باچا خان، جیل اور اہلِ پنجاب

2,462

باچا خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا کردارہے جن پراُن کے مخالفین نے ہر طرح کے الزامات عائد کیے، ان میں مُلک دشمنی کا الزام سب سے نمایاں ہے۔ وہ برطانوی سامراج کے عتاب کا نشانہ تو رہے ہی لیکن تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں بھی قید وبند کا شکاررہے۔ اُن کی خود نوشت سوانح حیات میں پنجابی بھائیوں کا ذکر جابجا نظر آتا ہے آج ہمارا موضوع بھی یہی ہے۔ 1921 میں جب باچا خان پہلی بار جیل گئے تو وہاں کے ماحول اور قیدیوں کے بارے لکھتے ہیں کہ:

یہ مجاہدین بونیر سے آئے تھے۔ وہاں ان کی آپس میں لڑائی ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنے امیر کو قتل کر دیا تھا۔ یہ پنجابی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پنجابی بھائیوں کی فطرت میں پارٹی بازی اور جھگڑے فسادات بھرے ہوئے ہیں اور بونیر میں جو مجاہدین ہیں اُن کی اکژیت بنگالیوں کی تھی۔ ان میں جوں ہی یہ پنجابی بھائی شریک ہوگئے تو انھوں نے گروہ بندیاں اور جھگڑے فساد شروع کر دیے اور انجام کار اُنھوں نے امیر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ چنانچہ انھیں بونیر سے نکال دیا گیا تھا۔ یہاں بھی ان کی پارٹی بازی جاری رہی ان کا لیڈر مولوی فضل الہیٰ ایک بہت بڑا پارٹی باز اور خطرناک آدمی تھا۔ کابل سے واپس آتے ہوئے میں نے اسے کابل میں دیکھا تھا اور میں نے اسے بڑی نصیحت کی تھی۔ اسی فضل الہٰی نے ایک نہایت اچھے کارکن مولوی بشیر کو اسی ساز باز اور پارٹی بازی کی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔ مولوی بشیر ایک نہایت نیک اور مخلص کارکن تھے۔

پنجابی مُسلمانوں کے حوالے سے اُن کے خیالات تو آگے چل کر ہم مزید بیان کریں گے لیکن پنجابی سکھوں کے لیے اُنھوں نے تعریفی کلمات ہی لکھے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان جیل میں اُن پر جو گزری اور سکھوں کے کیا رویے تھے اس کہانی کو وہ یوں بیان کرتے ہیں؛
مجھے اکیلے ہی ایک چکی یعنی قید تنہائی کی ایک کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ ان چکیوں میں بہت سے سکھ قیدی تھے۔ وہ اس وجہ سے بند کیے گئے تھے کہ وہ ست سری اکال کے نعرے لگاتے تھے۔ سکھوں میں ایک بہت زبردست جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ ان پر جتنی سختی کی جاتی ان کا جذبہ اُتنا ہی زیادہ بڑھتا جاتا تھا۔ اس حوالے سے وہ مزید لکھتے ہیں کہ سکھ جب اکٹھے ہو جاتے تو یہ شبد بڑے شوق سے گاتے کہ ’’سر جاوے میرا سکھی دھرم نہ جاوے‘‘ یہ سُن کر مجھے بڑا لطف آتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی نسبت سکھوں میں یہ جذبہ اس لیے فراواں ہے کہ ان کی مذہبی کتاب اپنی مادری زبان میں ہے۔ وہ الفاظ و معانی کا کماحقہ اثر حاصل کر سکتے ہیں۔ نیز اسی وجہ سے وہ اپنے مذہب کی فضیلت اور عبارت سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم ہندو مسلمان جس زبان میں عبادت کرتے ہیں اسے ہم نہیں سمجھتے۔ ہندوؤں کی عبادتی زبان سنسکرت اور ہماری زبان عربی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ہم اپنے عبادتی کلام کے معنی و مفہوم سمجھ پاتے اور نہ ہندو لوگ۔ اب غور کریں کہ ایک آدمی جو اپنے مذہب سے واقف نہیں اور نہ ہی مذہبی کلام کو سمجھتا ہے، وہ کیوں کر ترقی کرے گا۔

