ہیں کہ جب تک پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے تباہ نہیں کیے جاتے تب تک طالبان کو افغانستان میں شکست نہیں دی جاسکتی اور فاٹا میں جتنی جلدی ہو سکے ان محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا جائے تاکہ افغانستان کو جلد کنٹرول کیا جاسکے۔

امریکی یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ان گروپوں کے اتحاد کی وجہ سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجوں پر حملے بڑھ جائیں گے تاکہ امریکہ اور نیٹو فوج کو جلد سے جلد افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا جاسکے۔یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ اس اتحاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر پاکستانی فوج پھر وزیرستان میں فوجی کارروائی کرتی ہے تو تینوں گروپ مل کر اس کا مقابلہ کریں گے اور اس طرح وزیرستان میں طالبان کی پوزیشن اور مضبوط ہوجائے گی۔

یہ امن معاہدہ صرف امریکی فوجی مداخلت کے پیش نظر ہوا ہے اور اس کا مقصد صرف وزیرستان پر امریکی حملے کو روکنا اور دفاع کرنا ہے ۔ اس معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں کہ جس میں یہ لکھا ہو کہ شوریٰ اتحاد مجاہدین پاکستانی فوج پر حملہ کرے گی یا پاکستانی شہروں میں خود کش دھماکے یا دوسری فوجی کارروائیاں کریں گے کیونکہ گل بہادر اور مولوی نذیر دونوں پاکستانی فوج اور عوام سے لڑنا پسند نہیں کرتے، اسی وجہ سے گل بہادر TTPسے علیحدہ ہو گئے تھے کیونکہ وہ پاکستانی فوج اور عوام سے لڑنے کو غلط سمجھتے ہیں۔

امریکہ نے اس معاہدے کے پس منظر میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی گرفتاری پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام بھی رکھ دیا ہے۔ قبل ازیں پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ بیت اللہ محسود سرِعام پاکستان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، کئی بار پاکستان نے بیت اللہ محسود کے مقام موجودگی کی اطلاع بھی امریکی حکام کو دی مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب جبکہ بیت اللہ کی گرفتاری کے لیے نئی امریکی انتظامیہ نے انعامی رقم رکھ دی ہے اورامریکی ڈرون اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور بیت اللہ نے خودکش حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ طالبان گروپوں کے اس معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا؟