خواجہ سرا کمیونٹی نئے مالی سال میں مکمل طور پر نظر انداز
چند روز قبل خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے دو خواجہ سراؤں کو زخمی کردیا۔ زخمی ہونے والے ایک خواجہ سرا کو ٹانگ اور پیٹ میں چار گولیاں لگیں جبکہ سپوگمئی نامی خواجہ سرا بھی فائرنگ میں شدید زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لئے مردان میڈیکل کمپلیکس پہنچایا گیا،جہاں ان کا علاج کیاگیا۔ اس سے قبل عیدالفطر کے روز شکیلہ نامی خواجہ سرا پر بااثر افراد نے تشدد کیا اور ان کے بال کاٹ دیئے۔
مردان واقعہ میں زخمی ہونے والے خواجہ سرانے ہسپتال سے گھر منتقل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ جب انہیں زخمی حالات میں ہسپتال پہنچایا گیا تو ہسپتال کے عملے کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ مجھے مردانہ وارڈ میں منتقل کیا جائے یا زنانہ وارڈ میں رکھا جائے۔ تاہم بعدازاں مجھے انہوں نے ایک الگ کمرے میں صرف اس وجہ سے منتقل کیا کہ آپ کی تیمارداری کےلئے خواجہ سرا آئیں گے تو اس صورت میں باقی مریض تنگ ہوں گے۔ انہوں نے الزام عائد کہ جب انہیں میڈیکل ٹیسٹ کے لئے لیکر جانا تھا تو ایک میل ڈاکٹر نے انہیں ران سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی جس پر میں نے ان سے کہا کہ میں زنانہ خواجہ سرا ہوں آپ مجھے یہاں سے نہیں پکڑ سکتے۔ مجھے یا تولیڈی ڈاکٹر اٹھائیں یا میری خواجہ سرا دوستوں کو اٹھانے دیں تو اس پر انہوں نے مجھے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا۔ اور اسی روز مجھے ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہسپتالوں میں خواجہ سراوں کے لئے الگ وارڈ بنائے جائیں تاکہ وہ زخمی حالات میں تذلیل سے بچ سکیں۔
یہ صرف کالجیئے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرا خواجہ سرا معاشرتی رویے سے نالاں ہے اور سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں امتیازی سلوک کا گلِہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 میں خواجہ سراوں پر تشدد، حملے، جنسی طور پر ہراساں کرنے، ریپ، سہولیات تک رسائی میں روکاوٹ سمیت مختلف نوعیت کے 350 سے زائد واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں چھ خواجہ سراوں کا قتل اور آٹھ خواجہ سراوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ٹرانسجینڈر ایسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری آرزو کا کہنا ہے کہ بلند و بانگ دعووں کے برعکس موجودہ حکومت خواجہ سراوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ خواجہ سراوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے موثر قانون سازی کرے۔ خواجہ سراوں پر تشدد کے واقعات میں اضافے سے کمیونٹی میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2018 میں اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے جس میں کاروبار مالکان کی جانب سے خواجہ سراوں کے ساتھ تعصب برتنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنا شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس یا دیگر دستاویزات میں اپنی مرضی کی جنس یعنی مرد، خاتون یا خواجہ سرا لکھوانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ خواجہ سراوں کے تحفظ سے متعلق مذکورہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے پیش کیا تھا جس میں گھر یا گھر سے باہر خواجہ سراوں کو ہراساں کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے مالی سال 2016-2017 میں پہلی مرتبہ خواجہ سراوں کی فلاح و بہبود کےلئے دو سو ملین روپے مختص کئے تھے لیکن 2017-2018 مالی سال میں کم کرکے ساٹھ ملین روپے کردیے گئے۔ اس کے علاوہ انہیں صحت انصاف کارڈ اور قبرستان کےلیے الگ جگہ دینے کے وعدے بھی کیے گئے تھے۔
خواجہ سراوں کے حقوق کےلئے دن رات اور انتہائی مشکل حالات میں کوششیں کی گئیں ہیں لیکن اب تک اس معاشرے میں انہیں احترام سےجینے کا حق نہیں ملا ہے
اگرچہ صوبائی حکومت نے وعدے کے مطابق اس سال کے شروع مہینوں میں خواجہ سراؤں کو صحت انصاف کارڈ فراہم کردیے ہیں۔ لیکن اگر زیادہ تر وعدے صوبائی حکومت نے نہ صرف بھلا دیے ہیں بلکہ بعض کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ موجودہ بجٹ میں خواجہ سراوں کو یکسر نظرانداز کیاگیاہے۔ 18 جون کو صوبائی اسمبلی میں نوسو ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا جس میں 319 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کےلئے مختص کیے گئے ہیں۔ مگر خواجہ سراوں کی فلاح و بہو کےلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ ٹرانس ایکشن کمیونٹی کی سربراہ فرزانہ کے مطابق صوبائی حکومت نے بجٹ میں ہمیں محروم رکھا جس کی توقع نہیں تھی۔ 2009ء سے مسلسل خواجہ سراوں کے حقوق کےلئے دن رات اور انتہائی مشکل حالات میں کوششیں کی گئیں ہیں لیکن اب تک اس معاشرے میں انہیں احترام سےجینے کا حق نہیں ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا حکومت نے شناختی کارڈ میں خواجہ سراوں کے لئے الگ خانہ متعارف کرایا ہے لیکن اس کے باوجود خواجہ سراوں کو دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دینے کےلئے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ صوبائی حکومت نے گزشتہ چھ سال سے ہمارے لئے صرف وعدے اور اعلانات ہی کئے ہیں۔ حکومت نے نہ تو خواجہ سراوں کے تحفظ کےلئے عملی اقدامات کیے اور نہ ہی خواجہ سراوں کے رہائشی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ صوبائی حکومت نے سال 2016-2017 کے بجٹ میں خواجہ سراوں کی فلاح و بہبود اور بحالی سنٹر کے لئے بیس کروڑ روپے مختص کئے تھے مگر وہ رقم کہاں، کب اور کیسے خرچ ہوئی انہیں کچھ نہیں پتہ۔ سال 2017-2018 کے بجٹ میں خواجہ سراوں کےلئے تقریبا چھ کروڑ روپے رکھے گئے تھے مگر اس فنڈ کو بھی استعمال نہیں کیا گیا، نہ بحالی سنٹر بنا اور نہ ہی کوئی منصوبہ شروع کیا گیا۔ سال 2019-2020 کے بجٹ میں خواجہ سراوں کو محروم رکھنے پر ان میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے تیمورکمال کا کہنا تھا کہ ہماری اس حکومت سے بہت سی توقعات تھیں کیونکہ اس حکومت نے اپنے پچھلے دور میں خواجہ سراؤں کیلئے بہت اچھے منصوبوں کا اعلان کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ حکومت بھی دوسروں سے مختلف نہیں اور ان کے وعدے اور دعوے صرف باتوں کی حد تک ہیں۔
فیس بک پر تبصرے