working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

جماعت الدعوة-محض فلاحی ادارہ یا تحریک
محمد عامر رانا 
 جماعت الدعوة ایک فلاحی ادارہ ہے، مذہبی نظریاتی اصلاح کار، عسکری یاجہادی تنظیم یا پھر سیاسی تنظیم؟ یہ سوال ہے جواقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کی طرف سے جماعت الدعوة کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد ابھرا۔ خصوصاً جب جماعت کی طرف سے خود کو لشکرِطیبہ سے الگ قرار دینے کی تشہیری مہم چلائی گئی اور اسے محض بطور خدمتِ خلق کا ادارہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ مہم ممبئی میں دہشت گرد حملوں کے بعد پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں تھی جس میں لشکرِ طیبہ ان حملوں کی ذمہ دار قرار دی گئی۔

 لیکن یہ کوشش زیادہ بار آور ثابت نہ ہو سکی اور 10 دسمبر 2008ء کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے جماعت الدعوة پر پابندیوں کے بعد حکومتِ پاکستان کو بھی اس کے خلاف اقدامات اٹھانا پڑے۔ اگرچہ اب یہ بحث بھی جاری ہے کہ اقوامِ متحدہ نے جس قرارداد نمبر 1267 کے تحت جماعت الدعوة کو دہشت گرد قرار دیاوہ القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والی جماعتوں اور تنظیموں پر لاگو ہو سکتی ہے، جماعت الدعوة جیسی علاقائی مقاصد کی حامل جماعتوں پر نہیں۔ ان تمام قانونی تیکنیکی پہلوئوں اور سیاسی بحثوں سے قطع نظر اس سوال کا جواب اتنا لاینحل نہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں جماعت الدعوة نے ایک فعال فلاحی ادارے کے طور پر بھی اپنی پہچان کروائی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ عسکری جدوجہد، مذہبی، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی میدان میں بھی اپنے سلفی نقطۂ نظر کے مطابق تبدیلیوں کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ جماعت الدعوة کو اگر ایک ادارے کے بجائے تحریک قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا جس کا تقابل پاکستان میں کسی اور عسکری، مذہبی، فلاحی ادارے یا مذہبی جماعت سے نہیں کیا جا سکتا جو ملتے جلتے مقاصد کے لیے محدود میدانوں میں کام کر رہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے ساتھ شاید اس کا تقابل تنظیمی پھیلائو، طریقۂ کار اور تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ تو کیاجا سکتا ہو، جیسا کہ اس کے بیشتر مرکزی رہنما جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہ چکے ہیں لیکن سیاسی میدان میں جماعتِ اسلامی وسیع تناظر کی حامل ہے جبکہ جماعت الدعوة موجودہ جمہوری سیاسی نظام پرسِرے سے ایمان ہی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت الدعوة کا ہر کارکن خود کو انتخابی جمہوری عمل سے الگ رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جماعت الدعوة سیاسی اموراور معاملات سے خود کو الگ رکھتی ہے بلکہ نہ صرف قومی، علاقائی اور عالمی سیاسی امور پر اپنا واضح مؤقف رکھتی ہے بلکہ پاکستان میں کئی مذہبی سیاسی تحریکوں کی بانی بھی ہے۔ حافظ خالد ولید کے زیرنگرانی جماعت کا سیاسی امور کا شعبہ بھی کافی فعال رہا ہے۔ فاٹا میں فوجی آپریشن کے خلاف تحریک ہو یا سویڈش اخبارات میں نبی کریمۖ کے گستاخانہ خاکوں کامعاملہ، ڈاکٹر عبدالقدیر پر پابندیاں ہوں یا عافیہ صدیقی کی حراست، جماعت الدعوة نے ان پر نہ صرف اپنے نقطۂ نظر کے مطابق واضح مؤقف اختیار کیا بلکہ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر باقاعدہ احتجاجی پلیٹ فارم بھی تشکیل دیے۔ تحریک حرمت رسولۖ، مجلس تحفظ حقوق اللہ اور متحدہ علماء کونسل ایسے ہی کثیرالجماعتی اتحاد ہیں جو جماعت الدعوة کی تحریک پر وجود میں آئے۔ تحفظ حقوقِ نسواں بِل کے خلاف جماعت نے وسیع پیمانے پر دستخطی مہم چلائی اور اس کے دعویٰ کے مطابق ایک کروڑ پندرہ لاکھ افراد نے اس قرارداد پر دستخط کیے۔

