بلوچ لبریشن آرمی عالمی دہشت گرد قرار، پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟
علیحدگی پسند مسلح تحریک بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو امریکا نے عالمی دہشت گرد قرار دیدیا ہے۔ پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ بی ایل اے عام شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو ہدف بنانے میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ تحریک کئی بار پاکستان میں چینی مفادات کو بھی نشانہ بنا چکی ہے۔
یہ پابندی ایسے وقت میں لگی ہے جب وزیراعظم عمران خان 20 جولائی کو امریکا کے پانچ روزہ دورے پر جارہے ہیں۔ کئی ماہرین امریکی فیصلے کی یہ توجیہہ کر رہے ہیں کہ امریکا اس کے ذریعے پاکستان کو واپس اپنےبلاک میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا خارجہ تعلقات کے ساتھ جو بھی ربط ہو، یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کو اندرونی سطح پر تحریک پہ پابندی کے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔
بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دیے جانے سے اسے فنڈنگ اور اس کے ارکان کو سفری سہولیات وغیرممالک میں قیام کے حوالے سے مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان معاشی اور سفارتی طورپہ اتنی مضبوط حیثیت نہیں رکھتا کہ وہ اس فیصلے سے بھرپور استفادہ کرسکے اور اسے عملاََ مؤثر ثابت کرپائے۔ زیادہ سے زیادہ وہ ملک کے اندر اس بنیاد پر کوئی کاروائی عمل میں لاسکتا ہے جو وہ پہلے ہی کر رہا ہے۔ ملک سے باہر موجود تحریک کے عناصر یا ان کی سرگرمیوں کو روکنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ نہ یہ امکان ہے کہ امریکا ان ممالک پر کوئی دباؤ ڈالے گا جن پر تحریک کی پشت پناہی کا الزام ہے۔
اس فیصلے کے دو اور پہلو بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مزید ایک عالمی دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم کا نام پاکستان سے جڑا ہے۔ دوسرا یہ کہ ریاست کو اِسی زاویے پر توجہ مرکوز کرکے بلوچستان میں طاقت کا مظاہرہ نہیں کرناچاہیے۔ اس مسئلے کو بلوچستان کے مقامی تناظر اور وہاں کے مسائل کے آئینے میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی کہ پالیسی کا مرکز اور موضوعِ بحث دہشت گردی نہیں، بلکہ امن اور بلوچستان کے مسائل ہونے چاہئیں۔ اسی سے شدت پسندی کو شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے