شدت پسندی کے خلاف بیانئے کا نیا چیلنج

1,224

اس لئے بھی یہ واقعات اب تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں کیونکہ مارنے والوں کو معاشرہ ہیرو کا درجہ دے دیتا ہے ۔ہیرو ازم ہماری تاریخی روایت میں موجود ہے اس لئے لوگ اس کی خواہش کرتے ہیں اور بالخصوص جب معاملہ مذہب کا ہو تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جانے کا موقع کون گنوانا چاہتا ہے

خان عبد الولی خان یونیورسٹی مرادن میں جمعرات کو ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں شعبہ صحافت کے طالب علم مشعل خان کو ان کے ساتھی طلبا نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹیں کرنے پر قتل کر دیا ۔اس واقعہ کی جو تفصیلات میڈیا میں آئی ہیں ان کے مطابق یونیورسٹی طالب علم مشعل خان کے فیس بک پر کچھ توہین آمز مواد پوسٹ کیا گیا جس پر طلبا نے اشتعال میں آ کر مشعل خان کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس واقعہ کے بعد یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج کی مدد سے کچھ طلبا کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے ۔

مشعل خان کے دوستوں کے مطابق جس اکاؤنٹ سے توہین آمیز پوسٹیں شیئر کی گئی تھیں وہ مشعل خان کے نام سے جعلی اکاؤنٹ تھا جس کی تردید مشعل خان ذاتی پیج پر کر چکے تھے ۔مگر کسی نے ان کی تردید پر کان دھرنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔ان کے ایک اور دوست کے مطابق مشعل خان نے مرتے وقت جوآخری الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ وہ صوفی آرڈر کے ماننے والے ہیں اور اسلامی عقائد کا اتنا ہی احترام کرتے ہیں جتنا کوئی دوسرا ،انہیں فوراً ہسپتال پہنچایا جائے ۔ مگر افسوس مشعل خان کو ہسپتال پہنچانا تو درکنار ان کی لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی ۔ کے پی کے حکومت کے مطابق اب کی تحقیقات کے مطابق مشعل خان کی جانب سے شعائر اسلام کی توہین کے شواہد نہیں ملے ۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں طلبا کے ایک گروہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے انہیں ہلاک کیا ۔

یہ ہمارے معاشرے کا وہ رخ ہے جس کی آبیاری گزشتہ کئی سالوں سے جاری تھی جس کے نتائج اب نکل رہے ہیں ۔مذہب اور عقیدے کے نام پر دوسرے لوگوں کا خون کرنا باعث ِ فخر سمجھا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں جب ایسے مقدمات کی سماعت شروع ہوتی ہے تو پہلے تو کوئی جج ایسے کیسوں کی سماعت ہی نہیں کرتا کیونکہ اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اس کا بھی یہی حال ہو سکتا ہے ۔ ممتاز قادری کیس اس کی ایک بڑی مثال ہے کہ اس کو سزا دینے والے جج کو ملک چھوڑ کر باہر منتقل ہونا پڑا ۔ اس کے جنازے پر امن و امان کی جو صورتحال رہی وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ریاست نے اس کے جنازے میں شریک علما کے ایک طرح سے پاؤں پکڑ کر انہیں گھروں میں بھجوایا وگرنہ انہوں نے ریاست اور اس کے ممتاز اداروں کے بارے میں علی اعلان جو کچھ کہا وہ اب بھی وڈیوز کی صورت میں نیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

حال ہی میں ایک معزز جج نے سوشل میڈیا پر مبینہ  توہین رسالت کے بارے میں جب ریمارکس دیئے تو ان کی تعریف و توصیف میں قومی اخبارات میں مبارکباد کے اشتہارات شائع ہوئے ۔ان کے حق میں ملک بھر میں ریلیاں منعقد کی گئیں ۔ کوئی بھی مسلمان یا کوئی بھی ذی شعور انسان کسی دوسرے اور بالخصوص نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔لیکن کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کو اپنے خیالات پر کنٹرول نہیں ہوتا ایسے لوگ ہر دور  میں ہر وقت میں موجود رہتے ہیں مگر لوگ انہیں مخبوط الحواس سمجھ کر ان کے حال پر چھوڑ دیتے تھے مگر اب ہمارےمعاشرے میں برداشت کو یہ یہ لیول  نہیں ہے بلکہ اب ہر کچھ وقت کے بعد ولی خان یونیورسٹی جیسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔

اس لئے بھی  یہ واقعات اب تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں کیونکہ مارنے والوں کو معاشرہ ہیرو کا درجہ دے دیتا ہے ۔ہیرو ازم ہماری تاریخی روایت میں موجود ہے اس لئے لوگ اس کی خواہش کرتے ہیں اور بالخصوص جب معاملہ مذہب کا ہو تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جانے کا موقع کون گنوانا چاہتا ہے ۔پاکستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے متبادل بیانئے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔شدت پسنددوں کے خلاف ایک روادار اور ہم آہنگی پر مبنی بیانئے کے کئی خدوخال سامنے بھی آ چکے ہیں ۔یہ کوششیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت سرکاری سطح پر بھی ہو رہی ہیں اور غیر سرکاری سطح پر کام کرنے والے کئی ادارے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب شدت پسندی صرف وہ نہیں جو طالبان ، داعش ، القاعدہ اور لشکر جھنگوی یا الحرار کے لوگ کر رہے ہیں بلکہ یہ شدت پسندی جس کی ایک جھلک ولی خان یونیورسٹی میں سامنے آئی یہ بھی بہت خطرناک ہے ۔ لیکن اس شدت پسندی کے ابھار  کے پیچھے وہ مکتب فکر ہے جو پہلے اپنےآپ کو صوفیا کے پیروکار کہتے تھے اور ایک طرح سے عدم تشدد کے علمبرادر تھے مگر وہ بھی اب مذہب کے  نام پر کٹ مرنے کو تیار ہیں ۔پہلے میڈیا ،صرف الیکٹرانک اور پرنٹ  کی شکل میں تھا جس میں اظہار کی کچھ حدود و قیود تھیں ۔میڈیا کے ادارے بھی اس حوالے سے حساسیت سے آگاہ تھے مگر جب سے میڈیا نے سوشل کی صورت نئی جہت لی ہے تب سے مسئلہ تھوڑا مختلف ہو گیا ہے اس لئے جہاں پر سوشل میڈیا پر ہر ایک کو آزادی اظہار حاصل ہے وہاں  اب  یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے خیالات پر اس کی گردن بھی اتر سکتی ہے ۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والے جرائم کی  تحقیق کرنے والے  ادارے نہ تو اتنے متحرک ہیں نہ ہی اس حوالے سے قوانین موجود ہیں جو قوانین موجود ہیں ان  کی جانکاری  بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہیں ۔اس لئے سوشل میڈیا پر عام آدمی تو چھوڑ دیں انتہائی معروف شخصیات کے جعلی اکاؤنٹ موجود ہیں ۔اس حوالے سے فوری طور پر اداروں کو اور ان کے پیچھے قوانین کو متحرک کیا جائے وگرنہ یہاں مذہب ، نسل ،زبان اور عقائد پر فساد ہو سکتے ہیں ۔خان عبد الولی خان یونیورسٹی میں ہونے والا سانحہ ان اداروں کا ٹیسٹ کیس ہے  اس حوالے سے جہاں پر مشعل  خان کے نام پر جعلی اکاؤنٹ بنانے والے کو نہ صرف قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ ان تمام طلبا کو بھی اسی قانون کے تحت سزا دی جائے جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے ۔اگر اس بار بھی ریاست نے کسی کے ساتھ مصلحتوں کے تحت نرمی برتی تو پھر شدت پسندی کےخلاف کسی بیانئے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہے گی ۔

خان عبد الولی خان یونیورسٹی مرادن میں جمعرات کو ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں شعبہ صحافت کے طالب علم مشعل خان کو ان کے ساتھی طلبا نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹیں کرنے پر قتل کر دیا ۔اس واقعہ کی جو تفصیلات میڈیا میں آئی ہیں ان کے مطابق یونیورسٹی طالب علم مشعل خان کے فیس بک پر کچھ توہین آمز مواد پوسٹ کیا گیا جس پر طلبا نے اشتعال میں آ کر مشعل خان کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس واقعہ کے بعد یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج کی مدد سے کچھ طلبا کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے ۔

مشعل خان کے دوستوں کے مطابق جس اکاؤنٹ سے توہین آمیز پوسٹیں شیئر کی گئی تھیں وہ مشعل خان کے نام سے جعلی اکاؤنٹ تھا جس کی تردید مشعل خان ذاتی پیج پر کر چکے تھے ۔مگر کسی نے ان کی تردید پر کان دھرنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔ان کے ایک اور دوست کے مطابق مشعل خان نے مرتے وقت جوآخری الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ وہ صوفی آرڈر کے ماننے والے ہیں اور اسلامی عقائد کا اتنا ہی احترام کرتے ہیں جتنا کوئی دوسرا ،انہیں فوراً ہسپتال پہنچایا جائے ۔ مگر افسوس مشعل خان کو ہسپتال پہنچانا تو درکنار ان کی لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی ۔ کے پی کے حکومت کے مطابق اب کی تحقیقات کے مطابق مشعل خان کی جانب سے شعائر اسلام کی توہین کے شواہد نہیں ملے ۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں طلبا کے ایک گروہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے انہیں ہلاک کیا ۔

