working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

میر پور اور برطانیہ میں بٹے پاکستانی : معاشرتی ، ثقافتی اور مذہبی تناظر میں
صفدر سیال

تعارف
 برطانیہ میں پاکستانیوں کی آمد کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم اور صنعتی انقلاب کے بعد جب برطانیہ کو افرادی قوت کی کمی کا خدشہ درپیش تھا تو اس نے نئے آزاد ہونے والے خاص طور پر دولتِ مشترکہ کے رکن ممالک کے افراد کو برطانیہ میں روزگار کے مواقع تلاش کرنے کی ترغیب دی۔ پاکستان نے بھی اپنے شہریوں کی اس ضمن میں حوصلہ افزائی کی۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں ہزاروں پاکستانی معاشی مواقع کی تلاش میں برطانیہ پہنچے۔ اس سے پہلے بھی برصغیر پاک و ہند کے ان علاقوں کے جو بعد میں پاکستان کا حصہ بنے، کچھ لوگ برطانیہ میں مقیم تھے۔ لیکن پچاس کی دہائی کی ہجرت، پاکستانی افرادی قوت کی برطانیہ منتقلی کا ایک اہم سنگِ میل سمجھی جاتی ہے۔ 

 قیامِ پاکستان سے پہلے برصغیر کے جو لوگ برطانیہ میںمقیم تھے وہ زیادہ تر بندرگاہوں پر کام کرتے تھے اور نئے جانے والوں نے بھی اسی شعبہ کو ترجیح دی۔ شروع میں یہ لوگ لندن، لیورپول، کارڈف ہِل، نیو کیسل، ایڈن برگ اور برطانیہ کے ان علاقوں میں آباد ہوئے جو بڑی بندرگاہوں سے قریب تھے۔ مقامی آبادی میں بتدریج اضافے اور موزوں ملازمتوں کے مواقع میں کمی نے ا ن لوگوں کو گلاسگو، برمنگھم، مانچسٹر، بریڈفورڈ، شیفیلڈ، لیڈز، ناٹنگھم اور ہملٹن کی طرف رخ کرنے پر مجبور کیا۔

 زیادہ تر پاکستانی اس خیال کے ساتھ برطانیہ پہنچے تھے کہ کافی دولت کما لینے کے بعد وطن واپس لوٹ جائیں گے۔ لیکن بہت سے عوامل ان کی وطن واپسی کی راہ میں حائل تھے خاص طور پر برطانیہ میں موجود اعلیٰ معیارِ زندگی، نئے نئے شروع کیے کاروبار کی مصروفیات، برطانیہ کے سکولوں میں زیرِ تعلیم ان کے بچے اور پاکستان میں موجود سیاسی عدم استحکام۔

 برطانیہ میں ٢٠٠١ء کی مردم شماری کے مطابق ٧ لاکھ سے زیادہ برطانوی، پاکستانی تھے جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے وہاں آباد تھے۔ موجودہ اندازے بتاتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستانیوں کی آبادیوں کا خاطرخواہ ارتکاز برمنگھم، مانچسٹر، لیڈز، ویلز، ناٹنگھم، لندن اور بریڈ فورڈ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ بریڈ فورڈ کو تو مِنی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ان برطانوی پاکستانیوں کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے ہے، جن میں میرپور (آزاد جموں و کشمیر)، اٹک، فیصل آباد، ساہیوال، بہاولپور، گوجرخان، جہلم، راولپنڈی، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، پشاور، کراچی اور اندرون سندھ کے علاقے زیادہ نمایاں ہیں۔

 اس تحقیقی مطالعے کا مقصد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے پاکستان اور برطانیہ میں ]ماضی کے حوالے سے[ پس منظر کو پرکھنا اور ان کی موجودہ حالت کو ان کے سماجی، ثقافتی اور مذہبی تناظر میں دیکھنا ہے۔ اس مطالعے کا پھیلاؤ (اسکوپ) آزاد جموں و کشمیر کے ایک شہر میرپور سے برطانیہ میںمقیم ہونے والوں پاکستانیوں کے ایک نمائندہ سروے (نمونے) تک محدود رکھا گیا ہے۔ میرپور کو پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات کے حوالے سے ایک نمایاں مقام حاص ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں سے ٤٢ فیصد سے زیادہ میرپور کے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ شہروں، جیسے کہ بریڈفورڈ اور برمنگھم میں، میرپور سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں موجود پاکستانی برادری کا تقریباً ٩٠ فیصد بھی ہیں۔ 

 میرپور سے اتنی زیادہ تعداد میں پاکستانی شہریوں کی برطانیہ منتقلی اور وہاں مستقل قیام کی ایک وجہ پاکستانی حکومت کا١٩٦٠ء میں میرپور کے قریب منگلا ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ بھی ہے۔ حکومت نے ڈیم کی تعمیر سے بے گھر ہونے والے ہر خاندان میں سے ایک فرد کو پاسپورٹ جاری کیا تھا جن میں زیادہ تر برطانیہ منتقل ہوئے تھے۔

