بدلتا ہوا علاقائی منظرنامہ اور پاکستان کی مشکلات
رواں ہفتےکرغیزستان کے دارالخلافہ بشکیک میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بھارت اور پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی اناؤں کے خول سے باہر نکل کر خوشگوار تعلقات کے آغاز کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے لیکن ہر دو وزراے اعظم نے یہ موقع گنوا دیا۔
پاکستانی حکومت نے کئی مواقع پر بھارت کی جانب جذبہ خیر سگالی کے تحت امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن ہٹ دھرمی پر مبنی بھارتی رویے نے اس تاثر کو مضبوط کیا ہے کہ بھارت کی واحد موجودہ پالیسی پاکستان کو سفارتی تنہائی کی طرف دھکیلنا ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ علاقائی و عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندی میں پاکستان کسی اہم کردارکا حامل بن کر کسی طورسامنے نہ آئے۔ تاہم کئی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ امریکا اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی کشمکش اور معاشی عدمِ تحفظ کے خطرات جنوب ایشیائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں جہاں خود بھارت بھی اپنے موزوں کردار و مقام کے تعین کی تگ ودو میں مصروف ہے۔
پاکستان کی حالیہ مشکل یہ ہے کہ دگرگوں معاشی و سیاسی صورتِ حال کے سبب وہ مقامی سیاست میں بدلاؤ کے اس اہم مرحلے میں فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ افغانستان میں کی گئی سیاسی سرمایہ کاری کا بدلہ پاکستان کو محض اس صورت میں ملا ہے کہ وہ افغان امن عمل میں طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکے۔ اس صورتِ حال کے باوصف ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیر ریاستی عناصر کو مدد و حمایت فراہم کرنے کی گذشتہ پاکستانی پالیسی غلط ثابت ہوئی ہے۔
خارجہ پالیسی سازی کے میدان میں پاکستان کو اس وقت تین طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ امریکا ایران تصادم نہ صرف پاکستان کو جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی کھینچا تانی کا حصہ بننے پر مجبور کرے گا بلکہ یہ صورتِ حال ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے مابین توازن برقرار رکھنے کی پاکستانی صلاحیت کابھی امتحان ثابت ہو گی۔ دوسرا امریکا اور چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی کشمکش کے سبب پاکستان کے لیے ہر دو ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا ایک مشکل کام ہو گا۔ پاکستان کے لیے یہ بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ امریکا کے ساتھ کم سے کم درجے کے تعلقات برقراررکھنے میں کامیابی حاصل کرپائے۔ تیسرا اور غالباً سب سے بڑامسئلہ بھارت کی جانب سے کھڑی کی گئی مشکلات ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ ’ دہشت گردی‘ اور دیگر عوامل کی بنیاد پر پاکستان کو جنوب ایشیائی سیاست سے ہمہ طور نکال باہر کرے۔ یہ چیلنج افغانستا ن اور بھارت کے باہمی گٹھ جوڑ کی صورت میں مزید گمبھیر ہوجاتا ہے۔
شمال مغرب کی جانب تعاون و شراکت کا ہاتھ بڑھانے کے باوجود پاکستان کو جنوب ایشیائی خطے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر لینا چاہیے
جنوبی ایشیا میں امریکا کا سب سے اہم اتحادی بھارت ہے اوربظاہر امریکا پاکستان کو پہلے ہی اپنے جنوب ایشیائی دوستوں کی فہرست سے نکال چکا ہے۔ حال ہی میں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے جس میں پاکستان کو چینی اتحادی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ خطے میں چین اور روس کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا پاکستان کے علاوہ دیگر تمام جنوب ایشیائی اقوام کے ساتھ شراکت دارانہ تعلقات کے قیام کے لیے تیار ہے۔بھارت کے علاوہ تمام جنوب ایشیائی ریاستیں ایسےکوئی تزویراتی یا سیاسی عزائم نہیں رکھتیں کہ امریکا کے ساتھ تزویراتی سطح پر جڑنا ان کی ضرورت ہو، جبکہ امریکا کے ساتھ معاشی تعلقات کی استواری بھی ان ریاستوں کی دیرینہ خواہشات میں شامل نہیں ہے۔ عشروں پر محیط پاک امریکا تعلقات کئی حوالوں سے منفرد رہے ہیں اوران کی نوعیت ہمیشہ پیچیدہ رہی ہے تاہم حالیہ دنوں میں یہ تعلقات آزمائشی مراحل سے گزررہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں امریکی اقدامات یقینی طور پربھارت کے ساتھ شراکت کے تحت عمل میں لائے جاتے ہیں جبکہ بھارت کسی بھی قیمت پر پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ خلیجِ بنگال منصوبہ برائے کثیر الجہتی تکنیکی و معاشی تعاون (Bay of Bengal Initiative for Multi-Sectoral Technical and Economic Corporation) کا مبینہ آغاز پاکستان کو علاقائی معیشت و سیاست سے علیحدہ کرنے کی بھارتی کوشش ہے اور اس منصوبے کو جنوب ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم(SAARC) کا متبادل بھی کہا جارہا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس منصوبے کو درپیش کئی ایک مسائل کی موجودگی میں بھارت اپنی اس کوشش کوکس طرح موثر بنا سکتا ہے۔ جبکہ علاقائی معاشی مواقع میں تنوع اور وسع کے پیشِ نظر سری لنکا، نیپال اور مالدیپ بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرچکےہیں۔
