working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

غربت اور عسکریت پسندی کا جوڑ
صفیہ آفتاب

جنرل ضیاء الحق کے دور قتدار میں پاکستانی سیاست میں رجعت پسند عناصر کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ ١٩٧٠ء کی آخری دہائی میں فوجی حکومت کی سرپرستی میں اسلامائیزیشن کا احیاء ہوا جس میں خاص طور پر قوانین اور انتظامی امور کو اسلامی قوانین کے زیر اثر لایا گیا فنون لطیفہ میں بھی اصلاحات نافذ کی گئیں حتیٰ کہ اقتصادی اور تعلیمی نظام کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی۔شاید اسی کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ ثقافتی اور سماجی طور پر پسماندہ ہوتا گیااور اس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ کم ہوگیا اور مذہبی رواداری کا فقدان پیدا ہو گیا۔ گرو ہی، لسانی اور مذہبی کھینچاتانی عروج پر پہنچ گئی۔گذشتہ چھ سال سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حضوصاً حکومت کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مساجد اور گھروں کو بھی معاف نہیں کیا گیا اغوا برائے تاوان اور قتل کی وارداتیں آئے دن کا معمول بن چکی ہیں۔گذشتہ چند سالوں سے تو قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں مختلف عسکری گروہ وجود میں آچکے ہیں جو بار بار حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔پاکستان میں موجودہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ عسکریت پسند نہ صرف تیزی سے پھیلے ہیں (جیسے کہ صوبہ سرحد میں دیکھا گیا ہے)بلکہ مختلف تنظیمی گروہوں کی شکل میں بھی مضبوط ہوئے ہیں جیساکہ قبائلی علاقوں کی مثال سے واضح ہے جہاں ان عناصر نے متوازی حکومتیں تشکیل دے رکھی ہیں۔انتہا پسندی سے نمٹنے کے حوالے سے تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔دانش ورطبقہ،تجزیہ نگار اور پالیسی بنانے والوں کو ابھی بہت محنت درکار ہے۔محدودے چند وجوہات میں سے جوبات مختلف بحث مباحثوں کے بعد سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ غربت اور معاشی بدحالی کی شرح نے انتہا پسندی کے پھلنے پھولنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔عسکریت کے حوالے سے قلیل لٹریچر دستیاب ہے۔ ہمارا علم زیادہ تر اخبارات کے اداریوں،آرٹیکل اور مختلف ذاتی آراء تک محدود ہے۔ تاہم چند تعمیری کوششیں سامنے آئی ہیں جس سے اقتصادیات اور انتہا پسندی کے درمیان رشتے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔رابرٹ کمپ''افغانستان اور پاکستان میں انتہا پسندی''کے حوالے سے اپنے مقالے(٢٠٠٨،kemp) میں لکھتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بنیاد پرستی کی بڑھوتری کی وجہ حکومتی عملداری اور قبائلی ڈھانچے کی موجودہ ساخت پر ہے ۔مقالہ نگار نے دونوںملکوں میں موجودہ بنیاد پرستی کی لہر کو مقامی رویوں پر پرکھا ہے اور اس میں غربت اور بے روز گاری کو سر فہرست گردانا گیا ہے۔ایک اور ماہر نفسیات جناب سہیل عباس کا تجزیہ بھی سامنے آیا ہے انہوں نے اپنی حال ہی میں طبع شدہ کتاب میں٥١٧،افراد پر مشتمل سروے رپورٹ ترتیب دی۔ یہ لوگ ہری پور اور پشاور کی جیلوں میں قید تھے اور ٢٠٠١ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان نے انہیں زیر حراست لے لیا تھا۔