working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانوی نژاد پاکستانی اور امریکہ کی تشویش
مجتبیٰ محمدراٹھور

امریکی جاسوس ادارے سی آئی اے نے صدر باراک اوبامہ کو خبردار کیا ہے کہ برطانوی نژاد پاکستانی دہشت گرد امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والے پاکستانی جو برطانیہ کی شہریت رکھتے ہیں، وہ برطانویوں کو حاصل ویزہ استثنیٰ پروگرام کے تحت امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کے پاکستانی جہادی کالعدم گروپس، لشکرِ طیبہ، جیش محمد وغیرہ سے قریبی تعلقات ہیں جو امریکہ میں نائن الیون جیسے ایک اور دہشت گرد حملے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق اہل کار بروس رائڈل نے ٹیلی گراف کو انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اٹھارہ ماہ سے برطانیہ میں جاسوسی کے ایک خفیہ آپریشن پر مامور ہے۔ اور اس کے لیے انھیں برطانیہ کے خفیہ ادارے ایم آئی 5 سے بھی قریبی تعاون حاصل ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی برادری بھی ان سے تعاون کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں ان جہادی گروپس کے حامیوںکی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو امریکہ اور برطانیہ کے لیے القاعدہ کی طرح ہی بڑا خطرہ ہیں اور برطانیہ میں موجود یہ پاکستانی برادری شمالی امریکہ میں دہشت گرد حملوں کے لیے القاعدہ کا بہترین آلۂ کار ثابت ہو سکتی ہے۔ بمبئی حملوں کے بعد امریکی اور برطانوی خفیہ ادارے لشکر طیبہ کو بھی القاعدہ کی طرح دونوں ممالک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ جس کے پیشِ نظر انھوں نے برطانیہ میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کر دیا ہے تاکہ وہ ایسے افراد پر نظر رکھ سکیں جو مستقبل میں القاعدہ کا مہرہ بن سکتے ہیں۔

اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور برطانوی نژاد پاکستانیوں کے مذہبی و سیاسی رہنمائوں اور تنظیموں نے سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی کس طرح تعلیم و تربیت کریں کہ وہ ان انتہا پسند گروپس کے نظریات سے اپنے آپ کو دور رکھ سکیں۔ اس کے لیے مختلف تنظیموں نے لائحۂ عمل ترتیب دے دیا ہے جس کے مطابق مختلف پروگراموں کے ذریعے برطانوی نژاد پاکستانیوں میں اس شعور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ملک برطانیہ کے اندر کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں جو مستقبل میں تمام پاکستانی برادری کے لیے اور ان کے اپنے ملک برطانیہ کے لیے خطرے کا باعث بنے۔

اگرچہ اب بھی برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کا ایک حلقہ اس رپورٹ کو من گھڑت قرار دیتا ہے۔ اور اسے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دے رہا ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ماضی میں برطانوی نژاد پاکستانی اپنے آپ کو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھ سکے ہیں یا نہیں۔ نائن الیون کے بعد برطانیہ میں ہونے والی دہشت گردی کے جتنے واقعات سامنے آئے ہیں چاہے وہ 7/7 کا واقعہ ہو یا طیارہ سازش کیس ہو۔ان تمام واقعات کے مبینہ ملزموں میں برطانوی نژاد پاکستانیوں کے نام آتے رہے ہیں اور ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے گروپس سے ثابت بھی ہوتا رہا ہے(١)۔ اس بارے میں ایک برطانوی مسلم سکالر کے بقول ان انتہا پسند نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جوپاکستان کے جہادی کالعدم گروپس سے منسلک ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ لڑی جارہی ہے اس کے براہِ راست اثرات نوجوانوں پر پڑ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مسلمان نوجوانوں کے دل میں امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں کے خلاف نفرت پھیلتی جا رہی ہے۔ اور اس نفرت کا فائدہ القاعدہ اور اس سے منسلکہ مذہبی تنظیمیں آسانی سے اٹھا سکتی ہیں۔ چونکہ اس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے انتہائی آسان ہو چکے ہیں۔ اس لیے امریکی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کو رد کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس کے لیے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ برطانیہ کے اندر رہتے ہوئے انھیں کونسے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن کی بنا پر حکومتِ برطانیہ انھیں دہشت گردی کے واقعات سے مستثنیٰ قرار دے۔ کیونکہ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ چند سادہ لوح نوجوان کسی عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کسی ایسے گروہ کے ساتھ لگ جاتے ہیں جو انھیں جہاد کے نام پر ورغلا کر دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں۔ انھیں انتہا پسند بنتے ہیں اور پھر وہ اپنے ملک اور اپنے ہی بھائیوں کے خلاف بھی لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ نوجوان اپنے مستقبل سے لاپروا ہوتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی تاریک راہوں میں ڈالے جاتے ہیں جہاں سے نکلتے نکلتے یہ اپنی پوری زندگی صرف کر ڈالتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس کا براہ راست نشانہ مسلمان کیوں بن رہے ہیں۔ کیا یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش ہے یا مسلمان خود انہیں موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ انہیں دہشت گرد قرار دیں، نائن الیون ہو یا 7/7 کے واقعات، ان کی تحقیق سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان ان واقعات میں براہ راست ملوث ہیں۔ تو کیا اسلام نے ایسے حملوں کی اجازت دی ہے ؟ اور کیا ان حملوں کو جہاد کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ایسا تونہ ہمیں اسلام کی تاریخ میں جہاد نظر آتا ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث ہمیں ایسے جہاد کی تعلم دیتا ہے کہ جسکے بعد مسلمان مزید زمانے میں رسوا ہوجائیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی چاہے وہ برطانوی نژاد ہیں یا پاکستانی نژاد وہ اب برطانیہ کے مستقل شہری بن چکے ہیں انکا مستقبل اب برطانیہ سے وابستہ ہے۔ انہیں اب ہر اس رپورٹ کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا جس سے انکے مفادات کو براہ راست نقصان پہنچ رہا ہو اور ایسے واقعات کے تدارک کی طرف مائل ہونا نہ صرف برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے لئے معاشی نقصان کا بعث بنے گا بلکہ ان سے وابستہ ہزارون افراد جو پاکستان میں مقیم ہیں انکے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوگا۔ امریکہ کے خفیہ اداروں کی رپورٹ ہو یا برطانوی خفیہ اداروں کی ، اس سے قطع نظر وہاں کے مقیم پاکستانی نژاد مسلمان بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انکے نوجوان آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اور وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرتے کہ پاکستان میں قائم تمام جہادی اور مذہبی تنظیموں کا برطانیہ میںکسی نہ کسی حوالے سے رابطہ رہتا ہے۔ تو پھر یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ایسی تنظیمیں جنکا تعلق براہ راست القاعدہ سے ہے ۔ وہ برطانیہ کی سر زمین کو دہشت گرد حملوں کے لئے نہ صرف استعمال کرسکتی ہیں بلکہ اپنا مضبوط نیٹ ورک بھی بنا سکتی ہیں۔ کیونکہ کسی بھی تنظیم کے لئے افرادی قوت اور وسائل کا ہونا اسکے ایجنڈے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لئے برطانوی نژاد پاکستانیوں کو اپنے اندر مثبت سوچ لانا ہوگی اور اپنے نوجوانوں کی ایسی ڈگر پر تربیت کرنا ہوگی کہ وہ مستقبل میں اپنے اور اپنے خاندان کا سہارا بن سکیں۔ اور اپنے ملک کے لئے زرمبادلہ بھیج کر اسکی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوں۔