علامہ اقبال کے ساتھ ان کی ملاقات اور اس حوالے سے پنجاب کے عمائدین کے تحفظات کے بارے میں بھی انھوں نے اپنے بھر پور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس ضمن میں یوں رقم طراز ہیں کہ: میں افغانستان کے انقلاب کے زمانے میں اس کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے اور امداد فراہم کرنے کے لیے ہندوستان گیا تھا۔ پنجاب میں ڈاکٹر اقبال، ظفر علی خان، ملک لال خان اور دیگر لوگوں سے ملاقات ہوئی۔
لاہور میں ڈاکٹر اقبال سے ملنے پر میرے خلافت کے ساتھیوں نے بڑی مذمت کی تھی۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ میں نے ڈاکٹر اقبال سے کیوں ملاقات کی وہ تو کسی کام کا آدمی نہیں۔ لیکن آج میں جب پنجاب کے اخباروں اور لیڈروں کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ وہ اسی اقبال کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا خیال سب سے پہلے اس ہی کے دل ودماغ میں آیاتھا۔ یہ تخیل اسی نے پیدا کیا تھا۔ پنجاب کے مسلمانوں کا کوئی گُناہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں یہ قاعدہ جاری ہے کہ زندہ قومیں زندوں کی قدر کرتی ہیں، مُردہ قومیں مُردوں کی قدر کرتی ہیں۔ ہم مسلمان لوگ ہمیشہ مُردوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں زندہ انسانوں کی کوئی قدر نہیں۔
عمائدین پنجاب کا علامہ اقبال کے بارے میں معاندانہ خیالات کا ایک سبب شاید ان کے وہ اشعار ہیں جو انھوں نے پنجابی مسلمانوں کے بارے میں اپنی نظم ’’پنجابی مسلمان‘‘ میں کہے تھے:
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتاہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

خلافت تحریک مشترکہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم تحریک تھی۔ اس جدوجہد میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔ اس تحریک کے دوران پنجابیوں کے کردار کے بارے میں باچا خان کا کہنا ہے کہ: دسمبر 1928 میں کلکتہ میں خلافت کانفرنس ہوئی صوبہ سرحد سے ہم لوگ بھی اس میں شمولیت کے لیے گئے۔ کلکتہ میں پشاور کے اور بھی بہت سے لوگ رہتے تھے۔ وہ میوہ جات کی تجارت کرتے تھے۔ جب خلافت کانفرنس شروع ہوئی تو ہمارے نوٹس میں یہ بات آئی کہ پنجابیوں کے محمدعلی وشوکت علی سے بڑے اختلافات ہیں۔
پنجابی ایک عجیب وغریب مخلوق ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دن میں زمیں دار(اخبار) کے دفتر میں اختر علی خان سے شکایت کر رہا تھاکہ دیکھو میرے اور تمہارے والد کے درمیان کتنے اچھے تعلقات ہیں۔ اگر پنجاب کے دوسرے اخبارات میرے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو تمھیں تو نہیں چاہیے کہ میرے خلاف غلط فہمیاں پھیلاؤ۔ میری یہ شکایت سن کر اختر علی خان ہنس پڑے اور بولے، ہماری فطرت ہے کہ نہ تو ہم پنجاب کے کسی لیڈر کو بخشتے ہیں، نہ ہی ہندوستان کے کسی رہنماء کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ عادتاً سب کی پگڑی اُچھالتے رہتے ہیں۔ یہی تماشہ کلکتہ میں بھی پنجابیوں نے سبجیکٹس کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔ ایک رات خلافت کی سبجیکٹس کمیٹی کی میٹنگ تھی اورہم سب اسٹیج پر بیٹھے تھے ۔ایک پنجابی لیڈر تقریر کر رہے تھے اور اپنی تقریر میں وہ محمدعلی صاحب پر کچھ نکتہ چینی اور حملے کر رہے تھے۔ محمدعلی صاحب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے وہ صبر نہیں کر سکے اور غصے میں آگئے اور ان کے منہ سے پنجابی لیڈر کے لیے ناشائستہ کلمات نکل پڑے۔ ہمارے پاس ہی ایک طرف ایک اور پنجابی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے محمدعلی کو گالی گلوچ دینا شروع کر دیا۔ اسٹیج پر ایک زبردست ہنگامہ بپا ہو گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہم کچھ پٹھان اصحاب محمد علی صاحب کے پاس گئے۔ ہم اس بارے میں ان سے چند باتیں کر نا چاہتے تھے، ہم نے محمدعلی صاحب کے ساتھ اپنی بات چیت شروع کی۔ محمدعلی صاحب آپ ہم مسلمانوں کے لیڈر ہیں ہم آپ کی توقیر اور عزت چاہتے ہیں، ہم کل کانگریس کی سبجیکٹس کمیٹی کے اجلاس میں گئے تھے۔ اس وقت گاندھی جی تقریر کر رہے تھے۔ ان کی تقریر کے دوران ہی ایک نوجوان نے ان کی مخالفت اور ان پر نکتہ چینی کی تھی۔ یہاں تک کہ انھیں ناشائستہ الفاظ سے سے مخاطب کرتے تھے۔ لیکن گاندھی جی ان کے سامنے ہنس دیتے تھے اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس مداخلت اور نکتہ چینی کی وجہ سے شاید ہی ان کی تقریر میں کسی قسم کی تیزی یا تندی پیدا ہوئی ہو۔ یہ بات ہم آپ کو اس لیے بتا رہے ہیں کہ آپ ہمارے رہنما ہیں ہم آپ کی برتری کے خواہاں ہیں، اس لیے اگر آپ اپنے اندر صبر کا مادہ پیدا کر لیں گے تو یہ بہت اچھا ہو گا۔ ہماری یہ بات سنتے ہی بہت ناراض اور غضب آلود ہو گئے اور بول اُٹھے، دیکھو یہ جنگلی پٹھان محمدعلی جوہر کو سمجھا نے آئے ہیں۔