 اس مطالعہ میں میرپور کی بدلتی ہوئی سیاسی، ثقافتی اور معاشی زندگی کو بھی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہرحال اس تحقیق کا ایک بڑا مقصد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی ذہنی شناخت (اور اس کی نفسیاتی تشکیل) اور روےّوں کا جائزہ لینا، جو ایک ہی وقت میں پاکستان میں ان کے آبائی گھروں سے بھی جُڑے ہوئے ہیں اور برطانوی معاشرے کی سماجی اورثقافتی لہروں سے بھی نمو پا رہے ہیں، اور اس بات کا تجزیہ کرنا ہے کہ ان کے اندر اس معاشرے میں ادغام یا اس سے انحراف کی کتنی صلاحیت موجود ہے جس کا اب وہ ایک حصہ ہیں۔

 میرپور سے جا کر برطانیہ میں مقیم ہونے والے پاکستانیوں پر اس مطالعہ کا انحصار زیادہ رکھنے کی وجہ ان کی برطانوی پاکستانیوں میں صرف عددی برتری نہیں بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ برطانیہ میں ایک یک جہت اور ثقافتی اعتبار سے، منفرد شناخت کا حامل گروہ بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ان  برطانوی پاکستانیوں کا سیاست اور ثقافت پر بہت گہرا اثر ہے۔ اسی دوران انہوں نے پاکستان میں اپنے آبائی مقامات سے بھی قریبی رشتہ قائم رکھا ہے۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف برطانیہ میں اپنے رہائشی شہروں پر اثر ڈالا ہے بلکہ میرپور ضلع کو بھی اک نئے آہنگ سے متعارف کروایا ہے۔

طریقِ تحقیق
 میرپور سے تعلق رکھنے والے پچاس (٥٠) برطانوی پاکستانیوں سے مختلف ادوار میں، ان کی پاکستان آمداور موجودگی کے دوران، انٹرویو کیے گئے جو اس مطالعہ کی بنیاد بنے۔ انٹرویو نمونہ میں میرپور کے شہری اور دیہاتی، دونوں جگہوں سے تعلق رکھنے والے برطانوی پاکستانی شامل تھے اور زیادہ تر کا تعلق برطانیہ منتقل ہونے والی پہلی یا دوسری نسل سے تھا۔ یہ انٹرویو پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS) کے ریسرچرز نے یکم جنوری سے ٣٠ اپریل ٢٠٠٧ء کے دوران کیے تھے۔ 

 ان انٹرویوز میںانٹرویو دینے والے برطانوی پاکستانیوں کی ذاتی معلومات، جیسے کہ عمر، تعلیم، ازدواجی حیثیت، پیشہ اور برطانیہ میں قیام کے دورانیے کے علاوہ ان کی معاشی حالت، سماجی ثقافتی اقدار، سیاسی و مذہبی رجحانات اور ریاستی پالیسیوں پر ان کے خیالات جاننے کے لیے بھی سوالات شامل تھے۔ ان سے برطانیہ اور پاکستان میں مذہبی جماعتوں، سیاسی جماعتوں، فلاحی تنظیموں، غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) یا دوسرے گروہوں سے ان کی وابستگی کے بارے میں بھی معلومات اخذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ دونوں ملکوں کی ثقافتی، مذہبی اور سماجی اقدار، برطانوی خارجہ اور داخلہ پالیسی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، مسئلہ کشمیر اور برطانیہ اورپاکستان میںان سے ہونے والے سلوک کے بارے میں بھی برطانوی پاکستانیوں سے تفصیلی بات چیت کی گئی۔ میرپور میں ان کے رشتہ داروں اور خاندان کے افراد کے مشاہدات بھی ریکارڈ کیے گئے۔

 ان ابتدائی معلومات کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر موجود کتابوں، مضمونوں اور جرائد و رسائل سے بھی استفادہ کیا گیا۔ ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والا ڈیٹا (Data) کو اس تحقیقی مطالعے کے دو تجزیاتی حصے تشکیل دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پہلے حصے میں ضلع میرپور کا پروفائل ہے جبکہ دوسرا حصہ میرپور سے تعلق رکھنے والے برطانوی پاکستانیوں کی ذہنی پہنچ کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ زیادہ تر ڈیٹا کا ماہیتی تجزیہ (Qualitative Analysis) کیا گیا ہے جبکہ کچھ منتخب متغےّرات (Variables) کا مقداری (Quantitative) اعتبار سے تجزیہ کرکے مطلوبہ مقامات پر شامل کیا گیا ہے۔

