working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میںانسدادِ ہشت گردی کے قوانین کا ارتقا
صبا نور

خلاصہ
قانون ۔۔۔ زندگی کو محفوظ تر بنانے کا ضابطہ ہے جس کو ریاستیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں بسنے والے شہریوں پر لاگو کرتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے قوانین بھی اسی ضابطے میں آتے ہیں ۔جن کو ممالک اس لیے اپناتے ہیں کہ ان کی بدولت وہ لوگوں کو ایسے اعمال کرنے سے روک سکیں جن کی بدولت جارحیت، فساد اور دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بیشتر خلاف دہشت گردی قوانین پارلیمنٹ کی غیرموجودگی میں بنائے گئے۔ ان قوانین کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ ١٩٤٩ء سے چل رہا ہے۔ جب نااہلی کا قانون آیا ۔ جس کو حکومت نے اپنی مخالف سیاسی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ جوں جوں حالات بدلے سیاسی تشدد مذہبی منافرت اور لسانی فسادات میں بدلتا گیا۔ اور آہستہ آہستہ مختلف عسکری تنظیموں کے وجود اور ان کی شدت پسند فکر کے باعث دہشت گردی کی شکل اختیار کر گیا۔ ان تنظیموں نے مختلف حربے اپنائے۔

جس طرح حالات بدلتے رہے اسی طرح قوانین میں بھی تبدیلیاں آتی رہیں او رہر گورنمنٹ نے اپنے اپنے ادوار میں دہشت گروں کو سزا کے خوف کے ذریعے روکنا چاہا اور اس کے لیے قوانین بنائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ قوانین میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا لفظ استعمال کیا اور اس سے متعلقہ قوانین بنائے۔ ساتھ ہی خصوصی عدالتیں بھی بنائیں جن میں ایسے کیسوں کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن نواز شریف وہ پہلے پالیسی میکر ہیں جنہوں نے ١٩٩٧ء میں اینٹی ٹیررزم ایکٹ ١٩٩٧ء بنایا اور اس کو ملک میں نافذ کیا اور اسی قانون کو آگے آنے والی … حکومتوں نے مزید ترامیم کر کے ملک میں نافذ کیا اور دہشت گردی کو روکنے کے لے استعمال کیا۔

پاکستان نے ٢٠٠٧ء میں Cyber Terrorism کو روکنے کے لیے قوانین بنائے۔ اس قانون کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کی بدولت دنیا کے کسی کونے میں موجود لوگوں کو اس عمل سے روکا جائے کہ جن سے وہ پاکستان میں کام کرنے والے کمپیوٹرز اور نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ پاکستان میں ''Anti-Terrorism Laws'' دہشت گردی کے عوامل کو بھرپور انداز میں احاطہ کرتے ہیں لیکن تاحال ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان کے فوائد حاصل نہیں کیے جا سکے۔

Introduction
امریکہ میں 9/11 کو ہونے والے دہشت گردی کے واقعے نے پوری دنیا کو دہشت گردی کے مسئلہ اور اس کی سنگینی سے آشنا کروایا اور اسی واقعے نے تمام ممالک کو اس بات کی یاددہانی کروائی کہ وہ ملک کے اندر اور باہر ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لیے خلاف دہشت گردی قوانین اور حکمت عملی اپنائیں جن کی بدولت دہشت گردوں کو روکا جا سکے۔

پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے اس پس منظر میں اپنے قوانین میں سزاؤں کا اضافہ کیا اور دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش کی۔ تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں تھی پاکستان میں شروع ہی سے حالات کے ساتھ ساتھ بدلنے والے جرائم کی وجہ سے قوانین میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں۔ شبانہ فیاض نے اپنے تحقیقی مقالے بعنوان Raponding to Terrorism: Pakistan's Anti-Terism Laws میں کہا:
خلاف دہشت گردی قانون دراصل نیا ایڈمنسٹریٹو آئینی، جرائم، امیگریشن اور ملٹری قوانین کے ساتھ ساتھ ان تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے جو اندرونی اور بیرونی، عسکری فسادات جن کو ممالک(ریاستیں) اکیلی تجزیہ نہیں کر سکتیں، سے متعلق ہوتا ہے جس پر ممالک کے سیاسی طرزِ عمل، سماجی اور معاشی حالات کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔''

پاکستان کی ہر حکومت نے دہشت گردی کو روکنے کے لیے قوانین بنائے تاہم ان پر عمل اس رفتار سے نہ ہو سکا جس رفتار سے ان کو بنایا گیا۔

مختلف ادوار میں ہونے والی انسداد دہشت گردی قانون سازی
دہشت گردی کو روکنے کے لیے بنائے جانے والے قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ہم ہر دور حکومت کو ١٩٤٧ء سے لے کر ٢٠٠٨ء تک مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں جن کی بدولت دہشت گردی سے متعلق ہونے والی قانون سازی ہمارے سامنے آسکے۔

١٩٥٩ء ـ ١٩٤٧ء ارتقائی جائزہ
یہ وہ دور تھا جب حکومت کو سیاسی اتار چڑھاؤ کا سامنا تھا۔ جس کی ایک اہم وجہ آئین کا نہ ہونا تھا اور اسی وجہ سے سیاسی ڈھانچہ نہ ہونے کی بناء پر پورے ملک میں سیاسی عمل کچھ ٹھیک نہ تھا جس کی بدولت مختلف لوگوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قوانین کو استعمال کیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے سیاسی انتشار کو روکنے کے لیے ''One Unit'' کا استعمال کیا۔ اور ساتھ ہی Public and Representative Offce (Disqualification) Act (PRODA), 1949 نافذ کیا۔ اس لاء کی بدولت سیاسی آزادی کو سلب کر لیا گیا۔ جس پر لوگوں نے بڑی تعداد میں تنقید کی کیونکہ اس کی بدولت وہ قوانین بھی نافذ کر دیئے گئے جو کہ برطانوی حکومت نے برصغیر میں استعمال کیے تھے جیسا کہ پانچ سے زیادہ لوگ کسی ایک جگہ پر کھڑے نہیں ہو سکتے وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ ''Misconduct'' کا لفظ استعمال کر کے سیاسی حقوق کو دبا دیا گیا۔

پروڈا ایکٹ ١٩٤٩کے اہم پہلو
''یہ قانون اس مقصد کے لیے بنایا گیا تاکہ سرکاری عہدوں کا غلط استعمال روکا جائے اور ایسے لوگوں کو باز رکھا جائے جو کہ Misconduct کے زمرے میں آنے والے کسی بھی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ یا ان کا کوئی عمل Misconduct کی وجہ بنتا ہے۔''

یہ قانون، قانون ساز اسمبلی نے پاس کیا اور اس کو پورے ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم جو کہ چوری کرتا ہے، کرپشن کرتا ہے، سفارش کرتا ہے، اقربا پروری کرتا ہے، عوام کے پیسے کا غلط استعمال کرتا ہے، اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے پیسہ جمع کرتا ہے۔ دس سال تک کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے ناہل تصور ہو گا۔ اس سیکشن ٣ (١) میں۔ تاہم اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ اس قسم کے تمام کیسز کو ہائی کورٹ کے دو یا دو سے زیادہ ججز کے سامنے پیش کیا جائے گا جن کا تقرر گورنر یا گورنر جنرل کرے گا(Section 3(2))۔ ایسا شخص جو کہ اس قسم کے جرائم میں ملوث ہو گیا اس کو اسی وقت اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا (Section4)۔ یہ قانون حکومت کو اس بات کی بھی اجازت دیتا تھا کہ وہ جب چاہے کسی بھی شخص کو نااہل قرار دیتے ہوئے 10 سال کے لیے اس کے عہدے سے ہٹا دے۔ Section 3(1)) اور اس زمرے میں گورنر جنرل کے اختیارات کو حتمی تصور کیا جائے گا اور کسی قسم کی اپیل کا حق نہیں ہو گا۔

اسی دورانیے میں حکومت نے برطانوی حکومت کا Code of Criminal Procedure لاء بھی استعمال کیا جو کہ برصغیر میں ریاست کے خلاف ہونے والے عوامل کو روکنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

اس کے بعد ایوب خان کا دور آتا ہے جنہوں نے ملٹری کا استعمال کیا اور اس ملٹری راج میں ایسے قوانین بھی بنائے جن کی بدولت بیشتر سماجی حقوق اور میڈیا کی آزادی کو محدود کر دیا گیا۔

