working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

جہادی عوامل کی نشاندہی
ڈاکٹر سہیل عباس

یہ کتاب لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کہ آخر پس پردہ کون سے جہادی عوامل کارفرما ہیں جو کہ پاکستانی قوم کو اس شعر کے مصداق خطرات سے کھیلنے پر مجبور کرتے ہیں

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

ابتدائی طور پر 1970 اور1980 کی دہائیوں میں افغانستان میں بیرونی مداخلت سے پاکستانیوں میں بھی اسلامی ہمدردی اور مسلم بھائی چارے کے جذبات کی وجہ سے جہادی عناصر نے سر اٹھایا۔حالانکہ وہ اس بات سے قطعاً نابلد تھے کہ افغان بھائیوں کی کس انداز میںمدد کی جائے۔ ادھر پاکستانی حکومت کا عمل دخل بھی نہایت سرپرستانہ رہا جس کی وجہ سے اسے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی نگہداشت بھی کرنا پڑی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب روسی فوجیں افعانستان سے نکل چکی تھیں ۔ سویت یونین کے حصے بخرے ہونے سے کیمو نزم کے غبارے سے ہوا نکل چکی تھی ادھر امریکہ نے بھی پاکستان کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا چنانچہ طاقت کا توازن بگڑنے سے افغانستان کے اندر مختلف گروہ آپس میں دست و گریباں ہونے لگے۔ بالآخر تھکا دینے والی جنگ کے بعد طالبان کی حکومت بر سر اقتدار آگئی۔ وہ اپنے آپ کو اسلام کا حقیقی داعی تصور کرتے تھے۔ نائن الیون کا واقعہ پیش آتے ہی امریکیوں نے طالبان حکومت کو ختم کرنے کا عندیہ دیا اور افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں پاکستان اور افغانستان میں یہ بات زور پکڑ گئی کہ امریکیوں کو اکسانے میں یہودیوں کی کارستانی ہے اور وہ اسلام کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہیںاور اس طرح وہ مسلمانوں کو غلام بنا کر دم لیںگے۔

نتیجے کے طور پر مفتیوں اور ملائوں نے جہاد کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ روسی دراندازی کے وقت امریکہ اور مغرب پہلے ہی جہاد کے حوالے سے لوگوں کو حسین خواب دکھا چکے تھے اور اسی وجہ سے ایک سپر پاور شکست کھا چکی تھی چنانچہ ایک بار پھر جہاد اپنے کرشماتی کردار کے ساتھ جلوہ فگن ہو گیا۔

٢١ویں صدی کے شروع میںجن پاکستانیوں نے جہاد میں حصہ لیا یا افغانستان میں مختلف خدمات سر انجام دیں ان سے انٹرویوز اور دیگر معروضی اور زمینی حقائق کی روشنی میں یہ تحقیقی کام انجام دیا گیا ہے اس کے علاوہ پاکستان کے سیاسی حالات اور تاریخی اعتبار سے مذہبی تبدیلیوں کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے جن کی وجہ سے جہادی عناصر نے فروغ پایا۔

چونکہ پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریے پر قائم تھی اس لیے شروع شروع میں پیروں کا اثر ورسوخ زیادہ رہا یہ لوگ امن پسند تھے اور صلح کل کے علمبردار تھے اس لیے روایتی اسلامی قدریں پھلتی پھولتی رہیں لیکن 1971ء میں پاکستان ہندوستان کی جنگ میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر سامنے آیا تو دو قومی نظریے کو شدید دھچکا لگا چنانچہ مذہبی قوتیں اکٹھا ہونے لگیں نہ صرف یہ کہ انہوں نے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا بلکہ پاکستان نیشنل الائنس کے جھنڈے کے نیچے مجتمع ہو کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن میں بھی حصہ لیا اور بعد ازاں فوجی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے لئے راستہ بھی ہموار کیا۔

یوں ضیاء الحق ایک مطلق العنان آمر کی صورت میں اقتدار پر قابض ہو گیا اور اس نے جمہوری قوتوں کا سد باب کرنے کی خاطر اسلام پسندوں سے مل کراسلام نافذ کرنے کا عمل شروع کر دیا ۔ علماء دین اور پیروں کے ٹولے نے بھی حمایت کا یقین دلادیا۔ یوں گیارہ سال تک جنرل ضیاء کھلی من مانیاں کرتا رہا بنیادی حقوق اور شخصی آزادیاں معطل رہیں مگر علماء نے حکومت کی حمایت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا یوں یہ عناصر مختلف وزارتوں پر بھی فائز ہوگئے۔ اس طرح جمہوری قوتیں طاقت کے زور سے دبادی گئیں اور آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ بنیاد پرستی غالب آتی گئی، یہ گروہ اتنے فعال ہوئے کہ آنے والی حکومتیں بھی انکے اثر و رسوخ کو کم نہ کر سکیں۔

پاکستان میں ملا کے کردار سے بھی چشم پوشی ناممکن ہے اپنی معاشی بدحالی کی وجہ سے وہ زمیندار کے زیر اثر رہا اور انہی کی حمایت حاصل کرتا رہا ہے شاید اسی وجہ سے اسلامی جماعتیں انتخابات کے دوران کم سیٹیں جیت سکیں اس کے برخلاف پیر کا اثرو رسوخ نمایاں رہا اور لوگوں نے بھی ان پر ہر طرح کا بھروسہ کیا۔ یہ حضرات سیاست کے دھارے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ لیکن انہوں نے کبھی مذہب کا پلیٹ فارم استعمال نہیں کیا۔ ضیاء کے دور حکومت میں مساجد اور مذہب خصوصاً دیوبندی اسلام سامنے آیا۔ مساجد کا مذہب خانقاہ کے پیر سے زیادہ مضبوط تھا۔ علاوہ ازیں سعودی حکومت بھی دیوبندیوں کی حمایت کرتی رہی تھی اسی وجہ سے تبلیغی جماعت اورمدرسوں کا بدرجہ اتم فروغ ہوا یوں رفتہ رفتہ لٹریچر کی اشاعت اور مسجد کی سیاست منظم ہوتی گئی۔

افغانستان بھی روسی مداخلت کے بعد پاکستانی جہادیوں کی بھرتی کے حوالے سے سرفہرست آگیا۔ اسکے علاوہ کئی دوسرے مسلم ممالک سے بھی گوریلا بھرتی کئے گئے۔ اسطرح مختلف ممالک کے جہادیوں کے اکٹھے ہونے سے متشددخیالات کا فروغ ہوا اور یہ رشتے گہرے ہوئے۔ جہادیوں کا یہ خیال تھا کہ امریکہ کو سپر پاور بنانے میں مسلمانوں کا خون شامل ہے کیونکہ افغان جنگ میں ٤٠بلین ڈالز کا خطیر سرمایہ لگایا گیا تھا جس کا مصرف کچھ تو نکلنا ہی تھا۔

سویت حملہ آوروں کے رخصت ہونے کے بعد بھی افغانیوں کے حالات تبدیل نہ ہوئے۔ مقامی جنگجو اپنی حیثیت منوانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوگئے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے بھی اپنی پسند کی حکومت کے لیے مداخلت جاری رکھی اور ایک دھڑے کو مضبوط کیا پاکستان میں طالبان کی تربیت کی جاتی تھی۔ طالبان کے عزائم توسیع پسندانہ تھے پاکستانی لوگ انکی صلاحیتوں سے متاثر ہو رہے تھے۔ اور طالبان کی بہادری کے قصے زبان زد عام تھے۔