سہیل عباس نے نفسیاتی اور سماجی تجزیوں پر مشتمل پروفائل تیار کی جس میں اس نے دو گروہوں پر بحث وتمحیص کی۔ اس نے بین ہی ایسے لوگوں کا تجزیہ بھی شامل کیا جو کہ جہادیوں کی طرح کے رہن سہن،مذہب اور سماجی واقتصادی پس منظر رکھتے تھے مگر جہاد میں شامل نہیں ہوئے تھے۔یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سہیل عباس نے جن لوگوں کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا وہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ میں تو حصہ لے چکے تھے مگر وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد پاکستان اور افغانستان میں کسی دہشت گردی کی کارروائی میں شامل نہیں رہے۔سہیل عباس کا یہ تجزیہ دلچسپی سے عبارت ہے اور اس میں ان عوامل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جو لوگوں کو جہادی تنظیموں کی طرف ہانک کرلے جاتے ہیں۔سہیل عباس کے سماجی اور اقتصادی پس منظر کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہادیوں کا تعلق پاکستان کے تمام سماجی طبقات سے تھا۔گو کہ ان کی تحقیق خاصی چھوٹے حجم کی ہے جس کے تناظر میں پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل نہیں تھی بلکہ عام اسکولوں سے پڑھ کر آئے تھے اور خواندگی کی اوسط شرح سے ان کی تعلیم کا درجہ بلند تھا جبکہ روزگار کے پیمانے پر یہ بات سامنے آئی کہ ہری پور گروپ کے جہادیوں میں13.1فی صد بے روزگار تھے جب وہ افغانستان میں جہاد کی غرض سے گئے۔ جبکہ ان میں 30.30فی صد دیہاڑی دار مزدور تھے۔18.2فی صد طالب علم تھے۔14.10فی صد کسان مزارع تھا جبکہ10.10فی صد چھوٹے تاجر یاد کاندار تھے اور باقی لوگ ہنر مند طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔پشاور گروپ کے معاملے میں مختلف صورت حال سامنے آئی ان میں بے روزگاری کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان میں 33.80فی صد کسان مزارع تھے 24.20فی صد بطور مزدور کام کر چکے تھے جبکہ ہنر مند مزدور اور طلبا کی مقدار یکساں تھی یعنی یہ دونوں 17فی صد کے لگ بھگ تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ پشاور گروپ کے جہادیوں میں تاجر طبقے کی نمائندگی محض 3.50 فی صد رہی۔ اس سروے میں اوسط آمدنی کے حساب سے بھی اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے جس سے معلوم ہوا کہ ہری پور گروپ میں 35.70 فی صد کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا جبکہ 90فی صد لوگوں کی فی کس سالانہ آمدنی 60,000سے کم تھی جبکہ 75فی صد کی سالانہ آمدنی 30,000 روپے سے بھی کم تھی۔ پشاور گروپ میں ہری پور گروپ کے مقابلے میں محض 26.30فی صد ایسے افراد تھے جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ علاوہ ازیں جو لوگ ملازم تھے۔ ان کی زیادہ تعدادفارمز پر کام کرنے والوں کی تھی جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ انہیں گھر کے دیگر افراد مدد فراہم کرتے تھے اس سروے میں پشاور گروپ کے حوالے سے اوسط آمدنی کی بنیاد پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ ان ذرائع پر سے بھی پردہ کشائی نہیں گئی جوکہ آمدنی کا ذریعہ تھا یا خاندان کی سماجی اور اقتصادی حالت پر بھی خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کی بنا پر اقتصادی سٹیٹس پر واضح انداز میں روشنی نہیں ڈالی جاسکتی۔

