working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانیہ میں مسلمانوں کے پہلے قدم
یورپ اور مغرب کے مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کی تاریخ، معاشرت، معیشت اور طرزِ زندگی آج کے مفکروں کا ایک اہم موضوع ہے۔ برطانیہ میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ وہاں مسلمان کب اور کیسے آئے اور آج کس مقام پر ہیں، اس حوالے سے دولتِ مشترکہ آفس لندن نے ''برطانوی مسلمان'' کے عنوان سے ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کی تفصیلات نذرِ قارئین ہیں۔ (مدیر)
آثارِ قدیمہ کی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی تاریخ 1,000سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔جنوب مشرقی آئرلینڈ میں نویں صدی کے ایک بروچ سے جس پر بسم اللہ کندہ کیا ہوا تھا (اسلامی عبارت جس کا مطلب ہے 'اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم والا ہے') اور آٹھویں صدی میں شاہ ائوفا کے دور کے سکوں کی دریافت سے جن پر اسلامی کلمہء شہادت کی مہر تھی، تاریخ کے اس کم جانے پہچانے دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

البتہ برطانیہ میں مسلمانوں کا پہلا بڑا گروپ اٹھارویں صدی کی ابتداء سے پہلے تک نہیں آیا، یہ گروپ بھارت سے آیا تھا۔ اگلے 200سال میں تجارت اور کاروبار کی بدولت برطانیہ اور مسلم ممالک میں روابط بڑھے خاص طور پر جب برطانوی تجارتی جہازوں نے غیر ملکی عملے کو بھرتی کرنا شروع کیا۔ 1842ء تک تقریباً 3,000 مسلمان جنہیں' لشکری' کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر سال برطانیہ آنے جانے لگے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے شادی کر لی اور کارڈف، لور پول، گلاسگو اور لندن جیسے شہروں میں بس گئے۔

اسلامی عقیدے کی بڑھتی ہوئی کشش کچھ ایسی تھی کہ کئی ممتاز برطانوی مسلمان ہو گئے۔ ان میں ہیڈلی کے پانچویں بیرن اور ایک مشہور سِوِل انجینئر، لارڈ ہیڈلی جنہوں نے کشمیر کے پہاڑی علاقے میں بارہ مولا اور سرینگر کے درمیان سڑک کی تعمیر کی تھی ایک وکیل اور شاعر ولیم کوئیلیم جنہوں نے برطانیہ کی پہلی مسجد بنائی اور ایک ناول نگار اور قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے محمد مارما ڈیوک پکتھال شامل تھے۔ برطانیہ کی پہلی باقاعدہ تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح ووکنگ، سرے میں 1889ء میں ہوا۔

مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی برطانیہ میں 1950ء کی دہائی میں شروع ہوئی۔ تارکینِ وطن زیادہ تر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد محنت کشوں کی کمی پوری کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ زیادہ تر لندن میں اندرونِ شہر علاقوں، مڈلینڈز کے صنعتی شہروں اور لنکاشائر، یا رکشائر اور اسٹریتھ کلائیڈ کے ان شہروں میں آباد ہوئے جو پارچہ بافی کے مرکز تھے۔

آج برطانیہ میں رہنے والے مسلمان وسیع اور گونا گوں قومیتی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کی آبادی میں ایک خاصی تعداد اسلام قبول کرنے والے برطانویوں اور یورپی افراد کی ہے۔ مسلمان کمیونٹیز پورے برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں البتہ لندن مانچسٹر، برمنگھم اور بریڈ فورڈ میں ان کی آبادی گنجان ہے۔

1386ئ… چاسر نے کینٹر بری ٹیلز میں اسلامی اسکالرز کے حوالے دئیے ہیں۔
1600ء … 16 ویں صدی میں جان نیلسن پہلا شخص تھا جس کے اسلام قبول کرنے کا علم ہوا۔
1630ء … آکسفرڈ اور کیمبرج یونی ورسٹیوں نے عربی چیئرز قائم کیں۔
1641ئ… ایک دستاویز میں حوالہ دیا گیا کہ 'محمد یوں (Mahomatens) کا ایک فرقہ یہاں لندن میں پایا جاتا ہے۔
1649ء … الیگزینڈر راس نے انگریزی زبان میں قرآن مجید کا پہلا ترجمہ کیا۔
1700ء …مسلمانوں کا پہلا بڑا گروپ ہندوستان سے برطانیہ پہنچا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں جو بحری عملہ بھرتی کیا اس نے ساحلی علاقوں اور شہروں میں پہلی مسلمان کمیونٹیز کی تشکیل کی۔ دوسرے افراد ان علاقوں سے آئے جو اب بنگلہ دیش اور پاکستان کا حصہ ہیں۔
1869ء … نہر سویئز کے کھلنے سے مسلمان تارکین وطن کی ایک اور لہر آئی۔تجارت کو فروغ ہوا تو یمنی اور صومالی محنت کش کارڈف، لور پول، پولک شیلڈز اور لندن کے ساحلوں پر کام کرنے آ پہنچے۔
1886ئ… لندن میں انجمنِ اسلام قائم ہوئی جسے بعد میں پین اسلامک سوسائٹی کا نام دیا گیا۔
1887ء … لورپول کے ایک سالیسٹرولیم ہنری کوکوئلیم نے مراکش میں اپنے قیام کے دوران اسلام قبول کیا۔ انہوں نے لور پول میں لور پول مسجد، مسلم انسٹی ٹیوٹ اور ایک یتیم خانہ مدینہ ہائوس قائم کیا۔ وہ 'اسلامک ورلڈ' اور ہفت روزہ 'کریسنٹ' کی ادارت بھی کرتے تھے۔
1889ئ… ووکنگ میں پہلی باقاعدہ تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح ہوا۔
1910ء … ایک اسلامی اسکالر امیر علی نے رٹز میں ایک عوامی اجلاس منعقد کیا جس میں 'لندن میں اسلامی روایات اور برطانوی سلطنت کے دارالحکومت کے شایانِ شان ایک مسجد' قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
1911ئ… جانوروں کے ذبیحے کے قانون میں حلال ذبیحے کے لیے استثناء فراہم کیا گیا۔
1912ء … لاہور سے ایک بیرسٹر خواجہ کمال الدین لندن صرف اس مقصد سے آئے کہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دور کی جا سکیں۔ ایک سال بعد انہوں نے اسلامک ریویو شائع کرنا شروع کیا۔
1914ئ… انگریز نو مسلم لارڈ ہیڈلی نے برٹش مسلم سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔
1928ء …لندن میں مرکزی مسجد کی تعمیر کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے لندن نظامیہ ٹرسٹ قائم کیا گیا۔
1940ئ… حکومت نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لیے 100,000پائونڈ مختص کر دئیے۔
1941ء … ایسٹ لندن مسجد ٹرسٹ نے کمرشل روڈ اسٹیپنی میں تین عمارتیں خرید کر انہیں لندن کی پہلی مسجد میں تبدیل کر دیا۔
1944ء …شاہ جارج ششم ریجنٹس پارک لندن میں اسلامک کلچرل سینٹر کے افتتاح میں شریک ہوئے۔
1947ء … اسلامی ملکوں کے 13 سفیروں نے سینٹرل لندن مسجد ٹرسٹ قائم کر دیا۔
1951ء … مسلمانوں کی آبادی اندازاً 23,000 ہو گئی۔
1950-60ء …تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان سے مسلمان تارکینِ وطن برطانیہ پہنچے۔ برطانیہ میں محنت کشوں کی کمی سے، جو خاص طور پر یارکشائر اور لنکاشائر میں اسٹیل اور کپڑا بُننے کی صنعت میں تھی اس نقل مکانی کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
1961ء … برطانیہ میں مسلمان آبادی 82,000 تک پہنچ گئی، یہ اضافہ لوگوں کے کامن ویلتھ ایکٹ (1962ئ) نافذ ہونے سے پہلے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کی وجہ سے ہوا کیونکہ اس ایکٹ سے کامن ویلتھ کے شہریوں کا برطانیہ میں داخلے کا خود اختیاری حق ختم ہونے والا تھا۔
1960-70ء …مسلمان تارکین وطن کی اگلی لہر افریقہ، خاص طور پر کینیا اور یوگینڈا سے آئی جہاں کئی ایشیائیوں کو تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
1966ئ… برطانیہ میں اب 18 مساجد ہو گئیں جن کی تعداد میں اگلے دس سال میں سالانہ سات کے حساب سے اضافہ ہوتا رہے گا۔
1971ء … مسلمانوں کی آبادی اندازاً 396,000ہو گئی۔
1972ء …عیدی امین نے یوگنڈا سے 60,000 ایشیائی مسلمانوں کو نکال دیا جن میں سے بیشتر برطانیہ میں آباد ہو گئے۔
1973ئ… اسلامک کونسل آف یورپ کا قیام عمل میں آیا جس کا ہیڈکوارٹر لندن بنا۔ عیسائیوں اور مسلمانوں میں 'محلے میں اسلام' کے موضوع پر پہلا ڈائیلاگ ہوا ۔
1974ئ… برٹش کونسل آف چرچز نے برطانیہ میں اسلام کے مطالعے کے لیے ایک مشیر مقرر کیا۔
1976ء …علیا حضرت ملکہ معظّمہ نے فیسٹول آف اسلام کا افتتاح کیا۔
1977ئ… ریجنٹس پارک میں لندن مرکزی مسجد کا افتتاح ہوا۔ بلفاسٹ اسلامک سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت آئرلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ 3,000 لگایا گیا۔
1984ء … اسلامک ریلیف قائم ہوئی جو آج برطانیہ کی سب سے بڑی اسلامی فلاحی تنظیم ہے۔
1985ئ… اب یہاں رجسٹرڈ مساجد کی تعداد 338 ہو گئی۔
1992ء … برطانیہ کے سب سے بڑے اسلامی جریدے 'کیونیوز' کا اجراء ہوا؛ بریڈ فورڈ میں پہلے رمضان ریڈیو نے مذہبی تقاریر، مذہبی موسیقی اور مذاکروں کی ملی جلی نشریات کا آغاز کیا۔
1994ء …اسلامک سوسائٹی آف برٹن نے اسلام کے بارے میں شعور کے فروغ اور غلط فہمیوں کے تدارک کے لیے پہلی بار اسلامی آگاہی کا ہفتہ منعقد کیا۔
1996ء … انڈپینڈنٹ رنی میڈٹرسٹ نے 'برطانوی مسلمان اور اسلاموفوبیا' پر کمیشن قائم کیا۔
1997ئ… برطانیہ کی تمام اسلامی تنظیموں کی سرپرست تنظیم کی حیثیت سے مسلم کونسل آف برٹن (ایم سی بی) کا قیام عمل میں آیا۔ محمد سرور(گواآن سے) پہلے مسلمان رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔
1998ء … دو اسلامی اسکولوں کو سرکاری گرانٹ کے استحقاق کا درجہ ملا۔ دارالامراء میں لارڈ نذیر احمد اور بیرونس پائولاالدین پہلے مسلمان لارڈز مقرر ہوئے۔
2000ء …فارن آفس نے حج وفد تشکیل دیا جو ہر سال حج کے لیے مکہ جانے والے 25,000 حاجیوں کو طبی اور کونسلر خدمات فراہم کرنے کے لیے ہے۔
2001ء … قومی مردم شماری میں پہلی بار مذہب کے بارے میں ایک سوال شامل کیا گیا۔ یارکشائر کے شہروں میں فسادات کے بعد ٹیڈکینٹل کی سربراہی میں لیے گئے سرکاری جائزے میں کمیونٹیز کے ادغام کو بہتر بنانے کے بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔ حکومت نے نسلی تعلقات کے قوانین میں نسلی منافرت پر اکسانے کو شامل کرنے کے لیے قوانین پیش کیے۔
2002ئ… جیل کے لیے پہلے کل وقتی امام کا برکسٹن جیل میں تقرر کیا گیا۔
2003ء … بنک آف انگلینڈ کے ڈپٹی گورنر ہاورڈ ڈیویز نے ایک تاریخی تقریر کی جس میں برطانیہ میں اسلامی سرمایہ کاری کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ اسلامی مارگیج کے لیے گھروں کی خریداری پر ٹیکس کے ضابطوں میں ترمیم کی گئی۔ جائے ملازمت پر مذہبی عقیدے کی بنا پر تعصب کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے قانون متعارف کرایا گیا۔
2004ئ… یورپ کے پہلے اسلامی بنک، اسلامک بنک آف برٹن نے برمنگھم میں پہلی برانچ کا آغاز کیا۔ الپ محمد برطانیہ کے پہلے مسلمان سفیر (برائے آئس لینڈ) مقرر ہوئے۔
2005ء … ڈیفنس منسٹری نے عاصم حفیظ کو مسلح افواج کا پہلا 'مسلمان واعظ' مقرر کیا۔ اسلامی فلاحی تنظیمیں 'غربت کو تاریخ کا حصہ بنا دو' مہم میں شریک ہوگئیں 7 جولائی کے لندن بم دھماکوں کے بعد حکومت نے 'انتہا پسندی کا مشترکہ بچائو کے تحت برطانوی مسلمانوں کے ورکنگ گروپس تشکیل دئیے۔ کشمیر میں آنے والے زلزلے کے دو دن کے اندر برطانوی اسلامی فلاحی تنظیموں نے ہنگامی امداد کے لیے 1.75١ ملین پائونڈ جمع کیے۔
2006ئ… وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم میں اسلامی فنون کے لیے نئی گیلری مخصوص کر دی گئی۔ مانچسٹر میوزیم آف سائنس اینڈ انڈسٹری میں 1001ایجادات کے عنوان سے نمائش کا آغاز ہوا جس میں جدید طرزِ زندگی پر عربوں اور مسلمانوں کے اثرات کو نمایاں کیا گیا تھا۔ امجد حسین برطانیہ کے پہلے مسلمان ایڈمرل مقرر ہوئے۔