 چونکہ تمام انٹرویو ضلع میرپور میں کیے گئے تھے اس لیے ڈیٹا کولیکشن کے ٤ ماہ میں میرپور میں آئے ہوئے برطانوی پاکستانیوں کی دستیابی شاید ایک نمائندہ نمونہ (Representative Sample) میسر نہ کر سکی۔ مزید ازاں تمام انٹرویو مرد حضرات سے کیے گئے۔ اس کی ایک وجہ تو سماجی، ثقافتی اور مذہبی اقدار تھیں اور دوسری وجہ یہ مفروضہ کہ ایک پدری معاشرے میں خواتین کے انٹرویو اس خصوصی مطالعے کے حوالے سے شاید کچھ زیادہ فرق نہیں ڈالیں گے۔ تاہم انٹرویز کے لیے افراد کا ایک زیادہ نمائندہ نمونہ، زیادہ وقت اور خواتین کی شمولیت اس مطالعہ کو زیادہ بہتر بنا  سکتے تھے۔

حصہ اوّل: ضلع میرپور کا پروفائل
جغرافیہ اور حدود اربعہ
 رقبہ:   ١٠١٠ مربع کلومیٹر
 آبادی:  ٨٤٢،٣٣٣ (١٩٨٨ء کی مردم شماری کے مطابق)(٧)
 سب ڈویژنز: ضلع میرپور دو سب ڈویژنوں (تحصیلوں) میں منقسم ہے، میرپور اور ڈڈیال
 اہم قصبے:  ضلع کے اہم قصبوں میں منگلا، چکسواری، افضل پور، چیچیاں، اسلام گڑھ اورکھڑی شریف شامل ہیں۔

 میرپور پاکستان کے زیرانتظام آزاد جموں و کشمیر کا ایک ضلع ہے۔ پہاڑی سلسلوں میں واقع ہونے کے باوجود یہ میدانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ میرپور شہر 33.11'E کے عرض بلد اور 73.45'N کے طول بلد پر واقع ہے۔ میر پور کے شمال میں ]١٠٠ کلومیٹر کے فاصلے پر[ کوٹلی، مشرق میں ]٥٠ کلومیٹر کے فاصلے پر[ بھمبر اور مغرب میں گوجر خاں اور راولپنڈی واقع ہیں۔ میرپور صوبہ پنجاب سے ملا ہوا ہے اور جی ٹی روڈ سے صرف ٢٨ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 

 میرپور آزاد جموں و کشمیر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ سطح سمندر سے ١٥٠٠ فٹ کی بلندی پر ہے جبکہ میرپور کا پرانا شہر سطح سمندر سے ١٢٣٦ فٹ اونچا تھا۔  یہاں کے رہائشی باشندے نئے شہر میں منتقل ہو گئے تھے جب پرانا شہر منگلا اور اس سے ملحق ١٢٥ گاؤں منگلا ڈیم کی تعمیر پر سیلاب کی نذر  ہو گئے۔

آب و ہوا
 میرپور کا موسم اور آب و ہوا پنجاب کی طرح ہیں۔ گرمیوں میں بہت گرم اور سردیوں میں سخت سرد۔ میرپور کے نئے شہر کے قریب منگلا ڈیم واقع ہے جو کہ تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ ١٠٠ میلوں پر پھیلے ہوئے اس ڈیم کو مزید پانی ذخیرہ کرنے کے لیے وسعت دی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان میں پن بجلی کا تقریباً ٪ ٣٥ حصہ پیدا کرتا ہے۔

تاریخ
 زیادہ تر تاریخ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ میرپور کی بنیاد میران شاہ گکھڑ نے رکھی تھی اور یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔ سکندر اعظم کی فوج نے یہیں سے دریائے جہلم عبور کیا تھا اور ہندو بادشاہ پورس کی فوجوں کے مدّمقابل آئی تھی۔ سکندر اعظم نے پورس کو ہائیڈلیپس کی تاریخی لڑائی میں ٣٢٦ قبل مسیح میں شکست دی تھی ۔ ڈوگرہ راج کے آغاز سے پہلے، جو کشمیر میں ١٩٤٧ء تک رہا، گکھڑ، منگرال اور جرال قبیلوں نے تیرھویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی کے وسط تک اس خطے پر ایک جاگیردارانہ نظام کے تحت تقریباً ٦٠٠ سال تک حکومت کی۔

 ١٩ویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت نے ریاست کشمیر کو دوسری ریاستوں کے الحاق سے ایک مرکزی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ڈوگرہ گلاب سنگھ اس نظریے کے بانی تھے۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ نے برطانوی حکمرانوں کی مدد سے، امرتسر معاہدہ کے تحت کشمیر اور اس سے ملحقہ ریاستوں بشمول ان کے باسیوں کو ٥.٧ ملین نانک شاہی سکوں سے مارچ ١٨٤٦ء میں خریدا ۔

