آج کی پاپولسٹ قوم پرستی کے عُقدے کی نفسیاتی توجیہ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی قریب میں جاکرفرد و سماج، اور تنقیدی شعور وفنطاسیہ(fantasy)کے مابین کی پیچیدہ حرکیات کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اس جدید سیاسی مظہر کی تفہیم کے لیے سگمنڈ فرائیڈ کی فکری میراث ہماری مدد کرسکتی ہے۔
فرائیڈ کی شہرت ویسے تو جنسی نظریات کے حوالے سے زیادہ ہے،لیکن ضروری نہیں کہ ہم صرف اسی زاویے سے چیزوں کو پرکھیں،کچھ دیر کے لیے آڈیپس کمپلیکس کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
فرائیڈ کی تھیوری لاشعوری خواہشات اور انا پرغلبہ پانے کے دوطرفہ متحارب عمل کی وضاحت کرتی ہے، اس انا کی شعوری صلاحیتیں جو اگرچہ معصوم عن الخطا نہیں ہوتیں، لیکن یہ ہمارے جذبات کی ناپ تول اور جانچ کرسکتی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ جوآزادی انسانوں کو حاصل ہے اس کا حقیقی عملی محور یہ ہے کہ وہ ان کی فنطاسیہ اور جذبات کی پہچان کرتی اور انہیں کنٹرول میں رکھتی ہے۔ یہ ادراک ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم اپنے ہرفعل کوکسوٹی پر لاسکیں۔ یہ تصورمغربی فلسفے میں نیا نہیں ہے، اس کا ربط افلاطون اور ارسطو سے جاکرملتا ہے۔
تاہم فرائیڈ شعوری عنصر کے گھمنڈ سے محتاط رہنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ وہ نفسیاتی منہجِ تحلیل کی حدود متعین کرتے ہیں۔لہذا ان کا ’خودآگاہی‘ کا تصور ہمارے اندر کی ایک نوع کی غیرمنطقیت کی تشخیص کرتا اور شعوری صلاحیت میں تشکیک پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ فرائیڈ ان تنویری اقدارواساسات پر مکمل اعتماد کی حیثیت کو مجروح کرتے ہیں جن کا انتخاب انہوں نے خود کیا۔
موصوف کے فکری نتائج اخلاقیات کے باب میں گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ انسانی شعور کے بارے میں اس تصور کومتزلزل بناکر کہ یہ صلاحیت جذبات پر غلبہ حاصل کرسکتی ہے، انہوں نے بشری خودمختاری کے زعم کو زک بھی پہنچائی ہے۔ جیساکہ انہوں نے اپنی کتاب The Future of an Illusion میں بھی کہا۔
پاپولزم کی لہر دراصل اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ لبرل نظم، تنویریت(Enlightenment) اور اسطوریت(Mythic) کے مابین توازن قائم رکھنے میں ناکام ہوا ہے
معاشرتی حوالے سے فرائیڈ کے تصورات کی عملی تعبیر کے اثرات کو موجودہ دور کے سیاسی بحران میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے 1930 میں لکھی گئی اپنی کتاب Civilisation and Its Discontents میں یہ رائے پیش کی تھی کہ فرد اور تہذیب کا آپسی تعلق مخاصمانہ ہوتا ہے۔ ایک نامی سماجی وجود کے لیے ضروری ہے کہ خودتسکینی(personal gratification) کے بشری جبلتی جذبات کو یا تو ختم کردیا جائے یا ان کو کنٹرول میں لایا جائے۔ خواہشات کے سیلاب کوسنبھالا دینے کے لیے کچھ جبر اور شعوریت کے زیراثر تطہیری عمل کی حاجت ہوتی ہے۔ نری سختی انحراف کو جنم دیتی ہے اور تساہل کی حدتک نرمی انارکی کو۔ نفسیات توازن کامطالبہ کرتی ہے۔
