working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

بنیاد پرستی دراصل کیا ہے؟
خالد احمد
پاکستان کے معروف دانشور خالد احمد نے یہ تحریر 29 جون 1995کو لکھی۔ اس کے بعد کے منظرنامہ میں یہ موضوع اوربھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا بنیاد پرستوں اور جدت پرستوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے اس مضمون کی اہمیت اور بھی دوچند ہو جاتی ہے جس کو قارئین کے حظ کے لیے ''قندِمکرر'' کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

آدمی کو آج کل شدت جذبات اور تخفیف فکر کی کئی ''اجتماعی صفات'' سے واسطہ پڑتا ہے۔ بوسنیا جیسے مسائل پر جیسے جیسے مسلم اتفاق رائے بڑھتا جا رہا ہے، ہمیں مغرب کی ''اجتماعی صفات'' کو برہنہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کا کردار فلسطینیوں کے خلاف ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ یورپی یونین اور نیٹو مسلسل سربوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیونکہ سرب جن لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں وہ مسلمان ہیں۔ یورپین یونین ترکی کو کبھی مکمل رکن تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ ترک مسلمان ہیں۔ ہمارا متفقہ خیال ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں پورا یورپ مسلمانوں کے خلاف ہے اور اسلام کی نشاة ثانیہ سے خوفزدہ ہے۔ ہم یورپ میں شائع ہونے والے ان مضامین کا حوالہ دیتے ہیں جو ایک نظریے کی حیثیت سے کمیونزم کے انہدام کے بعد اسلام کے ساتھ مغرب کی جنگ کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ پینٹاگون اور نیٹو کے ذمہ دار افراد کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں اسلام کو ایک ایسی دشمن قوت کے طور پر دیکھا گیا ہے جس کے خلاف مغرب نے لڑنا ہے اور اسے قابو کرنا ہے۔ جب حکومتیں ان بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہیں تو ہم اسے سفارتی چال کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔

اس صورت میں جب مغرب کچھ اسلامی تحریکوں کے لیے ''بنیاد پرست'' کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ہم اسے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش اور ایک غیرمنطقی دشمن عقیدے کے طور پر پیش کرنے کی مغربی پالیسی کہہ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ خلیج اور بوسنیا میں یورپ کے طرز عمل سے ناراضگی کے سبب ہم اس مسلم دہشت گرد کا دفاع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جس نے امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم دھماکہ کیا۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ہم دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرتے بلکہ یورپ کے تعصب کے خلاف اسے درست گردانتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم ایک ایسے عمل کو پورا کرنے پر مجبور ہیں جو ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ اس رویے کے خلاف امریکی خوف کی گہرائی اس وقت منکشف ہو گئی جب اکلوہامابم دھماکے کے بعد بہت سے ذمہ دار امریکیوں نے شبہ کا اظہار کیا کہ یہ بم مسلم دہشت گردوں کا نصب کردہ تھا۔

مغرب اور اسلامی دنیا کی اس باہمی جنگ کے دوران بنیاد پرستی کی تعریف کرنے کا ایک اہم فریضہ نظرانداز کر دیا گیا۔ چونکہ ہم دانشورانہ سطح پر مغرب کی تیار کردہ تعریف کو قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا ہم بنیاد پرستی کی تاریخی صفات کی نوعیت پر غور کرنے کی اہم ذمہ داری سے اغماض برتتے ہیں۔ محض اس وجہ سے خود کو اجتماعی طور پر بنیاد پرست کہنا درست نہیں کہ ہم ''اسلام کے بنیادی تصورات پر یقین رکھتے ہیں'' لہٰذا یورپ کی جانبدار تعریف کو مسترد کرتے ہیں۔ اسلامی قلب ماہیت کی حقیقی نوعیت کو جانچنے کے دانشورانہ عمل سے اجتناب برت کر ہم خود کو ایک ایسے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو ایک سماج کی حیثیت سے ہمارے مستقبل کو غیریقینی بنا دیتا ہے۔

