پاپولزم کیا ہے اور شناخت کے بحران سے اس کا کیا تعلق ہے؟

کاس مڈی، کرسٹوبل روویرا کالتوسر

1,446

عوامیت پسندی (Populism) کی ویسے تو مختلف تعریفات کی جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اسے ایک ایسی لہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو استحکام کو متأثر اور موجود جمہوری نظم کو اتھل پتھل کرتی ہے۔یہ اگرچہ ایک حیثیت میں عوامی لہر بھی کہلاتی ہے لیکن اس کی محرک شعوری وفکری جدوجہد نہیں ہوتی، بلکہ اس کا پس منظر غصہ اور بے چینی ہوتے ہیں جس کا استعمال کرکے کچھ لوگ اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ پاپولسٹ افراداشرافیہ مخالف اور بعض لبرل جمہوری اقدار کے ناقد ہوتے ہیں۔ ماضی میں کئی پاپولسٹ حکومتیں قائم رہی ہیں۔ اس وقت ایک نئی لہر اٹھی ہے جس کے نتیجے میں امریکا سمیت کئی ممالک میں ان نظریات کی حامل حکومتیں سامنے آئی ہیں۔ڈچ ماہرِ سیاسیات کاس مڈی اورڈیگو پورٹالیس یونیورسٹی چلی کے اسکول آف پولیٹیکل سائنس میں تعینات پروفیسرکرسٹوبل رووتراکالتوسر کی مشترکہ کتابPopulsim: A Very Short Introductionسے ماخوذ زیر نظر مضمون میں پاپولزم کی اصطلاح کی علاقائی پسِ منظر کے لحاظ سے وضاحت کی گئی ہے اور بتایاگیا ہے کہ عوامیت پسند راہنما کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ سماج میں کیسے اپنی جگہ بناتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آ پ نے عوامیت پسندی کے متعلق سنا ہوگا۔ اس اصطلاح کے مطابق یورپ میں کئی روایتی سیاسی جماعتوں اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی شہرت ہونا ہے۔ اس کے بعد بلاشبہ بنیاد پرست عوامیت پسندی کی تحریک کے تذکرے سے تو ہم سبھی آگاہ ہیں جس کے نتیجے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کا انتخاب جیتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ محض ایک اصطلاح اس طرح کی مختلف سیاسی جماعتوں کی وضاحت کررہی ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوامیت پسندی کوئی بہت بڑا سیاسی نظریہ نہیں ہے بلکہ اسے ایک سیاسی حربہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کو نام نہاد بدعنوان اشرافیہ کے خلاف اشتعال دلا کر عوامیت پسند سماج میں شکایات کی ایک لمبی فہرست کا شوشہ چھوڑتے ہیں اور اس دوران سیاسی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ عوامیت پسندی کے اس قدر عروج کے سبب اس سیاسی حربے کے داخلی نظام کو سمجھنے کی ضرورت جس قدر آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

عوامیت پسندی ایک سیاسی صورتحال ہے جس میں عوام کے مفادات کو اشرافیہ کے مفادات کے مقابل لا کر سیاسی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں عوامیت پسندی کی اصطلاح سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بہت شہرت پا چکی ہے۔ اگرچہ عوامیت پسندی عروج پاتا ہوا سیاسی مظہر ہے تاہم اسے بجائے سیاسی حربے کے اکثر حالیہ عہد کے فیشن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اسے دونوں محاذوں یعنی دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاسی تحریکوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، چاہے وہ سال2016ء میں برنی سینڈر ز کی بائیں بازو کی صدارتی مہم ہویایورپ میں دائیں بازو کے روایت پسند سیاستدانوں کا عروج، سوال یہی ہے کہ اصل میں عوامیت پسندی کیا ہے؟

