working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

گوادر بندرگاہ کی نیلامی ،ایک گھاٹے کا سودا
مقبول احمد ، ناصر رحیم

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں وہ منصوبے جنہیں ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے شروع کیا جاتا ہے۔ جب ان منصوبوں کا افتتاح ہوتا ہے تو حاکمانِ وقت ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے دکھائی دیتے ہیں مگر پھر درمیان میں کوئی اور حاکم آجاتا ہے جس کی ترجیحات ذرا مختلف ہوتی ہیں۔ چنانچہ کبھی وہ منصوبے مصلحتوں کی نذر ہو جاتے ہیں اور کبھی ان پر ایسے انداز میں ڈاکہ ڈالا جاتا ہے کہ قوم کی تقدیر بدلنے کی بجائے چند بااختیار لوگ اپنی اپنی تقدیر بدل کر روپوش ہو جاتے ہیں اور بعد میں آنے والے تحقیقات کے نام پر ایک گھن چکر کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال گوادر بندرگاہ کی بھی ہے۔ اس اہم قومی منصوبے کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اس حوالے سے ہیرالڈ نے اپنے فروری کے شمارے میں ایک خصوصی رپورٹ دی جس کا اختصاریہ ذیل میں مذکورہ جریدے کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)

گوادر کی گہری سمندری بندر گاہ جو کہ 17.2ارب روپے سے تعمیر کی گئی تھی بالآخر رعائتی نرخوں پر پورٹ آف سنگا پور اتھارٹی(PSA)کے سپرد کر دی گئی اس سودے میں ایک کنسور شیم بھی بنایا گیا جو کہ (PSA)گوادر عقیل کریم ڈھڈی کمپنی اور نیشنل لاجسٹک سیل(NLC)پر مشتمل تھا جن کے ذمے فری زون کمپنی(FZC)کو چلانا مقصود تھا۔شواہد سے یہ بات سامنے آئی کہ ٹینڈر لینے، معاہدے کرنے، ریٹ بھرنے، غرض کہ ہر سطح پر قوانین کو نظر انداز کیا گیا اور اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے،یہ کہانی 21اکتوبر 2006ء سے شروع ہوتی ہے جب گوادر کی بندر گاہ کو چلانے کے لیے گوادر پورٹ ایمپلیمنٹیشن اتھارٹی(GPIA)نے ریٹ طلب کیے اور جواباً دو فرموں نے اپنے آپ کو مقابلے کے لیے پیش کیا۔ کچھ دوسرے ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شروع میں چار آفرز سامنے آئیں مگر دو پر مزید غور و غوص اور تفصیل کے لیے وقت کی کمی آڑے آئی۔جب کہ بندرگاہوں اور جہاز سازی کی وزارت اس کی نفی کرتی ہے اور یہی کہتی ہے کہ چار میں سے محض دو پارٹیوں ہی نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنے اہم منصوبے کو ٹھیکے پر دینے کے لیے اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی اور بالآخر ایک سال سے بھی کم عرصے میں PSAگوادر نے ٹھیکہ حوالے کر دیا۔