 میرپور کے تین شہروں میرپور، کوٹلی اور بھمبر کے بارے میں ایک بات جو تعجب خیز ہے وہ یہ کہ ان شہروں میں علاقہ کے کسی وڈیرے، زمیندار یا جاگیردار مسلمان کا اپنا ذاتی یا وراثتی مکان نہیں تھا۔ زمانہ قدیم کے وقت ایسے لوگوں کے ان بستیوں میں منتقل نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے مقامات سے، جہاں دوسروں کی رسائی اور پہنچ آسان تھی، دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ خیال کرتے تھے لیکن ماضی قریب کے سیاسی و اقتصادی دور میں بھی ایسے لوگوں کا شہری بستیوں میں منتقل نہ ہونا معنی خیز ہے۔

 ترقی کے زمانے میں جب شہروں میں تعلیم، صحت اور معاشی لوازمات کی دستیابی آسان ہو چکی تھی، میرپور کے ہمسایہ اضلاع راولپنڈی اور جہلم کے شہروں میں علاقے کے متمول جاگیردار اور رئیس طبقہ نے اپنی اپنی کوٹھیاں اور ٹھکانے بنا لیے تھے جن میں گگھڑ جنجوعہ اور جاٹ برادری کے طبقہ امراء کے لوگ شامل تھے لیکن ہمارے علاقے کے اس طبقہ نے اپنی سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے دیہات چھوڑ کر شہروں میںرہائش اختیار نہیں کی۔

معاشرتی تقسیم (Class Division)
 ١٩٤٧ء میں ضلع میرپور کے چونسٹھ گاؤں جاگیروں میں شمار ہوتے تھے اور تین سو چھتیس دیہات میں معافیداروں کے رقبہ جات تھے۔ ہر دو میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اس کے علاوہ بڑے زمیندار، جن کے پاس ایک سو سے زائد رقبہ ملکیتی تھا۔ ان کی کل تعداد تین ہزار تین سو بیاسی تھی جن میں تین ہزار دس مسلمان اور تین سو بہتّر غیرمسلم تھے۔

 ١٩٤٧ء سے پہلے، میرپور معاملات میںہمیشہ دو طبقوں میں تقسیم رہا ایک حکمران طبقہ اور دوسرا محکوم طبقہ، پہلا طبقہ اعلیٰ طبقہ کہلاتا تھا۔ اس میں سرکاری عہدیدار، قبیلوں کے سردار، جاگیردار بڑے بڑے زمیندار اور تاجر قسم کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ انیسویں صدی کے آخر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے ہجرت شروع کی۔ 

 بمبئی میں ہجرت کے بعد بہت سے لوگوں نے سمندری جہازوں اور بندگاہوں میں اپنا ذریعہ معاش شروع کیا۔ ان کے آبائی علاقوں میں غربت اور روزگار کے محدود مواقع نے ان کو ہجرت پر مجبور کیا۔ بمبئی سے یہ لوگ مختلف جہازران کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ کے ساحلی علاقوں تک پہنچے۔

تحریک آزادی میں میرپور کا کردار
 میرپور کے لوگوں نے تحریک آزادی کشمیر میں ہر طرح سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کچھ نوجوانوں نے جہادی کیمپوں میں تربیت حاصل کی اور کشمیر میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ میرپور کے مکینوں نے نہ صرف جہادی تنظیموں کو فنڈز مہیا کیے بلکہ برطانیہ، یورپ، امریکہ اور اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا۔ برطانوی پاکستانیوں نے کشمیر فاؤنڈیشن اور کشمیر ویلفیر ایسوسی ایشن کے ذریعے تحریک آزادی کی مدد کی۔ آزاد کشمیر کی کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں برطانیہ میں سرگرم عمل ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے ونگ برطانیہ میںہیں۔ میرپور سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری وزیراعظم بننے سے قبل برطانیہ میں مقیم رہے۔ آج بھی آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے کئی سرکردہ لیڈروں کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ 

 برطانیہ میں سیاسی پارٹیاں، برطانوی حکومت پر اثرانداز ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اثرو رسوخ سے مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ بہت سی جماعتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آزادی کی تحریک کو جائز سمجھتی ہیں اور اس کو دہشت گردی سے بالکل جدا کرتی ہیں۔ PIPS کے سروے میں بہت سے لوگوں نے سیاسی حل کو عسکری حل پر ترجیح دی۔ ان کی معمولی سی تعدادجہادی تنظیموں کو فنڈز فراہم کرتی ہے جبکہ جماعت اسلامی کھلم کھلا جہادی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہے۔ اس کے اراکین نہ صرف فنڈز دیتے ہیں بلکہ مجاہد بھی فراہم کرتے ہیں۔ کالعدم جماعة الدعوة انہیں مالی اور انسانی وسائل مہیا کرتی ہے۔