ہم فرد کے سماج مقابل طرزعمل کے فرائیڈین تصور کو عہد حاضر میں کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ اگر ہم یہ مشق بروئے کار لائیں تو پتہ چلتا ہے کہ شمالی اٹلانٹک اور یورپین ممالک میں پاپولزم کی لہر دراصل اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ لبرل نظم، تنویریت(Enlightenment) اور اسطوریت(Mythic) کے مابین توازن قائم رکھنے میں ناکام ہوا ہے، ایسے ہی تنقیدی شعور اور جذبات کے درمیان بھی۔ اس دوطرفہ مخاصمت کی نوعیت پر میکس ہارکیمر اور تھیوڈر اڈارنو نے اپنی کتاب The Dialectics of Enlightenment میں روشنی ڈالی ہے۔ جب نازی ازم کوفتح حاصل ہوئی تو انہوں نے آرین اسطورہ کے بارے میں لکھا کہ کیسے اس نے جرمن قوم کومتحرک کیا تھا۔ ہٹلر نے بڑی چالاکی کے ساتھ وطن کی سلامتی کی بنیاد پر ایک قوم کے جذبات کو برانگیختہ کیااور اقلیتی گروہوں کو شیطان کے رُوپ میں پیش کیا۔ یہ اسطورہ (Myth)کا شعور وعقلیت پسندی (Reason)پر غلبہ تھا۔
ٹرمپ، ایردوان اور ان جیسے دیگر حکام کومطلق العنان تو نہیں کہا جاسکتا، تاہم ان سب میں یہ چیز قدر مشترک ہے کہ وہ شعور کا محاصرہ کرکے جذبات کو بے مہار کرسکتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیت کی اساس پر جھوٹی خبر کو’خبر‘ کی حیثیت دیتے ہیں۔ وہ بشری فنطاسیہ کے احساس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے منطقی مکالمے سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ وہ یہ مہارت رکھتے ہیں کسی کمپلیکس اور عقدے کو بے چین جذباتیت میں تبدیل کردیں۔ وہ ایک طرف قوم کے مخصوص اسطورے کو حیاتِ نو عطا کرتے ہیں تو دوسری طرف اس کے ایک طبقے کی غلط تصویر کشی کرتے ہیں۔ بذات خود جذباتی خطاب سیاسی عدم استحکام پیدا نہیں کرتا، یہ حقیقت میں پہلے سے ناراضی اور محرومی کے کھڑے تالاب میں پتھر پھینکتا ہے۔
ٹرمپ اور اس جیسے رہنماؤں نے اپنے حمایت کارعوام کو ایک نئی شناخت دی ہے جو ان میں تحریک پیداکیے رکھتی ہے۔ اُن (اجنبی)کے مقابل ایک نیا ’ہم‘ متعارف کرایاگیا ہے۔ یہ ’ہم‘ ایک نیا اسطورہ ہے جو تشکیل دیاگیا۔ شناخت کی سیاست جس نے خلیج اور اختلافات کو محترم بنایا یہ حدود سے بے قید ہوتے ہوئے ایک بے قابو جن کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ فرائیڈ کے تصورات کے تناظر میں مایوس اور ناکام خواہشات کو انکارکی کیفیت(denial) اور خسارے کے منتشر احساسات کومہمیز دینے کے ساتھ فعال کردیا گیا ہے۔ یہ مختلف شکلوں میں ظہور کرتی رہے گی۔ اس اسطورے(Myth)کے جن کو واپس بوتل میں بند کرنا مشکل ہوگا۔ اس کا وجود اجتماعی ترکیب کا جزو بن گیا ہے۔حالیہ مرحلے کی تہذیب اور اس کی بے قراری کاباب اس بات کی تمثیل ہے کہ تاریخ کا جھولا اسطوریت کے ساتھ فضا میں معلق ہے اور بلندیوں کی جانب جھول رہا ہے۔
آخرایسا کیونکر ہوا ہے؟ اس کے دو جواب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اسطورے ناکام ثابت ہوئے جو لبرل ازم کو سہارا دیتے تھے اور ان کی تشکیل نو سے اغماض برتا گیا۔ اور دوسرے، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا مغرب کا آلیاتی شعور(instrumental rationality یہ Value rationality کے مقابل اصطلاح ہے، سماجی امور کوپرکھنے اور حل کے لیے یہ دوطرح کے طرزتفکیر استعمال ہوتے ہیں ]مترجم[) کا طرزتفکیر سماج میں ناکام تو ثابت نہیں ہوا؟
ان مسائل سے ساتھ تعامل کیسے کیا جائے، اس کا انحصار اس چیز پر ہے کہ انہیں دیکھنے کا زاویہ نظر کیا ہے۔ مزاحمت کار میدان سے باہر ہیں۔ پاپولزم جذبات کو بے ہنگام رکھے ہوئے ہے۔
مترجم:شفیق منصور، بشکریہ:آئی اے آئی اکیڈمی
فیس بک پر تبصرے