working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

برطانوی پاکستانیوں میں شدت پسندی کا رجحان: راشد رؤف کیس کی روشنی میں
مجتبیٰ محمد راٹھور

برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں میں سے اکثریت ان کشمیری باشندوں کی ہے جو منگلا ڈیم کے متاثرین کے طور پر حکومت وقت کی کوششوں سے برطانیہ میں جا کر آباد ہوئے۔ یہ لوگ بہت محنتی، ایماندار اور امن پسند تھے۔ جس کی وجہ سے انھوں نے برطانیہ میں بہت جلد اپنا مقام بنا لیا۔ اور اپنی اولاد کی تربیت کے لیے معاش میں مصروف ہو گئے۔ یہ لوگ آزاد کشمیر کے ان علاقوں سے گئے تھے جہاں کی اکثریت اپنے آپ کی نسبت اولیاء اور صوفیاء سے کروانے میں فخر محسوس کرتی ہے اور یہ علاقے بڑے بڑے صوفیا کا مرکز رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ لوگ انہی صوفیاء کے مسلک کے پیروکار ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، حالات تبدیل ہوتے گئے۔ اور کشمیر میں اپنے نظریات میں شدت رکھنے والے مسالک بھی پنپنے لگے۔ ایسے ہی علماء نے برطانیہ میں بسنے والے ان مسلم نوجوانوں کو ان کے والدین کے امن پسند مسلک اور راستے سے ہٹانے کے لیے مختلف ترغیبات دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں پر بھی دہشت گردی کے الزامات لگائے جانے لگے ہیں۔ انھی نوجوانوں میں ایک کردار ''راشدرؤف'' کا ہے۔ جس کے والدین روزی کمانے کے لیے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں رہائش پذیر تھے۔ راشد رؤف کون تھا، اور اس کے مقاصد کیا تھے۔ اس بات کو جاننے کے لیے ہم نے راشد رؤف کے حالات جاننے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو سکے کہ برطانیہ کے نوجوان اپنا رخ کیسے تبدیل کر رہے ہیں۔

برطانوی نژاد راشد رؤف عرف خالد رؤف اپنے والد عبدالرؤف کے ساتھ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں رہائش پذیر تھا جو جنوری 1981ء کو پاکستان میں پیدا ہوا اور پھر اسی سال اس کے والدین اُسے برطانیہ لے گئے۔ راشد رؤف کے آبائی علاقے کے حوالے سے آزاد کشمیر کے صحافی سلطان سکندر نے (24 نومبر 2008ء نوائے وقت) یہ تحریر کیا ہے کہ راشد رؤف کا تعلق ڈڈیال آزاد کشمیر کے نواحی گائوں حویلی بگال سے ہے۔ جہاں اس کے کچھ عزیز ہی رہ گئے ہیں۔ اس کا تعلق وہاں کی میاں فیملی سے ہے۔ پھر اس کے والدین جب برطانیہ منتقل ہوئے تو انھوں نے یہ علاقہ چھوڑ کر بہاولپور کو اپنا مسکن بنا لیا۔ راشد رؤف نے کسی دینی مدرسے سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی البتہ وہ مذہبی رجحان رکھتا تھا۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق جے بلاک ماڈل ٹائون میں راشد رؤف کی بیوی امِ دائود سائرہ اپنی دو بیٹیوں، مصباح فاطمہ اور صالحہ خالد کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ دیگر رشتہ دار آزاد کشمیر ہی میں مقیم ہیں۔ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر راشد رؤف کے قریبی رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔ راشد رؤف مولانا مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی محمد طاہر کا برادر نسبتی بھی ہے۔ اس لیے یہ تمام لوگ بہاولپور ہی میں رہائش پذیر ہیں۔بہاولپور جنوبی پنجاب کا ایک ڈویژن ہے۔ اس حوالے سے ''دی آبزرور'' نے اپنی ایک رپورٹ 30 نومبر 2008ء میں یہ لکھا ہے کہ جنوبی پنجاب کا یہ علاقہ مذہبی سکولوں اورمدارس کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ جہاں دیوبندی مکتبہ فکر کے مطابق اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے جو کہ افغانی طالبان کا بھی مسلک ہے۔ یہاں پر بچوں کو مفت تعلیم، رہائش اور کھانا دیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ جیش محمد کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر جیش محمد کا ایک خفیہ دفتر بھی قائم ہے جبکہ دوسرا مرکز دارالعلوم مدنیہ ہے۔ جہاں 700 طلبہ پڑھتے ہیں۔ مدرسہ کے استادجو راشد رؤف کے برادر نسبتی ہیں انھوں نے ''دی آبزرور'' کو بتایا کہ ''جہاد اس کے تمام نوجوان طلبہ کے فرائض میں شامل ہے۔'' ایک اور عالم دین مولانا ریاض چغتائی نے اخبار کو بتایا کہ اس کے شاگرد صرف اپنی تعلیم کے ختم ہونے کے بعد یا تعطیلات میں ہی جہادی تربیت کے لیے جا سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ افغانستان اور کشمیر میں جہاد کرنا اور ان عناصر کے خلاف جہاد کرنا جو اسلام کے خلاف ہیں یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے۔''