حال ہی میں کرسٹائن فیئر نے ان 141شہدا کے لواحقین سے مل کر تحقیقی کام انجام دیا جن میں سے زیادہ تر کشمیر اور افغانستان کے محاذوں پر مارے گئے ۔فیئر کا یہ کام 2004-05ء میں مکمل ہوا جو ان عسکریت پسندوں کے خاندان کے لوگوں کے تاثرات پر مبنی تھا جوکہ ١٩٩٠ء کے عہد کے بعد قتل ہوئے۔ اس طرح اس میں وہ لوگ شامل نہیں جنہوں نے روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔ غیر مساوی انتخاب کیے گئے ان لوگوں کا تناسب کچھ یوںتھا کہ ان میں سے 55 فی صد کا تعلق صوبہ سرحد،26 فی صد آزاد جموںو کشمیر،4 فی صد بلوچستان جبکہ2 فی صد کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ سہیل عباس کی طرح فیئر کی ریسرچ کی بنیاد بھی عسکریت پسندوں کے خاندانوں کے اقتصادی اور سماجی سروے پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ان لوگوں کے مذہبی جھکائو اور جہاد میں دلچسپی کے پہلوؤں کا احاطہ بھی کیا ہے۔تعلیمی پس منظر کے حوالے سے اس کی رپورٹ بھی کچھ ملتی جلتی ہی تھی یعنی تمام اشحاص میں سے محض 4فی صد نے مکمل طور پر مدرسوں سے تعلیم حاصل کی اور باقی ماندہ لوگوں کا تعلیمی معیار بھی اوسط پاکستان کی شرح سے زائد تھا۔94 فی صد عسکریت پسندوں کی تعلیمی قابلیت عمومی درجے کی تھی جبکہ 40 فی صد نے ہائی سکول کا درجہ مکمل کیا تھا۔اس سروے میں عسکریت پسندوں کے روزگار کے حوالے سے بھی اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 50 فی صد بے روزگار تھے جب وہ جہاد کی غرض سے روانہ ہوئے جبکہ 25 فی صد دیہاڑی دار اور باقی 25فی صد مکمل روزگار کے حامل تھے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی زیر تعلیم ہی تھے اور ابھی تعمیری زندگی میں داخل نہیں ہوئے تھے۔لیکن یہ بات واضح تھی کہ 25فی صد لوگ مکمل طور پر بے روزگار تھے جب انہوں نے جہاد کے لیے خود کو آمادہ کیا۔ دیہاڑی دار اور مکمل باروزگار لوگوں میں بھی کسی مہارت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ فیئر کے سروے میں آمدنی کے مکمل اعداد وشمار نہیں بتائے گئے اور نہ ہی خاندانی اثاثوں پر کوئی بحث کی گئی ہے۔ وفاق کے زیر انتظام علاقوں (FATA ( کے متعلق شنواری کی ایک رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ہے جس نے قبائلی نظام پر تاریخی پس منظر کے حوالے سے بہتر اور جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ شنواری کے بقول فاٹا پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے اور تقریباً60فی صد لوگ غربت کی مروجہ سطح سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں اور اخراجات کی مد میں فی کس شرح اوسط پاکستانی کی سطح سے ایک تہائی کم ہے۔ روزگار کے ذرائع محدود ہیں اور جو روزگار موجود ہے ان میں زراعت، غیرقانونی ٹرانسپورٹ سرحد کے آرپار کا روبار ،محدود تجارت،منشیات فروشی اور اسلحے کی اسمگلنگ شامل ہیں۔ شنواری غربت اور مواقع کے فقدان کو فاٹا میں عسکریت پسندی کا بنیادی سبب سمجھتا ہے اس کی رائے میں مقامی مسائل کا حل جرگے کے نظام کو فعال بنانے میں ہے۔اور ٢٠٠٢ء کی بنیادی حکومتوں کی اصلاحاتی نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔یہ سروے تمام تر سماجیات کے حوالے سے مرتب کیا گیاہے۔جس میں سماجی تبدیلیوں اور مذکورہ علاقوں میں مقامی تخیلاتی منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔عسکریت پسندی کے حوالے سے تمام تر تحقیقی کام کا ارتکاز ان نکات پر ہے ان میں ملازمت کے مواقع کا فقدان اور عسکری تنظیموں کے فحال ہونے کا معاملہ سرفہرست رہا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عسکریت پسندی کے پھیلائو میں غربت اوربے روزگاری نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں غربت کا عفریت
عموماً غربت کی شرح جانچنے کیلئے حکومتی اداروں کے اعدادوشمار پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے بد قسمتی سے یہ تمام سروے مثلاً فی کس آمدنی اور اخراج کا تخمینہ (HIES )١٩٩٠ء کی دہائی میں کیے گئے اور موجودہ پاکستان سوشل اینڈ لونگ سٹینڈرڈ سروے (PSLM)بھی بندوبستی اضلاع میں کیا گیا اور اس میں (FATA)کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ۔فی کس شرح کے حوالے سے وفاقی حکومت کے ذرائع کے اعدادوشمار کے مطابق 1998-99 میں30.6فی صد پاکستانی غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے۔ پھر2004-05 میں وفاقی ادارہ شماریات(FBS)کے مطابق 23.90 فی صد اور پھر 2005-06 میں یہی شرح 22.30 فی صد ہوگئی۔ شہری اور دیہاتی زندگی میں یہ شرح نہایت اہمیت کی حامل رہی جیساکہ 2005-06 کے اعدادوشمار سے واضح ہوا کہ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 27 رہی جبکہ شہری علاقوں میں 13.10 فی صد تھی۔ وفاقی حکومت کے تحقیقاتی اداروں کے غربت کی شرح معلوم کرنے کے طریقۂ کاراور سروے کے تجزیے پر بھی تحفظات سامنے آئے ہیں۔ عالمی بینک کی تجزیاتی سروے کی رو سے 2004-05ء میں انحطاطی تبدیلی1998-99 اور 2005-06ء میں دیکھی گئی ۔تنخواہوںکی تقسیم کے حوالے سے 2005-06 میں0.30فی صد تھی جبکہ اسکے مقابلے میں 2001-02ء میں 0.27 فی صد رہی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غربت کی شرح میں کمی کی بجائے پانچ سال کے عرصے میں اضافہ ہی ہوا۔