تعلیمی نظام
 تعلیمی میدان میں میرپور نے بہت ترقی کی۔ اس وقت طلباء و طالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ یونیورسٹی کیمپس، انجینئرنگ یونیورسٹی، اوپن یونیورسٹی، پیرا میڈیکل سکول، دو انٹر کالج، ایلمنٹری کالج، ٹیچرز ٹریننگ کالج، ٹیکنالوجی کالج، انٹرمیڈیٹ تعلیمی بورڈبہت سے پرائمری اور مڈل سکولوں کے علاوہ متعدد پرائیوٹ سکول بھی قائم ہیں۔ جہاں انگریزی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ یہ تمام ادارے میرپور شہر میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ میرپور کے گرد و نواح میں تقریباً ہر دس پندرہ میل پر ایک انٹرمیڈیٹ کالج اور تیس چالیس میل کے فاصلہ پر ڈگری اور ایم اے تک لڑکے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کالج موجود  ہیں۔
 
 جدید کمپیوٹر کے تعلیمی ادارے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سیف الملوک آرٹ اکیڈیمی ادبی سرگرمیوں کی ترویج کے لیے سرگرم ہے۔ ایک میڈیکل کالج نے حال ہی میں میرپور سے اپنا کام شروع کیا ہے۔

صحت
 میرپور میں صحت کی کافی سہولیات ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال شہر میں کام کر رہا ہے۔ حاجی محمد سلیم کی مدد سے امراضِ دل کا ایک ہسپتال، ١٥ ملین روپے سے مکمل کیا گیا ہے۔ اور اب اس کو حکومت چلاتی ہے۔ آزاد کشمیر کا اکلوتا ڈائیلسس سنٹر زیرانتظام ہیومن ویلفیر سوسائٹی میرپور میں کام کر رہا ہے۔ ١٥ پرائیویٹ ہسپتال صحت کی سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں برطانوی پاکستانیوں کے عطیات اور سرمایہ کاری دونوں نے کافی بہتری پیدا کی ہے۔

سماجی ڈھانچہ
 میرپور نہ صرف خوبصورت شہر ہے بلکہ محبت اور امن کا گہوارہ ہے۔ سمندر پار باشندوں نے خوبصورت گھر تعمیر کیے ہیں لیکن اب ان میں کوئی بھی نہیں رہتا۔ ان گھروں کی تعمیر بیرون ملک پاکستانیوں کی سماجی حیثیت اور عزت کو نمایاں کرتی ہے۔ ان گھروں کے مالکان چھٹیوں میں غمی خوشی کے موقع پر اپنے گھروں میں آتے ہیں۔ یہ باشندے اپنے محلوں میں رہنے والوں سے کرایہ وصول نہیں کرتے بلکہ دیکھ بھال کے لیے ان کو رقم مہیا کرتے ہیں۔ بیرونِ پاکستان مقیم باشندوں کی ترسیل زر نے سماجی بہبود اور مفاد عامہ کے کئی منصوبوں میں اہم حصہ ڈالا ہے۔

 میرپور کے باشندے جو عرصہ دراز سے برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن وہ اپنی تہذیبی و ثقافتی روایات سے جڑے ہوئے ہیں، اگرچہ مغربی ثقافت کا ان پر اثر بھی ہوا ہے لیکن اس کے باوجود وہ روایت پسند واقع ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برطانوی معاشرے میں رہنے کے باوجود وہ اب بھی اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

مذہبی رجحانات
 میرپور خانقاہوں اور دریاؤں سے بھی جانا جاتا ہے۔ قبل مسیح کے مذہبی پیشواؤں کی قبریں زائرین کے لیے کشش رکھتی ہیں۔ صوفیائے کرام کے مزارعات بھی اسی سلسلے کا تسلسل ہیں۔ اسلام اکثریتی لوگوں کا مذہب ہے۔ پنجاب کے صوفیاء کرام نے جموں و کشمیر میں اسلام کی ترویج کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ پوٹھوہاری، پنجابی اور پہاڑی ثقافت نے کشمیر کی تہذیب و تمدن پر    اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ میرپور ثقافتی اور روحانی طور سے پوٹھوہار سے منسلک ہے۔

صوفیائے کرام
 میرپور میں پنجاب کے صوفیائے کرام ایک مقام رکھتے ہیں۔ بہت سے مبلغ اور صوفیائے کرام نے کشمیر کو جائے پناہ بنایا۔ ان کے مزارعات بھی کشمیر میں ہیں۔ ضلع میرپور کی مشہور خانقاہوں میں پیرے شاہ غازی کھڑی شریف، بابا شادی شہید سماہنی، کھسیارہ شریف اندرہل اور ان کے علاوہ موہڑہ شیر شاہ، بل پیراں، خانقاہ پنک عالم شاہ، گوڑہ سیداں، دلڑ شہاب، پیر گنوائی، مونڈا، ملوٹ، پیرنابن، موہڑہ شریف، سموال شریف، نوگراں، فتح پور شریف، تحصیل بھمبر میں مونگہ والی سرکار، شاہ تنتر مزار، پیر تاج دیں، مزار سائیں سخی سرکار قابلِ ذکر ہیں۔ صوفیائے کرام کے کردار کی وجہ سے شدت پسند اسلام اس علاقے میں نہیں پایا جاتا ۔ آج بھی ''عرس'' دور دراز کے لوگوں کو اپنی طر ف متوجہ کرتے ہیں۔