١٩٧١ئـ ١٩٦٠ء ایوب خان اور جنرل یحیی کے دور حکومت
جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کیا۔ ان کے دور میں لوگوں کو حاصل سیاسی اختیارات، اخبارات کی آزادی اور عام شہریوں کے اختیارات کو نشانہ بنایا گیا اور اس مقصد کے لیے مجرموں کی سزاؤں میں حد درجہ اضافہ کر دیاگیا۔ انہوںنے ملٹری کورٹس بنائے اور Security of Pakistan Act, 1952 ٢٦ نومبر ١٩٥٨ء کو نافذ کر دیا۔ انہوں نے حزب اختلاف کے اراکین کو (PRODA) 1959کے تحت اور EBDO کے تحت چارج کیا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے Defence of Pakistan Ordinance, 1955 اور Defence of Pakistan Rules, 1965 کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں (Activities) کو بھی محدود کر دیا۔

The Security of Pakistan Act, 1952 کے اہم نکات
''یہ قانون ٥ مئی ١٩٥٢ء کو اس مقصد کے لیے نافذ کیا گیا کہ اس کی بدولت ایسے لوگوں کو روکا جائے جو کہ پاکستان کے دفاع، اور اس سے متصلات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے ہیں۔'' (Section 1 (1, 2))

یہ قانون وفاقی گورنمنٹ کو اس بات کی مکمل اجازت دیتا تھا کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کی نقل و حرکت پر نظر رکھے اور اس نظر بندی کے آرڈر جاری کرتے ساتھ ہی اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا گیا متعلقہ آفیسر کو اس بات کا حق وفاقی حکومت کی جانب سے دیا گیا کہ وہ ایسے شخص کو اس علاقے سے نکال دے۔ (Section 3 (3)) وفاقی حکومت کو مکمل اختیار تھا کہ وہ کسی گرفتار شخص کو کسی وجہ بغیر کسی وجہ کے آزاد کر دے اور جب چاہے دوبارہ گرفتار کرے (اس کی آزادی کے آرڈرز کو منسوخ کر دے) (Section 3-A (1))

اس قانون کے تحت فیڈرل گورنمنٹ اور صوبائی حکومتوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی شخص کو یہ آرڈر دے سکتے تھے کہ وہ اپنی تصاویر، فنگر پرنٹس، لکھائی اور دستخط متعلقہ آفیسر کو جمع کروائے۔ تاہم اس لاء کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو چھ مہینے کی قید یا جرمانہ یا دونوں دی جا سکتی ہیں۔ (Section 4 (2))

١٩٧٧ئـ ١٩٧٢ء بھٹو کا دورِ حکومت
١٩٧١ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی منتخب شدہ جمہوری حکومت کی بنیاد رکھی۔ تاہم ١٩٧٠ء میں بھٹو کی حکومت کو سرحد اور بلوچستان میں مزاحمتی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے انہوں نے پہلی مرتبہ لفظ دہشت گرد کا استعمال قوانین میں کیا اور ''خاص عدالتوں'' کا ذکر کیا جن میں ایسے کیسز کو نمٹایا گیا جو کہ روز مرہ کے جرائم کے زمرے میں آتے ہوں۔ آرمز ایکٹ ١٨٧٨، مغربی پاکستان آرمز آرڈیننس 1965 ء ریلوے ایکٹ 1890 ء ، ٹیلی گراف ایکٹ 1885ء اور 1937 ء ، 1908 ء اور اینٹی نیشنل ایکٹیویٹی ایکٹ 1974 ء کو اسی زمرے میں لیا گیا ۔

انہوںنے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد Supprior of Terrorist Activities (Special Contry) Act 1975 نافذ کیا۔ بعد ازاں دہشت گردی کے زمرے کو پھیلایا گیا کیونکہ اس کاحدف سیاسی جماعتیں تھیں ۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے رہنما عبد الولی خان کو گرفتار کر لیا گیا جن کا مقدمہ خصوصی عدالتوں میں چلا۔

The suppervision of Terrorist Activities
خصوصی عدالتیں 1975 کے ایکٹ کے اہم پہلو
''اس قانون کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے تخریب کاری، بربادی (توڑپھوڑ) اور دہشت گردی کو ملک میں پھیلنے سے روکا جائے۔''

اس قانون کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ملک میںجہاں چاہیں Special Coursts تعمیر کریں جن میں ان عوامل سے متعلقہ کیسز کو ٹرائل کیا جائے۔ (Section 3 (1)) مزید یہ کہ ان کورٹس میں ججز کا تقرر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے کیا جائے گا اور کسی دوسرے شخص سے اس کے متعلق رائے نہیں لی جائے گی۔ اور اس قانون کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ اور صوبائی حکومتوں کو بھی یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اس خاص عدالتوں میں خاص ججز کا تقرر کریں (Section 3 (2, 3)) اسی قانون کے مطابق متعلقہ پارٹی کی آسانی کے لیے یہ اختیار دیا گیا کہ کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ (Section 4) اس تمام عمل کے ساتھ ساتھ ان خاص عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیں گئی جیسا کہ یہ اپنے اختیارات میں رہتے ہوئے کسی بھی شخص کو جو عدالت کی توہین کرنے کا مرتکب ہوتا سزا دے سکتیں تھیں (Section 6)۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قانون کے تحت ایسے افراد کو اپیل کا حق دیا گیا جن کو کسی کیس میں ملوث پا کر سزا دی جا چکی ہوتی تاہم یہ حق اس مطلقہ شخص کو فیصلے کے آنے کے بعد ٣٠ دن کے اندر اندر ہائی کورٹ میں درج کروانا ہوتا تھا۔ اس قانون کے تحت ملزم کو خاص رعایت دی گئی اور اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ کسی ایسے شخص کی غیرموجودگی میں جس پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ہے اس کا کیس تب تک کورٹ میں نہیں چلے گا جب تک کہ وہ تین روزناموں میں چھپ نہ جائے جن میں سے دو روزنامے اُردو میں ہوں تاہم ایسا کرنے کے بعد ہی اس شخص کا کیس باقاعدہ طور پر کورٹ میں چلے گا لیکن ساتھ ہی گورنمنٹ کی طرف سے ملزم کے دفاع کے لیے بھی ایک وکیل کو منتخب کیا جائے گا۔

بہرحال ١٩٧٥ء کے قانون کے بننے اور اس کے نفاذ کے بعد بھی ١٩٩٧ء اینٹی ٹیررزم ایکٹ کے آنے تک اس قانون میں پے درپے تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ جن کی وجہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید تھی۔ تاہم قانون میں تبدیلی کا مقصد یہ بھی تھا کہ حالات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عوامل میں ہونے والی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قوانین کو بھی تبدیل کیا جائے۔

١٩٨٨ئـ ١٩٧٨ء جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت
جنرل ضیاء الحق کے فوجی دور میں حالات کے پیشِ نظر دو مختصراً بلکہ بے ضرر سی تبدیلیاں کی گئیں جن میں سے ایک ١٩٨٤ء میں ہوتی جس میں ضیاء الحق نے اس بات کو یقینی بنایا کہ خصوصی عدالتیں (Special Courts) صرف ایسے ہی اشخاص کے خلاف کیس کی سماعت کریں جنہوں نے درحقیقت کوئی ایسا عمل کیا جس کے تحت وہ ان عدالتوں میں پیش کیے گئے ہیں۔

١٩٩٩ئـ ١٩٨٨ء جمہوری دور
جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد غلام محمد اسحق خان نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور ملک میں الیکشن کروائے جس کے نتیجہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو یکم دسمبر ١٩٨٨ء کو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ ان کی حکومت نے آتے ہی دہشت گردی کو روکنے کے لیے Supression of Terrorist Activities Act, 1975 میں تبدیل کرتے ہوئے ''Terrorist Activities'' کے تحت جرم کی ٹرم مزید تشریح کی اور اس زمرے میں ''پاکستان آرمز آرڈینس'' (Pakistan Arms Ordinance, 1965) کے سیکشن 13-A اور 13-B کے تحت اضافہ کر دیا۔

محترمہ کے دورِ حکومت میں حیدر آباد اور کراچی میں پے در پے فسادات جنم لینے لگے اور ١٩٨٩ء میں دہشت گردوں نے پارلیمنٹ کو بھی ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی۔ اسی صورتِ حال کو روکنے کے لیے محترمہ نے ١٩٧٥ء کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ایسے تمام عوامل جو کہ Pakistan Penal Code Section 124-A کے تحت ''Scheduled Offences'' میں شمار ہوتے تھے شامل کر دئیے گئے۔ تاہم بگڑے ہوئے حالات کے پیش نظر ١٩٩٠ء میں اسحاق خان نے حکومت توڑ دی اور دوبارہ سے الیکشن کروائے گئے۔