صوبوں کی بنیاد پر غربت کی شرح
اس دہائی میں غربت کی شرح کے نہایت کم اعدادوشمار سامنے آئے اور ضلع کی سطح پر تو غربت کا کوئی حساب کتاب نہ رکھا گیا تاہم کراچی کے ایک آزاد ادارے ''سوشل پالیسی ڈیویلپمنٹ سنٹر (SPDC)نے غربت کے حوالے سے نہایت اہم کام انجام دیا ان کے مرتب شدہ 2001-02 کے ڈیٹا کے مطابق آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ درج ذیل ہے:

1

ذرائع 2004ئ، SPDCزائچہ 3.3

اسی طرح موجودہ دہائی کے شروع میں جو کہ پاکستان میں عسکریت پسندی کے لحاظ سے ہماری توجہ اور دلچسپی کا مرکز ہے اس میں غربت کی شرح صوبہ بلوچستان میں بلند ترین سطح پر رہی جہاں آدھی آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کررہی تھی۔جبکہ صوبہ سرحد اور سندھ میں بھی یہ حد کم رہی لیکن سندھ کا شمار کراچی کی وجہ سے کچھ مختلف تھا جبکہ سندھ کے دیہاتی علاقے میں غربت کی شرح سے نیچے رہنے والوں کی تعداد 38فی صد تھی جوکہ صوبہ سرحد کے 27 فی صد کے مقابلے میں خاصی زائد تھی۔صوبہ پنجاب نسبتاً زیادہ زرخیز علاقہ تھا وہاں بھی غربت کی شرح 26 فی صد رہی جبکہ دیہات کی شرح غربت 24 فی صد تھی۔2001-02ء میں غربت اور آمدنی کے تحقیقاتی ادارے (CRPRID)نے 1992-93ء سے2001-02ء تک تمام صوبوں میں اعدادوشمار کے مختلف ذرائع پر غور کیا۔ انکے اعدادوشمار SPDCسے قطعاً مختلف تھے۔ CRPRIDکی تحقیق کے مطابق 2001-02ء میں کہ پاکستان کے تمام صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سرحد میں غربت کی شرح سب سے بلند یعنی 41.50فی صد رہی جبکہ سندھ اور بلوچستان میں یہ شرح 35 فی صد تھی اور پنجاب میں کم ترین سطح یعنی 32 فی صد رہی۔ غربت کی اس شرح میں1992-93ء سے 2001-02ء تک خاص طور پر تمام صوبوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے 1999ء سے 2002ء تک معاشرتی توڑ پھوڑ کی شدید لہر آئی۔SPDCاورCRPRIDکی تحقیقات میں غربت جانچنے کے مختلف طریقے مستعمل رہے۔لیکن کھلے ذہن سے دیکھا جائے تو دونوں اداروں کے فکری تجزیے کی روشنی میں پنجاب اور سندھ کے دیہاتی علاقے پاکستان کے غربت کے کم ترین شرح والے علاقوں میں سرفہرست تھے۔جوکہ صوبہ سرحد اور بلوچستان کی شرح سے نسبتاً بہتر تھی۔ تاہم 1990ء کی دہائی میں سندھ اور بلوچستان کی شرح غربت میں یہ اضافہ بتدریج بڑھ رہا تھا۔