باچا خان اپنی آپ بیتی میں صوبہ سرحد میں انتخابات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :پھر الیکشن کے وقت مسلم لیگ نے صوبہ سر حد میں پروپیگنڈے کے لیے ایک پنجابی کو بھیجا جس کا نام میجر خورشید تھا۔ یہ اپنی بد عملیوں کی وجہ سے فوج سے موقوف کیا گیا تھا۔ اسے اس غرض اور مطلب کے لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ پٹھانوں میں خانہ جنگی پیدا کر دے، وہ پشاور کے مسلم لیگیوں میں اس قسم کی تقریریں کیا کرتا تھا، جو تشدد آمیز جذبات سے بھری ہوتی تھیں اور وہ کہا کرتا تھا کہ یہ جو چند آدمی کانگریسی لیڈر ہیں اور قوم میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں انھیں قتل کر دینا چاہیے اور اسے لوگ پیدا کرنے چاہئیں کہ جنھیں ہم دس، دس بیس،بیس ہزار روپے دے دیں تاکہ وہ ان آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں کیوں کہ ان کی موت کے بغیر ہمارا راستہ صاف نہیں ہو سکتا۔ اس کی ان تقریروں کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ آپس میں دست و گریباں ہو جائیں گے۔ خدائی خدمت گاروں کا ایک رہنما بھی مار دیا جائے تو چوں کہ قوم کی ہمدردیاں ان کے خدائی خدمتگاروں کے ساتھ ہیں، اس لیے بدلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ قوم مسلم لیگ کے لیڈروں کو قتل کردے گی، ا ور اس طرح یہ لوگ اپنے گھر میں باہمی فساد اور جنگ و جدل میں مصروف ہو جائیں گے اور تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ میجر خورشیدصرف ہمیں ہی برباد کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ساری پختون قوم کو کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اس ضمن وہ مزید لکھتے ہیں کہ چند خوانین اور ملک وغیرہ جو انگریزوں کے ریزہ چین تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر میجر خورشید کی بات پر عمل کرتے ہیں تو ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔ اس لیے انھیں میجر خورشید کے پروگرام پر عمل کی جرأت نہ ہو سکی۔ میجر خورشید کو پنجابیوں نے پٹھانوں کی بربادی کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن وہ اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔

تقسیم سے قبل تک تو باچا خان کے پنجابی مسلمانوں کے ساتھ تحفظات تو تھے ہی لیکن تقسیم کے بعد بھی یہ برقرار رہے۔ اس کا بیان ان کی آپ بیتی میں کچھ یوں ہے:
جیل میں جو سلوک انگریزی حکومت ہمارے ساتھ روا رکھتی تھی اس کے مقابلے میں اس اسلامی حکومت نے ہمارے ساتھ دس گُنا زیادہ بُرا سلوک روا رکھا، پاکستانی حکومت نے مجھے ہمیشہ جیل کی ایسی کوٹھری یا بیرک میں رکھا جس کی روشنی بھی رات کو گُل کر دی جاتی تھی۔ حیدرآباد جیل میں تو مجھے تنہائی میں رکھا گیا اور کسی سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ اس جیل کی آب و ہوا میرے موافق نہ تھی بلکہ مضر تھی وہاں میں بیمار ہو گیا، مجھے گُردے کی خرابی کی شکایت پیدا ہو گئی جس سے میرے پاؤں خراب ہو گئے لیکن جیلر نے جو پنجابی مسلمان تھا میری طرف کوئی توجہ نہ دی اور برائے نام غلط سلط دوائیں دیتا رہا، آخرکار مجھے لاہور جیل منتقل کر دیا گیا وہاں بھی بیماری بڑھتی گئی، یہاں سے منٹگمڑی جیل بجھوا دیا گیا اور کوٹھری میں بند کر دیا گیا وہاں بھی بیماری نے میرا ساتھ نہ چھوڑا اور میری صحت روز بہ روز گرتی گئی۔
اسی حوالے سے باچا خان کے بارے میں فارغ بخاری کی کتاب ’’تحریک آزادی اور باچا خان‘‘ ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے قتل کے پس منظر میں لکھا ہے کہ: 9 مئی 1958 کو باچا خان کے بڑے بھائی اور ون یونٹ کے تحت قائم شدہ مغربی پاکستان کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر خان صاحب کو قتل کر دیا گیا۔ 19 مئی 1958 کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے باچا خان نے کہا کہ ڈاکٹر خان صاحب کے قتل سے پشتونوں، پنجابیوں کے درمیان عناد کے جذبات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انھوں نے ہر مکتبِ فکر کے پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ان دونوں کے درمیان بہتر مفا ہمت کے لیے کوشش کریں ۔ اگریہ رحجان جاری رہا تو اہل پنجاب اور پختونوں کا ایک ساتھ چلنا مشکل ہو جائے گا۔
کالا باغ ڈیم کے حوالے سے وہ ضیاء دور کے ایک وزیر محبوب الحق کے ایک مضمون کے جواب میں لکھتے ہیں کہ: اب پنجاب کے جاگیر دار سرمایہ دار اور نوکر شاہی کو احساس ہوا کہ چھوٹے صوبوں کو ان کے وسائل لوٹانے کے بعد پنجاب کو کن مشکلات کا سامنا ہو گا۔ آج یہ احساس پنجاب کے ترجمان کو شدت کے ساتھ سے ہو رہا ہے کہ پنجاب نے اپنا پانی ہندوستان کو بیچ کر کتنی مصیبت اپنے لیے لے رکھی ہے۔ ایک تو ان کے اپنے پاس اپنا ایک بھی دریا نہیں رہا جس پر پن بجلی لگا سکیں۔ پانی کی کمی کا مسئلہ پنجاب کی تقسیم کے سلسلے میں اٹھا، مگر پنجاب نے ازخود یہ پانی ہندوستان کے حوالے کر دیا اور پنجاب کے دریاؤں کی تقسیم میں دریائے سندھ کو بھی شامل کر دیا، جو کسی طریقے سے بھی ہندوستان اور پنجاب کی ملکیت نہیں تھا۔

کالا باغ ڈیم کے حوالے سے پنجاب کے موقف کے بارے ان کہنا تھا کہ اب تو پنجاب سے بھی اس قسم کی آوازیں آرہی ہیں کہ پچاس ہزار افراد کو کالا باغ بند کے منصوبہ کے دفاع کے لیے تیار منظم کیا جائے گا، مطلب یہ ہے کہ اب یہ مسئلہ افہام وتفہیم کی حدود کو پھلانگ کر محاذ آرائی طرف لے جایا جارہا ہے۔ اس طریقے سے پشتونوں، سندھیوں، بلوچوں کو آپس میں لڑوا کر معلوم نہیں کس منصوبے کی تکمیل کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں مسلسل استحصالی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہم نے دیکھا یہ کہ پنجاب کے جاگیردار، سرمایہ دار اور نوکر شاہی نے ملی بھگت کر کے اس مُلک کے عوام کو اپنے بنیادی آئینی، انسانی، جمہوری، قانونی، اقتصادی، معاشی اور معاشرتی حقوق سے محروم رکھا اور اس کے نتیجے میں جناح صاحب کے پاکستان کو ختم کر کے رکھ دیا۔ یہ باقی ماندہ پاکستان وہ پاکستان نہیں رہا جس کی بنیاد 14 اگست کو رکھی گئی تھی۔

