پاکستانی جیلوں کے مسیحی قیدی

678

حال ہی میں پاکستا ن کی مسحی برادری کی ایک تنظیم نے صدر اور وزیراعظم کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے ملک کی جیلوں میں قید اپنی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے سخت امتیازی سلوک پر نوٹس لینے کی اپیل کی۔

پاکستان کے اندراقلیتوں میں سے مسیحی برادری کو ہر شعبے میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک کاسامنا ہوتا ہے۔ اس رویے کا سامنا انہیں جیلوں میں بھی ہے، جہاں ویسے تو تمام قیدی ایک انسانی بحران سے گزرتے ہیں لیکن اس ماحول میں مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو اور زیادہ مشکلات کا سامناہے۔ پنجاب کی تقریباََ چالیس جیلوں میں تناسب کے اعتبار سے ان کی خاطرخواہ تعداد مختلف مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے دس ہزار قیدیوں میں سے پانچ سو مسیحی ہیں۔ ورلڈ واچ مانیٹر کے کچھ نمائندگان نے بعض گرفتار افراد سے ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ جب یہاں لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ ہم مسیحی ہیں تو وہ ہم سے فاصلہ رکھ لیتے ہیں۔ زیادہ سخت اور صفائی کے کام کے لیے سٹاف ہمارا انتخاب کرتا ہے، بلاتخصیص ان میں وہ افراد بھی شامل ہوتے ہیں جن پر ابھی فردِجرم عائد نہیں ہوئی ہوتی۔ پرزنز مشن سوسائٹی پاکستان کے سربراہ شہباز مسیح کہتے ہیں کہ 2016 سے باہر سے جیلوں میں دینی تعلیم دینے کی غرض سے ملاقات کے لیے آنے والے مبلغین اور علما پرپابندی عائد ہے کہ سکیورٹی کے پیش نظر اس احاطے میں مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔ لیکن یہ سلسلہ عملاََ رُکا نہیں ہے، تاہم مسیحیوں کے لیے مذہبی تعلیم و تربیت حاصل کرنا اب بھی بالکل منع ہے۔ انہیں اجتماعی عبادت کے لیے بھی انتہائی کم وقت فراہم کیا جاتاہے۔

پاکستان کا نظامِ عدل مجموعی طور پہ غیرشفاف ہے۔ انصاف حاصل کرنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ مسیحی قیدیوں کی اکثریت غریب ہونے کی وجہ سے وکیل کا انتظام نہیں کرسکتی جس کے نتیجے میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ایسے افراد کے لیے قانونی تعاون کا انتظام ہونا چاہیے۔ پاکستان کا شمار دنیا میں مسیحی برادری کے لیے پانچ خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس تأثر کو بدلنا اہم ہے۔ جس طرح حکومت نے اِس ہفتے ہندو برادری کے چارسو مندر فعال کرنے کافیصلہ سنایا اور سکھ مذہب سے خیرسگالی کے لیے کرتار پور راہدری کھولی اسی طرح ملک کی مسیحی برادری کے لیے بھی بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...