امن مذاکرات اور افغان طالبان کی سیاسی و عسکری قیادت کے مابین اختلافات

مجیب مشال

617

گزشتہ ہفتے طالبان و امریکا کی سیاسی نمائندہ قیادت مذاکرات کے لیے ایک بار پھر جمع ہوئی تو دونوں طرف سے بہت ساری توقعات وابستہ تھیں۔ افغان حکومت اور مغربی ممالک کے سرکاری عہدہ داران کہتے ہیں کہ اگر طالبان افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے رضامند ہوجاتے ہیں تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ امریکا مذاکرات کے مرکزی نقطے  کی طرف بڑھتے ہوئے افغانستان کی سرزمین سے اپنے فوجیوں کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کردے گا۔

طرفین کی مذاکراتی ٹیم کو اس مرحلے تک پہنچنے میں 9 ماہ کا عرصہ لگا اور اس دوران قطر میں بات چیت کے 6 دور ہوئے۔ لیکن حقیقی اور پیچیدہ مرحلہ آنا باقی ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان سیاسی عمل میں اشتراک کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوگا۔ سیاسی دھارے میں شراکت کے بعد طالبان کس نوع کی حکومت تشکیل دیے جانے کی خواہش رکھتے ہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ لیکن طالبان کے دور حکومت میں جو آئین مرتب کیا گیا تھا اس کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باغیوں کے ہاں گورننس کے کیا خدو و خال ہوسکتے ہیں۔اس دستور کی تفصیلات 2001 میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد منظر عام پر آئیں۔

نیویارک ٹائمز نے 14 صفحات پر مشتمل اس آئینی ڈرافٹ کی کاپی حاصل کی ہے جس کی تصدیق طالبان سے قربت رکھنے والے کچھ افراد نے کی ہے ،ان میں بعض وہ بھی ہیں جو اس ڈرافٹ کی تیاری کے عمل کا حصہ تھے۔

مذکورہ آئینی مسودہ واحد ایسا مستند ذریعہ ہے جس سے تحریک طالبان کے سیاسی وژن کا اظہار ہوتا ہے۔ مسودہ میں اگرچہ ایک حد تک نرمی اور بہتری کے تأثرات دیے گئے ہیں لیکن اس سےتعلیم نسواں، انصاف اور اقلیتوں سے رواداری وغیرہ جیسے مسائل کے حوالے سے تحریک کے اندر پائے جانے والے تضادات اور ابہامات کا بھی واضح پتہ چلتا ہے۔ نئے جمہوری مرحلہ میں جب تحریک طالبان تقریباََ پوری طرح حکومت کے کنٹرول میں تھی تب بھی لڑکیوں کی تعلیم جیسے بنیادی مسائل جن کی آئین کی روشنی میں وضاحت ضروری تھی، انہیں یا تو مکمل نظرانداز کیا گیا یا پھر مطلوب توجہ نہیں دی گئی۔ ایک سرکاری اہلکار کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت تحریک کے اثرورسوخ کے باعث کسی داخلی مزاحمت کو دعوت نہیں دینا چاہتی، خصوصا فوج میں شامل بعض سخت عقائد کے حامل افراد کے ردعمل کا خوف ایک اہم وجہ ہے۔

طالبان کے فعال کارکنان کے مطابق تحریک کے اندر افتراق اور اختلافات موجود ہیں۔ ان  کے سقوط کے بعد نئی آئے والی جمہوری حکومت جو ان خواتین واقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو طالبان کے سخت عہد کی طرف لوٹنے سے خووفزدہ ہیں، اِس حکومت کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ کا ایک بڑا سبب داخلی افتراق ہے۔

طالبان کی سیاسی قیادت دو قدم پیچھے ہٹ بھی جائے، عسکری ونگ بہرحال ایسا نہیں کرے گا، اور اگر تحریک تقسیم کا شکار ہوجاتی ہے تو صورتحال بدتر ہوجائے گی

تحریک طالبان کی امارت اسلامیہ 1996 سے 2001 تک باقی رہی۔ یہ مذہبی علما کی سربراہی میں قائم ایک ریاست تھی جس کی ولایت مطلقہ امیرالمؤمنین کہلائی جانے والی شخصیت ملا محمد عمر کو حاصل تھی جو تحریک کے بانی تھے۔ طالبان دور میں نائب وزیر عدل  و انصاف کے طور پہ خدمات انجام دینے والے جلال الدین شنواری جو ابھی بھی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جمہوریت کے ناقد ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ ’’تحریک کا نیا مسلح گروہ امارت اسلامیہ کی واپسی سے کم کسی شرط پر رضامندی ظاہر کرنے کے لیے تیارنہیں ہوگا۔طالبان کا سیاسی ونگ چاہے نرمی دکھائے لیکن مذاکرات کے دور کا حتمی فیصلہ عسکری ونگ کے کمانڈر کریں گے‘‘۔

