قانونی اور سیاسی خلا قبائلی اضلاع میں مسائل کا اصل سبب ہیں
چند ماہ قبل مملکت کے بندوبستی نظام میں ضم کئے گئے قبائلی اضلاع پر خیبرپختونخوا کی صوبائی انتظامیہ ابھی اپنی گرفت مضبوط نہیں کر پائی تھی کہ دم توڑتی قبائلیت کی راکھ سے سماجی انصاف، انسانی حقوق اورجمہوری آزادیوں کے نعروں کے ساتھ تحریکیں زور پکڑنے لگیں، جنہیں کسی پالیسی کے تحت مرکزی سیاسی دھارے سے مربوط رکھنے کا کوئی میکنزم ہمارے پاس موجود نہیں تھا، تاہم اس مرحلہ پہ ہمارا قومی ردعمل وہی تھا جو کسی بھی ہنگامی صورت حال سے دوچار قوم کا ہوسکتا ہے۔ ریاست بجائے خود بھی فرسودہ طور طریقوں کی اسیر بن کے اصلاح احوال کیلئے عقل اجتماعی کو بروکار لانے سے ہچکچا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ منتخب صوبائی حکومت ضم شدہ قبائلی اضلاع کی انتظامی عنان سنبھالنے کے بعد وہاں سماجی نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے درکار قانونی اقدامات اٹھانے میں تاخیرکیوں کررہی ہے؟ وہ پُرجوش قبائلی دانشور، قلم کار اورعلاقائی جماعتوں کی کہنہ مشق قیادت جو انضمام کے لئے بیتاب تھی اب فاٹا میں ابھرنے والی نئی صورت حال سے آنکھیں چار کرنے سے کیوں گھبراتی ہے؟ کیا ان خالص سیاسی مسائل کو سلجھانے کی آخری ذمہ داری سیکیورٹی فورسز پہ عائد ہوتی ہے؟ یقیناً ان پیچیدہ مسائل کا مستقل حل طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ ان مسائل کی کنجی سیاسی مہارت میں پوشیدہ ہے۔ فاٹا انضمام کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ ملک کی مجموعی انتظامی اتھارٹی، پارلمینٹ، ملک گیر و علاقائی جماعتیں اور اہل دانش کی اجتماعی صلاحیتوں سے حل کرنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فاٹا کے عوام میں پائے جانے والی بے چینی کا بروقت تدارک کرے کیونکہ فاٹا انضمام کے بعد ہم قومی تاریخ کے ایسے نئے مرحلہ میں داخل ہوگئے، جہاں امید کے نئے امکانات کے ساتھ نئے خطرات بھی ہمارا استقبال کرسکتے ہیں۔
اگر ہم قبائلی اضلاع میں ابھرنے والی سیاسی وسماجی تبدیلیوں کو ان کے فطری تناظر میں رکھ کے دیکھنے کی کوشش کرتے تو مسائل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی تھی
جنگ و دہشتگردی میں ہزاروں جانیں گنوانے اور ناقابل برداشت سیاسی، سماجی اور معاشی نقصانات اٹھانے کے بعد ہمیں تزویراتی اہمیت کے حامل فاٹا کے وسیع و عریض خطہ کو مملکت کا حصہ بنانے میں کامیابی ملی جو فی الحقیقت بنگلہ دیش کھو دینے کے دکھ کا مداوا بن سکتی تھی مگرافسوس کہ گراں قدر قربانیوں کے ثمرات کو سنبھالنے کے لیے ہم کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں کرسکے۔ پہلے تو فاٹا میں کوئی جامع متبادل نظام استوار کیے بغیر صدیوں کے تجربات پہ محیط ایف سی آرکی بساط اچانک لپیٹ کے کئی نادیدہ مسائل کی راہ ہموار کربیٹھے۔ دوسرا اس تغیر کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا کچھ اندازہ تو سب کو تھا لیکن یہاں اتنی تیزی سے صورت حال میں تبدیلیاں آئیں گی، اس کا ادراک کسی کو نہیں تھا۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اب ہم صرف ریاستی طاقت کے وسیلے فاٹا میں رونما ہونے والی سماجی، سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کو ریگولیٹ نہیں کر سکیں گے بلکہ انہیں نمٹانے کیلئے اجتماعی کاوش کی ضرورت پڑے گی۔ وزیراعظم عمران خان کی جنوبی وزیرستان آمد کے موقعہ پہ کالعدم تنظیموں کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط کے ذریعے قبائلی اضلاع میں پولیس کو باوردی گشت کرنے سے منع کرنے کے بعد نئے اضلاع میں پولیس کی تعیناتی کا عمل مزید سست پڑ گیا تھا اور اب ڈسٹرک شمالی کے علاقہ بویا میں خڑ کمر چیک پوسٹ کے قریب پی ٹی ایم کے کارکنوں اورسیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ میں تیرہ سے زیادہ افراد کی ہلاکت نے فاٹا انضمام کیلئے اپنائی گئی اجلانہ حکمت عملی کی کلعی کھول دی۔