ہم عوامیت پسندی کی اصطلاح کی وضاحت میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیاست کا ایک نقطۂ نظر ہے جس کے دوران سماج کو دو مختلف اور مخالف گروہوں یعنی عوام اور اشرافیہ میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ مزید برآں عوامیت پسندی اس کوشش میں مصروف رہتی ہے کہ ریاستی حکمت عملی عوام کے خیالات کی ترجمان ہو۔ عوامیت پسند وں کا عوامی تصور مختلف اقسام کا ہوسکتا ہے۔ یا تو وہ بالادست ہوں گے یا انہیں محض عوام سمجھا جائے گا یا انہیں قوم سمجھا جائے گا، یا ان تینوں صورتوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے۔

عوامیت پسندی کا تصور بالادستی یہ کہتا ہے کہ اشرافیہ نہیں بلکہ صرف عوام ہی سیاسی طاقت کے مالک تصور ہونے چاہئیں۔ اسی اثنا میں عوام کیصورت گری مشترکہ سماجی و معاشی طبقے کے گرد گھومتی ہے۔ آخر کار عوام جب اس فہم تک پہنچ جائے کہ وہ ایک قوم ہیں توتمام افراد مل کر ایک قومی سماج تشکیل دیتے ہیں۔ بدعنوان اشرافیہ عوام کے اس گروہ کے مخالف کھڑی ہوتی ہے۔ اس سے مراد حکمران طبقہ، قومی میڈیا اور سماج کے امیر افراد ہوسکتے ہیں۔ عوامیت پسندوں کے عالمی تصور میں اشرافیہ طبقے کی جہتیں مختلف ہیں مگر وہ ایک دوسرے کو مضبوط بنانے کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ امرا کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ عوامی خواہشات کے برعکس اپنے ذاتی مفادات کے لیے سیاسی اشرافیہ کو مضبوط سہارا فراہم کرتے ہیں۔یہ عوامیت پسندی کا آخری اہم عنصر ہے جسے اٹھارہویں صدی کے فلسفی ژاں ژاک روسو نے عوامی خواہش کا اصطلاحی نام دیا تھا۔ روسو نے اس اصطلاح کے ذریعے عوام کی اس خوبی کا ذکر کیا جس کے مطابق وہ اپنے مفادات کے لیے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اور یہ خوبی ،جسے عوامی خواہش کا نام دیا گیا ہے، کی وجہ ہی سے ہے کہ عوامیت پسند رہنما سامنے آتے ہیں۔ اس رہنما کے لیے لازم ہے کہ وہ عوامی خواہش کو پہچان سکے اور افراد کا ایک ایسا گروہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جو اس کا ہم خیال ہے۔

اگرچہ علاقائی پس منظر عوامیت پسند سیاست کے لیے ایک کلیدی اہمیت کا حامل ہے تاہم اس دوران سیاسی نظریہ جس پر عوامیت پسند سیاسی حربہ استعمال کیا جا رہا ہو وہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ بحراوقیانوس کے دونوں جانب چاہے وہ دائیں بازو کا سیاسی نظریہ ہو یا بائیں بازو کا، عوامیت پسند سیاسی رجحانات عوام میں شہرت پارہے ہیں۔ اگرچہ عوامیت پسند سیاسی تحریکوں میں بہت سی اقدار مشترک ہوتی ہیں تاہم وہ باہم مختلف سیاسی پس منظر سے ابھرتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اکثر ایک دوسرے سے بہت مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ چاہے یہ تحریک بائیں بازو سے ابھری ہو یا دائیں بازو کی قوم پرست سیاسی تحریک سے ،ان کے درمیان تفاوت اس وقت بہت واضح ہوجاتا ہے جب ہم عوامیت پسند سیاسی حربوں کی بنیاد کو جانچیں جہاں سے یہ تحریک اٹھ رہی ہو تی ہے۔

