موچی دروازہ سے اقوام متحدہ تک

1,141

اسے ایک لطیفہ سمجھئیے یا ہمارے معاشرے کا مرثیہ۔

جب لوگ جلسہ گاہ سے تقریر سن کر باہر نکلے، راستے میں کسی نے پوچھا تقریر سے تمہیں کیا سمجھ آئی، جلسہ گاہ سے تقریر سن کر آنے والے نے جواب دیا سمجھ تو نہیں آئی لیکن مزا بڑا آیا ہے۔

آج سیاسی راہنما ہو یا مذہبی اس کے پاس ماضی کی یادوں، حال کے شکووں اور مستقبل کے خوابوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ماضی کی یاد سے لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے تم ایک عظیم قوم تھے، تاج سرداراں تم سے ایک سازش کے تحت چھینا گیا۔ تمہارے اسلاف بڑی شان و شوکت کے مالک تھے، تم دنیا میں پیدا ہی غلبہ و اقتدار کے لیے ہوئے۔ خطیب حال میں شکوہ کناں ہے کہ تم ایک اُمت ہو تم سے دنیا خائف ہے۔ یہودونصاری، امریکہ و یورپ نے تمہارے خلاف سازش کر رکھی ہے۔ یہی ہمارے زوال و پستی غربت و افلاس اور انتشار و افتراق کے ذمہ دار ہیں۔ شکوہ کناں ذہنیت ملک میں ہو تو اس کی تقریر کا محور یہی شکوہ و شکایت رہتا ہے۔ اگرعالمی فورم پہ ہو تو اس کا خطاب  بھی شکوہ و شکایت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم نے انسانیت کو کیا دیا، کیا دے رہے ہیں اور کیا دینے جا رہے ہیں، بلکہ اس کی تقریر کا یک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے کہ دنیا نے ہم سے کیا سلوک کیا، کیا کر رہی ہے اور کیا کرنے جا رہی ہے؟ ہمارے خطیب اپنی قوم کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے قوم وقتی جذبات کو انگیختہ کرنے اور مغرب وامریکہ پہ تبرّا بھیجنے سے ہی خوش ہو جاتی ہے۔

یہ وہ نفسیات ہے جس میں ہم جی رہے ہیں ہمیں کبھی نہیں بتایا گیا کہ ہم میں کیا خرابیاں ہیں ہم جس شکست وزوال کی پستی  تک پہنچ چکے، اس کے اسباب کیا ہیں؟ تعلیم، معیشت، سائنس، سیاست، معاشرت اور اتحاد، کسی میں بھی تو ہم بہتری نہ لا سکے۔ بحیثیت قوم ہم روز بروز بند گلی کی طرف سفر کر رہے ہیں۔

 

قائداعظم اورعلامہ اقبال کی تقاریر و خطابات کتابی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے حوالے ہر دانشور، استاذ، کالم نگار اور Statesman دیتا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر ان کی عرق ریزی کا نتیجہ ہوتی تھیں

قائداعظم اورعلامہ اقبال کی تقاریر و خطابات کتابی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے حوالے ہر دانشور، استاذ، کالم نگار اور Statesman دیتا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر ان کی عرق ریزی کا نتیجہ ہوتی تھیں۔ وہ صرف نوک پلک ہی نہ سنوارتے بلکہ تقاریر میں سماج، معیشت اور طرزِ حکومت کا قبلہ بھی متعین کر دیتے تھے۔ جب بھی جمہوریت، اسلام، اقلیت اور سیکولرازم کی بات ہوتی ہے تو ان کی تقاریر سے اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں۔ آج تقریر دیکھ کر پڑھنا، پاکستانی معاشرے میں تنقید و استہزاء کا باعث بنا دی گئی ہے۔ جبکہ عالمی لیڈر ہمیشہ سے لکھی ہوئی تقریر پڑھتے آئے ہیں۔

تقریر تحریری ہو یا زبانی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تقریر کے مشتملات کیا ہیں۔ اگر ایک مذہبی راہنما ہے تو س کی تقریر کے مشتملات کیا ہیں؟ اگر ایک سیاسی راہنما ہے تو اس کی تقریر کے مشتملات کیا ہیں؟ مذہبی راہنما اپنی تقریر سے عوام کو تزکیہ نفس، پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دے گا۔ سیاسی راہنما ہے تو وہ قوم کے سامنے خارجی حالات سے داخلی حالات تک، معیشت سے جمہوریت تک اپنی پالیسی  واضح کرے گا۔ اس کی تقریر میں ہیجان انگیزی، نفرت، سیاسی مخالفین کی توہین نہیں ہونی چاہیے۔ جس کی اعلیٰ مثال قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر ہیں۔

راہنما کی گفتگو فقط اجتماعی رجحانات کی اصلاح نہیں کرتی بلکہ وہ اپنے وابستگان کے رجحان و رویہ کی بھی اصلاح کرتی ہے۔  مجھے یہ بات افسوس سے لکھنا پڑ رہی ہے مسجد سے پارلیمنٹ تک، موچی دروازہ سے اقوام متحدہ تک، ہم برسوں سے ایک ہی تقریر سنتے چلے آ رہےہیں جس سے مزا تو بہت آتا ہے لیکن سمجھ کچھ نہیں آتی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...