UNDP نے 2003ء میں صوبائی سطح کی سماجی ترقی کے حوالے سے پاکستان ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ تیار کی جس میں تمام صوبوں کی سماجی ترقی کا جائزہ لیا گیا۔ اس طرح ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس یعنی (HDI)کو خواندگی اور علاقے میں کارکردگی کی نسبت تناسب اور بچوں کی شرح اموات وغیرہ اور اصل GDPکو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا۔اس رپورٹ میں دو وسیع عناصر کا احاطہ کیاگیا ایک تو صوبائی شہری اور دیہی علاقوں کو دائرہ کار میں لایا گیا اور دوسری جانب تمام انفرادی اضلاع کی شرح بھی تیار کی گئی۔سب سے زیادہ پنجاب میں انسانی ترقی کے حوالے سے بلند سطح دیکھنے میں آئی جبکہ اس کے بعد سندھ،سرحد اور بلوچستان کا بالترتیب نمبر آتا ہے۔جب صوبوں کی شہری اور دیہی علاقوں میں مزید تقسیم کی گئی تو اس میں سندھ کا شہری علاقہ سرفہرست رہا جبکہ دیہی علاقہ سب سے نیچے آگیا۔دئیے گئے زائچہ(Table2)میں اس انڈکس کو پیش کیا جا رہا ہے۔


2

اس تقابلی جائزے سے سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کا مایوس کن تفاوت سامنے آیا ہے۔ انسانی ترقی کے اس انڈکس میں ایک طرف تو سرحد اور بلوچستان کے درمیان فرق نظر آتا ہے تو دوسری جانب پنجاب کی صورت حال بھی ہوش ربا ہے۔جبکہ سندھ اور پنجاب کے شہری علاقے ایک ہی درجے پر نظر آتے ہیں ،صوبہ سرحد شہری اور دیہی تقسیم کی بنیاد پر انسانی ترقی کے چکر میں دونوں جانب تقریباً30درجے پیچھے ہے۔

ضلعی درجہ بندی
NHDRنے بھی انسانی ترقی(HDI)بنیاد پر زیادہ تفصیلی کام کیا ہے جو کہ اضلاع کی حدود تک پھیلا ہوا ہے۔یہ درجہ بندی پاکستان کے چاروں صوبوں سے منتخب کیے گئے 191اضلاع پر مشتمل ہے اور اس میں زیادہ وضاحت سے سروے کیا گیا۔مثال کے طور پر 60 فی صد اضلاع کا انتخاب اس طرح کیا گیا کہ اس میں سب سے اوپر کی سطح پر ایک تہائی کا تعلق صوبہ پنجاب اور 19 فی صد صوبہ سرحد سے تھے جبکہ نچلی سطح سے ایک تہائی اضلاع کو اس طرح منقسم کیا گیا کہ ان میں سے 47 فی صد بلوچستان سے منتخب کیے گئے جبکہ 34فی صد کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا جبکہ مذکورہ ایک تہائی کے سب سے نچلے درجے میں پنجاب کے کسی بھی ضلع کا انتخاب مناسب نہ سمجھا گیا۔ عالمی ادارہ برائے خوراک (WFP)کے 2003ء کے وضع کردہ خوراک کے تجزیے سے بھی پاکستان کے دیہی علاقوں کی دگرگوں صورت حال سامنے آئی ہے۔ یہ تحقیق (2003ئWFP/SDPI) ایک ثانوی اعدادوشمار کی بنیاد پر کی گئی تھی اس میں پاکستان کے تمام اضلاع بشمول فاٹا میں یہ دیکھا گیا کہ خوراک کی رسائی کتنی ہے جو خوراک خریدنے استطاعت پرکی گئی اور دیہات میں جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک کا حصول بھی زیر بحث آیا۔