ازہر منیر نے اپنے کتابچہ ''بنیاد پرستی کیا ہے؟'' میں امریکہ کی بنیاد پرستی کے تصور کی تاریخ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس عمل کے دوران انہوں نے ہماری بنیاد پرستی کے کچھ بنیادی اوصاف کو منکشف کر دیا ہے۔ جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ خصوصی نہیں بلکہ عمومی اصطلاح ہے۔ اور مذہب کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ کس طرح کچھ لوگ مذہب کو سمجھنا اور اس کے مقدس قوانین پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مذہب کے عقلیت پسند اور انسان دوست تصور کا ایجاد کردہ لیبل ہے اور معتدل روایات سے متاثر مسلمان اسے اس حوالے سے دیکھ سکتے ہیں۔

نیویارک کے ییپٹسٹ اور پریسبی ٹیرین بائبل سے متضاد نئے تصورات سے مضطرب ہو گئے اور ١٨١٢ء میں انہوں نے ان لبرل افراد کی مذمت کرنے کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جنہوں نے ان کے متن پرست عقائد کی نفی کرنے کے لیے ان تصورات کو پھیلایا تھا۔ ١٩٠٢ء میں امریکی بائبل لیگ نے اپنے پمفلٹ ''بنیادی تصورات کی سچائی کی شہادت'' میں ان خیالات پر تنقید کی جو انجیل کی لغوی سچائی کو مسترد کرتے ہیں۔

١٩١٩ء میں تعلیم کے شعبہ میں انجیل مخالف خیالات کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے نیویارک اور فلاڈالفیا میں ''ورلڈ کرسچیئن فنڈامنٹلسٹ ایسوسی ایشن'' قائم کی گئی۔ ان تنظیموں نے بنیاد پرستی کو مسیحی عقائد کے بنیادی تصورات سے منسلک کر دیا۔ اسی طرح جیسے ہم آج اس اصطلاح کی تعریف کرتے ہیں۔

لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس نے اس اصطلاح کو منفی معنی دے دئیے۔ بائبل کی متن پرستی سے آگے بڑھتے ہوئے ان تنظیموں نے اپنے خیالات کے نفاذ کا متشدد راستہ اپنا لیا اور تشریحی ''بدعت'' کے ذریعے انجیل کو ''تبدیل'' کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر سزائیں دینا شروع کر دیں۔ وہ عدالتوں میں گئے لیکن جب کچھ عدالتوں نے سزائیں دینے پر رضامندی ظاہر نہ کی تو ''بدعت'' کو روکنے کے لیے انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کر لیا۔ کچھ عدالتوں نے ڈارون ازم پر ان کے اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے سکولوں میں اس کی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا اور ان فیصلوں پر بعد ازاں ریاستوں نے قانون سازی کر لی جو ''منکی لاز'' (بندر قانون) کے نام سے مشہور ہوئے۔

امریکہ کے زرعی جنوب نے بنیاد پرستوں کی حمایت میں قانون سازی کی جب کہ شمالی علاقوں نے مذہب کے لبرل تصور کی توثیق کی۔ یہ مذہبی بنیاد پرستی ایک کم مضر رساں شکل میں آج بھی امریکہ کی کچھ ریاستوں میں قائم ہے۔ جہاں جیری فالویل جیسے ان کے معروف ترجمان موجود ہیں جو ریاستوں کو بزور طاقت ''منکی لاز'' نافذ کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

ازہر منیر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بنیاد پرستی کا کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ مذہب کی تشریح کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ کسی مخصوص مذہب پر یقین رکھنے سے کوئی فرد بنیاد پرست نہیں بن جاتا بلکہ وہ بنیاد پرست اس وقت بنتا ہے جب ایک خاص طریقے سے ''عمل'' کرتا ہے۔ ایسا شخص درج ذیل خاموش ''قوانین'' کے تحت عمل کرتا ہے۔