نواز شریف کا دورِ حکومت
نواز شریف ٢٩ اکتوبر ١٩٩٠ء کو ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی جیسا کہ اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر علاقوں لاہور، جھنگ اور کراچی میں مختلف بم دھماکے ہو رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت اور نسلی فسادات بھی جاری تھے خاص کر کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ جو کہ اب (متحدہ قومی موومنٹ) نے حکومت کو کمزور کرنے اور توڑنے کے لیے خاص شہری علاقوں کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ حکومت نے امن و امان کو قائم کرنے کے لیے ملک کے بیشتر علاقوں میں کرفیو کا نفاذ کیا اور بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو پکڑا اور اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے متعدد قوانین کا سہارا لیا جن میں خصوصی عدالتیں، سپیڈی ٹرائل آرڈیننس1987 ، دہشت گردی سے متاثر علاقوں میں خصوصی عدالتوں کا آرڈیننس مجریہ ١٩٩٠ء اور ١٩٩٢ء شامل ہے، کا استعمال کیا ۔

ملک میں پھیلتے ہوئے فرقہ ورانہ فسادات نے حکومت کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ جلد از جلد ان فسادات کو روکے اور امن و امان قائم کرے۔ تاہم پولیس نے اوپر نیچے کئی افراد کو گرفتار کر لیا جن کے خلاف وہ خود اور Investigation Agencies کوئی ثبوت بھی کورٹ میں ثابت نہ کر سکی جس کے بعد ملک میں بڑھتی ہوئی بد امنی کو روکنے اور دہشت گردوں کو عوام کے سامنے پھانسی دینے کے لیے ١٩٩٧ء میں نواز شریف نےAnti-Terrorism Act, 1997 بنایا جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں امن و امان کی آئیڈیل صورتِ حال قائم کرنا تھا ۔

نواز شریف اور ان کے رفقاء نے انصاف کے لیے متبادل نظام کی تائید کی جس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور پیپلز پارٹی کے جانے مانے نمائندوں کے خلاف سیاسی دشمنی کے تحت ان کے کیسز ان نئی عدالتوں میں منتقل کر دئیے۔''

انسداد دہشت گردی ایکٹ ١٩٩٧ء کے اہم پہلو
''اس قانون کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف حفاظتی اقدامات کیے جائیں اور ساتھ ہی ایسے کیسز جو اس زمرے میں آتے ہیں ان کی جلد از جلد سماعت کی جائیں۔''

اس قانون میں دہشت گردی کی ایک لمبی چوڑی تعریف پیش کی جس کے تحت:
''کوئی بھی شخص جو لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرے اور لوگوں میں تنفر کو اجاگر کرے یا اس کے ذریعے لوگوں کو جو کسی خاص فرقے سے تعلق رکھتے ہوں مشتعل کرے۔ یا کسی ایسے عمل کا مرتکب ہو جیسا کہ بم دھماکہ ،ڈائنامیٹس اور دوسرے دھماکہ خیز (Explosives)، اور آگ لگانے والے آلہ جات کو استعمال کرتا ہے۔ یا کسی اور قسم کے اسلحہ کا استعمال کرے یا کسی قسم کے زہر یا کیمیکل گیسوں کا استعمال کرے جس سے کسی شخص کی موت واقع ہوتی ہے۔ یا وہ زخمی ہوتا ہے یا زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں یا اس کے ذریعے ان کو مالی نقصان ہوتا ہے۔ یا اس کے ذریعے کوئی ایسا کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے روکنے سے عوام کی زندگی کو خطرہ ہویا سرکاری ملازمین کو ان کے فرائض سرانجام دینے میں مشکلات ہوں دہشت گردی میں شامل ہوں گے۔''

اس قانون کے مطابق کوئی بھی صوبائی حکومت اپنے صوبے میں امن و امان کو قائم کرنے کے لیے Civilian یا ملٹری فوج کو بلانے کے لیے وفاقی حکومت سے درخواست کر سکتی ہے اور وفاقی حکومت یہ جائزہ لیتے ہوئے کہ آیا اس جگہ کون سی فورس کی ضرورت ہے۔ اپنی مرضی سے متعلقہ اداروں کو وہاں تعینات کر سکتی ہے۔ (Section 4) یہ افواج اس علاقے میں ضرورت کے مطابق، کافی وارننگ دینے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرنے کی مجاز ہوں گی اور خاص طور پر فوجی اور نیم فوجی اداروں کو ایک پولیس مین کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔(Section 5 (1))

اس قانون کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ مکمل اختیارات دئیے گئے کہ وہ کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں اور کسی بھی گھر کو بغیر وارنٹ کے چیک کر سکتے تھے۔ (Section 5 (2) (ii Piii)) یہی قانون ملٹری اور سول فورسز کو بھی اس بات کی اجازت دیتا تھا کہ وہ کسی بھی عمارت میں ٹھوس وجوہات کی بناء پر کہ وہاں پر کوئی ایسا شخص موجود ہے یا کچھ ایسا رکھا ہوا مواد، یا ریکارڈنگ اور کچھ دوسرا مواد ہے جو کہ لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ (Section 10)

اس قانون کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے افرادکے ایسے عمل پر کوئی بھی شک نہیں کرے گا جو انہوں نے اچھی نیت سے کیے ہوں۔ (Section 39) تاہم تحقیقی آفیسر کو اپنی جانچ پڑتال سات دن کے اندر اندر پوری کرنی ہو گی اور اگر کوئی بھی آفیسر اپنے کام میں غلط بیان کرتا ہوا پایا گیا تو اس کو حد ایک سال کی قید کی سزا سنائی جائے گی۔ (Section 19, 19(2), 27)

اسی قانون نے سپیشل کورٹس کو یہ اختیار دیا کہ وہ کسی بھی ملزم کو جو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہویاگرفتاری نہ ہو سکی ہو تو اس کا کیس اس کی غیرموجودگی میں وکیل دفاع مقرر کر کے سات دن کے اندر اندر کر سکتی ہے۔ (Section 19)

تاہم اس قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی شخص کی موت کا باعث بنتا ہے تو لازماً اس کو بھی موت کی ہی سزا ملے گی یا پھرکم از کم سات سال کی قید اور یا پھر عمرقید اور جرمانہ (Section 7) کی سزا ہو گی ۔اس قانون نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ اگر کوئی شخص کسی فرقہ وارانہ نفرت کو پھیلانے میں ملوث پایا گیا تو اس کو سات سال قید بمعہ جرمانہ دی جائے گی۔ (Section 9) اور جو بھی شخص اس قانون کے تحت گرفتار ہوا ہے اس کا مقدمہ صرف خصوصی عدالتوںمیں چلے گا۔ (Section 15 (2)) اس قانون میںسیکشن 25 کے تحت اپیل کا حق بھی دیا گیا۔ اس قانون نے ججز کو اختیار دیا کہ وہ مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دیں اور اگر وہ کسی کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے کم سزائیں دیتے ہیں تو ایسے میں وہ وجہ بھی تحریر کریں کہ انہوں نے کم سزا کیوں دی؟ (Section 20)

اس قانون میں سپیشل کورٹس کے وقار کو بحال رکھنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ اگر کوئی اس عدالت کی توہین کرے گا اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرے گا اس کو تقریباً چھ مہینے قید کی سزا یا جرمانہ کیا جائے گا۔ (Section 37) اس قانون کے تحت حکومتِ وقت کو یہ اختیار دیا کہ وہ جب چاہے کسی بیان کیے ہوئے ایسے عمل کو جو عمومی جرائم میں آتا ہے اس کو ختم کر دے۔ (Section 34) اور ایسا نوٹیفکیشن جاری کرے جس کی بدولت وہ Scheduled Offences کے زمرے میں آتے ہوں۔ (Section 35) اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت چاہے تو کسی بھی تنظیم کو غیرقانونی قرار دے سکتی ہے۔ (Section 40 (ii))

''اس قانون پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بڑی تنقید کی یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کو ''کالے قانون'' کا نام بھی دیا۔ مزید برآں جنرل جہانگیر کرامت نے اس قانون کو ایک ''اچھا قانون'' قرار دیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس کے غلط استعمال ہونے کے امکان کے بارے میں بھی خدشہ ظاہر کیا۔''