GPA اورPSAگوادر کے درمیان 6فروری2007ء کو معاہدہ طے پا گیا۔ جس پر منیر وحید، ایکٹنگ چیرمین GPA اور اس وقت کے کموڈور اور محمداسلم حیات ایکٹنگ چیرمین GPIA نے دستخط کیے حالانکہ بڑے بڑے بین الاقوامی معاہدوں پر متعلقہ وزارت کے سیکریڑی بھی دستخط ثبت کرتے ہیں جو اس معاملے میں مفقود پائے گئے۔ مزید براں GPA کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بھی معاہدے کی توثیق ضروری نہیں سمجھی گئی اور نہ ہی طے پانے والی شرائط کے معاملے میں رجوع کیا گیا۔ حالانکہ 2002ء کے آرڈننس کے تحت GPA کو بندر گاہ اور اس کے انتظامی امور کے لیے مکمل ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ پورٹ اور شپنگ اتھارٹی نے بورڈ سے مشورہ لینے کی بجائے PSA کی بولی قبول کرنے کے لیے ایک مذاکراتی ٹیم بنائی جو کہ ایڈمرل سید افضل، ارشد علی زبیری، محمد راجپار،کیپٹن عبدلرزاق ردانی،فاروق رحمت اللہ،اور کموڈور وحید پر مشتمل تھی۔اس میں کچھ تو سینئر حکومتی افسران تھے جبکہ زبیری صاحب بزنس ریکارڈر گروپ اور رحمت اللہ شیل پاکستان کے ملازم تھے جن کا پرائیوٹ کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق تھا اور ان میں سے کوئی شخص بھی میڈیا کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا،جب کہ GPIA افسران بالا نے دعویٰ کیا کہ یہ کمیٹی محض معاہدے کی منظوری کے حوالے سے کام انجام دینے کے لیے بنائی گئی تھی حالانکہ بعض ذرائع سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ابتدائی طور پر چند افراد نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے پس وپیش سے کام لیا تھا۔ مزید براں GPA کے سب سے اہم ڈیپارٹمنٹ جو کہ انتطامیہ اور مالیات کے محکمے پر مشتمل تھے کو بھی نظر انداز کیا گیا اور حیرت ہے کہ معاہدے کی نیشنل اکنامک کونسل (NEC) جیسے آئینی ادارے کو بھی خبر نہ ہونے دی گئی۔ در حقیقت مراعات ایگریمنٹ پر 6فروری2007ء کو دستخط ہوئے جسے آٹھ ماہ کے بعد اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی(ECC ) جو کہ وفاقی کابینہ پر مشتمل تھی نے منظوری دی تاکہ انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔10نومبر2007ء کو پورٹ اور شپنگ کی وزارت نے PSAگوادر کو مزید مراعات دینے کے لیے ECC کودر خواست دائر کی جس میں ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ شامل تھی اور وہ فروری کے اصل معاہدے میں بھی شامل نہیں تھا اور یوں 14نومبر 2007ء کو ECC نے مکمل معاہدہ منظور کر لیا۔ اور وہ مراعات بھی دے ڈالیں جو اصل معاہدے میں شامل نہیں تھیں جب کہ افسران کی رائے میں یہ شرائط پاکستان کے بہترین مفاد میں تھیں۔

ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مراعاتی معاہدہ کسی خاص مقصد کے تحت ہی منظور کیا گیا ہے۔ GPAاور PSAIکے درمیان معاہدے کے تحت گوادر پورٹI PSAٰٰٰ ٰٰیعنی پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی کے برانڈ نام سے کام کر ے گی ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ ابFZC کا اس سے کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ بعض ذمہ دار لوگوں کی رائے ہے کہ اس طرح کئی مارکیٹنگ کمپنیاں FSAI کے نام کے تحت کام کریں گی مگر قدرتی طور پر ان میں کوئی بھی کاروبار کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔ یہ نقطہ بھی نہایت اہم ہے کہ دونوں پارٹیوں میں مراعاتی معاہدے کے بعدPSA گوادر کو بطور کمپنی پاکستان میں رجسڑڈ کیا گیا اس معاہدے کے تحت مراعات یا فتگان کو اجازت دے دی گئی کہ وہ تین آزاد کمپنیاں بنا سکتے ہیں یعنی ٹرمینل آپرییٹنگ کمپنی (TOC) میرین سروسز کمپنی (MSC) اور FZCیعنی فری زون کمپنی جب کہ PSA گوادر محض MSC اورTOC کے لیے ذمہ دار ہو گی جب کہFZC آزاد ہو گی جس کا 10 فی صد حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر FZCدیوالیہ ہوتا ہے تو باقی حصہ دار ذمہ دار نہیں ہونگے۔

PSAگوادر کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ TOC اور MSC کے کیس میں معاہدے کی رو سے رعایت یافتہ اگلے پانچ سالوں میں پاکستان میں رجسٹرڈ رہنے کی صورت میں51 فی صد حصہ کم کریں گے دوسرے لفظوں میںPSA گوادر 2012 تک فارغ ہو جائے گی اور وہ اپنے حصص کسی دوسری دلچسپی کا اظہار کرنے والی پارٹی کو فروحت کر دے گی جو کہ تمام بندر گاہ کا نظم و نسق سنبھال لے گی۔ معاہدے کے تحت یہ بندر گاہ 40سال کے لیے حوالے کی جا چکی ہے۔