واضح رہے کہ راشد رؤف برطانوی پولیس کو اپنے سگے ماموں کے قتل میں بھی مطلوب تھا جسے اس نے اپریل 2002ء میں برمنگھم میں قتل کیا تھا اور پھر فرار ہو کر پاکستان آ گیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق شروع میں وہ میرپور میں رہا اور یہیں سے اس کے رابطے جہادی تنظیموں سے ہوئے۔

راشد رؤف اس وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بنا جب برطانوی انٹیلی جنس نے انھیں دھماکہ خیز مواد کے ذریعے برطانوی طیاروں کو اڑانے کی سازش کا ایک اہم کردار قرار دیا۔ روزنامہ جنگ کی 23 نومبر 2008ء کی رپورٹ کے مطابق برطانوی مخبروں کی اطلاع پر اسے 9اگست 2006ء کو کالعدم تنظیم جیش محمد کی سرپرستی میں چلنے والے ایک دینی مدرسے ''مدرسہ مدنیہ'' سے گرفتار کیا گیا۔ یہ مدرسہ ماڈل ٹائون بہاولپور میں واقع ہے۔ راشد رؤف کی گرفتاری لندن میں دہشت گردی کی سازش میں ملوث مرکزی کرداروں کی گرفتاری سے چند روز قبل عمل میں آئی تھی۔ مولانا مسعود اظہر کے والد حافظ اللہ بخش نے راشد رؤف کے متعلق اخبار کو بتایا کہ راشد رؤف کالعدم تنظیم جیش محمد کا رکن تھا۔ لیکن بعد میں اس نے اس تنظیم کو چھوڑ کر جیش کے حریف گروپ ''جماعت الفرقان'' میںشمولیت اختیار کر لی۔ جس کا کام القاعدہ کے مغرب مخالف ایجنڈے کو ترقی دینا تھا۔ جیش کے ہیڈکوارٹر میں انھوں نے بتایا کہ ہمارا مقصد جموں و کشمیر کی آزادی ہے۔ جبکہ ''جماعت الفرقان'' افغانستان میں مصروف ہے اور یہ امریکہ مخالف ہے جبکہ ہم ایسی سوچ نہیں رکھتے۔

13 دسمبر 2006ء کو عدالت نے راشد رؤف کے خلاف شہادتوں کی عدم موجودگی کے باعث دہشت گردی کی سازش تیار کرنے کے الزام کو مسترد کر دیا۔ لیکن وہ دیگر مقدمات، جعلی دستاویزات اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں قید رہا۔ فروری 2007ء میں حکومت برطانیہ کی جانب سے راشد رؤف کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا جسے حکومت پاکستان نے مسترد کر دیا۔ اپریل 2007ء میں راشد رؤف کو مزید 2 ماہ کے لیے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ 15 نومبر 2007ء کو عدالت نے رہا کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسے برطانیہ بھیجنے کا حکم جاری کیا لیکن چونکہ اسلام آباد کی عدالتوں میں اس کے اوپر مقدمات تھے اس لیے اس مرتبہ بھی اسے رہا نہ کیا جا سکا۔ لیکن وہ بالآخر دسمبر 2007ء میں پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا۔