پاکستان کو درپیش تین بنیادی مسائل اس قدر سیدھے نہیں ہیں بلکہ یہ بہت زیادہ پیچیدہ اورگنجلک ہیں۔ پاکستان کی داخلی سلامتی اور معاشی استحکام پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ یہ چیلنجز بدلتی ہوئی علاقائی معاشی و سیاسی صورتِ حال میں موزوں کردار ادا کرنے اور مستقبل کے تناظر میں اپنی سمت کے تعین میں پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔
اگر بھارتی جارحیت اور امریکی دباؤ برقرار رہتا ہے تو پاکستان کے پاس اپنے ہمسایہ مغربی اور شمالی ممالک کی جانب سیاسی شراکت کے لیے ہاتھ بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ بدقسمتی سے یہ ممالک تنازعات کی آماجگاہ ہیں۔ ایران ہو، افغانستان یا پھر وسط ایشیائی ریاستیں، ان ممالک کا علاقائی معاشی تناظر کئی سکیورٹی، معاشی و سیاسی وجوہات کی بنا پر انتہائی محدود ہے۔ اس سارے خطے کا سیاسی استحکام تاپا پائپ لائن(ترکمانستان، افغانستان، پاکستان ، بھارت پائپ لائن منصوبہ) اور پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے بین الریاستی توانائی منصوبوں کے ادراک سے وابستہ ہے جو ان تمام ممالک کو باہمی انحصار کے ایسے بندھن میں باندھ دے گا جہاں کوئی بھی غلطی تمام ممالک کو مہنگی پڑے گی۔ ایسے منصوبوں کے تناظر میں پاکستان کی اہمیت اور طاقت یہ ہے کہ اسے ایک اہم گزرگاہ (ٹرانزٹ ملک) اورصارف (End-user) کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل میں مصالحانہ کردار ادا کرکے خطے کی سلامتی کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔
ایک خاص سطح پر پاکستان میں کئی ماہرین چاہتے ہیں کہ شناختی اور نظریاتی بنیادوں پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ شمال مغرب کی جانب ہو جائے۔ چین اور چند وسط مشرقی اقوام کے درمیان بڑھتی ہوئی گہری وابستگی کے ضمن میں ایک نئی حکمران اشرافیہ زور پکڑ رہی ہے جو اپنے روایتی پیش روؤں کے برعکس مغرب کی طرف میلان نہیں رکھتی۔ کئی اہم اداروں میں داخلی سطح پر ایسی آوازیں بھی سامنےا ٓرہی ہیں جو آزادانہ اور وسیع پیمانے پر دنیا کے ساتھ تعلقات استواری کی خواہش مند ہیں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے پر مصر ہیں۔ یہ آوازیں ملک کی معاشی، سماجی اور سائنسی مضبوطی اور استحکام پر توجہ مرکوز رکھنے پر زور دے رہی ہیں۔
معروضی طور پر پاکستان کے پاس شمال مغرب میں علاقائی معاشی بلاکس کے قیام کے کئی مواقع موجود ہیں۔ مثلاً وسط ایشیائی علاقائی معاشی تعاون منصوبہ(CAREC) علاقائی اقتصادی تعاون کا ایک موثر پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔ یہ پروگرام گیارہ ممالک (افغانستان، آذربائیجان، چین، جارجیا، قازقستان، کرغیزستان، منگولیا، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان) کے مابین معاشی شراکت کا منصوبہ ہے جس کی بنیاد ’’اچھے ہمسایے، اچھے شراکت دار، اچھے مواقع‘‘ جیسے نعرے پر ہے۔
شمال مغرب کی جانب تعاون و شراکت کا ہاتھ بڑھانے کے باوجود پاکستان کو جنوب ایشیائی خطے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر لینا چاہیے۔ جنوبی ایشیا پاکستان کے لیے نہ صرف تجارت اور باہمی ربط کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ ملک کے لیے تزویراتی حوالے سے بھی انتہائی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ چین بھی پاک چین اقتصادی راہداری کو جنوبی ایشیا کے ساتھ جوڑنا زیادہ سود مند خیال کرتا ہے کیوں کہ اس کا ماننا ہے کہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع تنازعات میں گھرے ممالک کی بجائے جنوب ایشیائی خطے کے ساتھ اقتصادی راہداری کا رابطہ اس کے پیداواری و معاشی فوائد میں اضافے کا باعث بنے گا۔ علاوہ ازیں چین سمجھتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ساتھ معاشی و تجارتی ربط خطے میں استحکام کا باعث بنے گا اور علاقائی ممالک کے مابین تناؤ میں کمی واقع ہوگی۔
اگر چین ایک خطہ، ایک راہداری اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں کی تجارتی و معاشی صلاحیتوں میں اضافہ چاہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو چین کو جنوبی ایشیا میں موجود تنازعات کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی۔ پاک بھارت تناؤ کے خاتمے میں فعال چینی سفارتی کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ علاقائی معیشت کے فوائدو ثمرات میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ علاقائی سیاست میں سرمایہ کاری کی جائے۔
مترجم: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان
فیس بک پر تبصرے