کراچی کے کچرے پر سیاست

626

گزشتہ دوماہ سے انگریزی واُردو اخبارات میں روزانہ کئی مضامین کراچی میں صفائی کے مسائل اور کچرے کے ڈھیرکے حوالے سے چھپ رہے ہیں۔ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پرشورشرابہ اس کے علاوہ ہے۔ کئی ماہ قبل سے پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کے وزراء، پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اورکراچی شہرکی مرکزی بلدیہ پرقابض ایم کیوایم کے مئیراوررہنماوں کے درمیان کچرے کے بڑھتے ہوئے حجم اورگندگی کی وجہ سے پیداہونے والی صورتحال پرایک دوسرے کومورد الزام ٹہرانا اوردشنام طرازی بھی جاری تھی۔ حالیہ بارشوں اورعیدقرباں نے اس مسئلے کی سنگینی کومزید بڑھاوا دیا۔

ریاستی مردم شماری کے برعکس ایک عام اندازے کے مطابق ڈھائی کروڑسے زائد آبادی کے اس شہرمیں کسی قسم کی بھی شہری سہولت پاکستان کے دیگرچھوٹے شہروں کے مقابلے میں بہت کم درجہ کی ہے۔ شہرمیں پینے کے پانی سے لے کر صحت وصفائی اورٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر صنعتی ومالیاتی مرکز ہے اور سب سب سے بڑی بندرگار بھی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ پیداوار اور ریوینیو کے اعتبار سے سے بھی آگے ہے۔ لیکن اس کے مسائل ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

کراچی میں روزانہ کے حساب سے 13000 ٹن مختلف قسم کا کچرا پیدا ہوتاہے۔ کہنے کو تو یہ ایک شہر ہے مگر ڈان کے مطابق یہاں 19 وفاقی، صوبائی، مقامی، فوجی وغیرفوجی،ملکی وغیرملکی ادارے کنٹرول رکھتے ہیں۔ اسی لئے شہر کا مئیر کہتا ہے کہ اس کے زیر اثرکراچی شہر کا محض 34 فی صد علاقہ زیرکنٹرول شمار کیا جاسکتا ہے۔ شہر میں ایک بلدیہ کے ساتھ چھ ضلعی میونسپل کارپوریشنز، ایک دیہی علاقوں کے لیے بنائی گئی 38 کونسلوں پر مشتمل کراچی ڈسٹرکٹ کونسل اور6 کنٹونمنٹ بورڈز اورڈینفس اتھارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے ایک ایک کر کے کراچی شہرکی بلدیہ اورمئیرکے اخیتارات صوبائی حکومت کومنتقل  کردیے۔ پیپلزپارٹی، سندھ اسمبلی میں سندھ کارڈ استعمال کرتے ہوئے قانون سازی کرتی ہے یوں شہر بمقابلہ دیہی سندھ کو پیش کرکے گورنر سندھ اور مئیرکراچی کے بہت سارے اخیتارات صوبائی حکومت ہتھیانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

ماہم مہر اور سہیل خان کے مطابق نئے قوانین بنانے کے علاوہ سندھ حکومت سال 2010 سے اب تک مقامی حکومتوں کے حوالے سے 20 بار قانون سازی کر چکی ہے۔ ان ترامیم کے بعد کراچی کی بلدیہ کے بہت سارے اخیتارات اب صوبائی وزارت بلدیات کے تحت لائے گئے ہیں۔ اسی طرح  2014 میں قانون سازی کرکے شہر کی صفائی کا اختیار بلدیہ کراچی سے لے کر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کومنتقل کر دئیے گئے۔ اب کراچی میں ٹھوس فضلہ، گندگی اورکچرے کوٹھکانے لگانے کا کام اسی بورڈ کے حوالے ہے۔ کچھ عرصہ قبل کئی اضلاع سے کچرا جمع کرکے ٹھکانے لگانے کا ٹھیکہ چینی کمپنی کوسونپا گیا لیکن وہ بھی یہ کام احسن طریقے سے انجام نہ دے سکی اوراس کے زیراثرعلاقے گندے کے گندے ہی رہے۔ اسی وجہ سے صاحب استطاعت افراد تیزی کے ساتھ کراچی میں بحریہ ٹاون، کنٹونمنٹ علاقوں جیسے ملیرکنٹونمنٹ، کلفٹن، ڈیفنس منتقل ہورہے ہیں۔ یہاں پر سڑکیں سلامت اور دیگرشہری سہولیات موجود ہیں۔ اس سے باہرکچھ بڑی شاہراہوں کو چھوڑکر اس سے نیچے کے علاقے غلاظت اورگندسے بھرے پڑے ہیں۔ ان علاقوں میں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، نالے اورگٹرز بندہیں، پینے کاصاف پانی میسرنہیں، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ عام معمول ہے اور صحت وصفائی نام کو بھی نہیں۔

کراچی میں سب سے زیادہ زہریلا فضلہ اورکچرا صنعتی ادارے پیدا کرتے ہیں۔ اس کے عوام کی صحت پر مضراثرات پڑتے ہیں لیکن اس کی طرف توجہ کم ہے کہ ریاست کی پالیسی سب کچھ  نظرانداز کرتے ہوئے صنعتوں کو ہرقسم کی سہولت فراہم کرنے پر مرکوز ہے

