علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

865

علم نافع در حقیقت وہ علم ہے جس کا نفع فرد سے قوم تک، اور قوم سے قوموں تک پہنچتا ہے۔ نفع رسائی جب تک قائم رہتی ہے، اس وقت تک نفع رسا قوم کا دنیا میں غلبہ و اقتدار قائم رہتا ہے۔ دنیا میں برتری و بلندی کا ذریعہ فقط علم نافع ہے۔ علم کو دین و دنیا میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسانیت کے لیے فائدہ مند و فیض رساں ہے تو وہ علم مذہب کی نظر میں بھی پسندیدہ ہے۔ اگر  فائدہ مند و فیض رساں نہیں ہے تو وہ پسندیدہ نہیں ہے خواہ اس پہ مذہب کی مہر ہی کیوں نہ لگی ہو۔

دورِ انبیاء میں، سائنس و ٹیکنالوجی کا عروج دور حاضر کی طرح نہ تھا لیکن کائناتِ ارض و سما میں تدبر و تفکر اور غور و خوض اس وقت بھی پسندیدہ مشغلہ تھا اور اس کی تحسین الوہی کتب میں اب بھی موجود ہے۔ قبل از نبوت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی ”تحنث” فرمایا کرتے تھے یعنی صفاتِ الٰہی پہ غور و خوض اور مقصدِ حیات انسانی جیسی گتھیوں کو سلجھانے کی فکر انہیں بھی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام بھی ستاروں، چاند اور سورج کو دیکھ کر ان پہ گفتگو فرماتے اور لوگوں کو حقیقی خالق و مالک کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ قرآن مجید کی پہلی وحی پانچ آیات پر مشتمل ہے اور ان پانچ آیتوں میں علم، تعلیم اور قلم کا ذکر موجود ہے۔

اقرء سے آغاز کر کے تعلیم پہ پانچویں آیت کا اختتام بتا رہا ہے۔ رب تعالیٰ کے نزدیک انسان کا علم سیکھنا، کتاب پڑھنا اور قلم سے لکھنا کتنا پسندیدہ ہے۔ مقامِ افسوس سے زیادہ مقامِ حیرت ہے کہ مسلمان کتاب و قلم اور علم و تعلیم سے دور کیسے ہو گیا؟ رب تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بتا دیا جاننے والے نہ جاننے والے نابینا و بینا، اندھیرا و اجالا، برودت و حرارت کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ انسانی شرف علمیت میں ہے جہالت میں نہیں ہے،تحرُّک میں ہے تحجُّر میں نہیں ہے۔

ہر علم انسانیت کے لیے اتارا گیا کہ اس میں انسانیت کی بھلائی اور فلاح ہے

علم خود صاحب فضیلت ہے خواہ کائنات کا علم ہو یا انسان کا، سائنس کا ہو یا قرآن کا۔ ہر علم علم نافع ہے کیونکہ ہر علم ایک “علیم و خبیر” تک رسائی کا ذریعہ بنتا ہے یا پھر  مخلوقِ خدا کی خدمت کا شرف اس علم نافع سے نصیب ہوتا ہے۔ میڈیکل سائنس کا علم کیسے غیر اہم ہو سکتا ہے جو دنیا سے مہلک اور خطرناک بیماریوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جس سے انسانیت محفوظ، صحت مند اور توانا زندگی بسر کرتی ہے۔ انجینئرنگ کا علم کیسے غیر ضروری قرار دیا جا سکتا ہے جس سے انسان رابطوں میں آسانی پاتا اور وسائل علم تک پہنچتا ہے۔ قرآن وسنت کے علم کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ جو خدا کی ہدایت و معرفت کا مضبوط و مستحکم ذریعہ ہے۔ ہر علم انسانیت کے لیے اتارا گیا کہ اس میں انسانیت کی بھلائی اور فلاح ہے۔

مذہب و سائنس کے متضاد و متخالف ہونے کا نظریہ دو بنیادوں پہ وجود میں آیا۔ ایک بنیاد سائنس و ٹیکنالوجی کا عروج مغرب سے ہوا اور مغرب کو مذہب بیزار معاشرہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کو تقویت دینے میں بلا شبہ خود مغربی مفکر ین کا فلسفہ اور  نظریات کا بھی عمل دخل شامل ہے۔ دوسرا یہ کہ مغرب میں اہل کلیسا نے سائنس کو اپنے مذھب کی تشریحات کا پابند کرنا چاہا۔ ہر نئی ایجاد واکتشاف کو انہوں نے مذھب کے وضع کردہ اُن تصورات کے خلاف قرار دیا جو انہوں نے قائم کررکھے تھے، اس لیے سائنسدانوں پہ کفر و زندیقیت کے فتوے لگا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا اور بہت سوں کو قید میں ڈال دیا۔

یاد رکھئیے! قرآن مجید نے ”علما” کا خطاب ان لوگوں کو دیا ہے جو کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں۔ قرآن مجید جب قصہ آدم کو بیان کرتا ہے تو آدم کو ”اسماء” سکھانے کا بھی ذکر کرتا ہے۔ جس سے مراد ”تکوینی علوم” ہیں یعنی کائنات سے متعلق علوم جو اللہ نے آدم کو سکھائے گویا یہ انسان کا شرف ہے کہ وہ علم حاصل کرے اس میں کسی قسم کی تفریق متوازن سوچ اور رویہ نہیں ہے۔ ہر وہ جانکاری جو مخلوق کی خدمت اور خالق کی معرفت کا سبب بنے اس سے بڑھ کر علم نافع کیا ہو سکتا ہے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...