حکومت کے افسران کہتے ہیں کہ PSAI معاہدے کے پانچ برس کے دوران 550ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی حالانکہ معاہدے کے کاغذات میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے جب کہ دوسری جانب حکومت پاکستان پہلے ہی 17ارب سے زائد رقم گوادر پورٹ کی ترقی کے لیے خرچ کر چکی ہے۔ مذید برآں قانونی طور پر اس معاہدے کے تحت مجاذ کیا گیا ہے کہ گوادر کا مشرقی بند، ایکسپریس روڈ پراجیکٹ اور گوادر رتو ڈیرو موٹر وے اور اسکے علاوہ گوادر کے فری زون کے لیے زمین کی خریداری ضروری ہے۔ اور ان تمام اخراجات کے لیے حکومت کو اربوں ڈالر مختص کرنے پڑیں گے۔ حیرت ہے کہ GPAکا وہ تمام سرمایہ جو کہ بندرگاہ کو چالو کرنے کے لیے ضروری تھا مراعات ہولڈر کو منتقل کیا جا چکا ہے اور بدلے میں ایسے کسی جرمانے کا ذکر نہیں جو کہ PSAگوادر کو ایسی صورت میں ادا کرنا پڑے گا کہ اگر وہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکے کلاز7.8 مطابق مرعات ہولڈر نے دو ملین ڈالر کا پر فارمنس بانڈ مہیا کیا ہے یہی وہ تمام رقم ہے جو کمپنی قانونی طور پر دینے کو تیار ہوئی اور یہ سرمایہ فوراً اس روز انہیں واپس مل جائے گا جس دن پہلا بار بردار جہاز اپنا سامان اتار لے گا یا یہاں سے روانہ ہو گا اور دو جنیٹری کرین کام کے لیے ایستادہ کر دئیے جائیں گے جیسا کہ یہ دونوں واقعات پیش آچکے ہیں اس لیے GPA قانونی طور پر رقم واپس کرنے کی حقدار ہو چکی ہے۔ نتیجتاً اب ایسی کوئی گارنٹی نہیں جو کہ بندرگاہ کی سہولیات کا تحفظ فراہم کر ے گی یا جو رقم منتقل کی جا چکی ہے اس کی ضمانت کون دے گا؟

معاہدے کو مکمل کرنے کے دوران کئی اور بے ضابطگیاں بھی دیکھی گئی ہیں مثلاً GPA محض ٹرمینل اور میرین آپریشن کے دوران 90 فی صد آمدنی کی حقدار ہو گی جب کہ ابھی ذرائع آمدنی کی بھی مکمل وضاحت درکار ہے۔ ادھر اتھارٹی نے اپنی 30 میں سے جو10برتھیں پرائیویٹائیز کی ہیں وہ وہ بھی ایک لمحہ فکر یہ ہے۔ برتھوں کا کرایہ لینے کے ساتھ ساتھ نئے مالکان KPT کو جو حصہ دیتے ہیں وہ اسے بندرگاہ کے چارجز اینکریج چارجز پانی اور خشکی کے چارجز سے کماتے ہیں اور ہر حصہ مختلف مد وں میں دیا جاتا ہے۔