اس سروے میں چونکا دینے والے اعدادوشمار سامنے آئے جس کے مطابق 120 اضلاع میں 62 فی صد دیہات کے لوگوں کی خوراک تک رسائی مخدوش تھی اور ان کی قوت خرید نہایت محدود تھی جبکہ 38 فی صد اضلاع میں مناسب خوراک کی اہمیت کا فقدان پایا گیا۔اس رپورٹ کے مطابق سندھ کے 65 اضلاع میں خوراک کی کمی کا سامنا تھا کہ پنجاب میں یہ حد حیرت انگیز طور پر 29 فی صد تک کم تھی۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں 88 فی صد اضلاع جبکہ بلوچستان میں 85 فی صد اضلاع متاثر تھے جبکہ فاٹا کی تمام سات ایجنسیاں اور تمام قبائلی علاقے غذائی قلت کاشکار تھے۔ کیلوریز کی بنیاد پر غربت کی شرح پر بھی سروے ترتیب دیا گیا جس کی رو سے بلوچستان سب سے پسماندہ ترین صوبے کے طور پر سامنے آیا جہاں ڈیرہ بگٹی میں غذائی قلت کے لحاظ سے یہ شرح 73 فی صد تھی جو کہ کسی بھی پاکستانی ضلع میں سب سے بلند ترین شرح تھی۔ بلوچستان کے 27 اضلاع میں سے 23 اضلاع کے 40 فی صد لوگ جو کہ دیہات میں قیام پذیر تھے کیلوریزکی بنیاد پر غذائی قلت کا شکار پائے گئے جبکہ اس موازنے کے تحت پنجاب کے 34میں سے محض 5 اضلاع ایسے تھے جو کیلوریزکی بناپر غذائی قلت کے مسائل سے دوچار تھے جبکہ صوبہ سرحد میں کسی ضلع میں یہ کمی نہیں دیکھی گئی اور سندھ میں 17 میں سے 7اضلاع متاثر پائے گئے جن کی کیلوریزکی کمی کی بنیاد پر غربت کی شرح 40فی صد تھی۔فاٹا میں بھی صورت حال خاصی سنجیدہ تھی کیلوریزکی غربت کی بنیاد پر دو وزیری ایجنسیوں میں 49فی صد اور46فی صد کی شرح دیکھی گئی۔

نتائج
غربت اور عسکریت پسندی کی جانب جھکائو کے درمیان حقیقی تعلق سے متعلق ابھی تک مکمل ڈیٹا دستیاب نہیں ہوا ہمیں ابھی تک وہ مکمل تعداد حاصل نہیں ہو سکی جنہوں نے عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور نہ ہی ہمیں ان کے گھر،اضلاع یا بھرتی دفاتر کی کوئی خبر ہے ہمارے اعداد وشمار محض ان تجزیوں کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے ہیں جو کہ علاقائی ڈیٹا کی صورت میں مہیا ہوا جبکہ کلیدی نتائج کچھ اس طرح ہیں۔

پاکستان بھر میں غربت کا عفریت
خواہ کیلوریز کی کمی کی بنا پر ہو یا پھر انسانی ترقی کے پیمانے کو پیش نظر رکھا جائے تمام پاکستان میں غربت کا راج ہے۔ عمومی طور پر شمالی پنجاب اور سندھ کا شہری علاقہ خوشحال تصور ہوتا ہے لیکن غذائی قلت کو مدنظر رکھا جائے تو بلوچستان اور سرحد میں کم ہی فرق پایا جاتا ہے اور یہی حال سندھ کے دیہی علاقوں اور جنوبی پنجاب بشمول فاٹا کا ہے۔

عسکریت پسند پس منظر والے اضلاع
سہیل عباس اور فیئر دونوں کے اعدادوشمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں میں شامل سب سے زیادہ لوگوں کا تعلق پشاور ،ہری پور اور آزاد جموں کشمیر کے علاقوں سے تھا جہاں غربت کی شرح نسبتاً کم ہے اور انسانی ترقی کا انڈکس بلند ہے جبکہ بلوچستان سے عسکریت پسندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی حالانکہ بلوچستان میں سیاسی صورت حال کبھی بھی اچھی نہیں رہی وہاں حکومت کو کم ازکم تین بغاوتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور ان کی سماجی اور اقتصادی صورت حال بھی غربت کی طرح نہایت مخدوش رہی۔