مثال کے طور پر بیسویں صدی کے امریکہ میں ایسے میزبان سیاسی نظریات کے متعلق جائزہ لینے کی کوشش جائے جنہوں نے عالمی معاشی بحران کے عہد میں عوامیت پسند سیاسی حربے کو فروغ دیا تو بائیں بازو کی تحریک ’اکوپائے وال اسٹریٹ‘ اور دائیں بازو کی ’ٹی پارٹی موومنٹ‘ کی مثال ہمارے سامنے آتی ہے۔ اگر دونوں گروہوں کو پہلی نظر دیکھا جائے تو دونوں ہی بہت حد تک ایک جیسے دکھائی دیں گے۔ دونوں ہی سال2007-8ء کے معاشی بحران میں حکومت کی جانب سے بیل آئو ٹ پیکج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ دونوں ہی نے امریکی عوام کے حقوق کے لیے نعرے لگائے اور دونوں ہی ’’ وال اسٹریٹ ‘‘ کی بدعنوان امیر اشرافیہ کے خلاف ’’مین اسٹریٹ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس مثال میں دونوں ہی کے درمیان اتفاقاتی صورتحال اس مرحلے پہ ختم ہوتی ہے اور ان کی میزبان سیاسی نظریات کی اہمیت کھل کر سامنے آتی ہے۔

مثال کے طور پر بائیں بازو کی تحریک جو وال اسٹریٹ پہ قبضہ کرنے کی بات کرتی ہے ،بائیں بازو کے اشتراکی نظریات کی حامل ہے۔ وہ ایسے امریکیوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے جو امریکی سماج کے مرکزی دھارے سے اپنی غربت کے سبب خارج ہیں۔ یہ تحریک واشنگٹن اور وال اسٹریٹ میں بیٹھی ہوئی طاقتور امیر اشرافیہ کے خلاف ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی عوام کا99 فیصدہے جس کا مقابلہ محض ایک فیصد استحصالی طبقے سے ہے۔

اس کے برعکس ٹی پارٹی تحریک کا انحصار ایسی حکمت عملی سے ہے جو خارجی عوامل کو قبول نہیں کرتی اور یہ ایک روایت پسند نظریات کی حامل ہے۔ اگرچہ یہ بھی حکومتی بیل آئو ٹ کے حمایتی نہیں تھے تاہم ان کا یہ خیال بالکل مختلف ہے کہ یہاںاشرافیہ سے کیا مراد ہے۔ مثلاً معاشی طور پر بدحال یونان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت سیریز ا نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے معاشی اشرافیہ کے خلاف ان لوگوں کو سیاست میں متحرک کیا جو پہلے پہل سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ چونکہ یہاں معاشی طور پر دشمن ادارہ وال اسٹریٹ نہیں تھا تو اسی کی طرز پہ لوگوں کی معاشی مشکلات کا ذمہ دار یورپیئن سنٹرل بنک اورآئی ایم ایف کو ٹھہرایا گیا۔

عوامیت پسند رہنما عوام میں مقبولیت اور سیاسی کامیابی کے لیے شخصیت پسندی کا حربہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب بھی آپ عوامیت پسند رہنما کے متعلق سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا شبیہ ابھرتی ہے ؟ عموماََ یہ ایک کرشماتی شخصیت کا مالک مرد ہوتا ہے۔ چند استثنائی صورتو ں کے علاوہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جتنے بھی عوامیت پسند رہنما دنیائے سیاست کے افق پر ابھرے وہ سبھی مرد تھے اور انہوں نے اپنی شخصی شبیہ کو استعمال کرکے اشرافیہ کے خلاف عوام کو متحرک کیا۔جب انہیں شہرت ملنے لگی تو انہوں اسے سیاست میں اپنی کامیابی کے لیے استعمال کیا۔ سال 2016ء میں ٹرمپ کی کامیابی کی مثال لے لیجیے یا اٹلی میں بپی گریلو کی پنج ستارہ تحریک کی کامیابی کی مثال دیکھ لیجیے۔

