کشمیر چیلنج
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک نئے انتفاضہ نے سر اٹھایا ہے۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئی پیدا شدہ صورتحال اور تنازع کے خطے کے سیاسی اور جغرافیائی منظر نامے پر گہرے و دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ بین الاقوامی برادری ابھی تک بھارت و پاکستان کے ممکنہ ردعمل و پیش رفت کا جائزہ لے رہی ہے، اس دوران غیر ریاستی عناصر بھی باریک بینی سے معاملات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہیں جس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دخل اندازی کرسکیں۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کی خاص حیثیت کی منسوخی کے فیصلے نے اس قضیے کے حل کے لیے کشمیری قیادت اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند کردیے ہیں۔ فوجی طاقت کے سخت مظاہرے، ذرائع مواصلات کی بندش اور دیگر مہیب انتظامی اقدامات کے تناظر میں سوچنے کی بات ہے کہ جموں و کشمیر کے امور کو چلانے کے لیے بھارت کے پاس اس لائحہ عمل کے علاوہ کوئی اور متبادل موجود نہیں تھا۔
بھارت کے پالیسی میکرز اور سیاسی حلقوں کی طرف سےمسلح انتہاپسندی کی روک تھام، کشمیر کی تنظیم نو اور اس کی مرکزی دھارے میں شمولیت، وغیرہ جیسی اصطلاحات کے استعمال سے یہ تأثر ملتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تمام آبادی انتہاپسند ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے ’حل‘ کرنے لیے اٹھائے جانے والے اس اقدام کے دُور رس اثرات اور ردعمل سے لابلد ہے۔
یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت کے قابل عمل منصوبہ بندی کے بغیر اٹھائے گئے اس اقدام سے اگر آگ بھڑک اٹھتی ہے تو بھارت اس کا الزام پاکستان پر دھر دے گا کیونکہ ایسا کرنا ہی بھارت کے پاس واحد آسان حل ہو گا۔ مگر اس کے لئے بھی اسے کو ایک قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ بھارت کے اس غیرمتوقع اقدام نے پاکستان کو بھی ایک پیچیدہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ اب ان حالات میں اصل سوال یہ ہے کہ نئے ابھرتے انتفاضہ پر پاکستان کا کیا ردعمل ہو گا؟
اس انتفا ضہ کے خصائص و اثرات پہلے کی تحریکات سے بڑی حد تک مختلف ہوں گے۔ اگرچہ اس میں بنیادی ردعمل سیاسی اور عدم تشدد پر مبنی ہوگا لیکن اس کے ساتھ کسی نوع کا ہیجانی اظہار بھی شامل ہو سکتا ہے۔ بھارتی اقدام کے بعد پاکستان نواز کشمیریوں اور مکمل آزادی پر یقین رکھنے والوں کے جذبات میں برابر اُبال محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وادی میں فعال انتہائی تشدد پسند حلقے اور مزاحمت کار بھی غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب یہ تنظیمیں اور گروہ اپنی اپنی پرتشدد کارروائیاں الگ الگ بھی جاری رکھ سکتے ہیں اور ان کے مل کر کارروائی کرنے کا امکان بھی موجود ہے جو انتفاضہ کو زیادہ وسیع اور مؤثر بنا سکتا ہے۔
فی الحال تو یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ مقبوضہ کشمیر میں لشکر طیبہ اور جیش محمد ایسی کالعدم تنظیموں سے وابستہ کتنے افراد موجود ہوسکتے ہیں اور ان کی آپریشنل صلاحیت کیا ہے، لیکن دیگر گروپ جیسے انصار غزوہ ہند (AGH)جس کےالقاعدہ برصغیر سے مراسم ہیں، وغیرہ بھی خطے میں اپنی آپریشنل صلاحیت میں رفتہ رفتہ اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ انصار غزوہ ہند بھارت کے جتنا خلاف ہے اتنا ہی پاکستان کی بھی مخالف ہے۔ یہ گروپ بھارت کے خلاف آزادانہ جہاد کے لیے مقبوضہ کشمیر میں سرگرم مزاحمتی گروپوں سے اتحاد کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ حال ہی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے اس کی حمایت ظاہر کی ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو خالصتاً کشمیر تک اپنی کارروائیاں محدود رکھنے والی تنظیم حزب المجاہدین پر بھی شدید دباؤ بڑھے گا کہ وہ اپنے آپریشنل ڈھانچے کا ازسرنو جائزہ لے۔
پاکستان کے لئے یہ نادر موقع ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ تمام سماجی طبقات اور سیاسی وعسکری قیادت بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ سیاسی انتقام کو پس پشت ڈال کر مسئلہ کشمیر پر بھر پور توجہ دی جائے
یہ تمام تنظیمیں کشمیر میں طویل المدت مزاحمت کو بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔ پاکستان اخلاقی اور سیاسی طور پر تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کرنے کا پابند ہے۔ البتہ کشمیر میں جاری مزاحمت کی تحریکوں کی مدد کے پاکستان کے لئے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ریاست کی بحران زدہ معیشت، داخلی سیاسی انتشار اور کمزور سفارتی حیثیت جیسے عوامل کی وجہ سے پاکستان مزاحمتی تحریکوں کی کھل کر حمایت نہ کرنے پر مجبور ہو گا۔
پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کی تلوار پہلے ہی تنی ہوئی ہے۔ عالمی برادری بشمول پاکستان کے دوست اور دشمن شدت اور مزاحمت کی تحریکوں کی حمایت مشکل سے ہی ہضم کر پائیں گے۔ بھارت سرکار اور بھارتی میڈیا کو پاکستان کی اس کمزوری کا بخوبی ادراک ہے اسی لئے وہ مسلسل اس پہلو کو اچھال رہے ہیں۔ بھارتی حکومت اور پالیسی سازوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے وقت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ایک ایسا وقت جب پاکستان اپنے سنگین مسائل میں الجھا ہوا ہے ۔ خاص طور پر پاکستان خطے میں اپنی کھوئی ساکھ اور اہمیت بحال کرنے کے لئے افغانستان میں امن کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتا آیا ہے۔ بھارت تو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا رہا ہے۔ لیکن اس بار صورت حال خاصی مختلف ہے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر تناؤ اور بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہو گا۔ اسی طرح اس بار کشمیر میں مزاحمت کار پاکستان کا دباؤ بھی قبول نہیں کریں گے۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کے روایتی جنگ میں تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ اس خدشے کا وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان ناپسندیدہ صورت حال سے کس طرح بچا سکتا ہے؟
اب تک پاکستان اور بھارت کے سفارتکاروں کی توانائیاں دو غیر متعلقہ پہلو کو اجاگر کرنے پر صرف ہو رہی ہیں۔ پاکستان کشمیر کے معاملہ کو عالمی سطح پر بھر پور انداز میں اٹھانے کی کوشش کرتا رہا ہے، جبکہ بھارت دہشت گردی کے کارڈ کو موثر انداز میں استعمال کر رہا ہے بھارت ایسا گزشتہ کئی سال سے کرتا بھی آ رہاہے۔ پاکستان نے تو اپنی ساکھ بحال کرنا ہی شروع کی تھی، نہ صرف افغانستان میں امن عمل میں معاونت کر کے بلکہ بلاتفریق تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارائی بھی کی۔ اب پھر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر پہلے والے حالات میں جا سکتا ہے گو اب کی بار حالات کافی پیچیدہ ہیں۔
فرقہ وارانہ اور جہادی گروپ بدلتی صورت حال میں اپنی اہمیت یا جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ آڈیو اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں جن میں یہ گروہ کشمیر کی مکمل مدد کی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں۔ اب تک تو یہ تنظیمیں اور گروہ ریاست پاکستان کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ حاصل نہیں کر سکیں، نہ میڈیا نے انہیں کوئی پذیرائی دی۔ یہاں تک کہ دفاع پاکستان کونسل جیسا فورم بھی دوبارہ متحرک نہیں ہوا۔ یہ بنیاد پرست مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو خطے کے اس حساس مسئلے پر لوگوں کو سڑک پر لے آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کی تبدیل شدہ سوچ ہی اس کی مضبوطی ثابت ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری پاکستان میں شدت پسند گروہوں اور پرجوش حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نے ابھی تک ہیجانی کیفیت کو ان تنظیموں کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کے اس اقدام سے اس کی ساکھ بحال ہو گی اور عالمی برادری کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو گا۔ مسئلہ کشمیر بھی عالمی سطح پر بہتر انداز میں اجاگر ہو سکے گا۔
بھارت کو نئے ابھرتے انتفاضہ کے اثرات اور نتائج بھگتنا ہوں گے لیکن پاکستان کے لئے اہم بات یہ ہے وہ اس انتفاضہ کا پشت پناہ بننے کے الزام سے بچنے کے لیے اور دہلی کو اسے ناکام و بدنام کرنے کی غرض سے دراندازی اور دہشت گردی جیسے حربے اختیار کرنے سے روکنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی و سفارتی حکمت عملی ترتیب دے۔ اگرچہ پاکستان کے لئے ایسا کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔ بھارت پہلے ہی خطہ میں پاکستان کے اتحادیوں کو ایک دہائی سے متوجہ کئے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے بھارتی کارڈ نے پاکستان کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اب بھارت نے حالیہ اقدام کے ذریعے پاکستان کو عالمی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
پاکستان کے لئے یہ نادر موقع ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ تمام سماجی طبقات اور سیاسی وعسکری قیادت بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ سیاسی انتقام کو پس پشت ڈال کر کشمیر ایشو پر بھر پور توجہ دی جائے۔ مسلسل اور طویل سیاسی بحران سے یہ نادر موقع ضائع ہو سکتا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ 92
فیس بک پر تبصرے