لیکن ایک پنجابی ایسا تھا جو سیاستدان نہیں تھا، لیکن باچا خان سے اُس کے تعلقات بہتر تھے اور اس نے باچا خان سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ جنرل ضیاء کی شخصیت میں نہ جانے ایسا کیا کرشمہ تھا کہ جی ایم سید جو کہ پنجابیوں کے سخت خلاف تھے، انھوں نے بھی تین سے زائد بار ضیاء الحق سے ملاقاتیں کی تھیں۔ جناب جمعہ خان صوفی اپنی کتاب ’’فریبِ نا تمام‘‘ کے صفحہ نمبر 492 پر لکھتے ہیں کہ: ضیاء الحق کی کودتا کے بعد ولی باغ کے تعلقات فوجی حکمرانوں سے قریب کے تھے۔ اس ضمن میں باچا خان کئی بار جنرل ضیاء الحق سے ملے اور ضیاء الحق کا باچا خان کے بارے میں تبصرہ یہ تھا کہ، وہ ایک وفادار پاکستانی ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں کے بیچ خط و کتابت بھی ہوئی۔ باچا خان نے ایک خط ضیاء کو لکھا تھا، جس کا جواب ضیاء الحق کے دفتر نے دیا۔ یہ خط کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے توسط سے آیا تھا۔ اس خط کے متن کو انھوں نے اپنی کتاب میں یوں شائع کیا ہے:

’’آپ کا خط مورخہ5 فروری1980 صدر مملکت کو ملا، جس میں آپ نے افغانستان میں رونما ہونے والے حالات پر اظہار خیال کیا ہے۔ آپ کے خط کا یہ پہلو خوش آئندہ ہے کہ آپ نے ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی ملک افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کو ناپسند کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی ہے کہ ہم دوسروں کے مفاد کی خاطر اس علاقے کو میدان کارزار نہیں بننے دیں گے۔ صدرِ پاکستان آپ کی تائید کرتے اور کوشاں ہیں کہ ہمارا علاقہ اس سے بچے۔ آپ نے بجا فرمایا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کو اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہیے۔ صدرِ مملکت کی بھی یہی خواہش ہے اور وہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے اقدار بھی کرچکے ہیں۔ ہماری اس خواہش میں کوئی کمی یا تبدیلی نہیں آئی۔

آپ نے باقی جو مشورے دیے ہیں صدرِ مملکت ان کی بھی قدر کرتے ہیں بلکہ وہ آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ضعیفُ العمری کے باوجود موجودہ حالات کے متعلق انھیں اپنی رائے سے نوازا۔ حکومتِ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ ملک کے تمام حصے ملکی خوشحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، تاکہ یہ جلد از جلد ترقی کی منزلیں طے کرسکے۔
امید ہے آپ کو دیرینہ بیماری سے افاقہ ہوگا اور آپ بخیریت ہوں گے۔‘‘

آپ کا خیر اندیش، میجر جنرل ایم کے عارف

جمعہ خان صوفی سے ہم نے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ کیا اور اُن سے درخواست کی کہ اگر مذکورہ خط کی کوئی نقل مِل جائے تو ہمارے لیے بہتر ہوگا۔ جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جس وقت یہ خط افغان سفارت خانے کو موصول ہوا تھا اُس وقت نہ تو فوٹو اسٹیٹ مشینیں عام تھیں اور نہ ہی کمپوٹرز۔اس لیے اس خط کا متن انھوں نے اپنی ڈائری میں حرف بہ حرف لکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے، اور میں پوری صورتحال سے اُسے آگاہ کرسکتا ہوں۔ جہاں تک باچا خان اور ضیاء الحق کے درمیان ملاقاتوں کے بارے میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ آپ آسانی سے انٹرنیٹ یا اخبارات کی لائبریری سے اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...