زبان
 میرپور کی زبان اور ثقافت کی اقدار پنجاب کے اضلاع گجرات، جہلم اور راولپنڈی سے مشترک ہیں۔ پہاڑی، پنجابی، پوٹھوہاری، گوجری اور کشمیری میرپور میں بولی جاتی ہیں۔ مقامی زبان پوٹھوہاری، پہاڑی اور پنجابی کا امتزاج ہے۔ بہت سے لہجے روزمرہ زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ میرپور کے لوگوں کو اپنی تاریخ پر فخر ہے جس میں عظیم شاعروں، سکالرز، لکھاریوں اور صوفیائے کرام کا اہم کردا رہے جنہوں نے اس علاقے کو ادب اور روحانیت سے نوازا۔

خوراک اور لباس
 گندم کی روٹی بنیادی خورا ک ہے جس کو سبزی، چنے، گوشت، مکھن اور دہی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ مکئی کی روٹی گاؤں میں کھائی جاتی ہے۔ منگلا ڈیم کے باوجود مچھلی نایاب ہے اور مہنگی بھی ہے۔

 شلوار قمیض بنیادی لباس ہے لیکن سمندر پار پاکستانیوں کی وجہ سے پینٹ اور شرٹ بھی استعمال کی جاتی ہے۔ دیہاتوں میں مرد کرتا اور تہمند جبکہ عورتیں کرتا اور شلوار اور سر پر چادر استعمال کرتی ہیں۔

سپورٹس کی سہولیات
 فٹ بال، والی بال، بل ریس، کتوں کی لڑائی، بینی، تیربازی، ہاکی اور کرکٹ مشہور کھیل ہیں۔ قائداعظم کرکٹ سٹیڈیم بھی میرپور میں ہے۔

صحافت
 تمام قومی اخبار میرپور میں پڑھے جاتے ہیں۔ ''جذبہ'' میرپور کا واحد اخبار تھا۔ اب کئی اور اخبارات بھی شائع ہو رہے ہیں۔ بہت کم ماہنامہ میگزین بھی میرپور سے نکلتے ہیں۔ اب کچھ دیگر روزنامے بھی شائع ہونے لگے ہیں۔ یہاں کی صحافت مقامی مسائل کو اجاگر کرتی ہے اور ان میں سے منگلا ڈیم کی توسیع اور اس سے متعلقہ مسائل پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔

اقتصادیات اور معیشت
 ڈوگرہ حکومت اور اس کے بعد ہندو میرپور کی تجارتی سرگرمیوں میںنمایاں تھے۔ مسلمان کاشتکار تھے اور وہ اونٹوں کے ذریعے سامان کی آمد و رفت کیا کرتے تھے۔ کم فصل ہونے کی وجہ سے، مقامی لوگ بیرونی ممالک کا سفر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے رزق تلاش کریں۔ بھٹوں، سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ مقامی لوگ ریلوے سٹیشنوں اور گوداموں میں بھی کام کرتے ہیں۔
 
 دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے اپنی نوآبادیوں میں سے کچھ لوگ آرمی میں بھرتی کیے۔ ٦٠٤٠٢ آدمی پونچھ اور میرپور سے آرمی میں بھرتی کیے گئے۔

 پاکستان بننے کے بعد بہت سے میرپور کے باسی منگلا ڈیم بننے کی وجہ سے برطانیہ منتقل ہو گئے۔ انہوں نے اپنی جائیدادوں کو پاسپورٹ کے بدلہ میں ترک کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر پار پاکستانی میرپور کی اقتصادی صورتِ حال میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ 

 ملک سے باہر کام کرتے ہوئے میرپور کے لوگ اپنے گھر والوں اور علاقائی لوگوں کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقوں کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اپنی محنت سے ان لوگوں نے میرپور کو تجارت کا مرکز بنا دیا ہے۔ بلند و بالا پلازے، عالیشان عمارتیں، تجارتی مرکز، فائیوسٹار ہوٹل ان کے محنتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

 اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے، میرپور کے لوگ گورنمنٹ کے اداروں اور سکیورٹی فورسز کے اداروں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ عورتیں حکومتی اداروں میں کام کرتی ہیں۔ یہاں کے لوگ پرائیویٹ سیکٹر بشمول تعمیراتی فرمز، فیکٹریز، پرائیویٹ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور غیرحکومتی اداروں (NGOs) میں کام کرتے ہیں۔