 حال ہی میں پاکستان میں جاری خودکش حملوں کے خلاف تمام مسالک کی طرف سے اجتماعی فتوے کا اہتمام بھی جماعت الدعوة نے ہی کیاتھا۔ جماعت کے اہم مذہبی، سیاسی امور اور اتحادی سیاست پر نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا سمیع الحق کی طرزِ سیاست کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ جماعت الدعوة کے قومی سیاسی امور میں بڑھتے ہوئے کردار کے باعث اس کا فرقہ ورانہ تصور (Image) بہتر ہوا ہے۔ جماعت کے ابتدائی سالوں میں اس کا فرقہ ورانہ کردار زیادہ نمایاں تھا۔ نہ صرف شیعہ بلکہ بریلوی اور دیوبندی مکاتبِ فکر کے بارے میں انتہائی سخت نقطۂ نظر کی حامل تھی لیکن سیاسی دھارے میں شمولیت کے بعد جماعت نے اپنے اتحادوں میں بریلوی، دیوبندی، شیعہ مسالک کے علاوہ مرکزی دھارے کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔

 اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جماعت نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے مسلکی تشخص پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے، بلکہ اسے کئی حوالوں سے مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے تربیتی پروگراموں اور چودہ سے زائد باقاعدہ صحافتی مجلّوں اور اخباروں میں مضبوط مسلکی بنیاد پر اب بھی زور دیا جاتا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جماعت کی سیاسی معاملات میں وسیع المسلکی سوچ اس کے عوام میں تاثر کو زیادہ قابل قبول بنانے کا ایک طریقہ ہے کیونکہ سلفی، وہابی یا اہلِ حدیث ابھی تک ایک اقلیتی مسلک ہے اور عمومی عوامی تاثر بھی زیادہ اچھا نہیں ہے۔ اس قابلِ بحث پہلو سے قطع نظر جماعت نے مملکتِ سعودی عرب سے اپنے نظری اور مذہبی تعلق کو فروغ دیا ہے۔ جماعت کے بیشتر قائدین سعودی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں اور ان تعلیمی اداروں سے ان کا تعلق نہ صرف ابھی تک قائم ہے بلکہ وہاں کے نصاب کو اپنے مدارس اور سکولوں میں رائج بھی کیا ہے۔ سعودی مملکت سے وفاداری کے اظہار کے لیے جماعت کی مطبوعات خصوصی توجہ دیتی ہیں۔