ایک اور راستہ جس کے ذریعے عوامی رہنما لوگوں میں پذیرائی حاصل کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں وہ اپنی شبیہ کے ذریعے قیادت کرناہے۔اس طرح کے رہنما خود کو ان لوگوں میں شمار کرواتے ہیں جو اشرافیہ طبقے کی جانب سے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ ان لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ صرف وہی ان کے نجات دہندہ ہیں۔ موجودہ عہد کی لبرل جمہوریتوں میں چاہے وہ شخصیت پسندی پر مبنی کوئی سیاسی رہنما ہو یا نام نہاد عوامی ہمدردی کی دعویدار سیاسی تنظیم، یہ سب لوگوں کو اکسا کر ہی انتخابات میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔پیرو کے عوامیت پسند رہنما البرٹو فوجیموری نے 1980ء کی دہائی میں اسی حربے کو آزما کے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس زمانے میں پیرو کو ایک سخت قسم کی کیمونسٹ بغاوت اور معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اس موقع پر اس جاپانی نژزاد پیرو رہنما نے نہ صرف کامیابی سے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا کر لوگوں کو پیرو کی اشرافیہ کے خلاف کھڑا کردیا بلکہ اپنے جاپانی ورثے کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کیا۔ اس طرح اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ انہی جیسا ہے۔ اس کا سیاسی نعرہ تھا:’’تم لوگوں جیسا صدر ‘‘۔ اس کی سیاسی تحریک 90 کی دہائی میں ایک قسم کی تبدیلی کا سبب بنی۔ اس نے اسی مقصد یعنی عہدہ صدارت جیتنے کے لیے ایک سیاسی جماعت قائم کی۔ تاہم جب وہ انتخابات جیت گیا تو سیاست کے میدان میں اس کی ناتجربہ کاری اور شخصی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں اور وہ اپنے ہی منتخب نمائندوں کو قانون سازی کے عمل کے دوران لوٹنے لگا۔ جب اس معاملے کا انکشاف ہوا تو اسے مستعفی ہونا پڑا اور وہ سیاست سے با ہر ہوگیا۔

بولیویا میں شخصیت پرستی پہ مبنی عوامیت پسند سیاسی حربہ زیادہ کامیاب رہا۔ کیونکہ یہاں عوامیت پسند رہنما ایوو مورالس نے انتخابات جیتنے کے لیے خود کو مقامی بولیوین والدین کی اولاد کہتے ہوئے شہرت دلائی اور اس حربے کو ایک سیاسی جماعتتحریک برائے سوشلزم کی مدد سے دو آتشہ کیا۔ ایوو مورالس اور موومنٹ ٹووارڈز سوشلزم، دونوں نے ہی سال 2000ء کے دوران کامیاب اشتراکی تنظیموں کی معاونت سے متعصب پالیسیوں پر مبنی نیولبرل نظام حکومت کے خلاف مہم چلائی تھی۔ یہ اس رہنما کی شخصی کامیابی اور شہرت تھی کہ وہ سال2002ء کے بعد2009ء اور پھر2014ء کے انتخابات میں بھی کامیاب ہوا۔

یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے کہ آپ عوامیت پسند سیاسی رہنما بن جائیں اور اپنی شخصیت کواس طرح تعمیر کریں کہ لوگ آپ کی ذات میں اپنی خواہش اور نمائندگی دیکھنے لگیں۔عوام کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں عوامیت پسندوں کو بہت سی شخصی خصوصیات کے ساتھ ساتھ بہت احتیاط سے چلنا پڑتا ہے۔ ایک خوبی جو تمام عوامیت پسندوں میں یکساں ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ عوام کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایک مضبوط رہنما ہیں۔ لوگوں کے ساتھ اپنے رابطے کی عملی صورت کا مظاہرہ کرنے کے لیے عوامیت پسند رہنما مختلف کردار نبھاتے ہیں۔ ایسے رہنما عوام کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ آزاد ہیں لہٰذا وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ان عمومی بندشوں سے آزاد تصور کرتے ہیں جو دیگر سیاستدانوں پر لاگو ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے ایک عوامیت پسند رہنما اپنی سیاسی خواہش کی طاقت کا اظہار کرسکتا ہے کہ وہ سیاسی اقدار کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یو ں وہ عوام کو یقین دلاتا ہے کہ وہ انہی کا ایک حصہ ہے۔