اگر پاکستانی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو حکمرانوں نے شروع دن سے ہی عوام کو مرکزی دھارے سے علیحدہ رکھا۔ ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال نہ رکھا تعلیم اور صحت کے حوالے سے جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔ حکمران یہی خیال کرتے تھے کہ عوام جتنے کمزور ہوںگے برابری اور آزادی کے حقوق کی حمایت میں آواز بلند نہیں کریں گے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہادیوں کی سرگرمیاں افغانستان میں بیرونی دراندازی کے خلاف تو تھیں ہی مگر یہ اپنے حکمرانوں سے بھی بیزاری کا اظہار تھا۔ ملا اور مذہبی گروہوں نے بھی حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ تمام بگڑتے حالات کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے لوگوں کو افغانستان کے عوام کی زبوں حالی کے قصے سنائے اسلام کی کمزو ر سی تصویر پیش کی اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بھڑکایا چنانچہ ایسی صورتحال میں لوگوں نے جہاد کو گلے لگایا کیونکہ اس کی حمایت میں فتوے بھی آنے لگے تھے۔

پاکستانی حکومت ابھی مستقبل کی پالیسی کے حوالے سے ساز باز کر رہی تھی۔ مگر لوگ اتنے جوشیلے ہوچکے تھے کہ وہ والدین کی اجازت کے بغیر دھڑا دھڑ افغانستان کی جانب ہجرت کرنے لگے۔ عام لوگوں کایہی خیال تھا کہ مغربی ممالک ہندو اوریہودی سے مل کر مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کر رہا ہے۔حالانکہ ایران، عراق، کویت جنگ اور مسلمانوں کے اندرونی تنازعات کو دیکھا جائے تو مسلمان نے مسلمان کا دوسری قوموں کی نسبت زیادہ خون بہایا ہے۔

ایک سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بوڑھوں کی نسبت نوجوانوں نے جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کیونکہ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ان کے لئے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جہاں وہ اپنے مسائل اور عدم مساوات کا رونا روئیں۔ وہ یہی محسوس کرتے تھے کہ ان کے پاس خوشحالی کے لئے کوئی مواقع موجود نہیں ہیں۔ ناانصافی کا دور دورہ ہے اور ایک جمود کا سماں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی راہیں خود تلاش کیں۔ اور نفس کی تسکین کے لئے جنتوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

اس کے علاوہ ایک عنصر یہ بھی تھا کہ انہیں بزرگوں نے سیاست سے دور رکھا ۔ مزید برآں سیاسی رہنمائوں نے بھی مایوس کیا۔ حالانکہ روٹی کپڑا اور مکان کا خوشنما نعرہ لگایا گیا جو کہ اپنے اندر خاص کشش رکھتا تھا لیکن ملا نے اس کی بھی مخالفت کی اور نوجوانوں کی توجہ حیلے بہانوں سے اپنی طرف مبذول کرائی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ موجودہ نوجوان نسل ضیاء دور کی پیداوار ہے اور اسی زمانے میں مذہبی سرگرمیوں کے حوالے سے میڈیا، سکول، مدرسوں ، مساجد میں اسلام کا کلچر عام کیا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ منتقل کر رہے تھے۔ ملا نے عام لوگوں میں یہی مشہور کیا کہ خدا ان پر مہربان ہے اور ضیاء حقیقی مسلمان ہے جس کی وجہ سے قوم پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہے۔ ضیاء الحق وہابی نظریات کے زیادہ قریب تھا جسے سعودی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس طرح سعودی عرب سے آنے والے سعودی اسلام کے ہمدرد پاکستانی اپنے عزیزوں رشتہ داروں کے لئے اسلام کا ماڈل تھے۔

یوں اہلحدیث مساجد کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا گیا اور اس ضمن میں ایک خطیر سرمایہ بھی پائپ لائن میں موجود تھا۔

نوجوانوں کے علاوہ بڑی عمر کے لوگوں نے بھی افغان جہاد میں حصہ لیا۔ انہیں ملا یہ کہہ کر ڈراتا تھا کہا اگر افغانستان میں مسلمان ناکام ہوئے تو مغربی قدروں کا بہائو پاکستانی معاشرہ میں عود کر آئیگا۔ جس سے چھوٹے بڑے کی تمیز جاتی رہے گی۔ اس لئے اسلام کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس پروپیگنڈہ کے زیر اثر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی تحریک پیدا ہوئی کیونکہ انہیں یہی خطرہ تھا کہ پاکستانی معاشرہ بھی آلودہ ہوا تو روایتی اسلامی قدریں پامال ہو جائیں گی پاکستانی معاشرے میں سفید بالوں کے حوالے سے ایک خاص تاثر پایا جاتا ہے۔ بڑی عمر کے لوگ ہی خاندان کے سربراہ تصور ہوتے ہیں اور وہی خاندانی تحفظ کا نشان سمجھے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان افراد کی جہاد میں شمولیت نے ان کے ہم عصروں کو بھی متاثر کیا ۔ جبکہ پٹھانوں کے معاملے میں یہ روایت عام تھی کہ ان کی سرحد کے دونوں جانب رشتہ داریاں ہیں۔ ایک دوسرے سے شادیاں کرتے تھے اور مذہبی طور پر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ بڑی عمر کے لوگ نماز ، صوم و صلوة کے پابند ہوتے ہیں اور ان کے ذہن میں یہ بھی بھر دیا گیا تھا کہ جہادہی ایک ایسا عنصر ہے جو کہ گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔ اس طرح پختہ عمر کے لوگ بھی محاذ پر جانے لگے مگر ان کی تعداد نوجوانوں سے خاصی کم رہی۔

پاکستان جغرافیائی طور پر چار صوبوں میں تقسیم ہے۔ جن میں سے دو صوبہ سرحد اور بلوچستان ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی کی شرح پورے ملک کی آٹھ فیصد (8%)ہے۔ جبکہ صوبہ سرحد سب سے چھوٹا صوبہ ہے اوراس کی شرح گیارہ فیصد(11%) ہے۔ ان دونوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی 140 ملین ہے۔ جس میں 15.4% پٹھان ہیں جو کہ قبائلی روایت کو مذہبی بنیاد پر ترجیح دیتے ہیں۔

پشاور اور افغانستان کے درمیان کافی قربت پائی جاتی ہے۔ دونوں طرف کے لوگوں کی زبانیں رسم و رواج اور ثقافت ایک ہے۔ بہت سے پٹھان مختلف اوقات میں افغانستان میں جہاد کے لیے جاتے رہے ہیں۔ صوبہ سرحد کے شہری علاقوں میں مسجد کے مذہب کی بھرمار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے جہاد کی لپیٹ میں ہیں سینکڑوں مدرسے بنائے گئے ہیں۔ مذہبی لٹریچر موجود ہے اور تمام بڑی جہادی تنظیموں کے دفاتر کھلے ہیں۔ پاکستان کے کسی اور صوبے کی نسبت افغانستان کے حالات پشاور کو زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ افغانستان میں زیادہ تر بزنس کا مرکز پشاور ہے اور پھر مذہبی رشتے بھی گہرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں کسی قسم کی تبدیلی سے پشاور براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ سمگلنگ اسلحہ اور منشیات کی غیر قانونی تجارت نے کابل اور پشاور کے لوگوں کو ایک کر رکھا ہے وہ ایک دوسرے کو ایسا پڑوسی خیال کرتے ہیں جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں۔ جہاں تک بیرونی اثرات کا تعلق ہے پشاور کئی عشروں سے جہادی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے یہاں اسلحہ اور دولت کا انبار لگا ہے۔ ضیاء دور کے دوران امریکی اور سعودی پیسے کی فراوانی نے گہرے اثرت مرتب کیے ہیں۔ عرب ممالک کے جہادی افراد کی موجودگی نے بھی صوبہ سرحد کے لوگوں کو خاصا متاثر کیا ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہادی تنظیموں میں دوسرے مکاتیبِ فکر کی نسبت دیوبندی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پیسے اور طاقت کے فقدان کی وجہ سے دوسرے گروہ پیچھے تھے اس لئے اپنی نمائندگی سے محروم رہے۔ علاوہ ازیں روسی ریاستوں میں آزادی کے بعد اثر و رسوخ کا معاملہ بھی پیش نظر تھا جو کہ مشرق وسطی میں طاقت کے توازن کے لئے اہم خیال کیا جاتا تھا۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں زیادہ تر بریلوی فقہ کے لوگ آباد ہیں وہ ''پیر'' کے زیر اثر ہیں اور مساجد کے اثرات متاثر کن تصور نہیں ہوتے۔ ہر قدم اپنے مرشد کی ہدایت پر اٹھایاجاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی پنجاب کے جہادیوں میں 85% کا تعلق دیہات سے تھا جو کہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔

اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے مساجد کے ذریعے اسلامی اثرات گہرے ہوئے ہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ ''پیر'' بھی جہاد کے میدان میں اپنی نمائندگی ممکن بنانے کے لئے در آئے ہیں اور انہوں نے اپنے مدرسوں سے مریدوں کو افغانستان لڑنے کے لیے روانہ کیا۔ بریلوی چونکہ عرصہ دراز سے دیو بندی مکتبہ فکر کے مقابل رہا ہے چنانچہ موجودہ دور میں انہوں نے بھی اپنی خانقاہی نظام میں تبدیلی متعارف کرائی ہے جس میں نظم و ضبط کی بحالی، قرآن فہمی، موسیقی سے بیزاری اور خواتین کی خانقاہوں میں آنے پر پابندی شامل ہے۔

مزید برآں ملک کی اقتصادی صورت حال کے پیش نظر پنجاب کی دیہاتی آبادی زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کی سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی ، موروثی زمین کی تقسیم اور بنیادی ضرورتوں کے فقدان نے بھی لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ چنانچہ اس ذہنی کھچائو سے آزاد ہونے کے لئے خوشحال جنتوں کے تصور نے انہیں جہاد کی جانب راغب کیا جہاں انہیں شانتی ہی شانتی نظر آئی اور سنہری ساحلوں کے خوابوں نے دل لبھایا۔

جہاں تک صوبہ سندھ کے شہری علاقوںکا تعلق ہے تو یہاں زیادہ تر جہادی کراچی سے آئے۔ کراچی تقریباً 10 ملین لوگوں کا شہر ہے جو کہ پورے ملک کی آبادی کا 8% بنتا ہے یہاں شروع ہی سے متعدد مذہبی درسگاہیں ہیں جہاں ہر قسم کا انسان وجود رکھتا ہے ، سیاسی عناصر بھی موجود ہیں۔

جماعت اسلامی کا بھی مضبوط گڑھ تصور ہوتا تھا جوکہ MQMکے آنے کے بعد اپنی حیثیت برقرار نہ رکھ سکی لیکن پھر بھی چھوٹے تجارتی گروپ اور نچلا درمیانی طبقہ اسکی حمایت میں سرگرم نظر آتا ہے۔

یہاں مذہبی عناصر دوبارہ مجتمع ہونے شروع ہو گئے ہیں کیونکہ سندھ کو شہری اور دیہی علاقوں میں منقسم کرنے کی وجہ سے سیاسی اور سماجی زندگی متحرک ہوتی نظر آتی ہےMQMکی تقسیم کے بعد جمعیت العمائے اسلام اپنا سیاسی تشحض پھیلا رہی ہے۔اگر کراچی اور پشاور کے درمیانی فاصلے کو مد نظر رکھا جائے تو یہ واقعی خاصا لمبا سفر بنتا ہے نسبتاً اس کے پشاور اور کابل کا موازنہ کیا جائے ۔لیکن اپنا مقصد حاصل کرنے کی غرض سے اسلامی اداروں نے جہادی ذہن کی نشوونما میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔

صوبہ بلوچستان سے محض 2.2فی صد جہادی تعلق رکھتے ہیں حالانکہ اس کی ایک لمبی سرحد افغانستان سے ملتی ہے جبکہ اس کی آبادی ملکی آبادی کا 8 فی صد بنتی ہے۔لیکن اس تفاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بلوچستان میں بلوچ،پشتون اور دوسری قومیں آباد ہیں اور بلوچوں کی مذہب سے اتنی گہری وابستگی نہیں ہے جس قدر وہ اپنے سرداروں کا احترام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اتنی پٹھان جو یہاں ہجرت کرکے آئے بنیادی طور پر دیوبندی نہیں تھے بلکہ مزاروں اور خانقاہوں سے جڑے ہوئے تھے۔گو کہ کوئٹہ بھی حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے مجاہدین کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے مگر پشاور تو براہ راست جہادیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر اپریشن پشاور سے ہی ترتیب پاتے تھے۔علاوہ ازیں بلوچستان نے مرکز کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے تھے اور وہ صوبے کے قدرتی اور دیگر وسائل پر کنٹرول کی خاطر جنگ لڑرہا تھا۔ یہاں مارکسی پارٹیوں کا عمل دخل بھی سیاسی لحاظ سے مضبوط تھا۔بلوچستان میں افغانستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں سے بھی میلان پایا جاتا تھا۔اگر جہادیوں کو تعلیم کے معیار پر پرکھا جائے تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ مکمل شرح خواندگی اور سکول میں حاضریوں کے لحاظ سے ان کی شرح کافی بہتر ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہادی ان پڑھ نہیں تھے حالانکہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جہالت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔اس لئے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ملا نے ان پڑھ لوگوں کو ورغلا کر جہاد کیلئے بھیجا ہو گا۔ہماری رپورٹ سے اخذہوتا ہے کہ حکومتی تعلیمی نظام میں ہی کچھ ایسا جھول پایا جاتا ہے جو ان مذکورہ مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔

برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا نظام پرائیوٹ ہاتھوں میں تھا طلباء کسی گھر میں اکھٹے ہوتے جہاں کوئی خدائی خدمت گاردرس دے دیتا بعض اساتذہ کی خواہش پر مقامی نواب یا بادشاہ کچھ مشاہرہ بھی ادا کردیتے تھے تعلیمی ادارے عموماً شہروں میں تھے جہاں ارباب اختیار کا ارتکاز پایا جاتا تھا عمومی طور پر انگریزوں نے مغربی اور انگریزی زبان کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی جوکہ مقامی لوگوں کے نزدیک بدیسی زبان تھی اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا یہی وجہ تھی کہ مسلمان ان کی ہر پالیسی کے مخالف تھے۔اس لئے وہ تعلیم میں پیچھے رہ گئے جبکہ دوسری جانب ہندو نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور دھٹرادھٹر خالی آسامیوں پر فائز ہوتا گیا۔سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی شکل میں مسلمانوں کے زخم مندمل کرنے کی کوشش کی مگر یہ آٹے میں نمک کے مترادف تھا جبکہ آج بھی مسلمانوں کا مغربی تعلیم کے خلاف تعصب مسلسل جاری ہے لارڈ میکالے کا یہ نظریہ کہ تعلیم کو محدود رکھو تاکہ حکومت مضبوط ہو۔ لگتا ہے کہ تقسیم کے بعد بھی اسی طرح عمل پذیر ہے۔اس کا یہ خیال بھی تھا کہ دو طرح کی تعلیم اس لئے ضروری ہے کہ اردو زبان پڑھ کر آنے والے کلرک بنیں اور انگریزی پڑھنے والے افسران کی صف میں شامل ہوں مزید یہ کہ ایسے اردو میڈیم اسکولوں کی بھی مخالفت کی گئی جس کی تعلیم سے طاقتور عناصر کے رتبے پر ضرب لگتی تھی۔چنانچہ یہی وجہ تھی کہ ایک لمبے عرصے تک زمینداروں،سیاست دانوں ،نوابوں اور روحانی پیشوائوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق تعلیم کی مخالفت کی جنہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر ان کے پیرو یا کسان اور مزدور نے تعلیم حاصل کرلی تو سستی مزدوری کا کیا بنے گا اور اس طرح پھر رعایا باشعور ہو کر اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑی ہوگی جوکہ ان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔اس طرح وہ لوگ ملک کے وسائل میں اپنا حق بھی جتانا شروع کردیں گے۔اس لئے صرف امیروں کو ہی پڑھنے کا حق حاصل ہے جبکہ غریب انگوٹھا چھاپ محض اپنی زمین بیچ کر گزارہ کرے اس طرح ان پرآسانی سے حکومتی عملداری بھی قائم ہو جائے گی۔اس لئے ان کے ذہنوں میں یہ بات بھی ڈالی گئی کہ تعلیم حاصل کرنے سے ان کے پسندیدہ نظریات،ثقافت اور مذہب تک تبدیل ہو سکتا ہے اور خصوصاً خواتین کو تو تعلیم سے ضرور دور رکھو ورنہ تمام مذہبی اور گھریلو ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آن رہے گا۔چنانچہ خیال عام ہوا کہ دنیاوی تعلیم کچھ نہیں دیتی جبکہ اسلامی تعلیم اللہ سے ملواتی ہے۔چنانچہ یہ ان نظریات نے ملا کی بہت مدد کی اور اس کا کاروبار چل نکلا کسان زمین میں ہل چلاتا رہا اور کم پیسوں پر مزدوری جاری رکھی یوں تعلیمی نصاب کو بھی ترقی یافتہ نظریات کی بھنک نہ پڑنے دی جس سے معاشرتی توازن روزبروز بگڑتا چلا گیا۔خصوصاً 1970ء کے بعد کے حکمرانوں کی مرضی کے مطابق ایسا نصاب درسی کتب میں شامل کیا گیا جس میں ایسے تمام مضامین نکال دئیے گئے جو کسی حد تک قابل قبول تھے اور دلائل اور سوالات کا موجب بھی بنتے تھے بلکہ وہ سیاسی اور موافق مضامین داخل کئے گئے جو ان کی بقا کا موجب بنتے تھے حتیٰ کہ مغلیہ تاریخ سے بھی پیچھا چھڑالیا گیا صاف ظاہر تھا کہ اپنی حمایت کے لئے وہ اسلامی تاریخ بھی محو کر دی گئی جو ملائیت کی حمایت نہیں کرتی تھی۔ ضیاء الحق نے اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنی حکومت کا باقاعدہ حصہ بنایا اور تعلیم کو بھی سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی کسر اتھا نہ رکھی گئی چنانچہ ملا نے مسجد میں اور استاد نے مدرسوں میں اپنی اپنی ذمہ داریا ں سنبھال لیں مذہبی لٹریچر لکھا جانے لگا اور اپنی حیثیت منوانے کے لئے قرونِ اولیٰ کے اسلامی نظریات کی تشہیر شروع ہو گئی۔

اسی طرح لوگوں کی توجہ غم روزگار سے ہٹ کر اس جانب مبذول ہو گئی کہ مسلمان مسائل کا شکار ہیں کافی بھیڑیں اسلام کی صفوں میں گھس آئیں جو اسے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں وغیرہ وغیرہ اس پروپیگنڈے کا یہ نتیجہ نکلا کہ اتنے طلباء مذہبی مدرسوں سے نہیں آئے جتنے جہاد کی غرض سے عام سکولوں سے دستیاب ہوئے۔ مدرسوں میں مذہبی بحث کی وجہ سے گروہی مسائل نے بھی جنم لیا جس سے مختلف مذاہب اور مکتبہ فکر میں دوریاں اور نفرتیں پھیلیں اسی طرح باہم مسائل پیدا ہونے سے حکومت کی لوگوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی مضبوط ہوتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی جنگ میں انہیں وہ مطلوبہ دشمن ہاتھ آگیا جس کی انہیں تلاش تھی۔

دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ مدرسے مذہبی نفرت کے آلات میں تبدیل ہو گئے جبکہ اسکول اور کالج کے طلباء کی صورت میں ایسے لوگ سامنے آئے جو اپنے آپ کو اسلام کا چیمپئن تصور کرتے تھے مگر اسلام کی اصل روح سے کوسوں دور تھے وہ اپنے آپ کو ہر اس شے سے ٹکرا دینا چاہتے تھے جو کہ مغرب زدہ تھی اسی طرح معاشی مسائل مثلاً قانون ،حکومت، انصاف،ملازمت ، صحت، تعلیم ،آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق سے دوری پیدا ہوئی اور جوان ان بیرونی تنازعات کا شکار ہو گئے جو کبھی بھی حل ہونے والے نہیں تھے۔

ہمارے جاہل جہادیوں کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ اگر وہ جہاد پر نہ گئے وہ خدا کے غیض و غضب کا نشانہ بنیں گے اور حکم عدولی کی صورت میں جہنم واصل ہوں گے جبکہ پڑھے لکھے مجاہدوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ کافر آچکا ہے وہ تمام اسلامی قدروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا اس طرح ان کو آہستہ آہستہ ورغلایا گیا جبکہ ان کے بڑوں نے مساجد سے حاصل شدہ مزید مواد بھی معصوم ذہنوں میں ٹھونسنے کا عمل جاری رکھا۔ اس طرح بتدریج مرض بڑھتا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ مذہبی پراپیگنڈا کی کتابیں بھی دھڑا دھڑ مارکیٹ میں آگئیںکیسٹ بھی بکنے لگے اور مذہبی لیڈروں کے لیکچر سامنے آنے لگے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی مدرسوں سے محض 20%جہادی بنے جبکہ باقی تمام لوگ عام اسکولو ں سے پڑھے تھے۔مختلف تحقیقی اداروں، اخبارات کی رائے اور خصوصاً عامر رانا کی تحقیقی رپورٹ میں جو کہ ایک کتابی شکل میں منظر عام پر آچکی ہے اس بات کا واضح عندیہ ملتا ہے کہ دہشت گردی جیسی سرگرمیوں میں مدرسوں کے طلباء کی نسبت کالج کے لڑکوں نے زیادہ حصہ لیا جیسا کہ مری میں واقع چرچ پر حملہ کے وقت دیکھا گیا تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعلیم مسائل کا حل نہیں بلکہ حقیقی اور اصلی تعلیم سے ہی اُن سوالات کا جواب ڈھونڈا جا سکتا ہے جس کی بنیاد سیاسی عناصر کی تقویت کا باعث نہ بنے یا پسندیدہ مذہبی رجحانات سے رنگ بھر کر پیش نہ کی جائے۔ حالیہ تعلیمی نظام تو محض دقیانوسی خیالات کا چربہ ہے جس میں حقیقی اسلامی روشن خیالی کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اقلیتی مذاہب کا رجحان اسلام کی جانب اس طرح نہیں دیکھنے میں آرہا جس کی واقعی ضرورت ہے۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ حکمران، فیو ڈل لارڈ، زمیندار، پیر، اور اہم مُلا بھی اپنے بچوں کو جدید تعلیم دلواتے ہیں انہیں برطانوی طرز کے''O'' اور''A''لیول کی یونیورسٹیوں کے سلسلے میں زیورِ علم سے آراستہ کرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مذہبی مدرسوں سے فارغ التحصیل طلباء ملا یا مذہبی استاد بن سکتا ہے کیونکہ مدرسوں سے حاصل شدہ اسناد کو بھی عام سرکاری اور حکومتی یونیورسٹیوں کی تعلیم کے برابر تصور کیا جاتا ہے اس طرح اب مسجد، سکول اور کالج کے ساتھ ساتھ مذہبی مدرسوں کو بھی یہ اختیار حاصل ہو چکا ہے کہ ان کی اسناد حاصل کرنے والے طلباء کہیں بھی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔

ایک اور حیران کن تجزیہ بھی سامنے آیا ہے کہ جہادیو ں میں سے محض ایک تہائی سے بھی کم ایسے تھے جنہو ں نے اسلامی مدرسوں سے تعلیم حاصل کی اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کا عرصہ وہاں رہے ۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جہادیوں کی پیداوار میں محض اسلامی مدرسوں کا ہی کردار نہیں ہے اس لئے انہیں مکمل طور پر موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ مساجد کے ملا کے خیالات سے متاثر ہو کر جہاد کے لئے کمربستہ ہو گئے تھے۔

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور 70فی صد آبادی دیہات میں رہتی ہے جبکہ فی کس کے حساب سے زمین پندرہ ایکڑ کے حساب سے حصے میں آتی ہے۔ اس لئے زیادہ تر خاندان ایسے ہیں جو کہ قلیل زرعی آمدنی پر گذر اوقات نہیں کر سکتے۔ اس لئے کسانوں کو مجبور ہو کر بڑے زمینداروں کا مزارع بننا پڑتا ہے۔یہ نعرہ عموماً سنا جاتا رہا ہے کہ زمین اس کی ہے جو اِس میں ہل چلاتا ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ نہ تو ایوب خان کی 1959کی اصلاحات کام آئیں اور نہ ہی 1973ء کی ذولفقار علی بھٹو کی اصلاحات کوئی بنیادی تبدیلی کی نوید لائیں۔ امید کی جارہی تھی کہ بے زمین ہاریوں میں زمین تقسیم کر دی جائے گی۔ مگر بڑے زمینداروں نے اپنے عزیزو اقارب کے نام انتقال منتقل کر کے بندر بانٹ کر لی اور اپنا کنٹرول بدستور برقرار رکھا اور ہاریوں کے قسمت جوں کی توں رہی۔

پاکستان بڑے زمینداروں کے اثر و رسو خ سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر صنعتوں کا جال نہیں بچھ سکا۔ ذولفقار علی بھٹو کے 1970ء میں صنعتوں کو قومیانے سے اسی زمیندار طبقے نے آگے آنا شروع کر دیا۔ کیونکہ صنعت کار بری طرح بددل ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا اس طرح پرائیوٹ سیکٹر آگے آنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اس دور میں جو سرمایہ کاری ہوئی اس میں حکومتی تعاون کا عنصر شامل تھا جو صنعت کار سامنے آئے انہوں نے بھی حکومت سے بڑے بڑے قرضے حاصل کئے اور اپنے صنعتی ایوان تعمیر کئے۔ چنانچہ اس طرح انہوں نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ بھی قائم کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے غریب ہاری کو ایک ایسے طاقت ور زمیندار کا سامنا ہے جو کہ اقتصادی اور سیاسی دونوں حوالوں سے نہایت مضبوط ہو چکا ہے۔

بھٹو صاحب کی مزدور اصلاحات نے جہاں لیبر یونین کو مضبوط کیا وہاں مزدوروں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا لیکن ساتھ ہی یہ لیبر یونین حکومت کے ہاتھ میں کھلونا بن گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ نکالنا شروع کر دیا۔ یوں ملازمتوں کا حجم سکڑنا شروع ہو گیا۔

ملک کی زیادہ تر لیبر دیہاڑی دار مزدوروں پر مشتمل ہے دوسری جانب ملک کی اقتصادی حالت بھی اچھی نہیں تھی ۔لازمی طور پر مزدور عدم تحفظ کا شکار ہو گئے اور وہ علاقے جو ابھی پوری طرح شہری سہولتوں سے آراستہ نہیں تھے وہاں کام ملنا دشوار ہوتا گیا اور وہ مزدور جو ٹھیکیدارو ں کے پاس باقاعدہ ملازمت کرتے تھے آہستہ آہستہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتے گئے۔ پھر یہی لوگ جہاد کی غرض سے جانے کو تیار ہوئے کیونکہ ایک یہی راستہ انہیں روشنی کی جانب جاتا نظر آیا۔ دوسری جانب وہ کسان اور مزدور جو آزادی سے کام کرنے کے خواہاں تھے ان میں سے 50فیصد کو مستقل بنیادوں پر کام ملا اس طرح دیہاڑی دار مزدور اپنے دکھوں کے مداوا کے لئے بندوق لے کر جہاد کے لئے نکل کھڑا ہوا کیونکہ ملا نے اسے یہ یقین دہانی کرا دی تھی کہ اگلے جہاں میں ان تمام نعمتوں کا بندوبست کر دیا گیا ہے جس کا اسے دنیاوی زندگی میں نہ ملنے کا قلق رہا۔انہیں اچھے مشاہرے کی بھی خبر سنائی گئی تھی اور دوسری صورت میں آفاقی جنتوں کا راستہ تو کھلا ہی ہوا تھا۔

پاکستان کے روایتی معاشرے میں خاندان اقدار کا بھی ایک اہم مقام رہا ہے مذہبی جماعتو ں کے مولوی، مختلف نظریات کی اسلامی قوتوں، مساجد، مدرسوں کا مختلف خاندانوں کی تراش خراش میں گہرا عمل دخل ہے اور پھر یہی اثرات ان کے بچو ں پر بتدریج منتقل ہوئے کیونکہ پہلے ملا والدین کے کہنے پر بچو ںکی تربیت کرتا تھا مگر اب مساجد سے والدین خود بھی متاثر ہو رہے تھے جس کا براہ راست بچوں پر اثر پڑنا ایک فطر ی عمل تھا دوسری جانب پسماندہ معاشرے کے جاہل والدین کے مقابلے میں ایسے باقاعدہ ادارے جو پیسے، طاقت اور وسائل پر حاوی تھے وہ بھی ان کے بچوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں پوری طرح فعال رہے۔

مغرب کے مقابلے میں روایتی معاشروں میں خاندان کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے اور یہی تصور کیا جاتا ہے کہ بچے والدین کے زیر اثر ہوتے ہیںاور ان سے کوئی بات بھی منوائی جا سکتی ہے لیکن یہاں بھی ملا نے اس اتحاد کو نقصان پہنچایا اس نے نوجوانون کو اس بات پر قائل کر لیا کہ جہاد پر جانے کے لئے والدین کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اس سے ایک طرف تو خاندانی اکائیوں پر ضرب لگی دوسری جانب ملا نے جہادیوں کو مکمل طور پر رام کر لیا اس طرح دوسرے تمام عوامل عضوِ معطل ہو کر رہ گئے لیکن اس کے باوجود بھی خاندانی بندشوں سے یکسر ہی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

خاندان ہی طاقت اور سیاست کی بنیادی اکائی ہے اور سماجی حوالے سے انسانی ترقی اور نشوو نما کا ادارہ ہے والد خاندان کا سربراہ ہوتا ہے اسی کا حکم چلتا ہے اور وہ کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔لیکن زمیندار،سیاستدان اور دوسرے عناصر نے اپنے مفاد کی خاطر ملا اور والدین کے درمیان ساز باز کا بیج بو دیا۔ وہ ایک عام فہم آدمی کو یہ کہہ کر ورغلاتا ہے کہ اگر تمہاری بیٹی اسکول گئی تو یہ پڑھ لکھ کر اپنے دوست کو خطوط لکھے گی اسی طرح اگر خواتین اقتصادی اور سماجی طور پر مضبوط ہو گئیں تو یہ مردوں کے لئے خطرے کا باعث ہوگا اور لڑکیاں اپنی شادی کے معاملے میں خود مختار ہو جائیں گی۔ یہ سن کر گھر کا بادشاہ یعنی والد پریشان ہو جاتا ہے اور وہ خواتین پر زیادہ سختیا ں مسلط کر دیتا ہے۔

