عام آدمی کی تاریخ کبھی نہیں لکھی گئی

835

کسی قوم کی تاریخ میں اس کی اشرافیہ کی تاریخ کو ہی قومی تاریخ کی حیثیت لکھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ تاریخ کے درست مطالعہ کے لیے یہ اپروچ غلط ہے۔ عوام کا بیانیہ اس میں کہیں شامل نہیں ہوتا۔ اشرافیہ اور عوام سماج کے دو مختلف دھارے ہیں جو طاقت ور کے اثر سے کبھی ساتھ بھی بہنے لگتے ہیں لیکن اصلاََ اور مزاجاََ یہ ایک دوسرے سے الگ اور متوازی بہتےہیں۔

عوامی تاریخ نہیں لکھی گئی مگر تاریخ، ادب شاعری وغیرہ میں عوامی تاریخ کے کافی اجزا مل جاتے ہیں۔ تاریخ کو عوام کے زاویے سے پڑھنے سے نتائج بالکل مختلف نکلتے ہیں۔

مثلاََ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ یونانیوں نے آج سے ہزاروں سےسال پہلے آدھی دنیا فتح کر لی، یا منگولوں نے مسلم دنیا کو تہس نہس کر دیا، یا مسلمانوں نے برصغیر پر حملہ کیا، تو یہ ان قوموں کی عا م کی تاریخ نہیں، بادشاہوں کے اقداما ت کی تاریخ ہے۔ عوام کو چونکہ کوئی اہمیت کبھی حاصل ہی نہیں رہی، اس لیے ان کی مرضی، ان کی سوچ اور ان کا اس سب میں شامل نہ ہونا کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں ، ان کی سوچ قومی تاریخ کا حصہ نہ بن سکی۔

قوموں کی تاریخ میں عام آدمی کی تاریخ موجود نہیں، لیکن اس کی تاریخ کبھی گم نہیں ہو سکتی۔ یہ اس لیے کہ دنیا بھر کا عام آدمی، ہر دور میں بالکل ایک جیسی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی سماج کے عام آدمی سے مل کر معلوم کر سکتے ہیں کہ ہر دور کا عام آدمی کیا سوچتا تھا۔ کیا چاہتا ہے۔

نفرت کی سیاست ہو یا اس کی بنا پر برپا کی جانے والی جنگیں، یہ نہ عام آدمی کرتا ہے اور نہ اس کے لیے ہوتی ہیں، لیکن اس کا خرچ اسی سے وصول کیا جاتا ہے اور اس کا نقصان بھی سب سے زیادہ اسے ہی اٹھانا پڑتا ہے

عام آدمی بالکل عام سے سا ہوتا ہے۔ عام سے خیالات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا مطمح نظر اپنی اور پنے خاندان کی بہبود، ضروریات زندگی کی تکمیل اور ترقی کے مواقع کی تلاش ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ اور نہیں چاہتا۔ یہ لڑنا نہیں چاہتا، یہ مرنا نہیں چاہتا۔ یہ جینا چاہتا ہے اور دوسروں کو بھی جینے دیناچاہتا ہے۔ یہ مگر اشرافیہ ہوتے ہیں جن کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے عوام کے خون اورمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے مفادات کو ان کے مفادات باور کراتے ہیں۔ انہیں کسی پندار، تفاخر، یاخوف میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان سے ان کی جان اور مال حاصل کر کے اپنے منفی نوعیت کے مفادات پورے کرتےہیں۔ یوں لوگ اپنی زندگی چھوڑ کر اشرافیہ کی زندگی کے ایک کل پرزے کی حیثیت سے جیتے ہیں، اپنے خرچے پر خرچ ہوتے ہیں اور اپنے وسائل سے اپنی تباہی خریدتے ہیں۔

ستم ظریفی ہے کہ نفرت کی سیاست ہو یا اس کی بنا پر برپا کی جانے والی جنگیں یہ نہ عام آدمی کرتا ہے اور نہ یہ اس کے لیے ہوتی ہیں، لیکن اس کا خرچ اسی سے وصول کیا جاتا ہے اور اس کا نقصان بھی سب سے زیادہ اسے ہی اٹھانا پڑتا ہے۔

تاریخی جبر جو انسانی سماج کو جمہوریت تک لے آیا ہے۔ اس نظام میں عوام کے مطالبے کی سیاسی تشکیل توممکن ہو پائی ہے مگر حکومتی فیصلوں میں عام آدمی کی رائے کو ابھی وہ پذیرائی حاصل نہیں ہو پائی جو ہونی چاہیے۔ میڈیا کی اثر پذیری ایک مسئلہ ہے۔ اس کے ذریعے سے عوام کی راے پر اشرافیہ اثر انداز ہوتی ہے ۔ اس کا حل زیادہ اور درست معلومات تک رسائی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا اور انفارمیشن کے دورمیں ایسا ہونا آسان ہوگیا ہے۔

جمہوریت کے طفیل تاریخ انسانی میں یہ پہلی بار ممکن ہوا کہ عام آدمی جب منظم ہوا تو عام آدمی کا بیانیہ حکومتی بیانیہ پر اثر انداز ہوا۔ جنانچہ اس اجتماعی ضمیرکے لیے جب بھی ممکن ہوا اس نےامن کی بات ہی کی۔ ویت نام سے امریکی افواج کا انخلا امریکہ کے عام آدمی کے بدولت ممکن ہوا، (اس وقت کے میڈیا نے بھی مثبت کردار ادا کیا تھا) عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ میں برطانیہ کی شرکت کے خلاف لندن میں چھ لاکھ لوگوں کا مارچ ہوا تھا، ٹونی بلییر، تاہم پھر بھی مان کر نہ دیا اور  اور اس جنگ میں شرکت کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن بعد میں  اسے اپنے کیے پر معذرت کرنا پڑی۔

مغرب کا عام آدمی سول سوسائٹی کی بدولت کافی منظم ہو گیا ہے، جس کی بنا پر اس کی آواز مؤثر ہوگئی ہے، لیکن انڈیا اور پاکستان کے عام آدمی جنہیں جنگ سے نفرت ہے وہ اب تک منظم نہیں ہو سکے، اسی لیےان کی کوئی شنوائی نہیں ، جنگ اور نفرت پھیلانے والے ان کی طرف سے بھی خود بولتے ہیں ان کے خرچ پر جنگ لڑتے اور ان کو ہی تباہ کرتے ہیں۔ اہل نظر کو عوام اور خواص کی اس جنگ میں عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، تاکہ جنگی جنون میں مبتلا یا جنگ کے کاروبار سے نفع حاصل کرنے والوں کو عوام کی مرضی پر جھکایا جا سکے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...