میرپور صنعتی زون
 میرپور کے انڈسٹریل اسٹیٹ میں ہزاروں انڈسٹریل یونٹس کام کر رہے ہیں۔ ان یونٹس کی وجہ سے ملک کثیر زرمبادلہ کماتا ہے۔ سلک، کپڑا،ا ون، سیمنٹ،گارمنٹس، کیمیکلز، کوکنگ آئل، چینی، ہربل ادویات، صابن، سگریٹ، مشروبات، برقی آلات، سکوٹرز، رکشہ، گاڑیوں کے پرزہ جات، ٹائر، ربڑ، اسلحہ، سٹیل کی مصنوعات، آپٹیکل آلات، فرنیچر، ماچس اور جوتے میرپور میں تیار کیے جاتے ہیں۔ڈھوک بھاگو کا علاقہ جو ٧٥٠٠ کنال پر محیط ہے، ان انڈسٹریل یونٹس کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس علاقے میں تعمیر اور ترقی کا کام ١٩٨٨ء میں شروع ہوا اور اب تک ٤٠ فیکٹریز قائم ہو چکی ہیں۔

سیاست
سیاسی ڈھانچہ: میرپور آزاد کشمیر کی سیاسی حرکیات کا مرکز ہے۔ اس علاقہ کی سیاست خاندانوں، مذہبی انتہا پسندی اور شخصیات کے گر دگھومتی ہے۔ یہاں تک کہ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مختلف برادریوں کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جٹ خاندان سیاست میں نمایاں ہے۔

 میرپور کے لوگ سیاست سے بہت باخبر ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی سیاست کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر ہیں اور ان کے نمائندے بھی اپنے کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں دوسرے اضلاع کی نسبت اقتصادی طور پر مضبوط ہیں کیونکہ ان کا تعلق برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں سے ہے۔ برطانیہ میں مقیم کچھ کشمیری سیاست میں حصہ بھی لیتے ہیں۔

نمایاں سیاسی جماعتیں:  کچھ نمایاں سیاسی جماتیں جو اس علاقے میں متحرک ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان پیپلز پارٹی (PPP):  چوہدری عبدالمجید (PPP) کے صدر ہیں۔ اس پارٹی کے میرپور میں کافی ووٹ ہیں لیکن بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے پارٹی چھوڑنے سے اس میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ تاہم پارٹی کو کافی سپورٹ حاصل ہے۔
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس: سردار عتیق احمد خان اس کے مرکزی صدر جبکہ نوید گوگا میرپور کے صدر ہیں۔
پیپلز مسلم لیگ: بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور اس کے ساتھیوں نے PPP چھوڑنے کے بعد اس پارٹی کو بنایا۔
متحدہ قومی موومنٹ (MQM): متحدہ قومی موومنٹ اکتوبر ٢٠٠٥ء کے زلزلے کے بعد آزاد کشمیر میں ابھری۔ طاہر کھوکھر ممبر قانون ساز اسمبلی میرپور میں اس کے صدر ہیں۔
جموں و کشمیر پیپلز پارٹی: یہ پارٹی بھی PPP سے علیحدہ ہونے والوں میں سے ایک ہے۔ سردار ابراہیم خان نے اس کو بنایا۔ اس جماعت کا میرپور میں بہت کم اثر ہے۔
قوم پرست جماعتیں: مرکزی جماعتوں کے علاوہ قوم پرست جماعتیں بھی میرپور میں موجود ہیں۔ یہ جماعتیں کشمیر کی وحدت کے حق میں ہیں اور وہ انڈیا اور پاکستان سے آزادی چاہتی ہیں۔ یہ جماعتیں الیکشن میں حصة نہیں لے سکتیں کیونکہ یہ آئین کی شق جو الحاق پاکستان کے متعلق ہے اس کو قبول نہیں کرتی ہیں۔ تاہم سمندر پار کشمیریوں کے درمیان ان جماعتوں کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ میرپور کے حقوق کے لیے ان جماعتوں کو عوام کی خاصی سپورٹ حاصل ہے۔ ''کشمیر کے علاوہ، بیرونی ممالک میں ان جماعتوں کو کافی حمایت حاصل ہے۔'' (سعید احمد اسد جو میرپور کے سوشل ویلفیئر آفیسر ہیں، نے PIPS کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا)
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF): امان اللہ خان اس کے بانی ہیں اور سردار صغیر اس کے صدر ہیں۔ عبدالمجید بٹ میرپور میں اس کے نمائندے ہیں۔
نیشنل لبریشن فرنٹ: شوکت مقبول بٹ جو کہ مقبول بٹ کے صاحبزادے ہیں وہ اس کے صدر ہیں۔ یہ پارٹی میرپور میں کافی مشہور ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ جماعت کشمیر کاز کے لیے بہترین کام کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی: اس کے دو علیحدہ دھڑے میرپور میں کام کرتے ہیں۔ ایک گروپ کو اعجاز نذیر جبکہ دوسرے گروپ کو ایڈووکیٹ ذوالفقار راجہ ہیڈ کر رہے ہیں۔ ان جماعتوں دائیں بازوں کی نیشنلسٹ سٹوڈنٹس فعال ہیں۔