١۔ اس کے پاس سچائی ہے۔ ٢۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس سچائی نہیں۔ ٣۔اس کے خیالات سے اختلاف کرنے والا جھوٹا اور زندیق ہے۔ ٤۔ اس کی سچائی پر شک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ ٥۔یہ سچائی قوت، جبر اور دہشت کے ذریعے پھیلائی جانی چاہیے اور جبری تبدیلی مذہب کے عقیدے کا ایک حصہ ہے۔ ٦۔اس سچائی سے انکار کرنے والے زندیق اور واجب القتل ہیں۔ ٧۔ ریاست کے قوانین، اس کی کارروائیاں اور اس کی تقرریاں اور اس کی سماجی تقریبات کو ان لوگوں کے خیالات کے تابع ہونا چاہیے جو اپنے عقائد کے حوالے سے غیرمشتبہ ہیں۔ ٨۔جمہوریت، آزاد خیالی، مساوات ، (عورت اور مرد کے درمیان) سیکولرازم اور جدت پسندی شیطانی تصورات ہیں۔ ٩۔ آزادی کو مشروط ہونا چاہیے، ہر کسی کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی نہیں ہونی چاہیے۔ ١٠۔ یہ سوچنا کفر ہے کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ ١١۔ تمام سائنسی تصورات درست نہیں اور انہیں مذہبی علماء کی اجازت سے تسلیم کرنا چاہیے۔

مصنف ہمارے ایک قریبی مظہر کی جانب جاتا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا تجزیہ کرتا ہے۔ ہندو ازم بنیاد پرست مذہب نہیں ہے اور نہ ہی ہندو عوام بنیاد پرست ہیں۔ لیکن عوام نے ہی ایک ایسی جماعت کو اُبھارا ہے جس کا طرزِ عمل اسے بنیاد پرست بنا دیتا ہے۔ ازہر منیر بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی شیوسینا جیسی بنیاد پرست حلیف جماعتوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ ١۔ صرف ہندوازم سچا مذہب ہے۔ ٢۔ اس کی سچائی پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس پر کسی قسم کے اعتراض یا تنقید کی اجازت نہیں۔ ٣۔ صرف ہندوؤں کے پاس سچا عقیدہ ہے اور کسی غیرہندو کو سچائی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٤۔ ہندو مذہب کو ہتھیاروں کی طاقت کے ذریعے پھیلانا چاہیے۔ ٥۔ ہندوازم پر عمل نہ کرنے والے زندیق اور واجب القتل ہیں۔ ٦۔ ٧۔ بھارت کو سیکولر ریاست نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہندو ریاست کے طور پر اس کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔ جس میں نظام حکومت ''رام راج'' پر مبنی ہو۔

ایک خدا، ایک قرآن اور ایک رسول پر یقین رکھنے والے اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے والے کسی بھی مسلمان کو بنیاد پرست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بنیاد پرست کہلانے کے لئے ایک مسلمان کو مندرجہ ذیل امتحان پاس کرنا پڑے گا۔

١۔ میرا عقیدہ سچا ہے اور میں اسے جبر، دہشت گردی اور بلیک میلنگ کے ذریعے پھیلاؤں گا کیونکہ یہی میری راست بازی ہے۔ ٢۔قرآن کی صرف وہی تشریح سچی ہے جسے میں تسلیم کرتا ہوں۔ ٣۔ میری تشریح پر یقین نہ رکھنے والے زندیق اور واجب القتل ہیں۔ ٤۔ریاستی امور، اس کے قوانین، تقرریاں اور ثقافتی سرگرمیاں میرے خیالات کے مطابق ہونی چاہئیں۔ ٥۔ مقدس کتاب اور دوسرے مذہبی احکامات کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تشریح نو کرنا غلط ہے۔ ٦۔ میرے عقیدے سے قبل اور بعد کے تمام تر عقائد گمراہ کن ہیں اور ان کی بنیاد پر قائم تمام تر ثقافتی رسم و رواج غلط ہیں۔ لہٰذا انہیں بزور قوت اکھاڑ پھینکنا جائز ہے۔ ٧۔مقدس کتاب کے علاوہ تمام تر علم، حکمت اور فلسفہ غیرمتعلق ہے اور ایسے علم کو پھیلانے کی کوشش بدتہذیبی پر مبنی اور گمراہ کن ہے۔ ٨۔ رسمیں صرف مذہبی ہونی چاہئیں یا انہیں صرف مذہب کی اجازت حاصل ہونی چاہیے اور اس درجہ بندی سے باہر ہر تقریب کو ممنوع قرار دے کر اس کے انعقاد پر سزا منعقد کرنی چاہیے۔ ٩۔ سائنس اس وقت تک نہیں پڑھانی چاہیے جب تک مذہبی علماء اسے ''پاک صاف'' نہ کر دیں۔ کیونکہ سائنس کی دریافتیں اسلام کے خلاف کی جا سکتی ہیں۔ ١٠۔ہر چیز حتیٰ کہ سیکولر نوعیت کی چیزوں کی بھی مذہبی اور غیرمذہبی حوالے سے درجہ بندی ہونی چاہیے۔ ١١۔فلمی موسیقی، رقص، تھیٹر شیطانی کام ہیں اور انہیں ممنوع قرار دینا چاہیے جب تک کہ یہ مذہب کو پھیلانے اور مذہبی سربراہوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال نہ ہوں۔ ١٢۔اگر ممنوعہ عمل سرانجام دیا جا رہا ہے تو گھر کی خلوت میں مداخلت کی جا سکتی ہے اور نجی تقریبات پر حملہ کیا جا سکتا ہے اور انہیں بموں کے ذریعے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ١٣۔ دوسرے مذاہب کے مقامات عبادت کو تباہ کرنا اور ان پر مساجد تعمیر کرنا جائز ہے۔ ١٤۔ چونکہ جمہوریت مذہب میں مساوات برتتی ہے اور سیکولر ازم ریاستی امور میں مذہبی جانبداری اختیار کرنے سے روکتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت اور سیکولر ازم کے خلاف ہیں اور ان کی مخالفت کرنی چاہیے۔