کیا بلوچستان کے عوام بالعموم اور گوادر کے عوام بالخصوص ان ناانصافیوں اور معاشرتی ناہمواریوں کے متحمل ہو سکتے ہیں۔؟ خدا جانے اس طاقت اور لالچ کا کھیل کس انجام کی جانب لے جائے گاگوادر کے لوگ حیران ہیں کہ انہیں تین سامراجی عفریتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ ٹرمینل چلانے والی کمپنی سمندر میں خدمات انجام دینے والی کمپنی اور فری زون کمپنی (FZC) یعنی پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی (PSA) گوادر پر مشتمل ہیں اور لوگ رفتہ رفتہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ کمپنیاں علاقائی ترقی اور مقامی لوگوں کے فلاح و بہبود کے کاموں پر محض واجبی اقدامات اٹھائیں گی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی گوادر کی بندر گاہ پر اپنی سرمایہ کاری کے بعد جب آمدنی کی مد میں محض 9 فی صد بندرگاہ سے اور 15فی صد فری سے زون ریٹرن ملے گا تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہو گا فری زون کمپنی (FZC ) محض اس لیے قائم کی گئی تھی کہ وہ بندرگاہ کے اطراف میں صنعتی اور کمرشل اداروں کو فروغ دے گی کیونکہ یہ علاقہ ٹیکس فری زون قرار دیا جا چکا ہے۔ GPA سے پہلے 2290 ایکڑ زمین خرید کر FZC کے نام منتقل کرے گی یعنی کروڑوں روپے GPA کی صوابیدید پر رکھے گئے ہیں یوں942 مربع کلو میٹر کا ایک وسیع رقبہ FZC تحفے میں مل جائے گا اور اسے اپنی من مانیاں کرنے میں کھلی چھٹی مل جائے گی۔ لیز دینے کا منصوبہ بھی قطعاً غیر واضح ہے سمجھوتے کے تحت FZC یہ زمین 40 سال کے پٹے پر حاصل کرے گی جب کہ کمپنی 99سال کے مزید پٹے پر اسے فروحت کرے گی۔

مزید براں کمپنی کو 20 فی صد رقبے پر ترقیاتی کاموں کے لیے اجازت دی گئی ہے جب کہ بندرگاہ کو ملانے والی سڑکوں کی تعمیر کی ذمہ داری GPAکے سپرد ہو گی جب کہ FZC کے ذمہ صرف زمینوں کی فروحت ہو گی اور تمام پراجیکٹ کو ٹھیکیداروں سے بنوانے کی ذمہ داری بھی اس کے پاس ہی رہے گی اپنے سٹاف اور ورکرز کی رہائشی کالونیوں کی تعمیر بھی اس کی صوابدید پر ہے اور اس کے لیے اسے کتنا رقبہ درکار ہو گا اس کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی اس طرح صنعتی زون کی قیمتی زمین بھی ان کے قبضے میں چلی جائے گی۔

FZCکے حصہ داروں کے حصص کی تفصیل کچھ یوں ہے جس میں PSA 10فی صد سے زائد کی حقدار نہیں عقیل کریم ڈھیڈی گروپ کا حصہ 60 فی صد بنتا ہے جس کا اس سے پہلے اس قسم کا پراجیکٹ چلانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے اور ایسا ہی سلسلہ نیشنل لاجسٹک کارپویشن کے ساتھ ہے جس کا حصہ 30فی صد ہے۔

اس منصوبے میں GPA پر کئی اور غلط فیصلوں کا امکان بھی موجود رہا ہے مثلاً علاقے کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے TOC پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ سرمایہ کاری کی حدود کیا ہوں گی اور وقت کتنا درکار ہو گا۔ 800ملین روپے پہلے ہی کمپنی کے حوالے کئے جا چکے ہیں جب کہ بندرگاہ کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کشتیاں اور پائلٹ کشتیاں بمعہ دیگر تعمیرات کے اب تک 172 ارب روپے کام آچکے ہیں کہا جاتا ہے کہ جب سے بندرگاہ نے کام کرنا شروع کیا ہے PSAنے محض دو کرین ہی خرید کر نصیب کیے ہیں۔

جہاں تک محصولات کا تعلق ہے یعنی شپنگ کمپنیوں سے فیس، ریٹ اور ٹیرف وغیرہ یہ TOC کی ذمہ داری میں آتا ہے اور ریٹ میں کمی پیشی بھی اس کی صوابیدید پر ہی ہے یعنی اگر وہ چاہیں تو گوادر پورٹ پر ٹیرف کی رقم صفر کر دیں اور سنگاپور میں زیادہ فیس لیتے رہیں تو اس طرح GPA اور حکومت جہازوں سے سامان لادنے، چڑھانے یا لنگر انداز ہونے کے کرایوں سے محروم ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ PSA کی میرین سروس کمپنی (MSC) کا جہاں تک تعلق ہے ۔پانی میں تمام تر خدمات مثلاً سمندری حدود کی نگرانی،جہازوں کی رہنمائی اور آمدورفت اور برتھ وغیرہ تک رہنمائی کی تمام ذمہ داری GPA کے سپرد ہے۔ جب کہ PSA کی کارروائیاں میرین سروس ویسلز، طریقہ کار اور معیار تک محدود ہیں۔