مذہبی جماعتیں
 متحدہ مجلس عمل (MMA) کے اتحاد نے ٢٠٠٢ء کے الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن بری طرح ہار گیا۔ اب اس کا وجود میرپور میں نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل مذہبی جماعتیں میرپور میں متحرک ہیں۔
جماعت اسلامی: سردار اعجاز جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے صدر ہیں۔ حزب المجاہدین اس کا عسکری ونگ ہے۔ میجر (Retd) افتخار ہاشمی میر پور میں اس کے صدر ہیں۔
جمعیت علماء اسلام: قاری محمد گلزار میرپور جمعیت علماء اسلام کے صدر ہیں۔ اس جماعت کو مدارس اور مسجدوں کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ عوامی حمایت بہت کم ہے۔
جمعیت علماء جموں و کشمیر: صاحبزادہ عتیق الرحمان فیض پوری اس کے مرکزی صدر ہیں۔ میرپور کے بہت سے شہری ان کو اپنا روحانی پیشوا سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کا اتحاد مسلم کانفرنس کے ساتھ ہے۔
جماعت الدعوة: میرپور میں جماعة الدعوہ کے سربراہ شیخ محمد فہیم ہیں۔ اس علاقے میں جماعیت کا زیادہ اثرو رسوخ نہیں ہے لیکن مختلف منصوبہ جات پر کام کر رہی ہے جن میں پرائیویٹ سکول اور فلاحی تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ جماعت برطانوی پاکستانی نوجوان نسل کو اپنے نظریات اور خیالات کی ترویج کرتی رہتی ہے۔ لشکر طیبہ اس کا جہادی ونگ ہے۔
جماعت اہل حدیث: جماعت اہل حدیث میرپورمیں کام تو کر رہی ہے لیکن اس کی رکنیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرپور میں جماعت اہل حدیث کی سربراہی صادق امیر کے پاس ہے۔
پاکستان عوامی تحریک: ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک اور اس کا تعلیمی ونگ منہاج القرآن میرپور میں طاہر اقبال کی سربراہی میں سرگرم عمل ہے۔ یہ جماعت میرپور میں بہت سے سکولز بھی چلا رہی ہے۔
جموں و کشمیر اسلامی تحریک: یہ جماعت اہل تشیع کی علمبردار ہے۔ میرپور میں شیعہ برادری کی موجودگی کی وجہ سے یہ جماعت اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے جبکہ دوسرے علاقوں یا فرقوں میں اس کی کوئی مقبولیت نہیں ہے۔

میرپور کے مدارس
 میرپور میں تقریباً ٤٠ مدارس مختلف مکتبہ فکر کے کام کر رہے ہیں۔ حفظ، ناظرہ، قرؤت اور اسلامی تعلیمات ان میںپڑھائی جاتی ہیں۔ معاشرے کے ادنیٰ (Lower) طبقہ کے لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں جبکہ درمیانہ اور اعلیٰ طبقہ کے لوگ اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ مدارس مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی زیرنگرانی کام کرتے ہیں۔ ''دختران اسلام'' مذہبی سنٹر بھی میرپور میں کام کرتے ہیں۔ جماعة الدعوة، جمعیت الاسلام ماڈل اسلامک سکول اسلامک تعلیمات کے ساتھ کمپیوٹر کا عمل بھی دے رہی ہیں۔ مختلف مدارس اور مساجد قرآن کی تعلیمات دیتی ہیں۔
 مدارس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
 بریلوی:  ٢٠      دیوبندی: ١٢
 جماعت اسلامی: ٣     اہل حدیث:  ٣
 ایک مدرسہ AJK اوقاف میرپور بھی چلا رہا ہے۔

جہادی تنظیمیں
 میرپور میں بہت سی جہادی تنظیموں کے آفس ہیں اور وہ کافی تعداد میں امیر لوگوں سے سپورٹ حاصل کر رہی ہیں۔ جہادی مراکز کوٹلی کی قربت کی وجہ سے میرپور بھی جہادیوں کے لیے پرکشش ہے جن تنظیموں کے میرپور میں دفاتر ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
 ١۔جیش محمد   ٢۔حرکت المجاہدین   ٣۔لشکر طیبہ    ٤۔سنی جہاد کونسل  ٥۔انصار الاسلام    ٦۔تحریک جہاد
 ٧۔حزب المومنین ٨۔حزب المجاہدین   ٩۔حزب اسلامی

NGOs
 ایک سو سے زائد NGOs میرپور میں کام کر رہی ہیں۔ ٤٠ فیصد سمندر پار پاکستانیوں کی مدد سے چلتی ہیں۔ کچھ NGOs کو برطانیہ سے واپس آنے کے بعد لوگوں نے بنایا ہے۔ یہ تنظیمیں ایمپلائمنٹ کے علاوہ، ریلیف کا کام بھی کر رہی ہیں۔
 
(جاری ہے)