خواتین کے حقوق، سیاسی جماعتیں اور جمہوریت پر ڈاکہ

933

پاکستان کو مسلمان ممالک میں پہلی خاتون وزیراعظم منتخب کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسی طرح صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی خواتین ممبران سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور قومی و صوبائی و زراء کے عہدوں پر تعینات رہی ہیں اور اب بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود ملک کے اندر صنفی تفریق کے مظاہر بھی واضح دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ خصوصاََ سیاسی نظم میں ایسی شفافیت موجود نہیں ہے جس سے خواتین کا انتخاب میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر ہو۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر اقربا پروری کی وجہ سے ہمیشہ ایسی خواتین منتخب ہوکر آتی ہیں جو حقدار نہیں ہوتیں۔ اس لیے عورتوں کے حقوق کے مسائل بھی حل نہیں ہوپاتے۔

اس  کی تازہ مثال 20 جولائی کو قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات ہیں جہاں سے کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں نے مخصوص نشستوں پر نامزدگی  کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ایسی خواتین کو منتخب کیا جن کا یا تو قبائلی اضلاع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر تعلق ہے تو صرف نام کا، نہ تو ان حساس علاقوں میں انہوں نے کبھی وقت گزارا ہے، نہ وہاں کی خواتین کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار ہے۔

قبائلی اضلاع میں خواتین کے لیے مختص کردہ چار نشستوں میں سے دو حکمراں جماعت تحریک انصاف کو، جبکہ باقی دو میں سے ایک ایک جمیعت علمائے اسلام (ف) اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ملی ہیں۔

قبائلی اضلاع سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں جمعیت العلماء اسلام (ف ) کی نامزدکردہ خاتون نعیمہ کشور کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے ہی نہیں، وہ مردان کے قضبے گوجر گڑھی سے ہیں۔ نعیمہ کشور 2002  سے 2018 تک مسلسل قانون دان کی حیثیت سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں رہ چکی ہیں۔ یہ متحدہ مجلس عمل کے 2002 سے 2008 خیبرپختونخوا کی حکومت میں مخصوص نشست پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب کی گئیں۔ 2008 میں جب متحدہ مجلس عمل کا وجود ختم ہو گیا تو وہ ایک بار پھر جمعیت العلماء اسلام (ف) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست پر برقرار رہیں ۔2013 کے عام انتخابات میں وہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر جمعیت العلماء اسلام ہی کے ٹکٹ پر پہلی بار قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں۔ پارلیمان میں نمائندگی کے علاوہ نعیمہ کشور پچھلے کئی برسوں سے جمعیت العلماء اسلام (ف) شعبہ خواتین کی سربراہ بھی ہیں۔ ان تینوں عام انتخابات میں نعیمہ کشور نے اپنے ہوم ٹاون مردان کے پتہ پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن 20 جولائی کو قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنا ووٹ جنوبی وزیرستان کے ایک گاؤں میں منتقل کردیا تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قانون کے مطابق اس مخصوص نشست کے لیے اہل ہو جائیں۔

تمام جماعتیں خواتین کے سیاسی عمل میں اشتراک کو نظر انداز کرکے ملک کی آدھی آبادی کے حقوق پر ڈاکہ ڈال دیتی ہیں

اسی طرح حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی دو میں سے ایک نشست پر نامزد گی حاصل کرنے والی خاتون کا تعلق تو جنوبی وزیرستان سے بتایا جاتا ہے مگر وہ خاندان سمیت پچھلی کئی دہائیوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

پچھلے سال 25 جولائی 2018 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل تشکیل پانے والی بلوچستان عوامی پارٹی کو 20 جولائی 2019 کے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر منتخب ہونے والے تین آزاد اراکین کی حمایت حاصل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا میں ایک مخصوص نشست ملی ہے جس پر بصیر ت شینواری کو نامزد کیا گیا ہے، جن کا تعلق تو ضلع خیبر کے سرحدی قصبے لنڈی کوتل سے ہے مگر وہ نہ صرف خاندان سمیت پشاور میں رہائش پذیر ہیں بلکہ ان کی پیدائش اور تعلیم و تربیت بھی پشاور میں ہی ہوئی ہے اور ابھی تک وہ اسی شہر میں مقیم ہیں۔

الیکشن کمیشن کے 18 اپریل 2019 کو جاری کردہ اعلامیے کے مطابق صرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے کی اہل ہوں گی۔ لیکن دھوکے اور ناجائر طریقوں کا استعمال کر کے جنگ اور شدت پسندی سے متاثرہ قبائلی اضلاع میں تاریخ میں پہلی دفعہ ہونےوالے انتخابات کے اندر وہاں کی خواتین کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔

قبائلی اضلاع کے انتخابات میں دس سیاسی جماعتوں سمیت تقریبا 297  امیداوروں نے حصہ لیا لیکن ان میں صرف  دو سیاسی جماعتوں، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی نے ایک ایک سیٹ پر خواتین کو ٹکٹ جاری کیا تھا اور وہ بھی ایسے حلقوں میں جہاں پر ان پارٹیوں کا نہ کوئی ووٹ بینک موجود تھا اور نہ جیتنے کے کوئی امکانات۔ دونوں خواتین امیدواروں نے کل ملا کر صرف 2002 ووٹ حاصل کیے تھے۔

2018کے عام انتخابا ت کے دوران بھی جس میں  الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہر سیاسی جماعت کو کم از کم پانچ فیصد سیٹیوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کرنے تھے ، سیاسی جماعتوں نے ایسے حلقوں سے خواتین کو ٹکٹ جاری کے تھے جہاں پر ان جماعتوں نے کبھی الیکشن جیتا ہی نہیں تھا۔ مقصد صرف الیکشن کمیشن کے قوانین کی پابندی کرنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 183 خواتین امیداروں نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا جن میں صرف 8 نے کامیابی حاصل کی اور یہ سب وہ تھیں جو بڑے سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔  تقریباََ 45 فیصد سیاسی جماعتوں نے  خواتین کو عام نشستوں کے لیے نامزد  ہی نہیں کیا تھا۔

اگر سیاسی جماعتیں خواتین کو اسی طرح نظرانداز کرتی رہیں تو جہاں ایک طرف سماج میں عورتوں کے حقوق کے مسائل گمبھیر ہوتے چلے جائیں گے وہیں اس کے ساتھ سیاسی عمل میں عام خواتین کا اشتراک بھی کم ہوجائے گا، کیونکہ ان کا سیاسی عمل پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ ماضی کے انتخابات میں عورتوں کی شراکت کے تناسب سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں خواتین ووٹرز کا تناسب 43.62  فیصد تھا جو 2018 کے انتخابات میں کم ہوکر 39.78  فیصد رہ گیا۔ اس طرح قبائلی اضلا ع  میں 2018 انتخابات میں خواتین ووٹ کا ٹرن آوٹ 31 فیصد تھا جو صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں کم ہوکر 19 فیصد تک رہا۔

سیاسی جماعتوں اور حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے مسائل کو اپنے اپنے منشور میں نہ صرف نمایاں رکھیں بلکہ پارٹیوں میں خواتین کے لیے مناسب شراکت بھی یقینی بنائیں۔ صرف  کوٹہ سسٹم سے نہ خواتین کی سیاست میں عملداری ممکن بنائی جاسکتی ہے اور نہ اس سے  ٹرن آوٹ بڑھایا جاسکتا ہے۔ معاشرے کے نچلے طبقے کی خواتین کو پارٹیوں کے اندر نمائندگی دینی ہوگئی اور کوٹہ سسٹم کے تحت اپنے رشتہ داروں کی بجائے میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر جماعتوں میں خواتین ورکرز کو آگے لانا ہوگا۔ اگر خواتین میرٹ پر آسکیں گی تو عورتوں کے مسائل پر بہتر قانون سازی بھی ممکن ہوپائے گی۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تحفظ کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں لیکن خواتین کے سیاسی عمل میں اشتراک کو نظر انداز کرکے وہ ملک کی آدھی آبادی کے حقوق پر ڈاکہ ڈال دیتی ہیں جو حقیقت میں جمہوریت پر ڈاکہ ہے۔ جمہوریت کی جدوجہد تبھی مکمل ہوگی جب اپنی جماعتوں کے اندر بھی اس قدر کو جگہ دی جائے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...