شنواری کا کہنا ہے کہ طالبان کو انتخابات قبول نہیں ہوں گے۔ وہ امریکیوں سے کہتے ہیں کہ آپ اسلامی حکومت قبول کریں، آپ نے امارت ہم سے چھینی تھی اسی طرح ہمیں واپس کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سیاسی قیادت دو قدم پیچھے ہٹ بھی جائے، عسکری ونگ بہرحال ایسا نہیں کرے گا، اور اگرتحریک تقسیم کا شکار ہوجاتی ہے تو صورتحال بدتر ہوجائے گی۔

جبکہ اس کے بالمقابل افغان حکومتی اہلکاروں کا موقف ہے کہ امارت کی بحالی کو افغان شہریوں کو قبول نہیں۔ افغان پیس کونسل کے سربراہ کریم خلیلی کہتے ہیں وہ امن جو امارت کے زیرسایہ آئے گا وہ امن نہیں کہلاسکتا۔ یہ تو ایک پارٹی کی دوسری کے حق میں دستبرداری ہوگی۔ طالبان سرنڈر کرنے کے لیے تیار نہیں اور افغان عوام امارت کی بحالی نہیں چاہتے۔

20 سال بیت گئے، اس دوران ملک میں قیادت بدلتی رہی۔ اب طالبان یک بار پھر بڑی منظم طاقت بن کر ابھرے ہیں۔ تحریک کے سیاسی قائدین جو دوحہ میں مذاکراتی عمل کا حصہ ہیں اُن میں سے بعض وہ ہیں جو جہاد میں کبھی فرنٹ لائن پر نہیں رہے جبکہ ایک دہائی تک تحریک سے الگ رہے۔ اب ان سب کو ایک مشکل صورحال کے ساتھ اُس عسکری ونگ کے شانہ بشانہ چلنا ہے جس نے افغان حکومت اور اس کی حامی امریکی ویورپی فورسز کے خلاف میدان جنگ میں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

شنواری کو اچھی طرح یاد ہے کہ کیسے طالبان نے اسلام کے نام پر سیاست وحکومت کی متشدد تعبیرات سے فائدہ اٹھایا۔ وہ خود امارت کی دستور ساز مجلس کے رکن تھے۔

1998 میں ملا محمد عمر نے 500 مذہبی علما کو امارت کے آئین کی تشکیل کے لیے راضی کیا تھا۔ یہ لوگ ملک بھر سے جمع ہوئے اور تین دن تک صدارتی محل میں کام کرتے رہے جہاں ملاعمر نے خود کبھی قیام نہیں کیا۔ شنواری کے سٹاف نے پچھلی تمام حکومتوں کے آئینی مسودوں کی کاپیاں جمع کیں  اور نئے دستور کی ترتیب کے لیے علما کو مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کردیا۔ علما نے پچھلے مسودوں سے کانٹ چھانٹ کرکے ایک نیا ڈرافٹ تیار کرلیا۔ جن شقوں کو کاٹا گیا تھا ان میں سے ایک آخری افغان بادشاہت میں رائج قانون بھی تھا جس کے مطابق عورت حکمران بن سکتی تھی، کیونکہ ان کے خیال میں یہ شریعت کے مخالف تھا۔

یہ آئین اصل میں اس نظم کی تشریح تھی جو طالبان نے عملاََ نافذ کر رکھا تھا۔ اس میں کچھ نیا سوچنے یا تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی۔ آئین میں طاقتور ترین امیر کو ریاست کا سربراہ ماناگیا تھا لیکن اس کا انتخاب کیسے ہوگا یہ وضاحت نہیں تھی۔ امیر کے ماحت ایک اسلامک کونسل تھی جو ایک چیف کی سربراہی میں حکومت سنبھالتی تھی۔

افغانستان میں اقلیتوں کے وجود کا اعتراف نہیں تھا۔ دستور میں حنفی اسکول آف تھاٹ کو ریاست کا مذہب قرار دیاگیا تھا جس کے مطابق ملک میں کوئی چیز شرعی تعلیمات کے خلاف نہیں ہوسکتی تھی۔

