اسلاموفوبیا کو قانونی جرم شمار کیا جائے
دو روز قبل ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں سٹاپ اسلامائزیشن تنظیم کی طرف سے منعقدہ ایک ریلی کے بعد اس کے رہنما نے قرآن مجید کے نسخے کو جلانے کی کوشش کی جسے ایک مسلم نوجوان نے ناکام بنایا۔ یہ تنظیم 2009ء میں بھی اسی طرح کی ایک کوشش کرچکی ہے۔ اس کا نظریہ ہے کہ ناروے میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
نائن الیون کے بعد مغربی ممالک کے اندر اسلاموفوبیا میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے جو پچھلے چند برسوں سے تشدد کی شکلیں اختیار کرتا جارہا ہے۔ وہاں اسلامیت کے عنصر سے خوف یا اس سے دشمنی اب تنطیمی سماجی فکر کے دائرے سے نکل کر باقاعدہ سیاسی نظم کا حصہ بن چکی ہے۔ ان ممالک کا میڈیا بھی واضح طور پہ جانبدارانہ کردار ادا کرتا آیا ہے جس کے باعث مسلمانوں کوتکلیف دینے کے جرائم بڑھ رہے ہیں اوران کی جذباتی وابستگی کو مجروح کرنے کے لیے قرآن کریم کو جلانے اور گستاخانہ خاکے بنانے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جب اپنی سرزمین کو چھوڑ کر مغربی ممالک کا رُخ کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے سیاسی و انسانی حقوق کے نظم پر زیادہ اعتماد کرتی ہے اور اسی لیے وہ لوگ تمام اندیشوں سے بے خطر وہاں کے لیے سفر کرتے ہیں۔ اگر تیز رفتار مہاجرت کے بعض ڈیموگرافک اثرات کے خدشات بھی ہیں تو اس کا حل معاندانہ نظریات کی ترویج کی بجائے سیاسی و قانونی ہونا چاہیے۔ نفرت پر مبنی واقعات مسلم نوجوانوں کواس پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ بنیاد پرست تنظیموں کا حصہ بنیں جو نہ صرف ان ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسلاموفوبیا جس طرح تشدد کی شکلیں اختیار کررہا ہے اور ایک کمیونٹی کے لیے سخت عدم تحفظ کو جنم دے رہا ہے اسے ایک قانونی جرم شمار کیا جانا چاہیے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے واقعات میں کمی ممکن ہوسکے۔
فیس بک پر تبصرے