غربت کا میکانکی عمل دخل
اس نظریے کے دفاع میں زیادہ حمایت نہیں ملی کہ انتہا پسندی کی نبیادی وجہ غربت رہی ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے بنیادی کردار سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔سہیل عباس کے سروے کے تحت جوبات سامنے آئی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ عسکریت پسند سماجی اور اقتصادی پس منظرکی بنا پر عام گھرانوں سے وابستہ تھے جن کی آمدنی دوسرے اور تیسرے درجے کی نچلی سطح کے دیگر پاکستانیوں کی طرح تھی جبکہ فیئر کی رائے میں زیادہ تر عسکریت پسندوں کا تعلق نہایت ہنر یافتہ اور اوسط درجے کے لوگوں میں سے تھا لیکن اس کی تحقیق میں یہ بھی شامل تھا کہ ان جہادیوں میں ایک تہائی تعداد ایسی بھی تھی جو بے روز گار تھے یا کچھ لوگ محض ایک آدھ سال سے روزگار پر فائز ہوئے تھے اور اقتصادی دبائو کا شکار بھی تھے۔ غربت کے حوالے سے دو مختلف تجزیات کی روشنی میں ان تنازعات کو سمجھنا ہو گا جو کشمیر اور افغانستان سے علیحدہ علیحدہ پھوٹے۔ فیئر کے بقول کشمیر کے تنازعے کے پس منظر میں پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ سامنے آئے جبکہ سہیل عباس کے تجزیے میں نسبتاً نوجوان لوگ ابھر کر سامنے آئے جوکہ افغانستان پر امریکی جارحیت کارد عمل تھا اور یہ لوگ گھر والوں سے مشورہ کیے بغیر جہاد پر روانہ ہوئے۔لیکن دونوں تجزیوں کی رو سے یہ ثابت ہے کہ ان عسکریت پسندوں کا تعلق غربت اور کم تر درجے کے آمدنی والے گھرانوں سے تھا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بے روزگار نوجوان اپنی سماجی قدروں سے جلد متاثر ہوئے اور عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔

عوامی اسکول
کم آمدنی والے گھرانوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان ربط کا بڑا ذریعہ اسکولوں کی صورت میں بھی موجود رہا ہے۔عباس اور فیئر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان میںموجودہ ذریعہ تعلیم ایسے عوامل کو ہوا دیتا ہے جس سے عدم برداشت اور تنازعات کا حل لڑائی جھگڑے میں نظر آتا ہے۔اور تمام تنخواہ دار لوگ جو عمومی درجے کی ملازمتوں پر فائض ہوتے ہیں اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں جن میں اداروں میں آزاد خیالی کے فقدان کی وجہ سے مختلف نظریات میں اختلافات کو برداشت نہیں کیا جاتا۔اس طرح فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان جب روزگار کے مواقع نہیں پاتے تو بات بگڑ جاتی ہے جو کہ عسکریت پسندانہ ماحول میں ایسے ہی حالات کو جنم دینے کا باعث ہے۔

اختتامیہ
بگڑی ہوئی اقتصادی صورت حال اور خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے ممالک میں جہاں غربت پنجے گاڑھے بیٹھی ہو محرومیاں ہوں سماجی اور انسانی ترقی کے مواقع کم ہوں وہاں معاملات بگڑنے کا احتمال بڑھ جاتا ہے پاکستان جیسے ملک میں بھی غربت کی سطح بتدریج بدلتی رہی ہے حضوصاً زرعی شعبے میں اتار چڑھائو سے تبدیلیاں آئیں اسی وجہ سے ٠٢۔٢٠٠١ء سے ٠٦۔٢٠٠٥ء کے عرصے کے دوران سرکاری اعداد وشمار کے مطابق غربت کی شرح میں کمی ہوئی حالانکہ اسی عرصے کے دوران عسکریت پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا غربت کی شرح ناپنے والے عام تجزیے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جن علاقوں میں عسکریت پسندی کی نشوونماہوئی وہاں غربت کی شرح عام علاقوں سے زیادہ نہیں تھی اور اسی طرح کچھ پسماندہ علاقوں سے عسکریت پسندوں کی آمد بھی نہایت قلیل رہی مثلاً سندھ اور بلوچستان کے غربت زدہ علاقے اس کی مثال ہیں اس طرح اس بات کی کم شہادت ملتی ہے کہ دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں محض غربت ہی نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔عسکریت پسندی کے حوالے سے جو سماجی اور اقتصادی بنیادوں پر تجزیے کیے گئے ان کی روشنی میں یہی اخذ کیاگیا ہے کہ کلی طور پر نہیں مگر ایک اہم عنصر کے طور پر غربت نے لوگوں کو عسکریت پسندی کی ترغیب دی جبکہ جہادی عوامل پہلے سے ہی ایک موافق ماحول میں نشوونما پارہے تھے۔پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے روزگار کے ذرائع کے فقدان اور پبلک سکولوں کے نظام میں خامیاں بھی ان عوامل میں برابر کی شریک تھیں جنہوں نے عسکریت پسندی کو ہوا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