لیکن یہ سب ثابت کرنے کے لیے محض الفاظ کافی نہیں ہوتے لہٰذا ایک عوامیت پسند رہنما کو عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوتے ہیں۔ چاہے کسی معاملے پر ان کا اقدام ماہرین کی رائے سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔ وہ ان فیصلوں سے نہیں گھبراتے جو ان کی دانست میں لازمی اور ضروری ہوں اور ان پر فوری عمل درآمد کرنا ہو۔ عوامیت پسندی کاعہد عموماً سیاسی بحران اور افراتفری کے وقت پروان چڑھتا ہے تو عوامیت پسند رہنما امن و امان کی غیریقینی صورتحال کے دوران بڑبولے فیصلے کرکے افراتفری مچا دیتے ہیں۔

چونکہ اکثریت عوامیت پسند رہنما مرد ہوتے ہیں لہٰذا وہ اکثر اپنی مردانگی ظاہر کرنے کے لیے اپنی ازدواجی زندگی اور جسمانی تعلقات کا برملا اظہار کرتے ہیں تاکہ وہ عوام کو یہ ظاہر کرسکیں کہ وہ نہ صرف طاقتور توانا مرد ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کے رویے عام لوگوں جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلی کے عوامیت پسند رہنما سلویو برلسکونی کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ایک بچی کے غیر قانونی باپ ہیں تو انہوں نے کھلے عام کہا کہ ممکن ہے کہ یہ سچ ہو۔ میں ایک خوبرو شخص ہوں، بہت سی عورتیں یہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے بچوں کا باپ بنوں۔ اپنی مردانگی کا مزید اظہار اس طریقے سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ بسااوقات یہ رہنما تھڑے کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اسی طرح جنسی طور پر فحش گفتگو کرنا عوام کو یہ ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ وہ تو ان کے آس پاس کے لڑکوں کے جیسے ہیں اور ویسی ہی گفتگو کرتے ہیں جو ہر دوسرا مرد کرتا ہے۔ آخر عوامیت پسند اپنی خوبیوں کو ایک کرشمے کی صورت ظاہر کرتے ہیں۔ جیسا کہ جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر نے کہا تھا کہ ایسا سیاستدان جو خدا کا تحفہ ہو۔ کرشمے کا مطلب ہے کہ ایک فرد اپنے آپ کو عوامی مفادکے لیے پیش کردے۔دیگر لفظوں میں ایک عوامیت پسند رہنما عوام کو اپنے مسیحا ہونے کا یقین دلاتا ہے اور وہی انہیں بحران سے نجات دلا سکتا ہے۔

جب کسی رہنما میں عوامیت پسندی کے رجحانات چل نکلتے ہیں تو پلٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چونکہ مغربی ممالک میں عوامیت پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے تو یہ جاننا بہت لازم ہے کہ کسی رہنما میں ایسی نشانیاں جانچنے کا پہلا مرحلہ کیا ہے۔ سب سے واضح نشانی جو کسی بھی عوامیت پسند رہنما میں سامنے ہوتی ہے وہ اس کا قائم شدہ سیاسی جماعتوں سے شکست کھانے کا خوف ہوتا ہے۔2007-8ء کے معاشی بحران کے بعد اس طرح کے رویے ہر جگہ بڑھ رہے ہیں۔

جب ایک ووٹر یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے جس رہنما کو منتخب کیا ہے وہ اس کی سیاسی نمائندگی نہیں کررہا تو عوامیت پسند انہیں یقین دلاتا ہے کہ کہ اس کا کوئی قصو ر نہیں ہے بلکہ جو نظام اس وقت چل رہا ہے وہ ناکام ہوچکا ہے۔ مثال کے طورجب یونان میں سوشل جمہوریت پسند رہنما جارجیو پاپاندیو نے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سادگی پسند پالیسیاں ترتیب دیں تو اس کے حامیوں نے اس عمل کو اس پارٹی کی جانب سے دھوکہ دہی تصور کیا جسے وہ ووٹ دے کر اقتدار میں لائے تھے۔ اس صورتحال نے عوامیت پسند سیاست کے لیے موزوں ماحول تیار کردیا جہاں بائیں بازو کے حمایت یافتہ سیریزا نے اپنے پیش رو کے برعکس سیاسی تحریک چلا کر انتخابی کامیابی حاصل کرلی۔