بہرحال ''محرم علی کیس بامقابلہ فیڈریشن آف پاکستان'' اس قانون کے لیے بہت اہم ثابت ہوا، جس کی بناء پر اس قانون میں ترامیم کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے اس قانون کے کچھ حصوں کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اس پر تین نکات اجاگر کیے:
١۔ متعلقہ عدالتوں کے جج الگ ہوں گے جن کی تعیناتی کا دورانیہ ہی بتایا جائے گا۔
٢۔ ان خاص عدالتوں کے پروسیجرل (Procedural) قوانین بھی دوسری عدالتوں کی طرح یا ان سے ملتے ہوئے ہونے چاہیے، جس میں شواہد(Rules of Evidence) بھی شامل ہوتے ہیں۔ وغیرہ۔
٣۔ ان خاص عدالتوں کے سنائے گئے فیصلے کے خلاف دوسری عدالتوں (جو آئین کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں) میں اپیل کا حق دیا جائے۔
نواز شریف کی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس قانون میں تبدیلیاں کرتے ہوئے ٢٤ اکتوبر ١٩٩٨ء کو اینٹی ٹیررزم (ترمیم شدہ) آرڈیننس ١٩٩٨ء جاری کیا۔

انسداد دہشت گردی ترمیم شدہ آرڈیننس ١٩٩٨ئ
اس نئے ترمیم شدہ قانون کے مطابق ججز کے دورانیے کو مختص کر دیا گیا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ ملٹری اور سول آرمز فورسز کسی بھی شخص پر شک کرنے اور کسی عمارت میں کوئی بھی عمل دخل کرنے سے پہلے لکھ کر وجہ بیان کریں گے۔ (Section 10) اس قانون کے مطابق یہ بھی کہا گیا کہ تمام ججز جو ''خاص عدالتوں'' میں تعینات کیے جائیں گے وہ چیف جسٹس کی اجازت سے دو سال کے لیے تعینات ہوں گے جن کو چیف جسٹس کے مشورے اور اجازت سے ہی نکالا جائے گا۔ (Section 7(2))

اس قانون نے ''خاص عدالتوں'' کو حاصل وہ اختیارات جن کی بدولت وہ کسی شخص کی غیرحاضری میں اس کا کیس ٹرائل کرنے کی مجاز تھی آڑے ہاتھوں لیا اور یہ واضح کیا کہ کسی بھی ملزم کے خلاف کیس کی سماعت سے پہلے اس کیس کو تین روزناموں میں شائع کیا جائے جو اُردو زبان میں ہو۔ قائم عدالت کیس کی سماعت سے پہلے اس شخص کے لیے ایک دفاعی وکیل بھی منتخب کرے اور اگر وہ شخص (Accussed) چاہے تو اس کو اجازت ہے کہ وہ اپنا دفاعی وکیل اپنی پسند سے مقرر کرے(Section 19) ۔مزید برآں اس آرڈیننس میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا کہ ایسا شخص جس کی اپیل التوا کا شکار ہے اس کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپیلٹ ٹربیونل میں جانے سے پہلے سات دن کے اندر اندر ہائی کورٹ میں اپیل درج کروائے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں درج کروائے (سیکشن 25) تاہم اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ خلاف دہشت گردی قانون کو پورا کرنے اور اس میں ضرورت کے مطابق نئے لاء (قانون) بنانے کا حق ہائی کورٹ کو دیا جاتا ہے۔ (سیکشن 35) ان کورٹس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے شخص کو جو عدالت کا وقار مجروح کرتا ہے اس کو چھ ماہ کی قید سنائے یا پھر اس پر جرمانہ عائد کرے لیکن ایسا کرنے کا اختیار تب ہی ہے جس سے عدالت کا وقار یا اس کے فیصلے کی توہین کی گئی ہو۔ (سیکشن37)

اس آرڈیننس نے ملزموں کے حقوق کی خوب اچھی طرح سے وضاحت کی لیکن اس قانون کے نافذ ہوتے ہی کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال خاصی بگڑ گئی اور لسانی قتلِ عام ہونے لگا۔ ساتھ ہی حکیم محمد سعید کو بھی قتل کر دیا گیا۔ یہ تمام صورتِ حال اس بات کی وجہ بنی کہ حکومت اس صوبے میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دے اور اسی وجہ سے ١٧ اکتوبر ١٩٩٨ء کو صوبہ سندھ میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس صوبے میں امن کی صورتِ حال بحال کرنے، افواج کو اس صوبے میں بھیجنے اور جمہوری حکومت کی مدد کرنے کے لیے پاکستان آرڈیننس (PAFO) نافذ کیا گیا۔
اس قانون کے تحت شہریوں کا ''خصوصی عدالتوں'' کے برعکس ''فوجی عدالتوں'' میں ٹرائل کیا گیا۔ اور ساتھ ہی ایک نئی اصطلاح "Civil Comotion"بھی متعارف کروائی گئی جس کے تحت ملزموں کو سات سال کی قید کی سزا سنائی جا سکتی تھی۔

سول کموشن کو ہم اس طرح سے بیان کر سکتے ہیں:
''سول کموشن کا مطلب ہے کہ ملک کے اندر فسادات اور قانون کی خلاف ورزی اور اس کو توڑنے ،بے جا اور غیرقانونی ہڑتالوں، گھیراؤ توڑ پھوڑ، گاڑیوں کو چھیننے اور چوری کرنے، سرکاری اور غیرسرکاری عمارتوں کو توڑنے پھوڑنے اور نقصان پہنچانے، بلا اشتعال فائرنگ کرنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے، بھتہ لینے اور غیرقانونی قبضہ کرنے، اور اشتعال انگیز موادچھاپنے اور لگانے اور دیواروں پر لکھنے، جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے اور جس کے ذریعے امن و امان متاثر ہوتا ہے دہشت گردی میں شامل ہوں گے ۔

اس اصطلاح کو انسانی حقوق کی تنظیموں، حزب اختلاف کی جماعتوں وکیلوں اور میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم ایک اور ''کیس لیاقت حسین بنام فیڈریشن آف پاکستان'' ٢٢ فروری ١٩٩٩ء کو اس آرڈیننس میں تبدیلی کی وجہ بنا اور سپریم کورٹ نے ان تمام شرائط کو رد کر دیا جن کی بناء پر گورنمنٹ اس قسم کے قوانین بنا سکتی تھی اور ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ کسی بھی شہری ملٹری عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جائے گا۔

عدالتوں کے وقت کو بچانے اور بہتر نتائج کے لیے سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک وقت میں ('' دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں'') ایک ہی کیس کو چلایا جائے گا۔

٢٧ اپریل ١٩٩٩ء کو حکومتِ پاکستان نے PAFO کو ختم کر دیا لیکن ''سول کموشن'' کی اصطلاح کو اینٹی ٹیررزم ایکٹ ١٩٩٧ء کا حصہ بنا دیا اور ١٩٩٩ء کے دوران اس ایکٹ جس میں بیشتر ترامیم کر دی گئیں جن میں دہشت گردی کے عوامل کا دائرہ کار مزید وسیع کر لیا گیا۔ جس کے مطابق ١٩٩٩ء کے آرڈیننس میں یہ طے پایا کہ کوئی بھی ملزم اپنی غیرموجودگی میں اپنی پسند کے وکیل کو اپنی مرضی سے نامزد نہیں کر سکتا (سیکشن 11-A)۔ اور تمام کیسز کو دوبارہ سے اینٹی ٹیررزم کورٹس میں بھیج دیا گیا۔ (سیکشن30 (A))

اسی قانون نے اس بات کو بھی واضح کیا تو اینٹی ٹیررزم ایکٹ ١٩٩٧ء کے بتائے ہوئے وہ (Schedule) (جن کو کرنے پر کسی کو بھی دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے) ان میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بیان کر دیا گیا کہ ''پاکستان آرمز آرڈیننس ١٩٦٥ء کے وہ تمام عوامل جو جرم کے زمرے میںآتے ہیں اینٹی ٹیررزم ایکٹ ١٩٩٧ء کے شیڈول آفینس میں شامل کیے جائیں گے۔

بلاشبہ نواز شریف حکومت کی جانب سے یہ آخری ترمیم ثابت ہوئی اور ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کر دی۔

٢٠٠٠ئـ ١٩٩٩ء جنرل مشرف کا دور
اقتدار میں آتے ہی جنرل مشرف نے پارلیمنٹ کو معطل کر دیا اور ملک میں پروویژنل کانسٹی ٹیوشن آرڈر (PCO) نمبر 1کا نفاذ کیا۔
ایک سابق جج سپریم کورٹ کے مطابق (جنہوں نے اپنے نام کو صیغہ راز میں رکھنے کو کہا):
''مشرف نے PCO کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے حکومت کو ختم کر دیا اور چیف ایگزیکٹو کے دفتر کو بند کروا دیا۔ تاہم حالات کے باعث دوسری پالیسی اپناتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ صدر محمد رفیق تارڑ کے اختیارات کو نہیں چھیڑیں گے لیکن PCO کے نفاذ کے بعد انہوں نے ٢٣ جنوری ٢٠٠٠ء کو صدارت کے فرائض بھی سنبھال لیے۔''
٢٠٠٠ء میں مشرف نے اینٹی ٹیررزم آرڈیننس ١٩٩٩ء کے سیکشن 18 اور 25 میں اپنی مرضی سے کچھ ترامیم کیں۔
مشرف نے ١٩٩٩ء کے آرڈیننس کو دو مرتبہ تبدیل کیا (دو مرتبہ ترامیم کیں) اور نئی دفعات بھی اس میں شامل کر دی جیساکہ:
''حملے (یا جارحیت) میں معاونت (سیکشن 120)۔ حملے کے ارتکاب کے منصوبے کا چھپانا (سیکشن 120)۔ ارتکابِ جرم کی مجرمانہ سازش، (ایسا جرم) جس کی سزا موت یا دو سال سے زائد قید ہو (سیکشن B-120)۔ پاکستان کے خلاف جنگ کا ارتکاب یا اس کی کوشش (سیکشن 121)۔ ریاست کے خلاف کسی جارحیت کے ارتکاب کی سازش (سیکشن 121)۔ جنگ کرنے کے ارادے سے اسلحہ اکٹھا کرنا (سیکشن 122)۔ یا ایسا کرنے والوں کی مدد کرنا(سیکشن 123 ) ۔اغوا (سیکشن 365)۔ ڈکیتی (کرنے کے) کے مقصد کے لیے اکٹھے ہونے والے پانچ یا زائد افراد میں سے (ایک) ہونا (سیکشن 402)۔ اور ہائی جیکنگ کے ارتکاب کی سازش (سیکشن B-402)کرنا۔

2000ء کے آرڈیننس کے تحت دو ''سپیشل کورٹس'' کو ایپلیٹ ٹرائبونل برائے اینٹی ٹیررزم کورٹ مہیا کیے گئے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ یہ کورٹس صوبے کے اندر کسی بھی کیس کو منتقل کر سکتے ہیں۔ اس آرڈیننس کو نواز شریف کے خلاف استعمال کیا گیا جیسا کہ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے جہاز کے مسافروں اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی زندگیوں کو خطرہ بنایا۔ اسی الزام کے پیشِ نظر اینٹی ٹیررزم کورٹ کراچی نے ٦ اپریل ٢٠٠٠ء کو نواز شریف کو عمرقید کی سزا سنائی۔ تاہم نواز شریف کو گورنمنٹ سے ڈیل کرتے ہوئے اور قریباً ٢٠ ملین روپے کا فائن لینے کے بعد جلاوطن کر دیا اور انہیں سعودی عرب بھیج دیا گیا۔

مذہبی فرقہ ورانہ فسادات، اور افغانستان میں طالبان کا ساتھ دینے (دوران طالبان حکومت) کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر اکیلا رہ گیا۔ بہرحال جنرل پرویز مشرف نے اس کیس کے بعد ملک کی سکیورٹی پالیسی کو دوبارہ سے ترتیب دینے کا فیصلہ کیا۔

اس کے لیے انہوں نے اینٹی ٹیررزم کورٹس کے قوانین میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کا سلسلہ بند کیا جا سکے۔ تاہم ٢٠٠١ء میں اینٹی ٹیررزم قوانین میں ترامیم کی دوسری بڑی وجہ انڈیا کی طرف سے کیا جانے والا پروپیگنڈا بھی تھا جس کے تحت انڈیا نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ سرحدپار دہشت گردی میں شامل ہے۔ اس تمام صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ایسے مضبوط اقدامات کرے جس کی بدولت دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے۔
جس کے نتیجے میں اینٹی ٹیررزم (ترمیم شدہ) آرڈیننس ٢٠٠١ء بنایا گیا۔

انسداد دہشت گردی (ترمیم شدہ) آرڈیننس ٢٠٠١ئ
اس قانون کے مطابق (Section 11-A )ایسی کوئی بھی تنظیم جو ''دہشت گردی'' میں ملوث پائی گئی ،دہشت گرد تنظیم کہلائے گی۔ اس کے مطابق (i) جو کوئی کسی بھی طرح کسی بھی قسم کی دہشت گردی (ii) مدد کرے یا ساتھ دے کسی ایسی تنظیم کا جو دہشت گردی میں ملوث ہو (iii) دہشت گردی کے لیے تیار ہو(iv) تعاون کرے یا حوصلہ افزائی کرے دہشت گردی کی (v) کسی بھی طرح سے نفرت آمیز احساسات کو اُبھارے یا فرقہ ورانہ تعصب کو پروان چڑھائے(vi) اس آرڈیننس نے وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی تنظیم کو بند کر سکتی ہے۔ مندرجہ ذیل وجوہات کی یقین دہانی پر (i) جب کوئی تنظیم دہشت گردی میں ملوث ہو (ii) ایک تنظیم جو دہشت گردی میں شریک تھی تشکیل دی گئی تھی ایک ہی نام پر اور جبکہ تنظیم جو پہلے شیڈول میں دی گئی ہے ایک مختلف نام پر (iii) پہلا شیڈول فیڈرل حکومت کی طرف سے قانون توڑنے والوں پر لاگو کرنے کے لیے دور رہ گیا (iv) اور واضح کیا جبکہ قانون توڑنے والوں سے متاثرہ تنظیموں کا ایک صحیح جائزہ لیا اور واضح کیا کہ ایسی تنظیمیں ٣٠دنوں کے اندر جواب دے سکتی ہیں اور حکومت فیڈرل کو جائزہ ایک درخواست جمع کروا سکتی ہیں۔

درخواست دینے والے کا موقف سننے کے بعد وفاقی حکومت کو ٩٠ دن معاملے کو سوچنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی درخواست منسوخ کر دی جائے تو پھر تنظیم منسوخ ہونے کے تیس دنوں کے اندر ہی ایک درخواست ہائی کورٹ کو درج کرا سکتی ہے۔ آرڈیننس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ وفاقی حکومت کسی بھی ادارے یا شخص کو دوران تفتیش٦ ماہ تک رکھ سکتی ہے۔ اگر حکومت کو یہ یقین دہانی ہو جائے کہ وہ کسی بھی ایسے کام میں ملوث ہے جو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے تو یہ دورانیہ مزید بڑھ بھی سکتا ہے ۔ایسی حالت میں جبکہ ایک تنظیم قانون کے باہر تسلیم شدہ ہو جائے تو مرکزی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے آفس کو بند کر دے، اس کے اکاؤنٹس کو منجمد کر دے، تمام پوسٹر، بینرز، اشتہار ، الیکٹرانک ڈیٹا ، ہر چیز کو ضائع کر دیتی ہے۔ ہر طرح کے رسالے، پریس کانفرنسیں، بیانات، عوامی مظاہرے جو ایسی تنظیم کی حمایت میں ہوں پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔

اس آرڈیننس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جو آدمی بھی دہشت گردی کے کام اور اس عمل میں ملوث ہواور وہ پاکستان میں ہو یا باہر اسے سات سال کے لیے قید کر دیا جائے اور پاکستان کے اندر اور باہر اس کا سرمایہ (مال) ضبط کیا جائے گا۔

آرڈیننس کے مطابق ایسے جرم میں ملوث ہونے والے کو زیادہ سے زیادہ 6ماہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی ایسے مجرم پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے جو کوئی ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے یا ایسا مواد شائع کرتا ہے، تحریری صورت میں یا پھر آڈیو/وڈیو کیسٹس کے ذریعے، تصویروں وغیرہ کے ذریعے جن سے کسی بھی طرح مذہبی، فرقہ ورانہ، نسلی نفرت کو پروان چڑھانے یا پھر کسی شخص کو دہشت گردی کرنے پر آمادہ کرے، یا پھر وہ شخص کسی ایسی تنظیم سے جا ملے جو دہشت گردی میں ملوث ہو (Section 11-W)۔ آرڈیننس میں تبدیلی کے بعد مرکزی حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ افسران کو اعلیٰ درجے کے ایسے حفاظتی مراکز بنائیں جہاں وہ تفتیش کر سکیں۔ تفتیش کے مقاصد کے لیے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کسی بھی جگہ کو حفاظتی مرکز (Cordoned Area) قرار دے سکتا ہے زیادہ سے زیادہ چودہ دنوں کے لیے یا پھر اس دورانیے کو ضرورت کے وقت بڑھا بھی سکتا ہے۔ (Section 21-A) پولیس افسران لوگوں کو حکم صادر کر سکتا ہے کہ وہ مطلوبہ جگہ ''Cordoned Area'' کو چھوڑ کر چلے جائیں ۔ باوردی پولیس اہلکار کسی بھی شخص کو شک کی بنا پر حراست میں لے سکتا ہے یا اس کی تلاشی بھی لے سکتا ہے جس سے اس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا خدشہ محسوس ہو (Section 21-B) آرڈیننس کے تحت جو لوگ اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دیتے ہیں ان کو بھی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ (Section 21-C) آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ATC (Anti-Terrorism Court) کے علاوہ High Court یا پھر Supreme Court بھی ضمانت جاری کر سکی ہے اور ملزم کو رہا کر سکتی ہے ایسے مقدمات میں جو ATC کے تحت چل رہے ہوں۔ (Section 21-D)

