working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ایک نئی تکون کا ظہور
اداریہ

چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہو کر اپنی مسندِ جلیلہ پر سرفراز ہو چکے ہیں۔ ان کی بحالی کی تحریک نے پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ اس کو صرف ایک آمروقت کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کرنے والے کی داستاں سمجھا جائے اور نہ ہی اس کو کسی میثاق کے پس منظر میں دیکھا جائے بلکہ اس کو پاکستان کے عوام کی بے مثال بیداری سے تعبیر کیا جانا چاہے۔

در حقیقت ایک چیز جو اس تحریک کے بعد بہت واضح ہو کر ابھری ہے وہ عوامی شعور ہے جو اب ذلت ، جہالت، گمراہیوں اور تاریکیوں سے نکل کر ''انفارمیشن ہائی وے'' پر آچکا ہے جہاں بہت ساری معلومات میں اسے سچ کشید کرنے کا گر مل گیا ہے۔ اب اسے محض فرضی نعروں، نام نہاد فلسفوں، فرقے اور لسانیت کے طلسم ہوش ربا اور سیاست کی الف لیلوی شخصیتوں کے داموں میں پھنسایا نہیں جاسکتا۔ اب وہ آزاد ہے ،اسے اپنے اچھے اور برے کی تمیز مل گئی ہے ۔ اسے یہ بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ حقیقی جمہور کسے کہتے ہیں۔اس تحریک میں وکلاء ، سول سوسائٹی اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا اسے سنہری حروف سے لکھا جانا چاہئے۔

جدید جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر عناصر بھی حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جن کو سیاسیات کی اصطلاح میں ''پریشر گروپ'' کہا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی ترجیحات اور منشور ہوتے ہیں۔بعض اوقات ایسا مقام بھی آجاتا ہے جہاں کوئی اہم ایشو ان کی ترجیحات سے میل نہیں کھاتا ایسے میں عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ گروپ سامنے آتے ہیں اور وہ حکومت پر دبائو بڑھاتے ہیں کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ان گروپوں کا کردار بھی جمہوریت کا جزو لاینفک ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل یہ گروپ پنپ نہیں سکا تھا۔ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں یہ گروپ نہ صرف واضح طور پر سامنے آیا بلکہ اس نے اپنی حیثیت بھی منوا لی۔ اس گروپ کی بنت میں وکلاء ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی ایک مضبوط تکون شامل ہے۔ بلاشبہ اس کامیاب تحریک کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل کے پاکستان میں اس تکون کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوگا۔ 70 کی دہائی میں ایم آر ڈی جیسی بڑی تحریکیں بھی اس لئے ناکام ہو گئیں کہ انہیں اس طرح کی عوامی تائید و حمایت حاصل نہیں تھی ۔ اگر اس وقت بھی اس طرح کی کوئی مضبوط تکون معرض وجود میں آجاتی تو بعد کے حالات بہت مختلف ہوتے۔

آج کا پاکستان اپنی تاریخ کے سنگین چیلنجوںسے نبرد آزما ہے۔ دہشت گردی، سیاسی افراتفری اور معاشی عدم استحکام نے اس کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ طوفان بلا ابھی تھما تو نہیں مگر عدالتی بحران کے حل ہوجانے سے ریاستی اداروں نے مضبوطی پکڑی ہے، آزاد اور خود مختار عدلیہ ریاستی استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ''ن'' اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مل کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے جہاں آنے والے کل میں اس طرح کے بحران پیدا نہ ہو سکیں۔ پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بڑی سیکولر جماعت ہے جس کی فعالیت پاکستان کے لیے ناگزیر ہے ۔ نواز شریف بھی ایک کرشماتی رہنما کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ عدالتی بحران کے دوران دونوں جماعتوں میں تلخی بڑھی تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اب ایک بار پھر دونوں جماعتیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے کی طرف دیکھ رہی ہیں، اپنی اپنی ذات سے بڑھ کر پاکستان کا مستقبل دیکھ رہی ہیں اور انہیں ایسا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ آج ان کی صفوں کے باہر ایک ایسی مضبوط تکون موجود ہے جو حالات کو ڈی ٹریک ہونے نہیں دے گی اور جس کا کردار محض مشاہداتی نہیں بلکہ ہدایتی بھی ہے۔ ہم وکلائ، سول سوسائٹی اور میڈیا پر مبنی اس نئی تکون کے ظہور کو پاکستان کے شاندار مستقبل کی ضمانت سمجھتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس توقع کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس تکون کو اپنی صفوں میں جہاں اتحاد برقرار رکھنا ہے وہاں خود احتسابی بھی کرنی ہے تاکہ انگلیاں اٹھانے والوں پر دوسروں کی انگلیاں نہ اٹھ سکیں۔

مدیر