اسی طرح بڑے زمینداروں کے مزارعے جو کہ دوسرے درجے کے ملازم کا درجہ رکھتے ہیں وہ ان کے زیر اثر اپنے بچوں سے خیالات کا تبادلہ خیال نہیں کرتے وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس طرح چھوٹے بڑے کی تمیز جاتی رہے گی اور ان کی قانونی اتھارٹی خطرے میں پڑ جائے گی یہی وجہ ہے کہ بڑے ہوتے ہوئے بچوں سے والد کا ایک فاصلہ رکھتا ہے جبکہ والدہ ان کے قریب ہو جاتی ہے مگر وہ بھی اس دوری کو نبھانے کے لئے بچو ں کی غلطیوں کو والد کے علم میں نہیں لاتی ۔ لڑکیوں کو بھی آزادی اظہار کی کھلی چھٹی نہیں دی جاتی بقول ان کے اس طرح وہ خاوند کے گھر جاکر زیادہ مسائل کا باعث نہیںبنتیں ۔

شادیاں عموماً خاندان میں ہی ہوتی ہیں اور زیادہ تر والدین کی رضا مندی سے انجام پاتی ہیں تاکہ موروثی وراثت کی تقسیم نہ ہو۔ نئی شادی شدہ جوڑوں میں محبت کا وہ معیار قائم نہیں ہوتا اس لئے بیوی عموماً اپنے بہن بھائیوں کی جانب زیادہ جھکائو رکھتی ہے اس طرح اگر کوئی مسئلہ سر اٹھائے تو دلہن کے والدین اپنی بیٹی کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرنے میںپیش پیش ہوتے ہیں آج کل زیادہ طلاق کا رجحان اس لئے بھی ہے کہ لڑکی مطلوبہ معیار اور مقدار کا جہیز لانے میں ناکام رہی تھی جو کہ ساس کے غیض و غضب کا باعث بنا اور بعض لڑکیاں تو ان وجوہات کی وجہ سے چولہا پھٹنے جیسے حادثات کا شکار ہو کر مر وا دی جاتی ہیں۔

لڑکے ماں کی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ گھر میں انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان کے حقوق کی خاطر باپ کے مقابل آجاتی ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے روز بچے اپنی ماں کے نام پر اٹھائے جائیں گے اسی وجہ سے عورت کا مقام ضروربہتر ہوا ہے لیکن معاشرے میں وہ پھر بھی خاوند یا بیٹے کے نام سے پکاری جاتی ہے اور قربانی کا جذبہ دیکھئے کہ اپنی حصے کی جائیداد تحفے کے طور پر اپنے بھائیوں کو دے ڈالتی ہے۔
تمام خاندان اکھٹا رہتا ہے جس سے بعض کے حقوق متاثر ہوتے ہیں اسی طرح برادری براہ راست ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی مگر خاندانی روایت انہیں بھی عزیز ہوتی ہے۔

جب کہ قبائلی نظام میں جو کہ ملک کے مختلف حصوں میں آج بھی موجود ہے اپنی روایت ، سماجی قدروں اور ثقافت کی بنیاد پر زیادہ سختی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے بعض قبائلی علاقوں میں تو قبائلی سردار بچوں کے نام رکھتے ہیں اور ان کی منظوری سے ہی شادی طے پاتی ہے جبکہ روحانی سلسلوں سے جڑے ہوئے لوگ پیروں،فقیروں سے یہی کام لیتے ہیں جن کو وہ ان کی قدروں کی امین سمجھتے ہیں۔

وہ لوگ جو دیہات سے ہجرت کر کے شہروں میں آکر بس جاتے ہیں تمام عمر اپنی برادری چھوڑنے پر آنسو بہاتے رہتے ہیں اور اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح ملا کے زیر اثر آجاتے ہیں اور اسی طرح شہر کا ملا بھی زمیندار کے اثر سے مبرأ ہوتا ہے اس طرح وہ اپنی من مانیا ں کرنے میں یکسر ہی آزاد خیال کیا جاتا ہے۔ نچلی مڈل کلاس اس صورت حال سے بے حد متاثر ہوئی اوپر سے جنرل ضیاء الحق کی 1977ء سے 1987ء تک کی اسلامی اصلاحات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔

شہر منتقل ہونے سے خواتین کا بھی مذہب کی جانب رجحان بڑھا لہٰذا جیسے خواتین کے اداروں نے قرآن اور احادیث کی تعلیم عام کی اس کے علاوہ تمام گھروں میں بھی مذہبی مجالس منعقد کی جانے لگیں جہا ں خواتین جوق درجوق اپنی حاضری ممکن بناتیں اس طرح و ہ مرد جو خواتین کو شہری ماحول میں مضبوط کردار کی وجہ سے اپنی اتھارٹی کے لئے خطرہ محسوس کر رہے تھے اسلامی روایات کی بناء پر دوبارہ گھر کے سربراہ بن گئے اس طرح انہو ں نے خواتین کے مذہبی اجتماعات کی بھرپور حوصلہ افزائی کی راہ اپنائی۔ نئی ملانیوں نے مردوں کے دبائو کے برخلاف اپنے آپ پر زیادہ پردے کا پابند بنایا ہے یہ تمام کچھ قدیم کتب بینی کا نتیجہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر خاتون خود ہی مذہب کی جانب راغب ہو جائے تو وہ خود کو نسبتاً زیادہ محفوظ تصور کرتی ہے اور اسلامی علوم پر عمل درآمد سے اپنے اندر آزادی اور سکون محسوس کرتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں دوستوں کی محفلوں اور تعلقات کار کو بھی اہمیت دی جاتی ہے خصوصاً عزیز و اقارب سے رشتے گہرے ہوتے ہیں یا پھر مذہبی مکتبہ فکر کی ہم آہنگی سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں لیکن جب سے بیرونی عوامل معاشرے میں اثر انداز ہونے لگے ہیں نئے لوگو ں سے دوستی کے ہاتھ برھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کی جارہی ہے اور معاشرے کی تمام سمتیں اب اپنے ہی خاندان کی مضبوطی ، برادری اور گروہی لسانی تعلقات کو ہوا دی جارہی ہے چنانچہ اجنبیوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والوں سے تعلقات کو خاطر پر محمول کیا جاتا ہے۔

جب سے سماجی ضرورتیں بنی بنائی اشیاء سے پوری ہونے لگی ہیں اس لئے تعلقات کا حلقہِ اثر بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ اور ان رشتوں پر نہایت کم توجہ دی جارہی ہے جس سے تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے مثلاً کھیلیں، کتابیں ، موسیقی کے پروگرام ٹیلی ویژن کے ڈرامے ،سفر وسیلہ ظفر، اور عمومی اکٹھ سے اجتناب برتا جارہا ہے دوسرے لفظوں میں سماجی تعلقات کی ضرورت سے کلیتاً انکار کی نوبت آچکی ہے۔ اجتماعات میں عموماً لوگوں کو خاموش دیکھا گیا ہے یا پھر ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ رہ نہیں گیا اگر کچھ گفتگو ہو بھی رہی ہو تو اس میں ذاتیات کا عمل دخل نظر آئے گا یا پھر دوسروں کی ٹانگیں کھینچ کرخوشی محسوس کی جاتی ہے۔ عموماً گہرے دوست بھی بار بار یہ کہتے سنائے دیتے ہیں''ہور کے حال اے''(آپ کے مزاج کیسے ہیں) پاکستانی معاشرہ مغرب کی نسبت زیادہ خاموش واقع ہوا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں مثبت اور خوش کن سرگرمیاں رفتہ رفتہ دم توڑتی جارہی ہیں۔ عفوانِ شباب کی ہنگامہ خیزیوں کافقدان ہے اٹھتی ہوئی جوانیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان کی طاقت کا کوئی مصرف نہیں ہے وہ تعمیری کھیل کود سے دور ہیں۔ نوجوان زیادہ تر منفی سرگرمیوں میں الجھ جاتے ہیں یا ذمہ داریوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے یا پھر خاندانی جھنجھوڑوں کا شکار ہو کر بے کار ہو جاتے ہیں۔