ایک عام اندازہ یہ ہے کہ صدرکے مرکزی حصہ کو چھوڑ کر سیکورٹی اداروں کے زیراثرعلاقے جیسے کنٹونمنٹ، ڈیفنس اتھارٹی اور پوش علاقے زیادہ صاف ستھرے ہیں اورغریب علاقے بشمول مضافات اورکچی آبادیاں سب سے زیادہ برباد ہیں۔ شہرمیں کئی ایک صنعتی زونز اورعلاقے ہیں مگریہ بھی خراب حالت میں نظر آتے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ایک سابق مشیر سے جب میں نے اس ابترصورتحال پر سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی تنظیموں کی طرف سے زیادہ شورنہ مچانے کی وجہ پوچھی تواس نے کہا کہ سرمایہ داراس لئے چپ ہیں کہ حکومت نے بھی ان کی بہت ساری چیزوں پرآنکھیں بند کررکھی ہیں۔

عوامی تنقید اورمیڈیا پرشور سے مجبور ہوکر وزیراعلی سندھ نےہفتے 21 ستمبرسے ایک ماہ کے لیے ’’کلین مائی کراچی‘‘ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے 600 سے زائد ڈمپرز، شاولز ، ٹریکٹرز اور 400 ورکرز شہر بھر میں جاری صفائی مہم کا حصہ ہوں گے۔ اس مہم سے پہلے سندھ کے سابق گورنرعشرت العباد کے ذریعے سے ایم کیوایم کے مئیر اور پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت میں رابطہ کاری کرکے سیاسی حالات کو موافق بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایم کیوایم کے مئیر کراچی وسیم اختر کی پیپلزپارٹی کے صوبائی وزیر بلدیات ناصرشاہ کے ساتھ ملاقات کی میڈیا پرتصویر وائرل ہوئی ہے۔ لیکن صفائی کی پوری مہم کے لیے جو اجلاس وزیراعلی کی زیرصدارت ہوا اس میں کراچی بلدیہ اور میئر کو نظرانداز کردیا گیا۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی کے وزراء اور بیوروکریسی شامل تھی۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کشمنر کراچی اور چھ اضلاع کے ڈپٹی کشمنرز کی سربراہی میں یہ مہم چلائی جائے گی۔ کچرے اورگند کی منتقلی کے لیے پانچ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جوبیوروکریسی کے ہاتھوں خرچ ہوں گے۔ صوبائی حکومت نے ٹریکٹرز، لوڈرز، شاولز، ٹریکٹر ٹرالیز و دیگر مشینری ہرضلع کے ڈپٹی کمشنر کو فراہم کردی ہے۔ 30 دنوں کی اس مشق کے ذریعے وزیراعلیٰ سندھ کی رہنمائی کے تحت کچرا اٹھانے کے کام کو سب ڈویژن کی سطح پر تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سے لگتاہے کہ ہر سب ڈویژن کا اسسٹنٹ کمشنر اس کام کی مقامی سطح پرنگرانی کرے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر بلدیات کو ہدایت کی کہ وہ ہر ایک ضلع کے لیے دو وزراء پر مشتمل گروپ بنائیں جوکہ صفائی کے کام کی نگرانی کرے۔ اس طرح پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے پی ٹی آئی اورایم کیوایم سمیت دیگر پارٹیوں کے اراکین اسمبلی اور بلدیات کے منتخب چیئرمین اور کونسلرز کو بھی نظرانداز کردیا۔

جب میں نے وزیراعلی کی طرف سے صفاَئی کی تازہ مہم کے اعلان کو سوشل میڈیا پرشئیر کیا تو ہمارے دوست فضل محمود نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے میری توجہ اس طرف دلائی کہ ‘یہ مسئلے کا کوئی حل نہیں، عارضی طور پر صفائی کی نہیں مستقبل بنیادوں پر صفائی کی ضرورت ہے’۔ سب جانتے ہیں کہ ایک مہم وقتی طورپرشروع کرکے عوام کے غم وغصہ کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے مگروہ مسائل موجود رہتے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ زہریلا فضلہ اورکچرا صنعتی ادارے پیدا کرتے ہیں۔ ان کے عوام کی صحت پر مضراثرات پڑتے ہیں لیکن اس کی طرف توجہ کم ہے کہ ریاست کی پالیسی صنعتوں کوہرقسم کی سہولت فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ اس لیے میڈیا کا فوکس عام گھریلو صارفین، بلدیاتی فضلہ اور کچرے  پر ہے۔

کچرے سمیت کراچی کے شہری مسائل کو کوئی بھی اپنانے پر تیار نہیں۔ کراچی میں صفائی کا مسئلہ زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ نچلی سطح پر بلدیاتی نظام کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری بلدیات کو بااختیار بنانا اوراس پر بیوروکریسی اورسیاسی جماعتوں کے بجائے عام شہریوں کے اخیتار کو مضبوط  کرنا ہے۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ منتخب نمائندوں، چیئرمین، کونسلرز اور بلدیاتی بیوروکریسی وعملہ کوعوام کے سامنے جوابدہی کا نظام تشکیل دینے میں ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...