working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

قوتِ فکر
مجتبیٰ محمد راٹھور
انسان کی حقیقت اور ماہیئت کے بار ے میں دو بنیادی نظریے ہیں جن میں سے ایک نظریہ خداپرستوں کا ہے اور دوسرا مادہ پرستوں کا۔ خداپرستوں کے نظریے کے مطابق انسان جسم اور روح سے مرکّب ایک وجود ہے۔ انسان کی روح جاودانی ہے جو انسان کے مرنے سے فنا نہیں ہوتی جبکہ مادہ پرستوں کے نظریے کے مطابق انسان کا جسم ہی ہے اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں اور مر جانے پر یہ مکمل نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ باوجودیکہ انسان کی ماہیئت اور حقیقت کے بارے میں اتنا بڑا اختلاف ِ نظر موجود ہے۔ لیکن اور معاملہ جو انسان سے وابستہ ہے جس کے بارے میںان دونوں نظریات میں کوئی اختلاف نہیں۔ وہ معاملہ سلسلۂ امور ہے۔ یہ امور ایسی خصوصیات پر مبنی ہیں جو انسان کو شخصیت اور قدروقیمت بخشتے ہیں اور انسان کا انسان ہونا انہی امور کی بدولت ہے۔ اگر انسان سے یہ خصوصیات لے لی جائیں تو انسان اور حیوانات میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ انسان کی انسانیت اس کی جسمانی ساخت کی بنا پر نہیں بلکہ انسان کا بدن اس کی روح کے باعث قابل قدر ہے۔ اسی لیے حکماء کہتے ہیں کہ آدمی بننا اور آدمی ہونا مشکل ہے۔ پس اگر اس بدن کے معنی ہی آدمی ہونے کے ہیں تو پھر جو لوگ ماں کے  بطن سے پید ا ہوتے ہیں ان سب کو آدمی کہا جاتا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ آدمی ہونا صفات، اخلاق اور معنوی امور کا ایک الگ سلسلہ ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں ''انسانی قدریں'' کہا جاتا ہے۔

 وہ تمام چیزیں جو انسان کو قدروقیمت اور شخصیت عطا کرتی ہیں اور اگر وہ نہ ہوتیں تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہ رہتا، وہ ''انسانی قدریں'' کہلاتی ہیں۔ اور جب یہ تمام قدریں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ ''کامل انسان'' کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے اور کامل انسان سے مراد وہ انسان ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے نمونہ اور ان کے مقابلے میں اعلیٰ اور ارفع ہو۔ دنیا کے ہر مذہب میں اس کامل انسان کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تمام انسانی قدروں کو پہچانیں اور ان پر عمل پیرا ہوں جن کی بدولت انسان، انسانیت کے بلند مقام پر فائز ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان، ہمارا دین اسلام ہمیں قرآن مجید اور سیرت طیبہ کی صورت میں رشدوہدایت کا عظیم خزانہ فراہم کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی قدرومنزلت کو حاصل کر سکتا ہے۔

 آج کے اس پُرفتن دور میں جب ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے، عصبیتیں سر اٹھا رہی ہیں، برداشت ختم ہو گئی ہے، ہر ایک دوسرے کو جھکانے پر تلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مفاہمت کی جگہ مقاومت، اپنائیت کی جگہ جارحیت، صلح کی جگہ اسلحہ اور رواداری کی جگہ خونخواری لے رہی ہے، گو کہ دنیا نے زمانی و مکانی فاصلے گھٹا دیے ہیں لیکن روحانی فاصلے بڑھتے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی دل کے تار ہلانے والا نہیں ملتا۔ جو بھی ہے توپ اورتلوار چلانے والا نظر آتا ہے۔ ایسے میں ہمیں پھر سے ان صوفیاء اور اولیاء کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے جو براہِ راست روحِ محمدیۖ سے فیضیاب ہوئے۔ جنھوں نے اپنے پیار و محبت اور سخاوت و کرم سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا اور یہی لوگ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جس پر آج ہم بات کریں گے وہ غور و فکر کرنا ہے۔ اور جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔

''یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر برابر یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔''
               (آل عمران:١٩١)

گویا فکرونظر چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ہو یا اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے، یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کا عمل ہے۔ اسلام میں جس قدر فکر و نظر کی دعوت اور ابداع و ابتکار کی ہمت افزائی ہے، اتنی کسی دوسرے آسمانی مذہب میں نہیں۔

 حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے:

''جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا اسے اس کا اجر ملے گا اور جتنے لوگ اس طریقے کو اس کے بعد اپنائیں گے، ان سب کے برابر اجر ملے گا لیکن اس سے ان لوگوں کا اجر کم نہیں ہو گا۔ اور جس شخص نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالا اس پر اس کا گنا ہ ہو گا اور ان سب لوگوں کے برابر گناہ ہو گا جو اس طریقے پر اس کے بعد چلیں گے۔ لیکن اس سے ان کے گناہوں میں کمی نہیں آئے گی۔''
        (المنذری، ص١٤٥، حدیث ٥٣٣)

 اس حدیث میں اس اجتہادی غوروفکر کی عظیم ترغیب ہے جس کے نتیجے میں سماج کے لیے نفع بخش چیز وجود میں آئے اور انسانیت کے لیے خیر رکھنے والے طریقے ظاہر ہوں۔ فکر و نظر کی ایک غلطی جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں وہ دلائل کے بغیر حکم لگانا اور نتائج نکالنا ہے۔ فکرونظر کو غلطی سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس اس کے کافی دلائل موجود ہوں۔ حضور اکرم ۖ نے بھی بغیر تحقیق کے باتیں کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپۖ کا ارشاد ہے: ''کسی شخص کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہیں۔''  (بخاری، مناقب الانصار)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ''تم لوگ ظن سے بچو کیونکہ ظن سب سے جھوٹی بات ہوتی ہے۔'' (بخاری ج٢، حدیث ٦٠٦٣)۔ ان دونوں حدیثوں میں علم و تحقیق کے بغیر محض ظن و تخمین سے کوئی بات کہنے سے منع کیا گیا ہے اور لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ سچائی کی جستجو کریں اور وہی بات بولیں جس کے پیچھے دلائل ہوں۔

 بحث و مناقشہ اور تبادلہ خیالات ان اہم عوامل میں سے ہیں جو فکر و نظر کے نکھار اور سلامتی نیز حقیقت تک رسائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور غلطیوں کے ازالے میں مدد دیتے ہیں۔ بحث و مناقشہ اور تبادلہ خیالات سے مسئلے کے تمام پہلو واضح ہو جاتے ہیں، اس کے حدو د متعین ہو جاتے ہیں، کچھ نئی آراء سامنے آتی ہیں جو سوال کا اطمینان بخش جواب تلاش کرنے اور مسئلے کے کامیاب حل تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں۔ غوروفکر ہی تعلیم و تعلم کا اہم طریقہ ہے اور یہ قوت فکر ہی انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ حصول علم و معرفت کے اہم وسیلہ کے طور پر ماہرین سے مشورہ کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے: ''سو تم اہلِ کتاب سے پوچھ لو اگر تم علم نہیں رکھتے۔''(انبیائ، آیت نمبر٧)۔ اس آیت سے سوال کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور اہل علم کا مقام بھی واضح ہوتا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو بنیادی طور پر ان تمام خصوصیات کا علم ہوناچاہیے جو اسے دوسرے انسانوں سے ممتاز کریں۔ ماہنامہ ''تجزیات'' کی بنیاد غوروفکر اور فکر ونظر پر رکھی گئی ہے تاکہ معاشرے میں پیدا ہونے والے نت نئے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کے ان روشن پہلوئوں کو اجاگر کیا جا ئے جن سے معاشرے میں امن و سلامتی کو فروغ مل سکے۔