برادریو ں میں ویسے تو نوجوانوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی مگر جب آمنا سامنا ہوتا ہے تو تعریف و توصیف میں خوب ربط اللسان ہو جاتے ہیں اس قسم کے رویوں سے منافقانہ رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے اور لوگ عدم توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں تنہائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر جگہ ناک گھسانا فرض سمجھا جاتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ زیادہ تر لوگ چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں جو رہائش کے لئے ناکافی تصور ہوتے ہیں اس طرح تنگ نظری کے نظریات فروغ پاتے ہیں۔ ایک طرف تو انہیں گوشۂ عافیت میسر نہیں ہوتا دوسری جانب اپنی کوشش ہوتی ہے کہ نمود و نمائش اور ناک اونچا رکھنے کے لئے اپنی چیزوں کی فہرست کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں اور اپنی قریبی دوستوں کی خوش فریبی کے لئے جھوٹی باتیں گھڑتے ہیں بلکہ شوخی بگھارنے اور ڈینگیں مارنے سے نہیں چوکتے۔

یہ رواج بھی عام ہے کہ لوگو ں کو ان کی ذات، نسل، پیشے اور مختلف القاب سے پکارا جاتا ہے جس سے ان کا مرتبہ گھٹانا یا بڑھانا مقصود ہوتا ہے اور اس طرح کی آزادانہ اور دوستانہ ماحول کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ہر شخص کو کسی اہم رشتہ دار کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے اور اس وقت تک اس کی پہچان مشکوک رہتی ہے جب تک وہ شخص شادی کر کے خاوند اور باپ نہیں بن جاتا۔ جہا ں تک خواتین کا ذکر ہے ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ محض باپ ،خاوندیا بیٹے کی نسبت سے پہچانی جاتی ہیں۔

غیر سرگرم معاشرے میں کسی سرگرمی کا میسر آجانا غنیمت ہے تعمیراتی کام ، نلکہ ٹوٹنے سے پانی کا اخراج ، چھوٹا موٹا حادثہ لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنا جاتا ہے یقینا ایسے ماحول میں جب مساجد سے جہاد کے لئے پکارا جائے گا تو اس قبیل کے لوگ فوراً لبیک کہیں گے۔

تجربے سے ایک اور حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ شہریوں کی نسبت دیہاتی لوگ زیادہ متوازن اور مضبوط ہوتے ہیں مضبوط خاندانی اکائیوں اور یکساں ماحول کی وجہ سے دیہاتیوں کے جذباتی رویو ں میں ٹھہرائو پایا جاتا ہے جبکہ شہروں کی جانب ہجرت کر کے آنے والے کاخاندانوں میں خوف اور ہیجان کی کیفیت پائی گئی ہے اس طرح یہ لوگ باقاعدگی سے مساجد میں سکون تلاش کرتے ہیں اور پھر مُلا کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

دیہات میں لوگ سویرے سویرے اپنی زمینوں کی طرف نکل جاتے ہیں اور رات گئے لوٹتے ہیں اس طرح مسجد کے لئے بہت تھوڑا وقت بچتا ہے محض بوڑھے دیہاتی ہی مسجدوں کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ شہروں میں ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی ثقافتی پہچان کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور معزز ہونے کے باوجود اپنے وجود قائم رکھنا دشوار محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے دیہاتی عزیزو ں کی جذباتی وابستگی سے بھی ہاتھ دھو چکے ہوتے ہیں۔

دوستی نبھانا ، غصہ پی جانا، جذبات پر کنٹرول رکھنا ہی دراصل شعوری پختگی اور تہذیب کی نشانی ہے اور ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی میں کامیابی کے زینے طے کرنے کے لئے ذہانت کے علاوہ جذبات میں توازن بھی ضروری ہے۔

پاکستانی بچوں کے معاملے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ گھر میں والدین سے اور اسکول میں اساتذہ سے جسمانی اذیت کا شکار بنتے ہیں یوں انہیں جسمانی اور روحانی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ملازمتوں کے دوران بھی ان کی شخصیت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے حتیٰ کہ قدرتی آفات بھی بچوں کے ذہن پر گہرے زخم چھوڑتی ہیں جن کا ادراک ہمارے معاشرے میں نہایت مشکل ہے۔اس کے ساتھ بھوک،غربت،بیماریاں،سردی گرمی سے تحفظ،سیلاب اور زلزلوں کی تباہ کاریوں سے بھرپور طریقے سے نہ نمٹ سکنے کی معاشی وجوہات بھی تباہ کن اثرات کا موجب بنتی ہیں جو کہ ایک خوش حال ریاست کے نام پر سیاہ دھبہ ہے۔

بچپن کی محرومیاںذہن پر نہایت مضر اثرات مرتب کرتی ہیں جس کا خمیازہ ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے مگر پاکستانی بچوں کے والدین اس طرف قطعاً دھیان نہیں دیتے ۔ جب جہاد کرنے والے نوجوانوں سے ان کے بچپن کے خوابوں کے حوالے سے سوالات کئے گئے تو 80فیصد نے یہی جواب دیا کہ وہ بھی کامیاب لوگوں کی طرح ڈاکٹر، انجینئر ، استاد اور سول سرونٹ بننا چاہتے تھے۔ باقی ماندہ نے بھی جہادی یا عسکریت پسند بننے کے خیال سے انکار کیا تھا۔ یقینا انہیں معروضی حالات ہی اس طرف کھینچ لائے تھے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ محض دو زمانوں میں زندہ ہیں یعنی ماضی او ر مستقبل اور اس طرح ''حال'' کی حقیقت پوشیدہ رہتی ہے اور وقت کو حقیقی پیمانے سے ناپنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے اس طرح علم کے معاملے میں بھی کافی ابہام پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام ماڈرن تحقیق اور حقائق سے کافی دور ہیں۔حقیقی زندگی میں زیادہ تر پاکستانی مسلسل نظر انداز ہو تے رہتے ہیں اس لئے وہ اپنے ماضی سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ ملا انہی حکمیہ لہجے میں یقین دہانی کراتا ہے صرف جہاد کے لئے نکلو باقی سب ٹھیک ہو جائے گا مگر وہ یہ نہیں بتاتا کہ دشمن کتنے ترقی یافتہ ہتھیاروں سے مسلح ہے جس کے لئے ٹیکنالوجی کا حصول بھی ضروری ہے۔ خدا کے نام پر اس طرح کئی کام کروا لئے جاتے ہیں اور اپنا مفاد حاصل کر لیا جاتا ہے۔ لوگ اپنے گناہوں کو بھی دوسروں کے سروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ''کالے'' اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ''گورے '' ان سے نفرت کرتے ہیں اس لئے وہ طیش میں آکر جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اسی طرح مذہب بھی ایک حساس معاملہ ہے اس میں بھی کم علمی کی وجہ سے اپنی جان چھڑانے کے لئے تمام ذمہ داری خدا پر ڈال دی جاتی ہے۔ مثلاً فروری 1994ء میں ایک یہودی ڈاکٹر بروچ گولڈین نے حملہ کر کے سو سے زائد مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں شدید زخمی کر دیا جو کہ وہاں نماز ادا کر رہے تھے اس سے پوچھ تاچھ کی گئی تو اس نے تمام الزام خدا پر لگا دیا جس نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح حضرت مریم کے کہنے پر روانڈا میں حکمران قبیلے ہاتھو نے ٹسٹو قبیلے کے افراد کو تہہ تیغ اتار دیا۔ اسی طرح سنی مسلمان جب شیعہ مسلمان کا قتل کرتا ہے یا اس کے الٹ ہو تا ہے تو اس کے پیچھے بھی تو یہی محرکات ہوتے ہیں۔