مصنف مولانا ابوالکلام آزاد کی اس بات کا حوالہ دیتا ہے کہ ''دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی سچائی ہے، وہ اسلام ہے''، اور امام غزالی کے اس بیان کو پیش کرتا ہے کہ ''اللہ جن کی حمایت کرے گا، ان میںہمارے دور کے عیسائی بھی شامل ہوں گے۔'' اس کا اصرار ہے کہ بنیاد پرستی مذہب نہیں بلکہ ایک رویہ ہے۔ حتیٰ کہ یہ مذہب کی کوئی تبدیل شدہ شکل بھی نہیں ہے۔ وہ ترکوں کو قتل کرتے ہوئے نازی جرمن نوجوانوں میں بنیاد پرستی کو دیکھتا ہے اور امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے گلوککس کلین کے ساتھ ان کا موازنہ کرتا ہے جو سیاہ فام افراد کو قتل کرتے تھے۔ اس کا سوال ہے کہ آئیے ہم ایمانداری سے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ کیا ہم بنیاد پرستی کی مندرجہ بالا تعریف پر پورا اترتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ کچھ لوگوں کے علاوہ ہم میں سے اکثر لوگ اس تعریف پر پورا نہیں اترتے اور یہ کہ ریاست میں کچھ ایسی بنیاد پرست خصوصیات پیدا کر دی گئی ہیں۔اگرچہ ہم سب اس قسم کی ناروا خصوصیات نہیں رکھتے۔ میرے لئے بنیاد پرستی ایک خصوصی اصطلاح ہے اور ہم میں سے صرف کچھ لوگوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

خالدبن سعید اپنی تازہ کتاب ''مغربی غلبہ اور سیاسی اسلام'' میں کہتے ہیں کہ اسلام کا مستقبل انتہا پسند مسلم ذہن اور اعتدال پسند ذہن کے مابین تضادات سے عبارت ہے۔ اس کتاب کا ایک غیربنیاد پرست مبصر اس پر اپنی رائے اس قسم کے خیالات پر ختم کرتا ہے ''اسلام پسند ردعمل کے طور پر فضل الرحمن اور کریم سروش جیسی صاحب علم شخصیات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ لیکن امید ہو سکتی ہے اور وہ امید مغربی غلبہ کی حقیقت میں ہی پنہاں ہے کیونکہ یہ ہر قسم کے مسلمان کو ناانصافی نظر آتا ہے اور وہ سب اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ جمہوریت اور انسانی اقدار کو محض اس وجہ سے مسترد نہ کر دیا جائے کہ وہ مغرب سے تعلق رکھتی ہیں۔