Anti-Terrorism Section 39-C (Ordinance-2001) نے Terrorists Activities 1975 Act، Anti-Terrorism Act, 1997 دونوں کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس قانون کو نافذ کرنے کے بعد حکومت نے دو فرقہ ورانہ تنظیموں سپاہِ محمد اور لشکر جھنگوی پر ملک میں دہشت گردی میں ملوث ہونے اور فرقہ ورانہ تشدد پھیلانے کی وجہ سے پابندی عائد کر دی تھی۔

9/11 حملے اور ''دہشت گردی کے خلاف جنگ''
١١ ستمبر ٢٠٠١ء کے حملوںنے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خطرات واضح ہو گئے جن کی بنا پر عالمی سا لمیت پر اس کے اثرات پڑنے شروع ہو گئے۔ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' جنوبی ایشیا کے ترقی پذیر ممالک (تیسری دنیا کی اقوام) پر ہوا۔ پاکستان کو بھی اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا بنیادی کردار تھا اور پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے متعدد اقدامات کئے۔ستمبر اکتوبر ٢٠٠١ء میں حکومت نے گیارہ نئی عدالتیں صوبہ سرحدمیں بنائیں اور چار سندھ میں بنائیں۔ سال ٢٠٠١ء کے آخر میں اکتالیس (٤١) مزید عدالتیں قائم کیں۔ اس کے علاوہ Anti-Terrorism Ordinance (ترمیم شدہ) ٢٠٠٢ئ، جنوری ٢٠٠٢ء کو بھی وسعت دی گئی تاکہ زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹایا جاسکے انسداد دہشت گردی ترمیم شدہ آرڈیننس ٢٠٠٢ئ۔

آرڈیننس کے تحت Anti-Terrorism Court کے تین اداروں کے ممبروں میں سے ایک فوجی ہو گا تاکہ Trial میں تیزی آ سکے۔ آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد، تمام پچھلے کیسز کو نئے کورٹ میں شفٹ کر دیا گیا، جو کہ ٣٠ نومبر تک قابلِ عمل ہوں گے لیکن ان کی مدت کو بڑھا بھی دیا جا سکتا ہے۔ آرڈیننس کا مقصد دہشت گرد گروہ کے نیٹ ورک کی نشاندہی کرنا اور قابلِ عمل سزائیں دلوانا بشمول سزائے موت۔ آرڈیننس نے مجرم کو اپیل کرنے کا بھی حق دے دیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس آرڈیننس پر تنقید کی گئی جس کے دس ماہ بعد اس میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک نیا قانون Anti-Terrorism Ordinance 2002 (ترمیم شدہ) ١٦ نومبر ٢٠٠٢ء کو نافذ کیا گیا ۔

انسداد دہشت گردی ترمیم شدہ آرڈیننس ٢٠٠٢ئ
چھوٹی تبدیلیوں کے علاوہ، آرڈیننس نے چند مزید زاویے آشکار کئے جن میں سے ایک کے تحت مرکزی و صوبائی دونوں حکومتوں کو اختیار ہے کہ وہ کسی ایسے شخص یا فرد کو زیرِ حراست رکھ سکتے ہیں جس کے بارے میں یہ اطلاع ہوکہ مذکورہ شخص یا فرد کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہے۔ یا پھر کسی دہشت گرد گروہ کا ممبر ہے۔ اگر مذکورہ شخص کا تعلق کسی بھی دہشت گرد گروہ سے ہے تو حکومت اس شخص کا نام موجود Schedule 4th میں درج کرنے کا حق رکھتی ہے۔ جبکہ اگر مذکورہ شخص اپنی بے گناہی کے لیے ایک یا دو یقین دہانی ڈسٹرکٹ پولیس کو کرا دیتا ہے تو اس کو حراست سے بازیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر مذکورہ فرد اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو اس کو پولیس ٢٤ گھنٹوں کے اندر اندر عدالت کے سامنے پیش کر دے گی۔ عدالت اس کی قید کا حکم صادر کر دیتی ہے جب تک کہ وہ مطلوبہ سکیوریٹیزفراہم کرنے کے لائق نہیں ہوتا (Section 11-EE)۔ جس شخص کا نام 4th Schedule کے اندر درج ہوتا ہے اس کویہ حق حاصل ہے کہ وہ تیس دنوں کے اندر اندر عدالت میں اپنی اپیل درج کروا سکتا ہے (مرکزی یا صوبائی حکومت کو)۔ کیس کے چالان کے بعد کومت خود یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا مذکورہ شخص کو موقع دیا جائے کہ وہ ٣٠ دن کے اندر اندر اپنی اپیل دائر کرے یا نہ کرے۔ آرڈیننس میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت یہ حکم صادر کر سکتی ہے کہ وہ فلاں شخص کو حراست میں لے لے یا پھر رہا کر دے جس کا نام مذکورہ لسٹ میں درج ہو ۔ یہ دورانیہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ١٢ مہینوں سے زیادہ بڑھایا نہیں جا سکتا۔ (Section 11-EEE)

ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان کو غیریقینی سکیورٹی حالات کو سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا۔ ملک کے بارڈر پر انتہائی نازک تھی۔پاکستانی اور بھارتی افواج ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں۔ اس آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد حکومت نے پاکستان میں کئی جنگجو تنظیموں کو بند کروا دیا تھا جو کہ بیرونی دباؤ کا نتیجہ بھی تھا لیکن یہ قدم اٹھانا بھی ملک کے لیے بہت اہم تھا تاکہ اپنی بین الاقوامی ساکھ کو قائم رکھے کیونکہ یہ تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث تھیں۔
اس آرڈیننس کے ذریعے، صدر مشرف تشدد پسند جماعتوں کا خاتمہ چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ حکومت تمام ممکن اقدامات کرے گی ،اگر ان کالعدم تنظیموں نے اپنی کارروائیاں نہ روکیں۔ ان کے دفاتر بند کر دیے جائیں گے۔ ان کے accounts کو منجمد کر دیا جائے گا اور ان کی شائع شدہ اشاعت دونوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ مشرف نے پھر سے آرڈیننس میں ترمیم کرائی۔ اور Anti-Terrorism Ordinance 2004 (ترمیم شدہ) ٣٠ نومبر ٢٠٠٤ء کو جاری کر دیا گیا۔
انسداد دہشت گردی نو ترمیم شدہ آرڈیننس ٢٠٠٤ئ