رنگارنگی
برطانیہ ان کمیونٹیز کا وطن ہے جو مسلم دنیا کے تقریباً ہر ملک سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر کمیونٹی کی اپنی تاریخ، ثقافت اور روایات ہیں۔ سب سے بڑی کمیونٹیز جنوبی ایشیا سے آئی ہیں لیکن ان کے علاوہ عرب اور افریقی کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا، بلقان اور ترکی کے مسلمان بھی یہاں آباد ہیں۔ ایسے بھی کئی مسلمان ہیں جو دوسرے مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔

یہ کمیونٹیز پورے جزائر برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور برطانیہ کی معاشی ثقافتی اور سیاسی زندگی کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ چھوٹے کاروباروں سے ریسٹورینٹس، لاء اور اکائونٹنسی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیشنل ہیلتھ سروس سے تدریس، ٹرانسپورٹ اور پبلک سروسز، سیاست اور میڈیا سے کھیل اور فنون اور فیشن تک مسلمان برطانیہ کے کثیر النسل اور کثیر العقائد معاشرے میں ایک بیش بہا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ہم آہنگی اور باہم تعاون پر مبنی رشتے برقرار رکھنے کے لیے تمام کمیونٹیز کے درمیان باہمی احترام اور افہام و تفہیم ضروری ہے۔ برطانوی حکومت اس افہام و تفہیم کو فروغ دینے اور تمام شہریوں کے لیے قطع نظر ان کے رنگ نسل، عقیدے یا جنس کے، مساوی مواقع کو یقینی بنانے کا عزم رکھتی ہے۔

برطانوی مسلمان کمیونٹیز
مسلمان برطانیہ میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ 2001ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی برطانیہ میں تعداد کا تخمینہ تقریباً 1.6 ملین تھا، جو غالباً اب بڑھ کر2 ملین کے قریب ہو چکا ہو گا۔

برطانیہ کی بے شمار مسلمان کمیونٹیز گویا نسلی پسِ منظر کا ایک خزانہ ہیں۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق 11.2 فی صد مسلمان 'سفید فام' 6.9 فی صد سیاہ فام سیاہ فام برطانوی، 74 فی صد ایشیائی، ایشیائی برطانوی اور 7.5 'دیگر' ہیں۔تقریباً 50 فی صد مسلمان برطانیہ ہی کی پیدائش ہیں اور 50 فی صد کی عمر 25 سال سے کم ہے۔مسلمانوں کی گنجان آبادی اگرچہ بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے لیکن اب یہ کمیونٹیز برطانیہ بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔

روایتی کھانے
مسلمانوں کے روایتی کھانوں کا برطانوی ثقافت پر گہرا اثر پڑا ہے، لوگوں کے خریداری اور کھانے پینے کے انداز بدل گئے ہیں اور وہ انوکھے نئے ذائقوں اور اجزاء سے متعارف ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں پہلا کری ہائوس 1809ء میں لندن میں کھلا اور آج وہ کھانے جنہیں 'انڈین' کہا جاتا ہے قوم کے پسندیدہ کھانے بن چکے ہیں۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کھانوں میں سے جو برطانیہ کے 'انڈین' ریسٹورینٹس میں پیش کیے جاتے ہیں درحقیقت زیادہ تر بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں۔ ترکی، لبنان اور مراکش کے روایتی کھانوں کی مقبولیت میں بھی اب اضافہ ہو رہا ہے۔

