مدارس اصلاحات: اصل مسئلہ کیا ہے؟

1,043

فرانسیسی فلاسفر مشیل فوکو نے علم (نالج) اور طاقت (پاور) کے باہمی تعلق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مضمرات پر بہت مفید اور معنی خیز باتیں کہی ہیں۔ فوکو کا کہنا ہے کہ طاقت دراصل علم کا وظیفہ ہے اور طاقت نہ صرف علم کو استعمال کرتی ہے بلکہ بتدریج طاقت علم کو نئے معانی عطا کر کے اس کی تشکیل جدید کرتی ہے۔ فوکو کا بیان کردہ علم اور طاقت کا یہ باہمی ربط آج ہمارے سامنے مختلف جہتوں سے کارفرما ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت کے گلوبل اور لوکل مراکز کس طرح علم کو کنٹرول کر کے اپنی طاقت میں اضافہ کرتے ہیں۔ آج ہر وہ علم معتبر ہے اور اس کی سرپرستی کی جاتی ہے جس سے طاقت کے مراکز کو تائید ملتی ہے اور جو طاقت کی ہمنوائی کرتے ہوئے طاقتور کے لیے مزید طاقت کے حصول کو ممکن بناتا ہے۔ اس کے برعکس ہر اس علمی روایت کو یکسر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو طاقت کے مراکز کی چاکری و ہمنوائی سے انکار کرے اور مزاحمت و حریت فکر کا استعارہ بن کر ابھرے۔

مشیل فوکو کے پاور – نالج کے باہمی ربط پر مبنی اس نظریے کو پاکستان میں جاری مدارس کی اصلاحات کے ایجنڈے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کئی الجھنیں دور ہوجاتی ہیں۔ مدرسہ اور اس سے وابستہ علم آج کی جدید ریاست اور اس کی معیشت و معاشرت کے لیے ایک اناملی (Anomaly) کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ طاقت کے مراکز اس وقت علم کی صرف اس صورت اور شکل کو ماننے اور قبول کرنے کو تیار ہیں جو اس کی نظر میں مفید، عملی اور معیشت کے دائرہ میں فوری طور پر منطبق ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ علم کی یہ صورت گری سائنس کو حاکمیت کا درجہ دے کر تمام علوم کے لیے ایک ماڈل فراہم کرتی ہے کہ اگر آپ علم کے طور پر قائم رہنا چاہتے ہیں اور اس شناخت پر اصرار کرتے ہیں تو آپ کو اپنی علمی روایت کے مفید (Usefulness) اور عملی (Practical) ہونے کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ طاقت کے مراکز صرف ان علوم کی سرپرستی کریں گے جو طاقتور کی معیشت (یعنی انڈسٹریل پروڈکشن یا پھر نالج اکانومی) کے لیے کسی نہ کسی درجے میں خدمات سرانجام دیں گے۔ اس کے علاوہ باقی علوم کی نہ صرف یہ کہ نفی کی جائے گی بلکہ ان کی اصلاحات کر کے انہیں طاقت کے لیے مفید بنانے کے قالب میں ڈھالا جائے گا۔

مدارس کی اصلاحات کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو کئی اشکالات دور ہوجاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مدارس کا نظام اور نظریہ علم اس وقت طاقت کے مقامی اور بین الاقوامی مراکز کے لیے نہ صرف اجنبی ہے بلکہ ایک سطح پر یہ طاقت کے لیے چیلنج اور مزاحمت بھی ہے۔ وسیع اور متنوع علم جو یکسانیت اور متداول معیارات (Harmonization and standardization) کے لگے بندھے فریم ورک سے خود کو باہر رکھتا ہو وہ طاقتور کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ مدارس کے طلباء کو اسی لیے ہمہ وقت یہ تنقید سننا پڑتی ہے کہ معاشرے میں مدارس کے طلباء کا مفید کردار کیا ہے؟ یہ سوال اٹھانے والے دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ طاقتور کی خدمت و چاکری کے لیے جہاں ڈاکٹرز، انجینیئرز، وکلاء، سائنسدان، معیشت کے ماہرین اور سوشل سائینسز کے متخصیصین سب ہی پیش پیش ہیں تو وہاں مدارس کے طلباء کا کیا کردار ہے؟ جب مدرسہ کے علم کا فائدہ طاقت کے مراکز کو نہیں پہنچتا تو وہ سرے سے اس علم کی افادیت کے ہی منکر ہوجاتے ہیں کہ ان کے نزدیک فوکو کی تشریحات کے مطابق طاقت تو محض علم کا ایک وظیفہ ہے۔ ان کے لیے یہ ماننا ممکن نہیں کہ کوئی علمی روایت ایسی بھی پنپ سکتی ہے جو نہ صرف طاقت کے موجودہ نظام و مراکز کی خدمت کرنے کی ذمہ داری سے مستغنی ہو بلکہ اس کے برعکس وہ علم، حکمت اور تزکیہ نفس پر مشتمل ایک متبادل نالج پیراڈائم کی تشکیل کا عزم رکھتی ہو۔

حکومت پاکستان نے جن مدرسہ ریفارمز کا حالیہ دنوں میں اعلان کیا ہے انہیں اس تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر انتظامی تبدیلیوں کے نام پر کی جانے والی مدرسہ اصلاحات دراصل مدارس کے نظریہ علم کو تبدیل کرنے کی ان کوششوں کا حصہ ہیں جن کا ہدف مدارس کے طلباء کی سوچ و فکر کو طاقت کے اسٹرکچرز کے تابع بنا کر کسی بھی ممکنہ فکری مزاحمت کا راستہ روکنا ہے۔ یہ بات طاقتور قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی چلی جا رہی ہے کہ علم کے بارے میں ان کے رائج کردہ معیارات کو آخر کیونکر قبول نہیں کیا جاتا۔ ان معیارات کو قبول کرنے کا لازمی مطلب یہ ہے کہ کسی فیکٹری کی پروڈکشن لائن سے جس طرح ایک سائز اور شکل کی پراڈکٹس نکلتی ہیں بعینہ اسی طرح مدارس کے طلباء بھی عصری تعلیم کے اداروں سے نکلنے والے طلباء کی طرح اس سوچ و فکر کے حامل ہوں جو طاقت کے مراکز کی مرضی و منشاء کے مطابق ہو۔

جو لوگ مدارس کی اصلاحات کے ایجنڈے کو اس وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی بجائے محض انتظامی نکتہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کر رہے وہ سادہ فکری کا شکار ہیں۔ ان اصلاحات کا مقصد ہی یہی ہے کہ روایت سے جڑی دینی تعلیم (جس سے علمی پختگی اور فکری راسخ العقیدگی لازم آتی ہے) کو بتدریج سوشل سائینسز اور ہیومینیٹیز کے دائرے میں شامل کرتے ہوئے اس مقام پر لا کر کھڑا کردیا جائے جہاں یہ اپنی اصالت کو چھوڑ کر طاقت کے لیے موزونیت کے معیار پر پورا اترے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...