اس آرڈیننس کے تحت ان افراد کے خلاف سزاؤں کو بڑھا دیا گیا جو کسی بھی طرح دہشت گردی میں ملوث ہوں۔ اس کے مطابق وہ قیدی جو اپنی زندگی کے ١٤ سال قید میں گزار چکے ہوں انہیں اپیل کرنے کی حیثیت دے دی گئی تھی ۔ Section 25(4) کے مطابق، Section 4-A کے مطابق، ایک شخص جو کہ ATL کے تحت سزا پائے وہ بھی ٣٠ دن کے اندر اندر ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ Section 4-B کے مطابق اگر کسی شخص کو بری الذمہ قرار دے دیا جائے تو مذکورہ شخص کو خصوصی اختیار حاصل ہوتاہے کہ وہ بھی اس درخواست کے تحت اپیل کر سکتا ہے، درخواست دہندہ ٣٠ دنوں کے اندر اندر اپنی اپیل ہائی کورٹ میں درج کروا سکتا ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کوقابو میں کرنے کے لیے سزاؤں کو اور وسعت دی ATC کے تحت جو کہ (Second-Amendment) Act, 2005 کہلاتی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف قانون ٢٠٠٥ئ
آرڈیننس کے تحت پانچ سال کی سزا کو دس سال کر دیا گیا۔(Section 7-B) کے لیے ١٤ سال کی بجائے عمر قید، سات سال سے ١٠ سال، جبکہ ١٤ سال سے کم سزائوں کو عمر قید میں تبدیل نہیں کیا گیا جبکہ سیکشن (٢) ٦ کے تحت ١٤ سال کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا گیا۔ جبکہ کم ازکم قید کو چھ ماہ سے بڑھا کر دوسال کر دیا گیا ۔ ایک سال سے بڑھا کر پانچ سال اور پانچ سے بڑھا کر ١٠ سال کر دی گئی (Section 7-G, H&I)۔ اس آرڈیننس کے تحت ایک شخص Section 11-G کے تحت کسی بھی قسم کا مرکتب ہوتا ہے تو اس کو ضرور سزا دلوائی جانی چاہیے پانچ سالوں کے اندر اندر یا پھر جرمانہ کرنا چاہیے۔ یا پھر دونوں سزائیں۔ Section 11-N کے تحت چھ ماہ کی قید کو پانچ سال تک کے لیے طول دیا جا سکتا ہے۔ اور پانچ کو دس سال تک کے لیے وسعت دی جا سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ سزا کو سات سال میں بڑھا دیا جا سکتا ہے۔ (Section 11-V)۔ آرڈیننس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ ایک مخصوص بنچ بنائے گا جوکم از کم دو ججز پر مشتمل ہو گا اپیل وغیرہ کی پیشی hearings کے لیے۔ (Section 29 (9))

اپلیٹ بنچ کو دو سے زیادہ مرتبہ سماعت ملتوی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس آرڈیننس کے تحت عدالت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی ملزم کاپا سپورٹ اپنی تحویل میں رکھ سکے۔ اس میں مزید یہ کہا گیا کہ دوسری عدالتوں کی بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں اغوا برائے تاوان، مسجدوں میں آتش گیر مادوں اور بارود کا استعمال امام بارگاہوں، مندر، چرچوں اور کسی بھی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات کی سماعت کریں گی۔ پاکستان کو ٢٠٠٧ء میں شدید قسم کی امن و امان اور اندرونی سکیورٹی کے حوالے سے شدید قسم کے نامصائب حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے نتیجے میں لال مسجد کے ملا حکومتی فورسز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ قصہ جولائی ٢٠٠٧ء میں ختم ہوا۔ انتہا پسند سرگرمیاں بڑھ گئیں دہشت گردی اور طالبائزیشن کو پاکستان میں فروغ ملا۔ اور خاص طور پر قبائلی علاجات اور صوبہ سرحد کے دیگر حصوں میں حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کیے ۔ پاکستان میں ٢٠٠٧ء میں کم از کم ٧١ خود کش دھماکے ہوئے جس میں ٩٠٠ سے زیادہ افراد مارے گئے اور ١٥٧٤ کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ صدر مشرف نے ٣ نومبر ٢٠٠٧ء کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا اور 2007 کو PCO (Provisional Constitution Order) جاری کیا اور آئین کو معطل کر دیا گیا۔

Provisional Constitution Order-I
٣ نومبر ٢٠٠٧ء کے ایمرجنسی نافذکرنے کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جنرل مشرف نے PCO کا اجراء کیا۔ جنرل مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت میں ملک میں امن کے قیام کی غرض سے PCO کا اجراء کیا۔ پرویز مشرف کے ٣ نومبر کے اقدامات کو سپریم کورٹ کے صد رکے دو عہدوں کی اہلیت کے بارے میں فیصلے پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
PCO کے تحت بنیادی حقوق کے آرٹیکلز 9, 10, 15, 16, 17, 19, 25 کو معطل کر دیا گیا تھا۔PCO مزید یہ بھی کہتا ہے کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا کوئی بھی دوسری عدالتوں کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہوں گے کہ وہ صدر یا وزیراعظم کے خلاف کوئی فیصلہ کر سکیں یا کوئی اور ایسا شخص جو اپنے اختیارات میں رہ کر انہیں استعمال کر رہا ہو۔ (Section 3) اس نے صدر کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ وقتاً فوقتاً حسبِ ضرورت آئین کے آرٹیکلز 128, 175, 186 A, 198 اور 270 میں ترمیم کرسکتا ہے۔

PCO میں یہ بھی کہا گیا کہ جو لوگ ٣ نومبر سے پہلے سپریم کورٹ، وفاقی شرعی کورٹ اور ہائی کورٹ میں جج تھے، وہ ججز کا نیا حلف لیں گے اور Oath Officer کے تحت کام کریں گے جس نے PCO کے تحت حلف کو ضروری امر قرار دیا اور ایسے مزید احکامات جو صدر جاری کر سکتے ہیں۔ تاہم پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کو کہا گیا۔ مشرف کو اندرون اور بیرونِ پاکستان ،ایمرجنسی نافذ کرنے پر شدید تنقید اور ملک گیر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ ١٥ دسمبر ٢٠٠٧ کو ایمرجنسی اٹھا لی گئی۔ PCO کو ختم کیا گیا اور آئین کو مشرف کی گئی ترامیم کے سمیت بحال کر دیا۔ اعلیٰ عدالتی ججوں کو ٣ نومبر کے اقدامات کے بعد بحال کیا گیا اور ان سے آئین کے 3rd Schedule کے مطابق ایک نیا حلف لیا گیا۔ مشرف نے عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ جس کی بدولت ١٨فروری ٢٠٠٨ء کے الیکشن کے تحت ملک میں سیاسی ڈھانچے کو بحال کیا گیا۔

٢٠٠٧ء اور ٢٠٠٨ء کے مابین ملک میں امن و امان کی صورتِ حال انتہائی کشیدہ رہی جیسا کہ دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز، سیاسی رہنماؤں اور سیاسی اجتماعات کو اپنا نشانہ بنایا۔ الیکشن مہم کے دوران کئی خودکش حملے ہوئے۔ ٢٧دسمبر ٢٠٠٧ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو فائرنگ اور بم حملے میں مارا گیا جبکہ وہ راولپنڈی شہر میں ریلی سے خطاب کے بعد واپس جارہی تھی۔ ٢٥ مارچ ٢٠٠٨ء کو PPPP کے رہنما یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ ان کی حکومت نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کی کوشش کی۔ دورہ امریکہ کے دوران وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت دہشت گرد کے خلاف اپنائی گئی مشرف حکمتِ عملی کو جاری رکھے گئے۔

Cyber-Terrorism Laws 4
Cyber-Terrorism دہشت گردی کی ایک نئی قسم ہے جس کے ذریعے دہشت گرد افراد Electronic Communications Networks کو نہ صرف تباہ کرتے ہیں بلکہ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ سائیبر دہشت گردی کے ذریعے ریاست کی بنیادوں کو جس طرح متاثر کر سکیں یہ گروہ اپنے خطرناک عزائم کو یا یہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح سے یہ دہشتگرد افراد یا گروہ کو وسیع پیمانے پرنقصان کا باعث بنتے ہیں۔جو کہ دفاعی اداروں کو بھی اپنی ٹارگٹ لسٹ میں رکھتے ہیں۔ Cyber-Terrorism کے ذریعے زیادہ لوگوں کو ٹارگٹ بنایا جا سکتا ہے یہ لوگ جو جسمانی حملہ کئے بغیر اور کسی کو زخمی کئے بغیر حملہ کر کے نقصان پہنچا سکتے ہیں ایسے افراد اور گروہ جو Hackers کے زمرے میں آتے ہیں جو سرکاری اور غیرسرکاری پرائیویٹ اداروں میں Computer Networks کو متاثر کرتے ہیں۔ مسلح افواج کے سائیبر سسٹم کو ناکارہ بناتے ہیں، اور کسی بھی ادارے یا تنظیم کے data کو بھی اچک سکتے ہیں جو کہ مالی اور مادی دونوں کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔

Prevention of Electronic Crimes Act 2007،
الیکٹرانک جرائم سے بچاؤ کا ایکٹ ٢٠٠٧ئ
اس ایکٹ کے تحت، ''کوئی بھی شخص، گروہ یا ادارہ جو کہ دہشت گرد عزائم رکھتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے یا computer یا ان کے networks تک رسائی حاصل کرتا ہے یا الیکٹرانک systems اور devices کو نقصان پہنچاتا ہے یا اس مقصد کے لئے کسی بھی ذریعے کو استعمال کرتا ہے اور پھر کسی بھی طرح سے دہشت گرد activity یا کاروائی میں ملوث ہو جاتا ہے کو بھی Cyber-Terrorism کے زمرے میں آتا ہے ۔ (Section 17)