راشد رؤف کا فرار اور اس کی ہلاکت کامعمہ
راشد رؤف کا پولیس کی حراست سے فرار، بہت عرصے تک تحقیقاتی اداروں کے لیے معما بنا رہا۔ آخر کار تحقیقاتی اداروں نے اپنی تفتیش مکمل کرتے ہوئے یہ رپورٹ جاری کی (جنگ 23 نومبر 2008ئ) جس کے مطابق راشد رؤف پولیس اور کالعدم تنظیم جیش محمد کے عسکریت پسندوں کی ملی بھگت سے اسلام آباد پیشی بھگتنے کے بعد اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کرتے ہوئے فرار ہوا۔ فرار کی تحقیقات نے راشد کو حراست میں لے کر جانے والے دونوں پولیس گارڈز محمدطفیل اور نوابزادہ کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا ہے کہ راشد کو نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ جس کے بعد وہ مسجد سے فرار ہو گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق ملزم راشد کو ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد ایف 8 مرکز سے کیس کی سماعت کے فوری بعد فرار کرایا گیا لہٰذا یہ غفلت کا نہیں بلکہ مجرمانہ ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ جس کے ذریعے ملزم کو فرار ہونے کا موقع دیا گیا۔ انکوائری کمیٹی نے کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی مفتی عبدالرؤف سے بھی تفتیش کی جس پر پولیس کانسٹیبلوں کو رشوت دینے کا الزام تھا۔ پولیس کانسٹیبلان محمد طفیل اور نوابزادہ کے موبائل فونز کے ریکارڈ سے علم ہوا ہے کہ دونوں نے رؤف کے فرار کے 3منٹ بعد نہ صرف ایک دوسرے سے تین مرتبہ بات کی بلکہ متعدد دیگر لوگوں سے بھی بات چیت کی جو غالباً وہی جنگجو تھے جنھوں نے راشد رؤف کے فرار کا منصوبہ بنایا تھا۔ راشد کے فرار کے فوری بعد حکام نے بہاولپور سے مولانا مسعود اظہر کے 5 میں سے 2 چھوٹے بھائیوں اور ان کے 6 برادر نسبتی میں 2 کو گرفتار کر لیا جنھیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔

جس طرح راشد رؤف کا پولیس کی حراست سے فرار پُراسرار رہا۔ اسی طرح اس کی ہلاکت کی خبر کہ راشد رؤف 22 نومبر 2008ء کو شمالی وزیرستان کے علاقہ علی خیل میں امریکی میزائل حملے میں جاں بحق ہوگیا ہے بھی ایک معمہ۔ شمالی وزیرستان میں راشد رؤف کی ہلاکت اس کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مضبوط تعلق کو ثابت کرتی ہے۔ مگر اس کی فیملی نے اس کی ہلاکت اور اس کے القاعدہ کے ساتھ تعلق کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا ہے۔

''دی گارڈین'' اخبار نے 25نومبر 2008ء میں راشد رؤف کے وکیل حشمت حبیب کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ راشد رؤف کی اہلیہ نے حکومتی اداروں سے اس کی میت کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا لیکن ابھی تک میت ان کے حوالے نہیں کی گئی اور نہ ہی ذمہ دار ادارے اس حوالے سے کوئی جواب دے رہے ہیں۔ حشمت حبیب کا کہنا ہے کہ یہ محض فرضی کہانی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ راشد رؤف نہیں۔ اور اگر وہ ہلاک بھی ہو چکا ہے تو پولیس نے اسے سازش کے تحت فرار کے بعد ہلاک کیا ہے۔ ابھی تک اس کی فیملی کو یہ یقین نہیں کہ وہ مارا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی لاش نہ تو فیملی کے حوالے کی گئی ہے اور نہ قبائلی علاقہ سے کوئی ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے کہ اس کو فلاں علاقے میں دفن کیا گیا ہے۔