بلوچستان کے دیہی علاقوں کی خواتین کو خودمختار بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں

868

بلوچستان کی خواتین میں ماضی کے مقابلے میں اب بیداری اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ سیاست اور سماجی خدمات جیسے شعبوں میں ان کے کردار میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ سال2018-19کا صوبائی بجٹ خاتون مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید نے پیش کیا۔ ایک سروے کے مطابق میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کے داخلے میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ امید کی کرن روشن ہوئی ہے اور خواتین کی خودمختاری کی مزید مثالیں ہمارے سامنے آنے والی ہیں۔

لیکن امید کی یہ روشنی شہروں کی حد تک ہے، مجموعی طور پہ صوبے کی خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ پریشان کن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تبدیلی کو نچلی سطح پر بھی منتقل کیا جائے تاکہ گاﺅں دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والی خواتین بھی خودمختار ہوسکیں۔ پدرسری نظام کے غلبے نے خواتین کے لیے بہت ساری مشکلات پیدا کی ہیں، یہ نظام  ملک کے باقی علاقوں کی نسبت یہاں زیادہ مضبوط ہے۔ دیہی خواتین کو نام کی عزت تو دی جاتی ہے لیکن انہیں کوئی بنیادی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ خواتین انتہائی ضروری امور میں  بھی اپنی مرضی سے کوئی اقدام نہیں کرسکتیں۔ عالم یہ ہے کہ اگر کسی کا بچہ بیمار ہوجائے تو وہ چاہے تشویشناک حالت میں ہو تو ماں اس کو ہسپتال نہیں لے جاسکتی۔ وہ اسے گود میں لیے اپنے شوہر کے آنے کا انتظار کرے گی۔

بلوچستان کی اکثر خواتین کو سیاست اور انتخابات جیسے اہم معاملات سے یا تو آگاہی نہیں ہے، اگر ہے تو اس میں ان کا کردار مردوں کے تابع ہے

یہاں کی غیرمتوازن و بدحال سیاسی صورتحال  کا بھی سب سے۔ زیادہ عورت کو نقصان پہنچا ہے۔ خصوصاََ صحت کے شعبے میں بگاڑ کی وجہ سے ان کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں عورتوں کو صحت کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ صوبے میں 7300افراد کے لیے ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے اور اس میں  ہر 100میں سے صرف 15خواتین ہوتی ہیں  جو کہ سب کی سب  شہری علاقوں میں ہیں۔ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران شرح اموات پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس صوبے میں سالانہ ہر ایک لاکھ میں سے 850 خواتین دوران زچگی وفات پا جاتی ہیں، جبکہ دیگر صوبوں میں اس کا تناسب 270 ہے۔ صوبے کے ضلع آواران میں ایک بھی زچگی سینٹر نہیں ہے۔ ضلع تربت میں ہیڈکوارٹر کے علاوہ کسی گاؤں میں سرکاری ڈسپرنسری کی سہولت موجود نہیں ہے۔ جن خواتین کو  شہروں کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے وہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی عورت کی نارمل ڈلیوری ہوجائے۔ ان پرائیویٹ ہسپتالوں کو  بااثر لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے اس لیے ان سے نہ پرسش ممکن ہے اور نہ اصلاحات کی کوئی امید۔

اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ بلوچستان اس وقت ترقی کرسکتا ہے جب خواتین کے احترام اور ہر شعبے میں ان کے حقوق کی دستیابی کو یقینی بنابا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت خواتین کے حقوق کا پورا احترام کرتی ہے اور خواتین کو برابر کے شہری کی حیثیت دینے کی غرض سے بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ لیکن ان دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے کافی ہے کہ فیصلہ سازی میں خواتین کی مؤثر نمائندگی ابھی بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ  کوئٹہ کے چند تعلیمی اداروں کی طالبات جو اپنے حقوق جانتی اور طلب کرسکتی ہیں وہ کئی دنوں سے احتجاج کرتی سڑک پر بیٹھی ہوئی ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اس تناظر میں ان عورتوں کو پرسان حال کیا ہوگا جنہیں اپنے حقوق سے آگاہی تک نہیں اور پدرسری نظام کی چکی میں پس رہی ہیں۔

بلوچستان کی اکثر خواتین کو سیاست اور انتخابات جیسے اہم معاملات سے یا تو آگاہی نہیں ہے، اگر ہے تو اس میں ان کا کردار مردوں کے تابع ہے۔ یا تو انہیں انتخابی عمل سے دور رکھا جاتا ہے، اگر مرد اجازت دیں تو وہ اس فرد کو ووٹ ڈالنے کی پابند ہوتی ہیں جن کا مرد کہتے ہیں۔ خواتین کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک وہ سیاسی عمل میں شریک نہیں ہوں گی اور انہیں قانون سازی کی مؤثر نمائندگی نہیں ملے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ صوبے کی مقتدرہ انہیں اس بات کا حق دے کہ کم ازکم  وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے آزاد کردار ادا کرسکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...