یہ ایکٹ ہر اُس شخص پر لاگو ہو جاتاہے جو اس ایکٹ کے Provision کے مطابق کوئی بھی ایسا جرم بغیر کسی تفریق کے سزا کے اہل ہو جاتا ہے

اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی حصے میں وہ رہتا ہو اگر غیرقانونی طریقوں سے الیکٹرانک systems تک رسائی حاصل کرتا ہے یا الیکٹرانک devices کو حاصل کرتا ہے ان کو تباہ کرنے کے لیے اور حفاظتی اقدامات کو توڑنے کے لیے، تو وہ اس ایکٹ کے تحت سزا کا حقدار ہوتا ہے جو کہ دو سال سے زائد کی سزا بھی ہو سکتی ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ تین لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے، یا پھر دونوں سزائیں۔ (Section 3)

کوئی بھی شخص جو غیرقانونی طریقے سے data کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کو تین سال تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے یا پھر جرمانے کی صورت میں یا پھر دونوں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ (Section 4) ایکٹ کے تحت مزید سزاؤں کو شامل کر کے تین سال سے زیادہ کی بھی سزا دی جا سکتی ہے یا جرمانے کی صورت میں کسی بھی طرح کے dataکو جائع کرنے کے جرم میں۔ (Section 5)

اس ایکٹ کے تحت مزید یہ سزا بھی رکھی گئی تھی کسی طرح کے data کوتباہ کرنے کے جرم میں مجرم کو مزید تین سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے اگر تو وہ شخص کسی system کو نقصان پہنچاتا ہے یا پھر اس کے نیٹ ورک کو تباہ کرتا ہے۔ (Section 6)

ایکٹ یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی دھوکہ دینے جرم میں بھی ملوث ہو گا جو کہ کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے، وہ بھی سزا پائے گا جو کہ سات سال کی مدت تک بڑھ بھی سکتی ہے اور سابقہ جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص غیرقانونی طریقے سے Password حاصل کر لیتا ہے یا codes تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جس کے ذریعے وہ system یا الیکٹرانک سسٹم کو اپنے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور data کو بھی حاصل کر لیتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے منفی عزائم کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے وہ بھی سزا کا اہل ہو گا جس میں اسے تین سال کی مدت سے بڑھ کر سزا بھی دی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر دونوں سزائیں۔ (Section 10)

کوئی بھی شخص جو کمپیوٹرز استعمال کرتا ہے، یا کمپیوٹر نیٹ ورک، انٹرنیٹ، نیٹ ورک سائٹس (Network Sites) الیکٹرانک mails وغیرہ جیسے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتا ہے تاکہ وہ دوسروں کو حراساں کر سکے مخصوص لوگوں کو یا گروہ کو اور اس کے ذریعے انہیں خوفزدہ بھی کر سکے، اس شخص کے لیے دس سال قید کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جاتا ہے، یا پھر دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی دی جا سکتی ہیں۔ (Section 13)

جو کوئی بھی شخص مجرمانہ رسائی حاصل کرتا ہے Sensitiveالیکٹرانک system کی طرف کوئی غیرقانونی مقصد کے حصول کے لیے ایکٹ کے تحت مذکورہ شخص کو دس سال یا پھر ایک ملین جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ١٠ سال کی یہ مدت بڑھ بھی سکتی ہے۔ یا پھر دونوں سزائیں۔ (Section 18)

ان تمام غیرقانونی جرائم میں ملوث افراد اپیل ہی کر سکتے ہیں سوائے اس سزا کے جو کہ سات سال کی مدت کی ہے یا اس سے زیادہ۔ (Section 22)

اس ایکٹ کے لاگو ہونے کے بعد، وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اطلاعات و نشریات ٹربیونلزتشکیل دیں، جس کا بنیادی مرکز اسلام آباد میں ہونا چاہیے۔ اس tribunal کے bench جس دو سے زیادہ اور سات سے کم ججز کو مقرر کیا جانا چاہیے جو کہ ایسے مقدمات کو ان ایکٹ کے تحت آگے چلا سکیں۔ (Section 31) ایکٹ یہ بھی کہتا ہے کہ tribunals کے ججز کو پوری طرح معلومات ہونی چاہیے اس legislation (قانون) کے بارے میں، ساتھ ساتھ اپنے پروفیشنل تجربات کے ذریعے ٹیلی کمیونیکیشنز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (Information Technology) سے بھی آگاہی رکھتے ہوں۔ (Section 32)

یہ ایکٹ مزید کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کو مزید ایک ایسا Specializedتفتیشی cell بنانا چاہیے اور عدالتی cellبھی مرکزی تفتیشی ایجنسی کی باہمی معاونت سے (FIA) تاکہ جرم کی تفتیش کے بعد جرم سے اقرار جرم بھی کرایا جا سکے (Section 25)۔

اس ایکٹ نے وسیع پیمانے پر ان تفتیشی افسران کو طاقت سونپ دی گئی اور ساتھ ہی الیکٹرانک systems تک رسائی کو بھی ان کے لیے ممکن کر دیا ہے۔ (Section 26)

ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت یہ بھی کر سکتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کسی غیرملکی حکومت کے ساتھ باہمی تعاون کرے ،انٹرپول اور کسی بھی دوسرے بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ، اپنی تفتیش اور دیگر امور کے سلسلے میں مذکورہ جرم ثابت کرنے کے لیے جس کا تعلق الیکٹرانک systems اور data سے ہوتا ہے ۔غیرملکی حکومتی ایجنسیاں، انٹرپول اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے تعاون سے جرائم کا سدباب کرنے میں ان کی معاونت لی جاتی ہے۔

وفاقی حکومت ان غیرملکی حکومتی اداروں اور انٹرپول ایجنسیوں سے یہ بھی request کر سکتی ہے کہ وہ ان کی مہیا کردہ معلومات کو مکمل رازداری میں رکھیں۔ (Section 30)

ایکٹ کے (Section 40) کے تحت اپیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے Cyber-Terrorism کو ختم کرنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں یہ ایک مثبت قدم ہے مگر اس کے باوجود وہ طریقہ کار جو کہ ایکٹ استعمال کرتا ہے ان جرائم کی نشاندہی کرنے کے لیے اپنے اندر دوہرا پن لیے ہوئے ہے۔

نتیجہ مختصراً
انسداد دہشت گردی قوانین کی ایک وسیع و عریض تاریخ ہونے کے باوجود پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی مغربی میڈیا کو ہرباریہ موقع دیتی رہتی ہے کہ ہمارے ہاں امن ناپید اور صورتحال خطرناک ہے ۔ حالانکہ تمام حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے قوانین بنائے لیکن اس سب کے باوجود تمام حکومتوں کو امن و امان قائم کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کی بڑی وجہ ان حکومتوں کی طرف سے ان قوانین پر صحیح طرح عمل درآمد نہ کروانا تھا۔

بجائے اس کے کہ تمام حکومتیں ان قوانین کو ذمے داری کے ساتھ لاگو کرتیں اور ان پر عمل درآمد کرواتیں تقریباً ہر حکومت نے ان قوانین کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جس کا مقصد اپنی مخالف پارٹیوں کو دبانا اور اپنے اقتدار کے عرصے کو طول دینا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرقہ ورانہ فسادات، سیاسی تنقید اور دہشت گردی نے ملک میں اپنی جگہ بنا لی۔

انسداد دہشت گردی قوانین بھی حکومت کے وہ اوزار ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ دہشت پرست عناصر کو ڈراتی ہے اور امن و امان کا سلسلہ قائم رکھتی ہے لیکن اگر ان قوانین کو استعمال کرنے کی ہمت ہی نہ ہو تو امن و امان قائم کرنے کے لیے صرف قوانین کو بنانے پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
اگر دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑ کر امن کی خواہاں ہے تو اس کو ایک لمبے عرصے پر محیط پالیسی کو اپنانا ہو گا بجائے اس کے کہ فوری حل کی پالیسی کو اپنایا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں فکری شعور کو پیدا کیا جائے جو کہ صرف عام لوگوں کی تعلیم اور سماجی ترقی ہی سے ممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عام لوگوں کی تعلیم پر توجہ دے تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ صحیح و غلط کے درمیان امتیاز قائم کر سکیں اور یہی وہ حل ہے جس کے بغیر انسداد دہشت گردی قوانین ناکام ہوئے۔ عام لوگوں کے اندر پیدا ہونے والا وہ فکری شعور ہی دہشت گردی کا سب سے بڑا حل ہو سکتا ہے جس کی بدولت وہ خود اپنے فائدے اور نقصان کو پہچان سکیں اور حق و باطل کی نشاندہی کر سکیں۔