سیاحتی مرکز، جہاں ریسکیو اور ایمبولینس کی سہولیات نہ ہونے کے برابر

487

سکردو میں کئی اہم ادارے نہایت ہی کسمپر سی کے عالم میں کام کررہے ہیں۔ اگرچہ یہ اپنے شعبےکے اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں مگر حکام کی عدم توجہی کے باعث گویا یہ اس وقت آئی سی یو میں ہیں اور ان اداروں کی سانسیں اٹک رہی ہیں۔ جس ادارے کا یہاں ذکر مقصود ہے وہ  ہنگامی حالات میں مدد اور ریلیف کی خدمات انجام دینے پر مامور ہے۔ یہ ریسکیو  1122 سے موسوم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ ادارہ ہر جگہ ہو اور چوبیس گھنٹے الرٹ کی پوزیشن پر رہے تاکہ کسی بھی گوشے سے قدرتی آفات، کسی حادثے کی اطلاع ملے حتیٰ کہ خدا نخواستہ کسی فرد کی طبیعت اچانک بگڑ جائے تو ایک فون کال پر اس کی مشینری اور اہلکاروں نے برق رفتاری سے اُس مقام پر پہنچنا ہوتا ہے تاکہ متاثرہ مقام پر فوری ریسکیو کا کام انجام دے کر ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے اور انسانی جانوں کو بچانے کاکام کرسکے۔ خصوصاََ بڑے شہروں میں تو ان کا وجود ناگزیر ہوتا ہے تاکہ قدرتی آفات اور حادثات سے فوری نمٹنے کے لیے حرکت میں آسکے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔

سکردو، گلگت  بلتستان کا دوسرا بڑا شہر اور ضلع ہے۔ یہ بلتستان ڈویژن کے چار اضلاع کا مرکزی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ آٹھ ہزار میٹر سے بلند چار چوٹیوں، دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع دیوسائی اور دلفریب قدرتی مناظر سے بھر پور وادیوں کا حامل یہ علاقہ دنیا بھر کے کوہ پیماؤں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ ایسے میں یہاں کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے سال 2012 میں ریسکیو 1122 کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آج اسے قائم ہوئے سات سال ہوگئے ہیں۔ لیکن توقعات کے برعکس اس کی صلاحیت میں مزید بہتری آنے کی بجائے تنزلی آرہی ہے۔

سکردو میں ریسکیو ادارے کے پاس موجود پانچ میں سے صرف ایک ایمبولینس فعال ہے، باقی چار خراب پڑی ہوئی ہیں

یہ مسائل تب کھل کرسامنے آئے جب پچھلے دنوں سکردو سندوس کے قریب دریائے سندھ سے ایک نوجوان کی لاش برآمد ہوئی۔ میت کو اٹھانے کے لیے جب ریسکیو 1122 کے ادارے کو فون کیا گیا تو جواب ملا کہ وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ہماری گاڑیوں میں ڈالنے کے لیے پیٹرول میسر نہیں لہٰذا ایمبولینس بھیجنے سے قاصر ہیں۔ یہ صورت حال ذمہ دار حلقوں کے ساتھ ساتھ ایک عام شہری کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ گلگت  بلتستان کے اس اہم ترین حصے میں موجود ریسکیو 1122 کا ادارہ بند ہونے کو ہے۔ کیونکہ حکومتی بیانات کے برعکس ابھی تک سکردو دفتر کو DDO شب کے اختیارات تک منتقل نہیں کیے گئے ہیں۔ حکومتی ترجیح یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں مگر ہمارے حکام ہیں کہ وہ دور دراز علاقوں میں موجود اداروں کے ضروری بنیادی اختیارات بھی سمیٹ کر اپنے پاس رکھتے ہیں اور اداروں کو  تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے ذمہ دار بنتے ہیں۔

وسائل کی عدم دستیابی کا یہ عالم ہے کہ سکردو میں ریسکیو ادارے کے پاس موجود پانچ میں سے صرف ایک ایمبولینس فعال ہے باقی چار ایمبولینس خراب پڑی ہوئی ہیں۔ نومبر سے تاحال بجٹ نہ ملنے کے باعث ادارہ مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ جب ادارہ بند ہونے کو آیا تو سینئر وزیر حاجی اکبر تابان نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی طور پر پانچ لاکھ روپے دلوائے تھے جس سے چند ماہ کا خرچہ نکل آیا۔ ادارے کی سہ ماہی ضروریات دس لاکھ روپے کی ہیں جبکہ اسے صرف دو لاکھ روپے دیے جاتے ہیں اور اسس کو استعمال میں لانے کے لیے ڈی ڈی او کے اختیارات بھی گلگت میں رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک یہ ادارہ عارضی طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کارٹر ہسپتال کی عمارت میں  کام کر رہا ہے۔ اس کی اپنی عمارت کی تعمیر کے لیے ضلعی انتظامیہ نے مقپون ژھر پل کے ساتھ 5 کنال زمین مختص کی ہے۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ یہ زمین اس کے لیے فنی طور پر موزوں نہیں۔ کیونکہ یہ نیچے کھائی میں واقع ہے جہاں سے 15 ہزار لیٹر پانی کے ساتھ بڑا ٹینکرچڑھائی چڑھ کر روڈ پر نہیں آسکتا۔

ایک ایسا علاقہ جو سیاحت کا گڑھ ہے، جہاں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے سیاحوں کی خاطر خواہ تعداد ہر وقت موجود رہتی ہے۔وہاں ریسکیو اور ایمبولینس جیسی ضروری سہولیات تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہیں۔لوگ اس طرف توجہ دلا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی شنوائی نہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو بروقت کاروائی نہ ہوسکنے کے باعث جو نقصان ہوگا اس کی ذمہ داری حکام قبول کریں گے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...