نقوشِ بلتستان

713

محمد حسن حسرت کی علمی وادبی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ علمی خدمات کے تناظر میں فقط اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ انہوں نے بلتستان میں فاصلاتی نظام تعلیم کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے صحیح معنوں میں متعارف کرایا اور اس نظام کے تحت  بلتستان کے دور دراز علاقوں میں طلبہ و طالبات کو اُن کے گھر کی دہلیز پر اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں پہنچا دیں۔ طلبہ و طالبات کے لیے اعلیٰ وفنی تعلیم کے حصول کو گھروں میں رہ کر حاصل کرنے کو ممکن بنایا۔ تعلیمی ورکشاپس اور امتحانی مراکز جو کبھی یہاں دستیاب نہیں ہوتے تھے ان کا انتظام کیا۔ اب تعلیمی شعبے سے متعلقہ تمام افراد حسن حسرت اور ان کے دور خوبصورت الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔

ادبی میدان میں حسن حسرت کا طرّہِ امتیاز یہ ہے کہ ان کی پندرہ کتابیں اب تک منظر عام پرآچکی ہیں۔ حال ہی میں لوک ورثہ پاکستان نے ان کی ایک اور کتاب شائع کی ہے۔ ”نقوش  بلتستان“ کے نام سے چھپنے والی یہ کتاب اس وقت میرے سامنے ہے اور قارئین کی معلومات کے لیے اس کتاب کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

بلتستان تاریخی اعتبار سے شاندار تہذیب و ثقافت اور وایات و اقدارکا حامل ہے جس کے آثار علاقے میں جابجا بکھرے ملتے ہیں۔ یہ آثار کہیں تعمیراتی ورثے کی صورت میں ہیں تو کہیں پرانے رہن سہن، لباس روزہ مرہ استعمال کے ظروف، شاعری اور سینہ بہ سینہ روایات میں ملتے ہیں۔ ان میں تعمیراتی ورثوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں کی تعمیرات میں کشمیری، مغل، اور ایرانی فن کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہ ورثے یہاں ایک طرف قدیم مذہب بون مت اور بدھ مت کی باقیات کی صورت موجود ہیں تو دوسری طرف اسلامی قدیم مساجد، خانقاہیں، مقبرے اور آستانے بھی نظر آتے ہیں۔ ساڑھے چھ سو سال تک حکومت کرنے والے مقامی راجاؤں کے عہد کے محلات اور قلعے بھی مختلف علاقوں میں آج بھی عہد رفتہ کی عظمت کی گواہی کے لیے زندہ ہیں۔ ان آثار پر ماضی میں کسی ادیب یا محقق نے کما حقہ کام نہیں کیا۔ تاریخ کی کتابوں میں ان میں سے بعض کے حوالے سے مختصر معلومات ضرور ملتی ہیں لیکن ان تاریخی ورثوں پر باقاعدگی سے تحقیق کرکے کوئی جامع کتاب تیار کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ محمد حسن حسرت نے کئی سال کی مسلسل تحقیق کے بعد ”نقوش ِ بلتستان، آثار قدیمہ اور تعمیراتی ورثہ“ کے نام سے ایک جلد کے اندر  بلتستان میں موجود بیشتر تعمیراتی ورثوں کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں ان میں سے بعض کے حوالے سے مختصر معلومات ضرور ملتی ہیں لیکن ان تاریخی ورثوں پر باقاعدگی سے تحقیق کرکے کوئی جامع کتاب تیار کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی

اس کتاب کی اشاعت کے لیے بھی مناسب ترین ادارہ ”لوک ورثہ پاکستان“ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ کتاب کے سرورق کے لیے کتاب کے مواد کے عین مطابقت میں خپلو محل کی تصویر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ تاریخی دستاویز دس ابواب میں منقسم ہے۔ مختلف عمارتوں کی موضوعات کے اعتبار سے علیحدہ کرکے ابواب بندی کی گئی ہے۔ پہلے باب میں خطے کا جغرافیائی تعارف درج ہے۔ باب دوئم میں تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب سوئم آثار قدیمہ سے متعلق ہے،اس میں تمہید کے بعد زمانہ قبل از تاریخ، بدھ مت کے آثار، جن میں  بلتستان بھر میں پہاڑوں پر موجود نقش و نگار، جملے اور پتھروں پر منقش مجسموں کی تفصیل درج ہے۔ چوتھے باپ میں  بلتستان کی تاریخی عمارتوں کے طرز تعمیر پر گفتگو کی گئی ہے۔ باپ پنجم مساجد کے بارے میں ہے جس میں  بلتستان کی اولین تاریخی مسجد چقچن اور مسجد امبوڑک سے لے کر جامع مسجد شگر تک درجنوں تاریخی مساجد اور ان کی تاریخ و تعمیراتی خوبیوں پر مفید معلومات جمع ہیں۔ باب ششم  بلتستان کی خانقاہوں پر روشنی ڈالتا ہے،اس میں خانقاہ معلی گمبہ سکردو، خانقاہ شگر، خانقاہ تھگس، کریس، سرمیک اور خانقاہ خپلو سمیت دیگر درجنوں خانقاہوں سے متعلق مفید معلومات درج ہیں۔

بلتستان میں عزاداری کی تاریخ جتنی پرانی ہے یہاں امام بارگاہوں کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ کتاب کے باب ہفتم میں امام بارگاہوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے، کھرمنگ بیامہ اور سکردو امام بارگاہ کلاں کے علاوہ متعددامام بارگاہوں کا احوال موجودہے۔  بلتستان میں چھ سو سال سے زائد عرصے تک قومی حکمرانی کا دور رہا۔ اس عرصے میں  بلتستان کے تین دارالحکومتوں سکردو، شگر اور خپلو میں بالخصوص، جبکہ تمام چھوٹے بڑے علاقوں میں بالعموم محلات اور قلعے تعمیر ہوئے۔ اس کتاب میں دس نمایاں محلات اور قلعوں کے متعلق تفصیلات بھی ملیں گی۔ تبلیغ دین کے لیے تشریف لانے والے علما وصوفیاجو مختلف اوقات میں یہاں آئے اور ساری عمر حق و سچائی کی سربلندی کے لیے دینی علوم پھیلانے کی جدوجہد میں مصروف رہے اور یہیں پیوند ِخاک ہوئے، ان کے متبرک آستانوں کے بارے میں معلومات بھی زیر نظرکتاب کا حصہ ہیں۔مجموعی طور پہ 34 آستانوں اور دو زیارات گاہوں کی تفصیلات  اس میں موجود ہیں۔ آخری باب میں  بلتستان میں موجود تاریخی باغات، چوپال اور یادگاروں پرمعلومات  کو زیب ِ داستان بنایا گیا ہے۔

تمام تاریخی عمارت کی تصویریں پر بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ گلگت بلتستان کے گورنر راجہ جلال حسین مقپون اور سپیکر اسمبلی حاجی فدا محمد ناشاد نے پر کتاب پر تقریظ تحریر کی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...