working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

شدت پسندی :دینی یا لادینی مظہر؟
ڈاکٹر طارق رحمن
 
شدت پسندی ضروری نہیں کہ ایک دینی مظہر ہو، یہ نظریاتی اور غیر دینی رجحانات میں بھی واقع ہو سکتی ہے، شاید یہ لادینی ہے۔ حقیقت میں جب اسرائیل کی بنیاد پڑی تو وہاں ایک ایسا گروہ تھا جو یہی کچھ کر رہا تھا۔ جیسے دہشت گردی ،بم پھاڑنا، برطانیہ اور دوسری طاقتوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھمکانا۔ انھوں نے دہشت گردی پر عمل کیا جو اسرائیل کے وجود میں انتہا کو پہنچی۔ طارق رحمن نے ان خیالات کا اظہار پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی طرف سے رکھے گئے ایک سیشن ، جس کا موضوع ''پاکستان میں شدت پسندی کے مظہر کی تشریح کرنا'' تھا، سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر طارق رحمن پاکستان کے مشہور دانشور ہیں اور اس موضوع پر مہارت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز میں سربراہ کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر طارق رحمن مختلف موضوعات اور معاملات پر بہت سی کتابیں اور مقالے لکھ چکے ہیں ۔

تاریخی طور پر ڈاکٹر طارق رحمن نے برطانیہ کے انڈیا کو نوآبادیاتی نظام میں شامل کرنے کے نتیجے میں تین قسم کے ردِعمل بیان کیے۔
1۔ مقابلے کی فضا/چپقلش
2۔ سبکدوشی او ر اپنا وجود نہ رکھ سکنا
3۔ شمولیت اور تعاون

تاہم ان تینوں قسم کے ردِعمل کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیچھے نوآبادیاتی نظام کے ردِعمل کو دیکھا جائے تو ان میں سے ایک ردِعمل 1831ء سے برطانیہ کے ساتھ مقابلے کا تھا۔ اس وجہ سے مدرسوں کو درس نظامی کے ساتھ ایک مضبوط اور جذباتی رشتہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ درس نظامی کا کچھ نصاب تو تیرھویں صدی کا ہے۔ یہ نصاب ماضی کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی طرح عربی کی کتابیں بہت زیادہ مشکل ہوتی ہیں۔ دراصل عربی کتابوں سے پڑھائی جاتی ہے جو کہ بہت پہلے لکھی گئی تھیں اوران کی اردو میں بھی تشریح موجود ہے۔ پرانی کتابیں تسلسل اور ماضی کو محفوظ رکھنے کی خاطر استعمال کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اس تناظر میں مدرسوں کو ماضی کی پہچان اور اس کو محفوط رکھنے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے یا دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن درسِ نظامی بذاتِ خود شدت پسندانہ عمل نہیں ہے، جیسا کہ کچھ دانشور خیال کرتے ہیں۔

تیسرا ردِعمل نوآبادیاتی طاقت کے ساتھ شمولیت اور تعاون کا تھا۔ اس کا مطلب نوآبادیاتی طاقت کے ماتحت کام کرنے جیسا ہے۔ اس کا مطلب ایک جدید ریاست کے ایک بہت برے افسرشاہی نظام کا حصہ بننا بھی تھا۔ سرسید احمد خان اس کے ردِعمل کے پرزور حمایتی تھے۔

وہ لوگ جو جہاد کر رہے تھے ایک چھوٹے سے گروپ پر مشتمل تھے۔ یہ گروپ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے لیے تیار تھا جو جوان لوگوں پر مشتمل تھا۔ وہ سلطنت کے اعلیٰ عہدے داروں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے لیے بہت پابند تھے اس کا مقصد سلطنت کو تباہ کرنا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

اگر ہم مزید پیچھے جائیں تو اہل تشیع اور سُنی خارجی کو انتہا پسند سمجھتے تھے۔ خارجی وہ لوگ تھے جو آخری وقت تک لڑتے تھے۔ اس طرح کی پابندیاں اس وقت بھی تھیں لیکن جب ہم یہی مظہر جدید دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہمیںزبردستی ترغیبات جیسی چیزیں نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اسے ایک نئے مظہر کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ مظہر موجودہ صورت حال کو چیلنج کرتا ہے اور یہ چیلنج لڑائی کا سبب بنتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر کا انارکسٹ چیلنج اسی طرح کے چیلنج کی ایک مثال ہے۔ انارکسٹ کے مطابق اگر وہ بہت زیادہ دہشت گردی کو فروغ دیں گے تو اس سے ریاست تباہ ہو گی اور اس سے انسانی مخلوق خوش ہو گی۔ یہ ایک لادینی یا غیرمذہبی مظہر تھا۔

Marxist اور دوسرے بہت سے ملکوں نے اس قسم کے گروپ کی تشکیل کی تاکہ وہ ریاست کے ساتھ لڑیں۔ ان میں سے کچھ سمجھتے تھے کہ وہ ایک بہتر دنیا تشکیل دے سکتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اس مقصد کے لیے ایک حکمتِ عملی رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر طارق رحمن نے ایک سوال اٹھایا کہ کیوںیہ لوگ یا گروپ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ شدید قسم کے رنجیدہ احساسات ہیں جو کہ بہت آسانی سے ان کو شدت پسندی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر چیچن (Chichen) تحریک، چیچن باشندے روس کے خلاف بہت رنجیدہ احساسات رکھتے تھے اور لڑائی کے بعد چیچن کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

یہاں ایک تاریخی منظر اور اس کے نتائج ہیں جو پورے سسٹم کے خلاف لوگوں کو ردِعمل کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ تاہم مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کچھ خاص قسم کے حالات ہی خاص قسم کے مظاہر کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے مظاہر سسٹم میں جنم لیتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ حکمرانی کرنے والوں کا کردار
2۔ محرومیوں کا شعور
3۔ معاشرے کی بناوٹ

پاکستان کے حوالے سے وہ لوگ جو اسلحہ سے لیس، ٹریننگ شدہ اور امریکہ کے خلاف سوچ رکھتے ہیں، میں صلاحیت ہے کہ وہ اس قسم کا ماحول پیدا کر سکیں جہاں اس قسم کے مظہر واقع ہو سکیں۔ جہاں لوگ سسٹم یا حکومت کے خلاف لڑنے کی صورت میں اپنا ردِعمل ظاہر کر سکیں جیسے کشمیر کے معاملے کی وجہ سے لوگ شدت پسند بن گئے۔

باقاعدہ عالمگیریت اور پیسے کی فراوانی بھی معاشرے میں شدت پسندی کی ایک وجہ ہے۔ دوسرے عنصر بشمول انصاف کی کمی، معاشرے میں بدلہ لینے کا رویہ، حکومت کی غیرموزوں حکمت عملی، طاقت کا غیرمنصفانہ استعمال اور طریقہ کار، محرومیوں کا شعور اور اس کا نفسیاتی اثر کسی بھی معاشرے میں امتیازی رویہ بھی شدت پسندی کو ابھارنے میں اہم کردار رکھتا ہے۔

شدت پسند ذہن معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ موجودہ سیٹ اپ سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنے نظام سے اس مظہر کے اثرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ہو گا اور پھر ان وجوہات کو ختم کرنا ہو گا جو غصے، غیرمنصفانہ رویے اور شکایات کومعاشرے میں پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں۔