یہ ہمارے معاشرے کا وہ رخ ہے جس کی آبیاری گزشتہ کئی سالوں سے جاری تھی جس کے نتائج اب نکل رہے ہیں ۔مذہب اور عقیدے کے نام پر دوسرے لوگوں کا خون کرنا باعث ِ فخر سمجھا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں جب ایسے مقدمات کی سماعت شروع ہوتی ہے تو پہلے تو کوئی جج ایسے کیسوں کی سماعت ہی نہیں کرتا کیونکہ اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اس کا بھی یہی حال ہو سکتا ہے ۔ ممتاز قادری کیس اس کی ایک بڑی مثال ہے کہ اس کو سزا دینے والے جج کو ملک چھوڑ کر باہر منتقل ہونا پڑا ۔ اس کے جنازے پر امن و امان کی جو صورتحال رہی وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ریاست نے اس کے جنازے میں شریک علما کے ایک طرح سے پاؤں پکڑ کر انہیں گھروں میں بھجوایا وگرنہ انہوں نے ریاست اور اس کے ممتاز اداروں کے بارے میں علی اعلان جو کچھ کہا وہ اب بھی وڈیوز کی صورت میں نیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

حال ہی میں ایک معزز جج نے سوشل میڈیا پر مبینہ  توہین رسالت کے بارے میں جب ریمارکس دیئے تو ان کی تعریف و توصیف میں قومی اخبارات میں مبارکباد کے اشتہارات شائع ہوئے ۔ان کے حق میں ملک بھر میں ریلیاں منعقد کی گئیں ۔ کوئی بھی مسلمان یا کوئی بھی ذی شعور انسان کسی دوسرے اور بالخصوص نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔لیکن کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کو اپنے خیالات پر کنٹرول نہیں ہوتا ایسے لوگ ہر دور  میں ہر وقت میں موجود رہتے ہیں مگر لوگ انہیں مخبوط الحواس سمجھ کر ان کے حال پر چھوڑ دیتے تھے مگر اب ہمارےمعاشرے میں برداشت کو یہ یہ لیول  نہیں ہے بلکہ اب ہر کچھ وقت کے بعد ولی خان یونیورسٹی جیسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔

اس لئے بھی  یہ واقعات اب تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں کیونکہ مارنے والوں کو معاشرہ ہیرو کا درجہ دے دیتا ہے ۔ہیرو ازم ہماری تاریخی روایت میں موجود ہے اس لئے لوگ اس کی خواہش کرتے ہیں اور بالخصوص جب معاملہ مذہب کا ہو تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جانے کا موقع کون گنوانا چاہتا ہے ۔پاکستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے متبادل بیانئے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔شدت پسنددوں کے خلاف ایک روادار اور ہم آہنگی پر مبنی بیانئے کے کئی خدوخال سامنے بھی آ چکے ہیں ۔یہ کوششیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت سرکاری سطح پر بھی ہو رہی ہیں اور غیر سرکاری سطح پر کام کرنے والے کئی ادارے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب شدت پسندی صرف وہ نہیں جو طالبان ، داعش ، القاعدہ اور لشکر جھنگوی یا الحرار کے لوگ کر رہے ہیں بلکہ یہ شدت پسندی جس کی ایک جھلک ولی خان یونیورسٹی میں سامنے آئی یہ بھی بہت خطرناک ہے ۔ لیکن اس شدت پسندی کے ابھار  کے پیچھے وہ مکتب فکر ہے جو پہلے اپنےآپ کو صوفیا کے پیروکار کہتے تھے اور ایک طرح سے عدم تشدد کے علمبرادر تھے مگر وہ بھی اب مذہب کے  نام پر کٹ مرنے کو تیار ہیں ۔پہلے میڈیا ،صرف الیکٹرانک اور پرنٹ  کی شکل میں تھا جس میں اظہار کی کچھ حدود و قیود تھیں ۔میڈیا کے ادارے بھی اس حوالے سے حساسیت سے آگاہ تھے مگر جب سے میڈیا نے سوشل کی صورت نئی جہت لی ہے تب سے مسئلہ تھوڑا مختلف ہو گیا ہے اس لئے جہاں پر سوشل میڈیا پر ہر ایک کو آزادی اظہار حاصل ہے وہاں  اب  یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے خیالات پر اس کی گردن بھی اتر سکتی ہے ۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہونے والے جرائم کی  تحقیق کرنے والے  ادارے نہ تو اتنے متحرک ہیں نہ ہی اس حوالے سے قوانین موجود ہیں جو قوانین موجود ہیں ان  کی جانکاری  بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہیں ۔اس لئے سوشل میڈیا پر عام آدمی تو چھوڑ دیں انتہائی معروف شخصیات کے جعلی اکاؤنٹ موجود ہیں ۔اس حوالے سے فوری طور پر اداروں کو اور ان کے پیچھے قوانین کو متحرک کیا جائے وگرنہ یہاں مذہب ، نسل ،زبان اور عقائد پر فساد ہو سکتے ہیں ۔خان عبد الولی خان یونیورسٹی میں ہونے والا سانحہ ان اداروں کا ٹیسٹ کیس ہے  اس حوالے سے جہاں پر مشعل  خان کے نام پر جعلی اکاؤنٹ بنانے والے کو نہ صرف قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ ان تمام طلبا کو بھی اسی قانون کے تحت سزا دی جائے جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے ۔اگر اس بار بھی ریاست نے کسی کے ساتھ مصلحتوں کے تحت نرمی برتی تو پھر شدت پسندی کےخلاف کسی بیانئے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہے گی ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...