دوسری جانب گوادر کی بندرگاہ میں مقامی مزدوروں کا ٹھیکیداری اور نقل و حمل میں محض ایک تہائی کوٹہ مختص ہے۔ مقامی ٹرانسپورٹر حضرات بھی بار بار اس وجہ سے ہڑتال کی کال دیتے رہے ہیں کہ حکومت ان کے ٹرکوں کو بھی بندرگاہ کے کاموں میں باقاعدہ ٹھیکے دے اور ملازمتیں بھی مہیا کرے۔600 افراد میں سے 100 سے150کے درمیان مزدور مقامی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بندرگاہ پر سامان اتارنے چڑھانے کا کام کرتے ہیں۔

تمام تر سامان مکران کوسٹل ہائی وے کی بجائے گوادر کی ائیرپورٹ روڈ اور بندرگاہ روڈ پر سے ہو کر گزرتا ہے جس سے مقامی اداروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ حکومتی معاہدے کی رو سے کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں کیا جا سکتا جس سے مقامی حکومتوں کی آمدنی کا ذریعہ بھی ان سے چھن گیا ہے۔
مختلف ذرائع یہ تذکرہ بھی کر رہے ہیں کہ گوادر پورٹ امپلیمنٹیشن اتھارٹی 2012ئ تک پرانے گوادر شہر کی صنعتی اور کمرشل بنیادوں پر تعمیر و ترقی کرے گی اور مقامی لوگوں کو کہیں اور بسایا جائے گا اس طرح سہانے دنوں کے خواب آنکھوں میں سجائے یہ لوگ اپنی آبائی زمینوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

معاہدے کی رو سے 90 فی صد تک بندرگاہ کی آمدنی PSA کو ملے گی اور محض 10فی صد وفاقی حکومت کے ادارے GPA کوجائے گی GPA اپنی محدود آمدنی کو بلوچستان حکومت کے حوالے کرے گا اور پھر صوبائی حکومت تمام صوبے کے فارمولے کے تحت حصہ کچھ گوادر کو بھی دے گی اور اس سے تو وہ سالانہ اخراجات بھی پورے ہونا نا ممکن ہیں جس کی ذمہ داری GPA کے سپرد کی گئی ہے۔

وہ مزدور جو سامان وغیرہ اتارنے اور لادنے کا کام کرتے ہیں اکثر یہ شکایت کرتے سُنے گئے ہیں ان کی ذمہ داریاں اور ڈیوٹی روزانہ کی بنیاد پر تبدیل کی جاتی ہیں اور اجرت بھی وقت پر نہیں ملتی اس کے علاوہ بندرگاہ پر ان کے کھانے پینے کا کوئی معقول بندوبست بھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ مچھیروں کے تنازعات بھی آئے دن کا معمول بن چکے ہیں جس مقام پر یہ لوگ مچھلیاں پکڑتے تھے۔ اب وہاں بھی ایک چھوٹی بندرگاہ کا کام لیا جا رہا ہے جس سے مچھیروں کے کاروبار پر منفی اثر پڑا ہے۔ فی الحال انہیں کہا گیا ہے کہ وہ GFH میں مچھلیاں پکڑیں اور پھر انہیں 50کلو میڑ دور ایک نئی جگہ مہیا کی جائے گی جہاں پہنچنے کے لیے ان کے ایندھن کے اخراجات بھی میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا۔ مچھیرے اب گومگو کے عالم میں ہیں کہ آیا وہ مستقبل میں اپنا کاروبار جاری بھی رکھ پائیں گے یا نہیں۔

گوادر کی بندرگاہ کا انتظامی معاہدہ ایک نیا رخ اختیار کرتا جا رہا ہے خدا جانے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