 جہاد، جماعت الدعوة کی بنیاد ہے۔ جماعت الدعوة کی اٹھان میں دو شخصیات کا کردار کلیدی ہے۔ ایک ذکی الرحمن لکھوی جنھوں نے جماعت کو عسکری تنظیمی ڈھانچہ دیا اور دوسرے حافظ محمد سعید کے سسر اور ماموں حافظ محمد عبداللہ جنھوں نے اسے فکری بنیاد فراہم کی۔ جماعت الدعوة کے اہم رہنما مولانا امیر حمزہ نے اپنی کتاب ''قافلۂ دعوت و جہاد'' میں اس کا اجمال تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ذکی الرحمن لکھوی نے کس طرح سلفی علماء کو جہاد کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور اس کی یہ کاوشیں اس وقت رنگ لائیں جب پروفیسر حافظ محمد سعید ان کی دعوت پر جہاد پر آمادہ ہوئے۔ پروفیسر حافظ محمد عبداللہ نے تائید کی اور سلفی علماء کو پیغام دیا کہ ''یہ جمہوری ریاست جسے ہم نے اپنا رکھا ہے، یہ ہمارے لیے مناسب نہیں۔ آئو اس گندی سیاست کو ترک کر کے ہم سب ایک ہو جائیں، اپنی جماعت کے اندر امارت کا نظام قائم کریں، اس جماعت کو منظم کریں اور جہاد کی راہ پر لگائیں۔'' (قافلۂ دعوت و جہاد، صفحہ95)۔ اس محرک کی بنا پر 1987ء میں ایک جماعت تشکیل دی گئی جس کا نام ''مرکز دعوة الارشاد'' رکھا گیا اور مرکز کا پہلا جہادی قافلہ 10 اگست 1987ء کو لاہور سے افغانستان روانہ ہوا (صفحہ99)۔ جہادِ افغانستان کے بعدجب کشمیر میں جہاد شروع ہوا تو مرکز دعوة الارشاد کے سپریم کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی کی کاوشوں سے 1992ء میں لشکر طیبہ وجود میں لائی گئی اور لالہ ابوحفص کو اس کا امیر مقرر کیا گیا جو 1993ء میں مقبوضہ کشمیر میں شہیدہو گئے تو کشمیر کا محاذ بھی لکھوی نے براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یہ مرکز دعوة الارشاد اور لشکرطیبہ کے لیے نقطۂ عروج تھا اور مرکز کے عسکری شعبے لشکر طیبہ کا نام اس قدر معروف ہوا کہ اصل تنظیم کے نام پر غالب آ گیا۔ یہ سلسلہ دسمبر 2001ء تک ایسے ہی چلتا رہا اور جب نو ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد پاکستان میں جہادی تنظیموں پر دبائو بڑھا تو لشکرِ طیبہ کو مولانا عبدالواحد کشمیری کی زیرسرپرستی اور کمانڈر لکھوی کی کمان میں الگ حیثیت میں کشمیر تک محدود کر دیا گیا اور مرکز کا نیانام جماعت الدعوة تجویز ہوا۔ جنوری 2002ء میں لشکر پر پاکستان میں پابندیاں عائدکر دی گئیں لیکن کشمیر میں یہ گروپ متحرک رہا۔ اسی تسلسل میں حافظ سعید نظربند کر دیے گئے اور ان کی رہائی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہوئی جس میں جماعت الدعوة عدالت کو یہ قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ عسکری تنظیم لشکر طیبہ کا جماعت الدعوة سے کوئی تعلق نہیں۔

 رہائی کے بعد حافظ سعید نے ملک بھر کے طوفانی دورے کیے اور جہاد کے پیغام کو زوروشور سے پھیلایا۔ اکتوبر 2003ء میں مرکز یرموک، پتوکی میں جماعت کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''آج میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کے مجاہدین کشمیر، ہندوستان اور ہر اس جگہ جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہے، جہاد کر رہے ہیں۔ جہاد ہم سب پر فرض ہے۔ یہ ہمارا بنیادی مقصد ہے اور جہاد کو بچانے کے لیے ہم اپنی جانیں تک قربان کر دیں گے۔''(ڈیلی ٹائمز، 18اکتوبر 2003ئ)

 لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت الدعوة نے اپنے فلاحی کاموں کا سلسلہ بھی وسیع کیا۔ خاص طور پر اس کے ذیلی ادارے شعبۂ خدمت ِخلق نے کشمیر کے زلزلے، سندھ اور بلوچستان میں سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کے دوران انسانی خدمت کے اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں۔ جماعت الدعوة پر اقوام متحدہ کی پابندیوں سے قبل تک ملک بھر میں اس کی 148 ڈسپنسریاں، 7 ہسپتال، 82ایمبولینسز اور 65 بلڈ بینک کام کر رہے تھے۔ جماعت کے منافع بخش اداروں میں 400ماڈل سکول، 5 سائنس کالج اور 51مدارس کام کر رہے تھے جبکہ ملک بھر میں اس کے 73 مراکز بھی مصروف عمل تھے۔ 

 اس پس منظر میں جماعت الدعوة ایک مکمل تحریک معلوم ہوتی ہے جو خدمت اور جہاد سے لے کر سیاست تک میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے.