جامعات میں طالبات کے مسائل کے لیے خصوصی سہولت سینٹر قائم کیے جائیں

708

کسی بھی معاشرے میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم محض ایک لڑکی یا عورت کی نہیں بلکہ پورے کنبے یا خاندان کی تعلیم کے مترادف ہے۔ زمانہ قدیم میں خواتین کی تعلیم پریکسر پابندیوں سے لے کر زمانہ جدید میں ان کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں تک، کچھ خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنے پرمکمل پابندیاں تھیں آج شائد یہ پابندیاں تو کم ہوگئی ہیں مگر طالبات کو یونیورسٹیز میں دوران تعلیم جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ان سے ملنے والی ذہنی کوفت ان پابندیوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔

آج کے دور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی کے لیے سب سے پہلا امتحان تب شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے گھروالوں کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت کے لیے راضی کرتی ہے۔ ایک لمبی تگ ودو اور محنت کے بعد جب اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملتی ہے تو دوسرا بڑا امتحان اس کواس وقت درپیش ہوتا ہے جب اسے اس  بات پر راضی کرنے کے لیے گھر والوں کو منانا پڑے کہ اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دی جائے۔

ان رکاوٹوں کو طے کرنے کے بعد جب وہ پاکستان کی کسی معیاری جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لے لیتی ہے تو اسے کئی اور امتحانات کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اوپر آنے والی ہر مصیبت اور پریشانی کو اس لیے رپورٹ نہیں کرتی کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ جونہی میں نے اس کو گھر بتایا تو گھر والے پہلے مرحلے ہی میں اسے بوریا بستر اٹھا کر گھر واپس لوٹنے کو کہیں گے۔

طالبات کی ایک بڑی تعداد کو اساتذہ، ملازمین اور یونیورسٹی کے بعض منہ زور طلبہ کی جانب سے مختلف تکالیف کا سامنا رہتا ہے۔ ایسا عموماً پبلک سیکٹر جامعات میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ طالبات کو ہاسٹل وارڈنز کی جانب سےبھی شدید دباؤ، جملے بازی اور ذہنی تشدد کے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ایک ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری کی ہاسٹل میں پراسرارموت بھی اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اس کے علاوہ بھی پاکستان کی کئی جامعات سے ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں طالبات کو ہاسٹلز کے کمروں میں مردہ حالت میں پایا گیا۔ ایسے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان طالبات کو شدید ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا نتیجہ ان کی موت کی صورت ظاہر ہوا۔

حال ہی میں سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ایک ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری کی ہاسٹل میں پراسرارموت بھی اس کی زندہ مثال ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کی کئی جامعات سے ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں طالبات کو ہاسٹلز کے کمروں میں مردہ حالت میں پایا گیا

ایسے واقعات یک دم سے رونما نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے ایک ماحول بنتا ہے۔ جب کسی  سماج میں جرم کی صورت میں جوابدہی اور کسی تادیبی کاروائی کا خوف ہی باقی نہ رہے، تو اس صورت میں ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہونے لگتے ہیں اور کئی معصوم جانوں پر وار کیے جاتے ہیں۔ طالبات کے لیے یہ مشکل بھی ہے کہ وہ نہ رپورٹ کرسکتی ہیں اور نہ احتجاج۔ اگر ان واقعات کو شروع میں ہی رپورٹ کردیا جائے تو نوبت شاید ان کی جان کے ضیاع تک  نہ جائے مگر ہمیشہ مسئلہ وہیں سے شروع ہوتا ہے کہ کوئی بھی طالبہ ایسے واقعات  سے متعلق اپنے گھر والوں کو آگاہ نہیں کرتی، میڈیا پرلانے کی جرات نہیں کرتی، تھانے اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنی تکلیف سے آگاہ نہیں کرتی۔ وہ اس لیے ڈرتی ہے کہ اس سے جگ ہنسائی صرف اسی کی ہوگی اور ایسے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا۔ دوسرا ڈر کلاس فیلوز کا ہوتا جو ایسا واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد اپنی ہی کلاس فیلو کی مدد کرنے کی بجائے کوئی  منفی نقطہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ تیسرا ڈر ہے خاندان کا یا رشتے داروں کا ہوتا ہے جو کسی بھی واقعے کے بعد سب سے پہلے یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ “ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا جوان بیٹی کو یونیورسٹی نہ بھیجیں”۔

ان سب نتائج سے ڈرتے ہوئے طالبہ اپنے ساتھ رونما ہونے والے ذہنی تشدد کو برداشت کرتی رہتی ہے جس کو دوسرا فریق کمزوری سمجھ کر اپنے حملوں میں تیزی پیدا کرلیتا ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے طالبہ یا تو اس کوفت کے سبب خودکشی کرلیتی ہے یا پڑھائی چھوڑ کر گھر چلی جاتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی کسی بھی موت کو خودکشی کی شکل دے کر کیس ہمیشہ کے لیے بند کردیتے ہیں ۔ اور یہ تأثر بھی چھوڑا جاتا ہے کہ قصور وارتو طالبہ ہی ہوگی۔

ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ جب تک معاشرے میں خواتین خودمختار نہیں ہوں گی اور اقتصادی عمل کو سہارا دینے میں حصہ نہیں لیں گی اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا، لیکن اس سب کے لیے پہلے خواتین کی تعلیم ضروری ہے۔ اور جب تک انہیں پرامن اور ذہنی طور پہ تسلی بخش ماحول نہیں ملے گا وہ تعلیم کیسے حاصل کرسکیں گی؟

سرکاری اور غیر سرکاری جامعات سمیت حکومتی سطح پر ایسی پالیسیاں ہونی چاہیں جس میں نیا داخلہ لینے والی پہلے سمسٹر کی طالبات کے لیے آگہی سیمنارز رکھے جائیں اور ہر جامعہ میں ایک ایسا سہولت سینٹر یا مددگار سینٹر قائم کیا جائے جس میں سارا عملہ خواتین پہ مشتمل ہو۔ اس سہولت سینٹر کا کام صرف یہ ہو کہ وہ ان طالبات کے لیے فوری اقدمات کرے جو میڈیا پر یا تھانے کچہری میں نہیں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔

ایسے تمام اہلکار، اساتذہ اور طلبہ جو جامعہ کے اندر طالبات کو پریشان کرنے کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث پائے جائیں انہیں فی الفور جامعات سے نکال باہرکیا جائے اور موثر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ ایسے واقعات میں ملوث افراد پرآئندہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں شمولیت پر پابندی عائد کردی جائے۔ کسی بھی گھر کی بہت ساری امیدیں اس کی بیٹی پر ہوتی ہیں جس کو وہ یونیورسٹی بھیجتے ہیں اگر ان کی پہلی ہی بیٹی کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خاندان یا گھرانہ کبھی بھی دوبارہ اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے نہیں بھیجتا۔ لہذا ایسے واقعات کسی ایک طالبہ کی نہیں بلکہ پورے خاندان کی ان طالبات کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں جو یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...