اس کے علاوہ مرکزی میڈیا بھی عوامیت پسند سیاسی رجحانات کے لیے کلید ی اہمیت کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر فن لینڈ میں سال 2011ء کے انتخابات کے دوران دائیں بازو کی عوامیت پسندی سیاسی جماعت ٹرو فنز مجموعی طور پر11 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی، یہ ایک ایسے ملک میں بہت حیران کن تھا جو عالمی معاشی بحران سے جزوی طور پر متاثر ہوا تھا۔ تاہم بڑی سیاسی جماعتوں کی مالی بدعنوانی کا معاملہ میڈیا پر مشہور ہوا تو ٹروفنز پارٹی کے لیے میڈیا پہ جگہ بنانے کا شاندارموقع میسر آگیا۔اس طر ح انہیں موقع ملا کہ وہ تارکین وطن کے خلاف اپنے سیاسی بیانیے کو مالی بدعنوانی کے ساتھ نتھی کرلیں جس کے نتیجے میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوجائے۔ یہی ہوا کہ یہ تمام معاملہ میڈیا کے ذریعے فن لینڈ کے طول و عرض میں پھیل گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامیت پسند رجحان اور اس نوعیت کی سرگرم سیاست کو اعتدال کا رستہ کیسے دکھایا جائے۔ یا اس سے پلٹنے کا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے؟فن لینڈ کی مثال میں بدعنوانی کا اسکینڈل اسٹیبلشمنٹ کے ردعمل سے پھیلایا گیا تھا کہ اس نے اپنے منتخب نمائندگان کو ایک شفاف احتسابی نظام کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اس طرح کے اقدامات سے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اشرافیہ پہ مشتمل ہوتی ہیں اور انہی کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔ عوام کے جذبات اور خواہشات کو نظرانداز کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی عوامیت پسند تحریکوں کے عروج کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی جماعتو ں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات اور ناکامیو ں کے متعلق سچ بولیں اور ایمانداری سے کام لیں۔ جہاں وہ اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے معاملات میں شفافیت کا خیال رکھیں اور جب ان کی حکمت عملی ناکام ہورہی ہو تو اس کی ذمہ داری قبول کریں۔ مزید برآ ں اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ ان سوالوں کے ضرور جواب دیں جو عوامیت پسند سیاستدان اٹھاتے ہیں۔ بجائے عوامیت پسند سیاستدانوں کے حامیوں اور عام ووٹرز کے احساسات کو نظر انداز کرنے کے، مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے اور اقدامات، دونوں کے ذریعے عوامی خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران عوامیت پسند سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کرلیں تاکہ عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ مرکز کی سیاسی جماعتیں عوامی خواہشات سے آگاہ ہیں اور ان کا احترام کرتی ہیں۔
عوامیت پسند سیاسی رجحان عوامی خواہشات کو اشرافیہ کے مقابلے میں کھڑا کرتا ہے۔ عوامیت پسند ی پر مبنی مختلف سیاسی رجحان مختلف الخیال سیاسی جماعتوں میں متحرک ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اشتراکیت پسند بائیں بازو کے سیاسی نظریات ہوں یا دائیں بازو کے ، ایک اور حربہ جو عوامیت پسند اپنی انتخابی کامیابی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ان کا اپنی شخصیت پہ زور دینا ہے۔ اس دورا ن اشرافیہ کے برخلاف اپنی شخصیت کے عوامی پہلو عوام کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ چونکہ عوامیت پسند سیاسی رجحان پوری دنیا میں پھیل رہا ہے لہٰذا یہ لازم ہے کہ اس سیاسی حربے کو سمجھا جائے کہ اس کی جڑیں کہاں پیوست ہیں اور یہ کس طرح مضبوط ہوتا ہے تاکہ اس کے سیاسی نقصانات سے بچنے کالائحہ عمل بنایا جا سکے۔
(مترجم :شوذب عسکری )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...