حالانکہ تمام مذاہب محبت اور امن کا درس دیتے ہیں اور اسلام کا مطلب ہی سلامتی کا مذہب ہے کوئی مذہب دوسرے مذہب کے خلاف بندوق اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا حیران کن ہے کہ خدا کے نام پر خدا کی مخلوق کا ہی قتلِ عام کیا جاتا ہے۔

محض عبادت کرنے سے اور حقوق العباد نظر انداز ہو جانے سے انسانیت کا وہ اعلیٰ مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ جس کی تکمیل کی خاطر انسان کو خدا نے زمین پر بھیجا تھا۔ ہماری ثقافت بھی لوگوںمیں دوسرو ں پر انحصار کا درس دیتی ہے جس سے ذاتی ذمہ داری کا فقدار پیدا ہوتا ہے مثلاً ماں چاہتی ہے کہ بچے اس پر انحصار کریں بیوی چاہتی ہے کہ خاوند اس پر اعتماد کرے اس طرح بیٹیاں ، بیویاں،مائیں تمام خاوندوں ، بھائیوں اور بیٹوں پر انحصار کرتی ہیں جو انسانیت کے تقاضو ں سے انصاف کر رہے ہیں۔دوسروں پر بھروسہ کرنے کا قدرتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب وہ مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تو پھر لوگ خوب الزامات سے نوازتے ہیں اور ملا اس موقع کی تاک میں ہوتا ہے جب و ہ ساری نعمتیں جنت سے اتارنے کی ایسی تصویر کشی کرتا ہے کہ نوجوان بے اختیار کچے دھاگے سے کھچے چلے آتے ہیں۔

چنانچہ صورتِ حال سے عہدہ برآہونے کے لئے ضروری ہے کہ نتیجہ خیز تعلیمی کورس متعارف کرایا جائے جو کہ پرانے اور دقیانوسی خیالات کی پہنچ سے دور ہو اور یہی وہ آفاقی آزادی ہے جو احساسِ ذمہ داری اجاگر کرتی ہے۔ دوسرو ں پر ساز باز کا الزام تھوپنے سے ہمیں اپنی غلطیوں کا اداراک نہیں ہوتا ہم دوسروں کو ان کی غلطیوں کی وجہ سے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جس کی وجہ سے اپنے گناہوں پر پردہ پڑا رہتا ہے ہم نے کبھی بھی بحث نہیں کی کہ مسلمانوں نے مسلمانوں کا کتنا قتلِ عام کیا ہے عراق ایران جنگ میں دو ملین لوگ مارے گئے اسی طرح عراق کی کویت پر چڑھائی کے وقت یا فلسطینی گروپوں کی آپس کی لڑائیو ں میں یا روسی کے جانے کے بعد افغانیوں کی باہم لڑائی میں کئی مسلمان کام آئے روس کے خلاف لڑائی میں احمد شاہ مسعود شیرپنج شیر تھا اور مجاہد کہلاتا تھا۔ بعد ازاں طالبان کی باہمی لڑائی میں اسے منافق کا لقب دے دیا گیا۔ مغربی قومیتوں میں بھی روانڈا اور بوسنیا کے معاملے میں ایسا ہی برتائو دیکھنے میں آیا جب عیسائیوں نے مسلمانوں کی نسل کشی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔

پاکستان جیسے ملک کی یہ حالت ہے کہ عام آدمی ریفریجریٹر اور ٹیلی ویژن جیسی تفریح کا متحمل نہیں ہو سکتا حالانکہ ٹیلی ویژن ہی ایسا ذریعہ ہے جو زندگی کی سہولیات کے حوالے سے مختلف خواہشات کو ہوا دینے کا موجب بنتا ہے اور آج کل کے دور میں اس کا کردار نہایت اہم ہے یہ ہوائی میڈیم مختلف ثقافتوں اور منصوبوں سے آگاہی دلاتا ہے۔ عوام کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ ملا ان سوالات سے پیچھا چھڑاتا ہے اسی لئے ان الیکٹرانک ذرائع کی مخالفت کرتا ہے اور یہی حال ڈکٹیٹروں کا ہے وہ بھی اخبارات اور ریڈیو کی خبرو ں کو سنسرشپ کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جدت پسندی موجودہ دور کی ضرورت ہے یہ مذہب کے خلاف نہیں لیکن پرانے خیالات کے حامل عناصر اسے اپنی بقا کی خاطر خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ یا شاید ہو سکتا ہے کہ اپنے عدم تحفظ کے احساس سے مذہبی سکالرز بھی مغرب سے ابھرنے والے ہر فکر کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عمومی طور پر مسلم سکالر ان مغربی فلاسفی کا مطالبہ نہیں کرتے جس سے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے مدد مل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل مسلمان اپنے شاندار ماضی میں زندہ ہیں اور پھر بحث و مباحثے کی بجائے جہاد کی راہ ہی اپنا لی جاتی ہے۔ وہ اسلام کے روشن خیال نظریات کی اس وجہ سے مخالف ہیں کہ یہ شاید مغرب زدہ ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔

علامہ اقبال کے جدید افکار جو کہ اسلام کی بہتر تشریح کرتے ہیں انہی بھی قابلِ مطالعہ نہیں سمجھا گیا۔ اب اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ سماجی انصاف اور انسانی حوالوں سے مذہب کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے جس نے نہایت قلیل عرصے میں مظلوم اور محروم طبقے کی نمائندگی کی اور انہیں معاشرے میں اپنا حق دلوا کر دم لیا۔ کیونکہ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے اس میں معاشی اور معاشرتی پہلوئوں پر بھی خا ص طور پر نظر رکھی گئی ہے اور خدا انسان کو دنیا اور آخرت دونو ں میں انعامات سے نوازتا ہے۔ یہی وجہ ہے حضورۖ اور خلفائے راشدین کے دوور میں مسلمانوں نے ہر شعبے میں ترقی کی ، اجتہاد کیا اور معاشرے میں امن و امان کو ممکن بنایا۔ اسلام کے شروعات کے دنو ں میں اپنے عقائد کو تحفظ دینے کے لئے دفاعی نقطہِ نظر سے حضورۖ پرنور نے جنگیں لڑیں اور اپنے نوزائیدہ اسلام کا سیاسی، سماجی اور اقتصادی تحفظ بھی فراہم کیا یقینا یہ ان کی بہترین فہم و فراست کا عملی نمونہ تھا۔ لیکن آج کل کے علماء زمینی حقائق سے نابلند ہیں وہ وسائل کے فقدان، تعلیم اور غربت جیسے عوامل کو اس کی روح کے مطابق نہیں سمجھتے۔ وہ زندگی کی آسائیشوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں وہ اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ حضرت محمد ۖ نے جو دکھ اور تکالیف برداشت کیں اور مشکلات کا شکار رہے وہ محض امت کی اصلاح کے لئے تھا۔ یہ ان کے بہترین فہم اور تدبر کا نتیجہ ہے کہ خداوند کریم کی مدد سے اسلام ایک متحرک دین کے طور پر دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے۔

اگر ماضی میں جھانکیں تو دنیا میں اسلامی حکومتوں کی بہترین مثالیں نظر آتی ہیں۔ مثلاً عراق، ایران،ترکی،ہندوستان اور افریقہ پر میں ایک نظر ڈالیں تو وہاں کے مسلمان حکمرانو ں نے مقامی ثقافت،زبان، ملبوسات، خوراک، عادات و اطوار اور مختلف قدروں میں اسلامی حکومت کا وجود قائم رکھا اور یہ بحیثیت مسلمان ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔

ہمیں گزشتہ ناکامیوں سے سبق حاصل کرنا ہو گا اور ان اصولوں کو مد نظر رکھنا پڑے گا جو کہ دیانت،محنت، صلح کل، عالمی بھائی چارے اور بنیادی حقوق کی بنیادوں پر قائم ہوں۔

(کتاب کی تلخیص ازمالک اشتر)