working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پشتون ،طالبان کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں
پیٹر برگن

''عراق بش کا محاذ تھا جبکہ افغانستان اور پاکستان میں جاری انتہا پسندی کے خلاف جنگ سب سے اہم چیلنج ہوگا۔ امریکی تھنک ٹینک نیو امریکہ فائونڈیشن کے سینئر تجزیہ کار پیٹربرگن اور ان کی ساتھی کیتھرائن ٹائیڈمین نے اس تناظر میں افغانستان اور پاکستان میں جاری شدت پسندی اور تصادم کے نمایاں تقابلی پہلوئوں کی اعداد و شمار کے ذریعے صرات کی ہے۔ ان کی یہ کاوش حال ہی میں میزانی اظہارئیے کے صورت میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں اوبامہ کی توجہ افغانستان اور پاکستان میں پیچیدہ صورت حال کی طرف دلائی گئی ہے اور حساسیت کے پیش نظر وسیع التناظر حل کے لئے زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے بتدریج اضافے کے باوجود امن قائم نہیں کیا جاسکا۔ امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف مائیکل مولن نے اس آپریشن کو ''Economy of force''سے تعبیر کیا ہے جس میں امریکہ نے وہی حاصل کیا جو اُس نے بویا تھا۔ 2008ء تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد31000اور نیٹو افواج کی28,810تک پہنچ چکی تھی۔ جبکہ مزید 30000امریکی فوجیوں کی آمد متوقع ہے یہ تعداد 68000افغان فوجیوں اور 76000پولیس فورس کے علاوہ ہے، جو جنگ سے تباہ حال ملک میں امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں اب تک 617امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا گیا ہے۔2001ء سے 2008ء کے عرصے میں 370 خودکش حملے ہوئے ۔ پوست جو وار لارڈز اور طالبان دونوں کے لئے وسائل کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کی کاشت میں بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ 2001ء کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ 2008ء تک یہ 157000ہیکٹرز تک جا پہنچی ہے۔ افغانستان میں تعمیر نو اور فلاح و بہبود کے لئے ایک بلین ڈالر سالانہ اور وہاں موجود امریکی افواج پر 20بلین ڈالر سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ امداد عالمی براداری کی طرف سے ملنے والی بلین ڈالرو کے علاوہ ہے لیکن افغانستان میں اس کے باوجود کوئی تنظیمی ڈھانچہ بھی کھڑا نہیں ہو سکا ہے۔ ان کاوشوں کے باوجود طالبان کی حمایت میں اضافہ اور امریکہ کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2005ء میں طالبان کی حمایت کی شرح 9فیصد تھی جو کہ 2008ء میں بڑھ کر 13فیصد ہوگی جبکہ امریکہ کی مقبولیت کا گراف 83فیصد سے 65فیصد پر آگیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کی صورت حال بھی زیادہ مختلف نظر نہیں آتی جہاں پر گذشتہ سال 145خود کش حملے اور 2005ء سے 2008ء کے درمیان 3773دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں۔ یہاں طالبان کے لئے حمایت اور امریکہ کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔2005ء میں امریکہ کی مقبولیت کا گراف23 فی صد تھا جو 2008ء میں گر کر 16.9فیصد تک پہنچ گیا۔ طالبان کے حمایت میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی ہے۔2007ء میں 37.7فیصد کے مقابلے میں 2008ء میں یہ 22.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان ، امریکہ کی طرف سے فوجی اور معاشی امداد حاصل کرنے والے ممالک میں بالترتیب افغانستان ، اسرائیل اور مصر کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔
رپورٹ میں امریکی اور نیٹو افواج کے لئے پاکستان سے گزرتی سپلائی لائن کے غیر محفوظ ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اوبامہ کے لئے اسے چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملو ں کے نتیجے میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ لیکن رپورٹ کا سب سے اہم حصہ'' پشتون فیکٹر '' کے عنوان سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان پشتون علاقے عسکریت سے زیادہ متاثر ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑی نسلی، قوم پشتون جس کی تعداد 40ملین کے قریب ہے ان کے پاس اپنا ملک نہیں ہے اسی لئے زیادہ تر پشتون ، طالبان کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں جو اُن کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ افغانستان سے دوگنا تعداد میں پشتون پاکستان میں آباد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اوبامہ سرحد کے دونوں اطراف جنگ کا جتنا ضروری قرار دیتے ہیں۔