اے آر کارنیلئس، ایک مسیحی چیف جسٹس جو خود کو آئینی طور پر مسلمان کہتے تھے

1,287

جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئس8 مئی 1903کے روز آگرہ شہر میں ایک اینگلو انڈین خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان متمول، پڑھا لکھا اور مشہور مسیحی خاندان تھا جسے اس وقت کے ہندوستانی رومن کیتھولک فرقے میں معزز مقام حاصل تھا۔ آپ نے الہٰ آباد یونیورسٹی سے قانون اور ریاضی کی تعلیم مکمل کی بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ کی مشہور کیمبر ج یونیورسٹی چلے گئے جہاں قانون کے شعبہ میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے ہندوستان واپس آئے۔ برطانوی سلطنت کے زیر اہتمام ہندوستان  کے اعلیٰ اذہان کے لئے جس شعبے میں کشش تھی وہ انڈین سول سروس کا شعبہ تھا۔ آ پ نے بھی مقابلے کا امتحان پاس کیا اور ہندوستانی سول سروس میں شامل ہوگئے۔ آپ کی پہلے پہل تعیناتی پنجاب میں بطور کمشنر ہوئی تھی۔ بعد ازاں آپ  اپنے شعبے یعنی عدلیہ میں چلے گئے۔

جب پنجاب میں تحریک پاکستان نے زور پکڑا تو اس خطے کے دیگر مسیحی رہنماؤں کی مانند آپ نے بھی تحریک پاکستان کی حمایت کی۔  1940 میں مسلم لیگ کے لاہور میں ہوئے تاریخی جلسے میں جہاں ہزاروں مسلمانوں نے ہمراہ پنجاب کی مسیحی برادری نے بھی بھرپور شرکت کی تھی آپ نے اس میں پیش ہونے والی قرارداد کے مسودے کی تیاری میں مسلم لیگ اور قائداعظم کا ساتھ دیا تھا۔

جب پاکستان قائم ہوگیا تو آپ ان چند افراد میں شمار ہوئے  جنہوں نے پہلے پہل پاکستانی شہریت قبول کی تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان کے آئین کی تیاری کا فریضہ تحریک پاکستان کے بہترین سپاہی اور قائد اعظم کے قابل اعتماد ساتھی جوگندر ناتھ منڈل کی نگرانی میں شروع ہوا۔ انہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی کی صدارت کی۔ جسٹس کارنیلئس ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اقلیتی برادری کے حقوق اور فرائض پر آپ کے خیالات اور تحریک کے پاکستان کے ایک اور مسیحی رہنما جوشوا فضل الدین  کے خیالات بہت حد تک مماثل تھے۔

سن 1954میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی بار ملک میں دستور ساز اسمبلی تحلیل کی تو اسپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے فیصلے کے خلاف  سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جارج کانسٹنٹائین جوکہ ایک آئرش برطانوی تھے انہوں نے گورنر جنرل کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ گورنر جنرل نے اس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا اور وہاں چیف جسٹس منیر نے مشہور زمانہ بدنام نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل اور ان کے ساتھیوں کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی۔ سپریم کورٹ کے جس بینچ کے سامنے اس معاملے کی شنوائی ہوئی اس میں جسٹس کارنیلئس بھی شامل تھے۔ آپ  وہ واحد جج تھے جنہوں نے نے اس پانچ رکنی بینچ کے فیصلے سے اختلاف کیا اور اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ آپ کا اختلاف آج بھی جمہوریت پسند اور عوامی حکومت کے حامیوں کے لئے درخشاں اور روشن مثال رکھتا ہے۔

جسٹس اے آر کانیلئس

آپ کو فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1960 میں پاکستان کا چوتھا چیف جسٹس مقرر کیا اس عہدے پر آپ نے 8 سال تک خدمات سرانجام دیں۔

آپ کا شمار ایسے ججز اور قانون دانوں میں ہوتا ہے جو سماج میں امن، انصاف اور استحکام پر یقین رکھتے ہی۔ آپ قانون کو اخلاقیات کا نمائندہ اور محافظ تصور کرتے تھے۔ آپ کی رائے تھی کہ قانون کو سماجی ثقافت اور حساسیت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اگرچہ آپ مسیحی تعلیمات پر ایمان رکھتے تھے مگر پاکستان میں مسلم اکثریت ہونے کے سبب آپ کی یہ رائے تھی کہ شرعی اور اسلامی قوانین کو پاکستان کے نظام قانون کا حصہ ہونا چاہیئے۔ آپ قانون کو سماجی نظم اورانصاف کی فراہمی کے لیے ایک مضبوط ذریعہ سمجھتے تھے۔

1965 میں آسٹریلیا میں ہوئی دولت مشترکہ کی جیورسٹ کانفرنس میں آپ نے پاکستان کی نمائندگی کی اور بیا ن کیا کہ عالمگیر انسانی معاشرے کے قیام کے لئے اسلا م کی تعلیمات بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے یہ بھی بیان کیا کہ میں خود بھی ایک آئینی مسلمان ہوں اور پاکستان میں بسنے والے تمام افراد آئینی طور پر مسلمان ہیں اور انہیں ملک میں یکساں مذہبی اور شہری آزادیاں حاصل ہیں۔

پاکستان میں لیبر اور اسپورٹس کے قوانین کے نفاذ میں بھی آپ کا اہم کردار ہے۔ آپ پاکستان کرکٹ بورڈ کی پہلی عبوری کمیٹی کے سربراہ رہے۔ آپ نے ساری عمر ایمانداری سے کام کیا۔ آپ کی وفات21 دسمبر 1991کو لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ہوئی جہاں آپ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی کے آخر تک مقیم رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ہلال پاکستان کے اعزاز سے نوازا۔

ملک کو درپیش تقسیم اور نفرت کے بیانئے کے خاتمے کے لئے لازم ہے کہ ان تمام افراد کی خدمات کو شامل نصاب کیا جائے جنہوں نے پاکستان کے قیام اور تحفظ کے لئے بلاتفریق مذہب و نسل خدمات سرانجام دی ہیں۔ جسٹس کارنیلئس پاکستانی عدلیہ کے ان چند ناموں میں شمار ہوتے ہیں جن کی ایمانداری، عزم اور پاکستان کےلئے بے لوث خدمات سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ وہ ہردور میں ہر طرح کے لوگوں کے لئے معزز اور محترم رہے ہیں۔

ملک کے جمہوریت پسند ہوں یا مذہب پسند یا وہ لوگ جو اس ملک کی متنوع روایات کو اس کی بقا کے لئے لازم خیال کرتے ہیں سبھی کی رائے میں جسٹس کارنیلئس پاکستان کے عدالتی نظام کا سب سے معتبر نام ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...