اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور علما کی لاتعلقی

1,100

اجتماعی اجتہاد کا موضوع ایک عرصے سے فقہی اور علمی مجالس کا عنوان بنا ہوا ہے؛ البتہ عملی لحاظ سے اس پر پیشرفت کم ہی دکھائی دیتی ہے اور زیادہ تر مسائل میں انفرادی فقہی آراء کی طرف عوام کو رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ بیشتر ریاستی قوانین ایسے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کا علما و فقہا کی طرف رجوع کم ہو گیا ہے تاہم بعض مسائل ایسے ہیں جن میں ابھی تک مفتیانِ کرام اور فقہا عظام کی طرف ہی مراجعت کی جاتی ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی ضرورت کئی پہلوو ¿ں سے بیان کی جا سکتی ہے۔

مسائل بہت بڑھ چکے ہیں اور علوم کی بہت سی شاخیں معرض وجود میں آچکی ہیں۔ مختلف ممالک کے قوانین جو مکلفین اور مقلدین پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ حالات بھی مختلف ممالک اور علاقوں کے مختلف ہیں؛ ایسے میں ایک شخص ان تمام علوم اور حالات کا علمی احاطہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی مجالسِ فقہ تشکیل پائیں جن میں ہر مسئلے سے متعلق موضوعات کے ماہرین اور علما موجود ہوں تاکہ تمام پہلووں کو سامنے رکھ کر کسی مسئلے پر ایک اجتماعی رائے سامنے آ سکے۔ اس رائے تک پہنچنے کے لیے قرآن و سنت کے علما اور اصول فقہ کے ماہرین اپنی علمی بصیرت کا اظہار کر سکتے ہیں۔

اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے ہم چند مثالیں عرض کرتے ہیں۔

الف: ایک فقیہ سے ایک مقلد نے پوچھا کہ مسواک یا برش کرنے سے میرے دانتوں سے خون آتا ہے۔ حرمِ مکی میں قیام کے دوران کیا میں دانت صاف کر سکتا ہوں؟ فقیہ نے جواب دیا کہ نہیں۔

فقیہ کے جواب کا پس منظر سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ حرمِ مکی میں خون بہانا کسی صورت روا نہیں(البتہ اس کی بعض اجتماعی اور استثنائی صورتیں موجود ہیں)۔ اس جواب پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ حرمِ مکی کو، حرمِ امن قرار دیا گیا ہے اور وہاں پر کسی جاندار کو مارنا جائز نہیں، یہاں تک کہ کوئی پودا کاٹنا بھی جائز نہیں۔ گویا ہر لحاظ سے اُس سرزمین کو امن کا گہوارہ قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے احکام، انسان کی جان کی حفاظت کے لیے ہیں، کیونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں سے اشرف ہے۔ اس حرم کو انسانوں کے قیام کا مرکز کہا گیا ہے۔ تمام احکام انسان کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ جب ایک پودے کو اکھاڑنا اور کاٹنا جائز نہیں تو پھر کیسے اس مقام پر کسی انسان کو کوئی تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے!

مذکورہ بالا مسئلے میں سوال کرنے والے کے دانت بیمار ہیں، بیمار دانتوں کی حفاظت اور اُن کی صفائی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔ ورنہ عموماً بیماری اور تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے انسان کے لیے ایسا فتویٰ جو اس کی تکلیف کو بڑھا دے، اس حرم کو انسان کے لیے امن اور سکون کا گہوارہ بنانے کے مقاصد سے لگا نہیں کھاتا۔ خاص طور پر اس پہلو سے بھی کہ دانت کی صفائی سے اور دانت سے خون آنے سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف نہیں پہنچتی؛ بلکہ مسئلہ اس مکلف ہی سے متعلق رہ جاتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دانت صاف نہ کرنے کی وجہ سے اس کے دانتوں سے زیادہ خون رسنا شروع ہو جائے۔

اگر ہمارا دعویٰ ہے کہ فقہ بھی دنیا کے حقیقی علوم میں سے ہے تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دیگرعلوم میں جو اسلوب اختیار کیے جاتے ہیں ہم بھی انھیں اپنائیں ۔ اگر نہ اپنائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ”فقہ“ علوم کی صف سے باہر ہے

ب :  ایک فقیہ سے پوچھا گیا کہ اگر ایک شخص کو چاند پر نماز پڑھنا ہو تو وہ کس طرف منہ کر کے نماز پڑھے؟ فقیہ نے جواب دیا: زمین کی طرف۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ زمین پر موجود شخص چاند کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔ ´چاند اور زمین کے تعلق کو تھوڑا سا جاننے والا شخص بھی اِن دونوں میں سے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ مذکورہ فقیہ نے سمجھا کہ خانہ کعبہ چونکہ زمین پر ہے، اس لیے چاند پر موجود اس کے مقلد کو چاہیے کہ زمین کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے۔ جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ فقیہ ہیئت و فلکیات کی الف ب کو بھی نہیں جانتا۔

ج:  پاکستان کے ایک مفتی صاحب سے سٹرابری کھانے کے جواز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کا کھانا حرام ہے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ سٹرابری کو پشتو میں ”زقوم“ کہا جاتا ہے اور قرآن شریف میں جہنمیوں کی ایک غذا ”زقوم“ بیان کی گئی ہے۔

ایسی یا اس سے مختلف کئی ایک مثالیں اور بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔ نکاح، طلاق اور خلع کے مسائل جو صورت اختیار کر چکے ہیں، اُس کا بھی تقاضا ہے کہ علما کرام اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لا کر خانگی مسائل پر از سرنو اجتہاد کریں۔ بینکنگ کے مسائل ابھی تک لا ینحل نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں جن مفتیانِ کرام نے فتاویٰ دے رکھے ہیں، اُن پر طرح طرح کے سوالات اور اعتراضات کیے جاتے ہیں۔

اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مفتیانِ کرام کے بعض فتوے عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ مکلفین کے لیے مشکل یہ پیش آجاتی ہے کہ وہ کس کا فیصلہ مانیں! جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مفتیانِ کرام خود بیشتر مسائل میں، عدالتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور انھیں کے فیصلوں پر عمل کرتے ہیں۔

اس صورت حال کو بہت سارے علمائے کرام بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں انھوں نے یہ رائے دی ہے کہ علمائے کرام کو اولاً تخصص(Specialization) کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور ہر مسئلے کو اُس کے متخصصین کی طرف لے کرجانا چاہیے اور ثانیاً اجتماعی اجتہاد کے لیے مجالسِ فقہ ترتیب دینا چاہئیں، جن کی معاونت کے لیے اُن علوم کے ماہرین سے بھی گذارش کرنا چاہیے جن سے متعلقہ موضوعات زیرِ بحث آئیں۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہر شعبے کے ماہرین اپنے موضوع کے تمام جوانب پر نظر رکھ کر کوئی رائے دیں گے۔ دوسری طرف ایک موضوع سے متعلقہ تمام علوم کے ماہرین کی رائے سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔ استاد مرتضیٰ مطہری جو تہران یونیورسٹی میں استاد رہے ہیں، انھوں نے آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے، ایک لیکچر دیتے ہوئے یہ تجویز پیش کی تھی جو ان کی کتاب ”دہ گفتار“ میں موجود ہے ہم اختصار کے ساتھ اس کا ترجمہ ذیل میں پیش کررہے ہیں:

آج کی دنیا میں اب انفرادی فکر اور انفرادی عمل کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اب انفرادی کوشش نتیجہ بخش نہیں رہی۔ ہر شعبے کے علماءاور اہل دانش دائماً آپس میں تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں ، اپنے غور و فکر کا ماحصل دیگر اہل نظر کے سامنے پیش کرتے ہیں؛ یہاں تک کہ ایک بر اعظم کے علماء دوسرے براعظم کے علماءکے ساتھ مل کر غورو فکر اور کام کرتے ہیں۔ یوں طراز اول کے افراد کے مل جل کر غورو فکر اور تبادلہ خیال کے نتیجے میں اگر کوئی مفید اور صحیح نظریہ سامنے آ جائے تو وہ بہت جلد پھیل جاتا ہے اور اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور اگر کوئی غلط نظریہ قائم ہو جائے تو اس کا بطلان واضح ہو جاتا ہے اور وہ ختم ہو جاتا ہے۔

باعث افسوس ہے کہ ہمارے درمیان نہ ابھی کوئی تقسیم کار اور تخصص پیدا ہوا ہے اور نہ مل جل کر کام اور غورو فکر کرنے کی روش وجود میں آئی ہے ۔ واضح ہے کہ اس صورت حال میں ترقی اور مشکلات کے حل کی امید نہیں کی جا سکتی ۔

علمی مشاورت اورتبادل نظر کی اہمیت اس قدر واضح ہے کہ اس کے لئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اگر فقاہت میں شورائے علمی وجود میں آ جائے اور تبادل نظر کا اصول پوری طرح جامہ عمل پہن لے تو نہ فقط فقہ میں ترقی اور کمال پیدا ہو گا بلکہ فتاویٰ کے بہت سے اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ اگر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہماری فقہ بھی دنیا کے حقیقی علوم میں سے ہے تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دیگرعلوم میں جو اسلوب اختیار کیے جاتے ہیں ہم بھی انھیں اپنائیں ۔ اگر نہ اپنائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ”فقہ “ علوم کی صف سے باہر ہے ۔

عالم اسلام میں بعض جگہوں پر پہلے ہی اجتماعی اجتہاد کی کوئی نہ کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کو مثال کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے؛ ہرچند کہ اس میں بہتری کی ضرورت اور گنجائش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عالم اسلام میں بعض مجالسِ قانون ساز بھی اس حوالے سے اپنے خاص شعبوں میں مفید اور قابلِ استفادہ کام کر رہی ہیں؛ تاہم جن مسائل کی ہم نے نشان دہی کی ہے وہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کام ابھی بہت باقی ہے اگر اس سلسلے میں علمائے اسلام نے سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو بیشتر لوگ پہلے ہی علما سے لا تعلق ہو چکے ہیں؛ بغاوت کا یہ سلسلہ مزید بھی پھیل سکتا ہے۔ اس ضمن میں بھارت میں عورت کی طلاق کا مسئلہ اور پاکستان میں پسند کی شادی نیز اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک نشست میں تین طلاقیں دینے والے کے خلاف تعزیر کی سفارش کو مثال کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...