اگرچہ آئین میں بعض آزادیاں فراہم کی گئی تھیں (جن کی تشریح شرعی تعبیر کی محتاج تھی) لیکن طالبان کا عمل اس کے متضاد تھا۔ ان کے ہاں آزادی کا دائرہ یہ تھا کہ جب تک اس سے کسی اور کی آزادی متأثر نہ ،یا شریعت کی مخالفت نہ ہو۔ اسی طرح ایسے شفاف انصاف کی دستیابی کا وعدہ کیا گیا تھا جس میں استبداد اور جبر کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ اور آزادی اظہار رائے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی جب تک کہ وہ شرعی حدود کے اندر ہو۔ دستور میں ایک شق ٹیلی کمیونیکیشن پرائیویسی کے متعلق بھی درج تھی، حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں فون اور بجلی کی سہولت کہیں کہیں میسر تھی۔ عسکری تربیت اور پرائمری تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

دستور میں ایک خصوصی قانون کے تحت دینی حدود کے اندر خواتین کی تعلیم کی ضمانت دی گئی تھی۔ لیکن حقیقت میں طالبان عہد میں خواتین کا تعلیم حاصل کرنا بہت ہی شاذ تھا۔ طالبان ان عورتوں کو کوڑے مارتے تھے جوپبلک مقامات میں ایسے لباس کے ساتھ نکلتیں جو بدن کو پورا نہیں ڈھانپتا تھا۔

افغان قانونی ماہر غزل حارث کہتی ہیں کہ پرانے افغان آئینی مسودوں میں  بھی کہیں کہیں فقہ کی تنگ اور بنیاد پرست تعبیرات و تشریحات ملتی ہیں جنہیں طالبان نے لے لیا تھا۔ مجموعی طور پہ تحریک کے آئینی مسودے میں گورننس کے متعلق بہت سے تضادات وابہامات جمع ہوگئے ہیں۔

نئے افغان جمہوری آئین میں بھی اس صراحت کے ساتھ کہ ’’ملک میں کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا‘‘ کئی ایسے خلا اور جھول موجود ہیں جن سے مذہب کی مختلف ومتعدد تعبیرات کے لیے راستہ کھلتا ہے۔

طالبان کا اصرار ہے کہ ’’قانون سازی کا اصل وحتمی مصدر شریعت اسلامی ہے‘‘۔ اس سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے ساتھ ہم آہنگی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ غزل حارث کہتی ہیں کہ طالبان نے مختلف دستوروں کے مسودوں میں سے متنوع چیزیں جمع کرکے ان کو مذہب کا لبادہ پہنا دیا ہے، چاہے خارجہ امور کے قوانین ہوں یا معیشت وغیرہ کے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کے آئین میں ریاست سے لے کر فرد کی مذہبی زندگی زندگی تک ہرشے کی وضاحت موجود ہے۔

اس سوال پر کہ کیا طالبان پورے ملک کو امارت اسلامی کی شکل میں واپس ڈھالنا چاہتے ہیں؟ تحریک کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد متذبذب نظر آئے۔ انہوں نے کہا ہمارا مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ اس کا ظاہری ڈھانچہ کیا ہوگا فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وقت آنے پر علما، محققین اور فغان ذمہ دار اہلکار مل کر طے کریں گے۔

نجی انٹرویوز اور افغان سیاستدانوں کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں میں طالبان یہ تأثر دیتے ہیں کہ اصل میں اور قانونی طور پہ اب بھی  حکومت ان کی ہے۔ انہیں جبراََ نکالا گیا ہے۔ پاور اور حکومت میں اشتراک کے اعتراف کے ساتھ وہ امارت کی واپسی چاہتے ہیں۔ لیکن وہ پاور اور حکومت کی جوہری نوعیت و ہیئت پر نظرثانی کے قائل نہیں۔

شنواری کے مطابق وہ امریکی نمائندوں سے کہتے ہیں ’’آپ نے سعودی عرب کو تسلیم کر رکھا ہے ہم بھی اس کے بنیادی ڈھانچے سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر آپ سعودی عرب کو تسلیم کرسکتے ہیں تو ہمیں تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر آپ یہ کرلیں تو اس کے بعد ہم باہمی تعاون، دوستی اور اقتصادی تعلقات کے حوالے سے آپ کی ترجیحات کا خیال رکھیں گے‘‘۔

مترجم: شفیق منصور، بشکریہ: نیویارک ٹائمز

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...