شادی سے متعلق مسائل میں قانون سازی اور اسلامی نظریاتی کونسل
چند دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے 12 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ سنایا کہ دوسری شادی کے لیے بیوی کی اجازت کے باوجود مصالحتی کونسل سے بھی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سے قبل کم عمری کی شادی کے بارے میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل منظور کیا تھا، جو پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
کم عمری کی شادی کے بل پر وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا تھا کہ اس مجوزہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا جائے تاکہ وہ پرکھ سکے سکے کہ یہ اسلامی ہے یا نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پریس ریلیز جاری کی کہ کم عمری کی شادیاں یقینا کئی مسائل کی وجہ بنتی ہیں مگر مسئلے کے حل کے لیے قانون سازی کی نہیں بلکہ آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسری شادی کے متعلق عدالتی فیصلے پر کونسل کے اراکین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہ مصالحتی کونسل سے اجازت قانونی ضرورت ہے لیکن شریعت کسی سے اجازت لینے کی پابند نہیں بناتی۔
پاکستان میں ایک سے زائد شادیاں نارمل کلچر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر اس سے جنم لینے والے مسائل پر بات کی جائے تو جائز یا ناجائز کے حکم کے ساتھ بحث کو سمیٹ دیا جاتا ہے۔ یا اس کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاتا ہے کہ اس سے نادار اور مجبور خواتین کو مدد مل جاتی ہے۔ حالانکہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس سے کیسے سماجی و نفسیاتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عورتوں کی زندگیاں کس طرح متأثر ہوتی ہیں، اکثریت اس پر غور کرنے کو اہمیت نہیں دیتی۔نادار ومجبور خواتین کی مدد کا طریقہ صرف یہی ایک نہیں ہوسکتا۔ ایک سے زائد شادی کے مسئلہ پر ملائشیا کے سسٹرز اِن اسلام گروپ کی ایک سروے سے حاصل کی گئی تحقیق اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے اس میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ بظاہر تو انصاف اور محبت کی ایک آئیڈیل صورتحال بناکر پیش کی جاتی ہے لیکن عملاََ ایک سے زائد شادیوں کی وجہ سے خواتین اور بچوں کی زندگیوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں معاشی، ذہنی یا صحت کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک سے زائد شادیوں والے گھروں کی صورتحال کا جائزہ اس سے مختلف نتائج نہیں دیتا۔
پاکستان میں 21 فیصد خواتین کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے اور تین فیصد کی پندرہ سال کی عمر سے بھی پہلے۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتیں اور ان پر گھریلو تشدد کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ کم عمری میں ماں بننا لڑکیوں کی زنگی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ خصوصا دیہی علاقوں میں معاملہ زیادہ سنگین ہے جہاں صحت کی بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں ہوتیں۔
زیادہ تاخیر سے اور مجبوری کے تحت کہ جب رائے عامہ ہی انحراف کر رہی ہو رائے بدل کر اسے اجتہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا
کم عمری اور ایک سے زائد شادیوں کے قضیے میں بلاشبہ مذہب کی راہنمائی اہم ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مسائل کے حل میں اس کی طرف رجوع کریں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اسی قدر اہم ہے کہ سماجی متغیرات، بدلتے ہوئے حالات اور جدید تحقیق کے نتائج کو مدنظر رکھا جائے اور مذہبی فریضے اجہتاد کا راستہ اپناتے ہوئے بعض مسائل پر نظر ثانی کی جائے۔ دین اسلام جب سماج کے لیے سہولتیں پیدا کرتا ہے تو ان کو کام میں لانا واجب ہے۔ اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار اہم ہے۔ کونسل کے اراکین اہل علم کی یہ ذمہ بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل میں مقاصدی فقہ کے تناظر میں اجتہاد کریں اور عوام کی راہنمائی کریں۔ بجائے اس کے کہ ایسے مبہم موقف اختیار کیے جائیں کہ جن سے لوگ تذبذب کا شکار ہوں۔ کم عمری اور ایک سے زائد شادیوں کے مسئلے میں کونسل نے جو اعلامیے جاری کیے ہیں وہ غیر واضح اور مبہم ہیں۔ کم ازکم اسلامی نظریاتی کونسل کو جرأت مندانہ اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے، جو بالضرور اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہو لیکن جب ایسے مسائل سامنے ہوں کہ جن پر تمام مسلم دنیا میں بحث ہو رہی ہو اور مقاصدی فقہ کی روشنی میں مسئلے کے حل کاایک اور پہلو بھی نکلتا ہو تو اسے اپنالینا چاہیے۔ صرف اس لیے کہ غالب اور مشہور رائے سے اختلاف ان کے حلقے میں ان کی اثر پذیری کو کم کرے گا یا کسی طبقے سے تنقید کا سامنا ہوگا، نئی رائے کو مسترد کردینا ٹھیک نہیں ہے۔ زیادہ تاخیر سے اور مجبوری کے تحت کہ جب رائے عامہ ہی انحراف کر رہی ہو رائے بدل کر اسے اجتہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
کم عمری کی شادی کے حوالے سے پوری دنیا میں علما کی قدیم رائے ایک ہی ہے کہ شادی کی عمر کی تحدید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے مسلم دنیا میں اس پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ سعودی عرب میں 2012 میں جامہ امام محمد بن سعود میں فقہی کانفرنس میں اس پر اتفاق کیا گیا تھا کہ عمر کی تحدید شریعت کے منافی نہیں ہے۔ رواں سال جنوری میں مجلس شوریٰ نے بِل بنا کر حکومت کو پیش کردیا ہے جس میں سفارش کی گئی ہے شادی کی عمرکا تعین کر دیا جائے۔ اس کے بعد سعودی عرب میں اسے قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ اپریل میں علما کے اتفاق کے ساتھ پارلیمنٹ میں قانون پاس کیا گیا کہ ٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی جرم تصور ہوگی۔ موروکو میں پہلے سے یہ قانون موجود ہے۔ مصر اور دیگر کئی عرب ممالک میں قانون تو پاس نہیں ہوا لیکن اس پر کچھ کڑی شرائط لاگو ہیں، وہاں عمر کی تحدید کا قانون بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ایک سے زائد شادشوں کے معاملہ میں محمد عبدہ اور محمد رشید رضا کے فتوے ہیں کہ عصر حاضر میں یہ جائز نہیں۔ مقاصدی فقیہ علال الفاسی کا موقف بھی یہی تھا۔ فقیہ محمد بن عاشور نے کتاب التحریر والتنویر میں رائے دی ہے موجودہ ددور میں حاکم اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر مذہبی اداروں کو چاہیے کہ اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے ان مسائل پر نظرثانی کریں۔ جو اہل علم ان سے مختلف رائے رکھتے ہیں ان کو پڑھیں۔ ان مسائل سے متعلقہ سماجی شعبوں کے اہل علم سے رابطہ کرکے تحقیق کریں۔ اگر دین کسی مسئلے میں کوئی سہولت و اجازت دیتا ہے تو اس کا اظہار کرنے میں نہ ہچکچائیں۔
فیس بک پر تبصرے