عالمگیریت کی طرف پیش رفت اور مذاہب کا مستقبل (2)
پہلی قسط کے خلاصے کے طور پر یہ سطور پیش نظر رکھیے:
اس سرزمین پر سب انسانوں کے ایک ہونے کا نظریہ نیا نہیں۔ دنیا میں بہت سے مصلح، مفکر، نبی، فلسفی اور سیاست دان ایسے آئے جنھوں نے انسان کو بحیثیت انسان دیکھا۔ بعض سیاستدان اور حکمران ساری زمین پر اپنی حکومت کے قیام کا خواب دیکھتے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے بعض نے کوششیں بھی کی ہیں اور ان میں سے بعض جزوی طور پر کامیاب بھی ہوئے ہیں۔بہت سے نظریات، افکار، نظام، مذاہب، ادیان اور تہذیبیں بھی سرحدوں اور نسلوں سے ماورا قلب و نظر کو تسخیر کرتی رہی ہیں اور معاشرے کو اپنے زیر اثر لاتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ بظاہر دنیا مختلف حوالوں سے تقسیم ہے لیکن اس کے باوجود عالمیت اورعالمگیریت کا تصور رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہا ہے۔ دور حاضر میں یہ عمل نسبتاً تیز رفتار معلوم ہوتا ہے۔عالمگیریت کے عمل کی ماضی میں چند مثالیں بھی ہم ذکر کر چکے ہیں اس سلسلے میں کچھ مزید مثالیں اور پیش رفت آج کی سطور میں ذکر کرتے ہیں۔ گفتگو کا سلسلہ لیگ آف نیشنز کے قیام تک پہنچا تھا جو بعدازاں ختم ہو گئی اور پھر دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی۔
اشتراکی انقلاب
روس کو لیگ آف نیشنز سے نکال دیا گیا لیکن کمیونسٹ انقلا ب نے روس کو ایک نئے عالمی انقلاب کا پرچم بردار بنا دیاتھا۔ سوویت یونین کی تشکیل کے بعد اس نے دنیا کے دیگر خطوں میں پیش رفت شروع کی اور تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں اس کے زیر اثر کمیونسٹ پارٹیاں معرض وجود میں آئیں۔ سوویت یونین کا اثرورسوخ اتنا بڑھا کہ امریکہ کی قیادت میں سرمایہ داری نظام کے مراکز نے اسے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا شروع کردیا۔ دوسری عالمی جنگ تو جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی بمباری کے بعد ختم ہو گئی لیکن دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔
اقوام متحدہ کی تشکیل
اس دوران میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر بڑی طاقتوں نے اپنے آپ کو تباہی سے بچانے اور عالمی سطح پر اپنے حق میں طاقت کا ایک توازن قائم کرنے کے لیے ایک نیا عالمی ادارہ قائم کیا جس کا نام سابق امریکی صدر روزویلٹ کی تجویز پر تنظیم اقوام متحدہ United Nations Organization رکھا گیا۔ یہ پلیٹ فارم 24 اکتوبر 1945 کو معرض وجود میں آیا۔ اسی کے قیام کے بعد باقاعدہ لیگ آف نیشنز کے خاتمے کا رسمی اعلان ضروری سمجھا گیا۔
اقوام متحدہ نے دنیا کے انسانوں کو بہت امیدوار کیا۔ تاریخ انسانی کا یہ سب سے بڑا عالمی ادارہ اور عالمی نیٹ ورک بن کر ابھرا۔ آج دنیا میں کوئی قابل ذکرریاست خواہش کے باوجود سوچ تک نہیں رکھتی کہ اس کے دائرہ رکنیت سے باہر رہے۔
اس کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے جو ہماری زندگی میں بنی نوع انسان پر دو مرتبہ بے انتہا مصیبتیں لا چکی ہے۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدر و منزلت کریں گے۔ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے، آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔
اقوام متحدہ کے تمام اہم اداروں پر انہی طاقتوں کو اجارہ داری حاصل ہے۔ یہ طاقتیں جیسا چاہتی ہیں یہ ادارے ویسا کردار ادا کرتے ہیں
یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔ ہمسایوں سے پرامن زندگی بسر کریں۔ بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں۔ نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں، اس بات کا یقین دلائیں کہ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ تمام اقوام عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں۔
اقوام متحدہ کی شق نمبر1 کے تحت اقوام متحدہ کے مقاصد درج ذیل ہیں:
مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا
قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا۔
بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کی بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا۔
انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔
ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کرکے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کا مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔
انسانی حقوق کا شعور پیدا کرنے میں اس ادارے کا بہت بڑا کردار ہے۔ انسانی مسائل کے بہت سے شعبوں میں اس کی قابل قدر خدمات ہیں۔ آفتوں کا مقابلہ کرنے اور بحالی صحت کے شعبوں میں بھی اس کی وسیع خدمات ہیں۔ بعض عالمی جھگڑوں کو نمٹانے میں بھی اس کا کردار ہے لیکن افسوس کہ ان خدمات کے باوجود اس ادارے پر دنیا کے زیادہ انسان اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اسے بڑی طاقتوں کے مفادات کا نگہبان اور ترجمان ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جنرل اسمبلی جس کے تمام ممالک رکن ہیں، محض نمائشی اور بے اختیار ادارہ ہے۔ اس میں عالمی راہنما صرف آزادی سے تقریر کر سکتے ہیں۔ اس کا با اختیار ادارہ سلامتی کونسل ہے۔ تمام فیصلوں کا اختیار اس کے پاس ہے جس میں پانچ بڑی طاقتوں کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ اس سلامتی کونسل نے بہت سے ظالمانہ فیصلے کیے ہیں۔ غریب اورپس ماندہ قوموں کا اس میں کوئی پرسان حال نہیں۔ خاص طور اس وقت یہ ادارہ امریکہ کا دم چھلہ بن چکا ہے۔ امریکہ اپنی فوجی اوراقتصادی طاقت کے بل پر اس میں بھی من مانی کرتا ہے، یہاں تک کہ عراق پر حملے میں سلامتی کونسل میں جرمنی اور فرانس کے ساتھ نہ دینے پر اس نے دھمکی دی کہ اگر میرا ساتھ نہ دیا تو ہم نئی اقوام متحدہ بنا لیں گے۔ اقوام متحدہ کے تمام اہم اداروں پر انہی طاقتوں کو اجارہ داری حاصل ہے۔ یہ طاقتیں جیسا چاہتی ہیں یہ ادارے ویسا کردار ادا کرتے ہیں۔ یا کم ازکم یہ کہاجاسکتا ہے ان میں سے کوئی ایک طاقت نہ چاہے تو اقوام متحدہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی اور عالمی عدالت انصاف کا کردار اتنا غیر منصفانہ ہے کہ دنیا کے عام لوگوں کا اعتماد اقوام متحدہ سے متزلزل کر دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ بات دنیا پر آشکار ہو چکی ہے کہ یہ ادارہ دنیا میں منصفانہ امن کے قیام اور حقیقی طور پر تمام قوموں کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس میں موجود بڑی طاقتوں نے بہت سے خطوں میں جنگ کے شعلے بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اقوام متحدہ کا ادارہ فقط دیکھتا رہ گئیا ہے۔ اس میں منظور کی گئی قراردادوں اور فیصلوں کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔
عالمی اداروں اور نظاموں کا زوال اورگروپس آف نیشنز کا قیام
اقوام متحدہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے اور اسی دوران میں دنیا کے دو بڑے معاشی نظاموں میں سے ایک زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے۔ اشتراکیت کا رومانس جو دنیا کے طول وعرض میں کئی دہائیوں تک رہا،دم توڑ چکا ہے۔ اُسے پھر سے زندہ کرنے کی کوششوں کے لیے عوامی پذیرائی دکھائی نہیں دیتی۔
اقوام متحدہ کی شکل میں جو عالمگیریت معرض وجود میں آئی تھی اس کی بنیاد”اقوام“ کو بنایا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام کا تصور بھی خاصا کمزور پڑ گیا ہے۔ دنیا میں حاکم طاقتیں اب قومیں نہیں ہیں بلکہ چند قوموں کے گروپس ہیں۔ سب سے پہلے تو خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ (United States of America) معرض وجود میں آیا جوپچاس ریاستوں کا ایک وفاق ہے۔ پھر دنیا میں فوجی اتحاد بھی معرض وجود میں آئے۔ ان میں سے نیٹو ابھی تک پوری قوت سے باقی ہے۔ یورپ کی بڑی ریاستوں نے بھی یورپی یونین بنا لی جس کی اپنی پارلیمنٹ ہے اور یہ یونین بہت سے فیصلے مشترکہ طور پر کرتی ہے۔ اس کی اپنی کرنسی بھی دنیا کی اہم ترین کرنسیوں میں شمار ہونے لگی ہے۔ اگرچہ اس وقت برطانیہ نے اس سے جدا ہونے کا فیصلہ کیا ہے تاہم یورپی یونین ایک قابل ذکر طاقت کے طور پر باقی ہے۔ اس کے علاوہ بعض جگہ علاقائی اتحاد بھی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان میں مشرق بعید کے ممالک کا اتحادآسیان اور شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن اہم پلیٹ فارم ہیں۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو اکیلی ریاست کا تصور مدھم پڑتا جارہا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کے عمل بھی ہوتے رہتے ہیں تاہم مجموعی طور پر دنیا اب گروپس آف نیشنز کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ صرف وہ ممالک ان اہم گروپس کا حصہ نہیں یا اہم حصہ نہیں جو بڑی طاقتوں کے شکنجے میں کَسی ہوئی ہیں اورجدید استعماریت کی گرفت سے ابھی باہرنہیں آئیں۔
اس ساری بحث میں ابھی تک مذہب کے کسی محسوس کردار کا تذکرہ نہیں ہوا۔ آئندہ ہم جدید عالمگیریت کے ظہور پر بات کریں گے اور اس امر کا جائزہ لیں گے کہ اس پس منظر اور پیش منظر میں مذہب کہاں کھڑا ہے اور کیا مذہب آئندہ کی تشکیلاتِ عالم میں کوئی کردار ادا کرے گا یا نہیں۔
فیس بک پر تبصرے