فیشن
یوکے کی دوسری کمیونٹیز کی طرح برطانوی مسلمان کئی طرح کے ملبوسات پہنتے ہیں۔ جہاں اب بھی کئی لوگ روایتی لباس میں نظر آتے ہیں وہاں ایک نیا اسٹائل بھی ابھر رہا ہے جو مشرقی اور مغربی دونوں اثرات کا امتزاج پیش کرتا ہے۔

مسلمان فیشن ڈیزائنر روایتی طرزِ لباس کو زیادہ سے زیادہ شہری اور جدید اسٹائل کے ساتھ ملا جلا کر اور انہیں بین الاقوامی رنگوں اور نمونوں میں ڈھال کر پیش کر رہے ہیں تاکہ ایک نوجوان اور فیشن کے معاملے میں باشعور مارکیٹ کو متوجہ کر سکیں۔ مسلمانوں کے اسٹائل نے عالمی فیشن کو بھی متاثر کیا ہے۔ملبوساتی مارکیٹ میں مسلمانوں کی ملبوسات کی اپنی شاپس نے ایک خاصی بڑی جگہ بنا لی ہے۔ کثیر مسلمان آبادی والے بڑے شہروں جیسے بریڈ فورڈ، لیسٹر اور برمنگھم میں تو واقع یہی دیکھنے میں آتا ہے۔

طلبہ اور نوجوان
برطانیہ کے تمام گروپوں میں مسلمان سب سے کم عمر ہیں۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق 34 فی صد مسلمان 16سال سے کم عمر ہیں۔ نوجوانوں اور طلبہ کی کئی تنظیمیں ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وجود میں آچکی ہیں۔

سیاست
گزشتہ عشرے میں مسلمان برطانیہ میں عام سیاسی دھارے میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوتے رہے ہیں۔ مسلمان کونسلروں میئروں اور اراکین پارلیمنٹ کی تعداد روز افزوں ہے۔
یورپ بھر میں برطانیہ میں سب سے زیادہ مسلمان اراکین پارلیمنٹ ہیں۔

حج وفد
حج وفد ہر سال حج کی غرض سے مکہ جانے والے تقریباً 25,000 برطانوی حاجیوں کو کونسلر اور طبی خدمات فراہم کرتا ہے۔ فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس (ایف سی او) حج ایڈوائزری گروپ کے ساتھ جو حج وفد کی تشکیل کرتا ہے، پارٹنر شپ میں کام کرتا ہے۔ وفد بنیادی طور سے ڈاکٹروں اور ایف سی او کے نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے اور حج کے تمام ایام میں سعودی عرب میں موجود رہتا ہے تاکہ برطانوی حاجیوں کی عملی مدد اور رہنمائی کر سکے۔

فلاحی ادارے
برطانیہ میں کئی مسلمان فلاحی ادارے ہیں جو بنیادی طور پر مسلمان اکثریت والے ممالک اور ان خطوں کو جن کا برطانوی مسلمانوں سے تعلق ہو ہنگامی انسانی امداد اور ترقیاتی تعاون فراہم کرتے ہیں۔سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مشہور تنظیم اسلامک ریلیف ہے جو 1984ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے طور پر وجود میں آئی۔ اسلامک ریلیف 'ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی' کی ممبر ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی بین ا لاامی انسانی اپیلوں میں رابطے کا کام کرتی ہے۔ یہ 2004ء کے ایشیائی سونامی اور2005ء کے پاکستانی زلزلے جیسی تباہیوں سے نمٹنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی ہے۔

اسلامی سرمایہ کاری
برطانیہ عالمی اسلامی سرمایہ کاری کے مرکز کی حیثیت اختیار کرنے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ برطانوی بنک اب اسلامی بنکاری میں تقلید کر رہے ہیں اور لندن میں اب کسی بھی مغربی سرمایہ کاری مرکز کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں بنک اسلامی اصولوں پر مبنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والی برطانوی فرمیں بھی اب اسلامی کاروباری خدمات کی فراہمی میں قیادت کر رہی ہیں جن میں انگلش کمرشل لاء کو ایک منتخبہ قانون کی حیثیت دی گئی ہے۔