اگر ہم قبائلی اضلاع میں ابھرنے والی سیاسی وسماجی تبدیلیوں کو ان کے فطری تناظر میں رکھ کے دیکھنے کی کوشش کرتے تو مسائل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی تھی۔ ایک ایسا سماج جہاں بغیر کسی پیشگی تیاری کے اجتماعی زندگی نے ناگہاں کروٹ بدل کے روایتی انتظامی اتھارٹی کو منہدم اورایک ایسے پرشکوہ سماج کے سوشل فیبرک کو توڑ ڈالا جس میں زندہ دل قبائلی اپنی انا کو گزند پہنچائے بغیر باآسانی انفرادی و اجتماعی تنازعات نبٹا لیا کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ اٹھارہ سالوں میں جنگ دہشت گردی کی مہیب لہروں نے جرگہ سسٹم اور مشران پہ مشتمل اس سماجی لیڈرشپ کو مضمحل کر دیا جو اپنی مضبوط روایات کی بدولت لوگوں کے ذاتی و اجتماعی تنازعات احسن انداز سے نمٹا لیا کرتی تھی۔ خرابی کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ فاٹا انضمام بارے قانون سازی کرنے والے پارلیمنٹیرینزنے پرانے قوانین ختم کرتے وقت سیفٹی وال کے طور پہ کوئی متبادل قانونی راستہ بنایا نہ آئین کے آرٹیکل 270 کے تحت سابقہ قوانین کے تسلسل کی گنجائش رکھی۔ اگر ہمارے قانون ساز فاٹا ریفارمز بل میں صرف اتنا شامل کر دیتے کہ جب تک مجاز فورم کوئی متبادل قانونی نظام تشکیل دے نہیں لیتا اس وقت تک فاٹا اضلاع میں ایف سی آر کے تحت ٹرائل کورٹس کام کرتے رہیں گے تو آج ہم اس قانونی اور سیاسی خلا میں پھنسے نظر نہ آتے۔ ایف سی آر ختم کرنے کے بعد حکومت نے وہاں سیشن کورٹس تو بنا دیئے لیکن انہیں فعال بنانے میں وقت درکار ہو گا۔ ابھی تو حکومت عدالتوں کو قبائلی اضلاع کی اصل حدود میں لے جانے کی ہمت نہیں کر رہی، قبائلی ڈسٹرکس کیلئے بنائی گئی تمام عدالتیں پشاور، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بیٹھی ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران فاٹا اضلاع میں ڈی پی اوز کے دفاتر بنے نہ تھانوں کے متحرک ہونے کی نوبت آئی، ان بارہ ماہ میں پولیس نے بمشکل ہی کوئی ایف آئی آر درج کی ہوگی۔ خدشہ ہے کہ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں پیدا ہونے والا قانونی خلا، بدنظمی اور انتشار پہ منتج نہ ہو یا نئے قبائلی اضلاع سے اٹھنے والی مزاحمتی تحریکیں پورے صوبہ کو لپیٹ میں نہ لے لیں۔
حکومت فاٹا انضمام کے عمل میں اگرچہ بروقت کوئی مناسب طریقہ تو نہ اپنا سکی لیکن اب بھی وقت ہے حکومت انضمام سے قبل قبائلیوں سے کئے گئے تین میں سے دو وعدے پورے کر دے تو صورت حال میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے قبائلی عمائدین سے تین وعدے کئے تھے۔ پہلا یہ کہ ادغام کی صورت میں حکومت عمائدین کی مشاورت سے فاٹا اضلاع میں رواج ایکٹ نافذ کر کے قبایلی روایات اور جرگہ سسٹم کو تحفظ دے گی۔ دوسرا،انضمام کے عمل کو پانچ سالوں میں پایا تکمیل تک پہنچایا جائے گا اور تیسرا، قبائلی اضلاع کی ترقی کے ہموار دھارے میں شامل کرنے کے لیے یہاں بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر پہ دس سالوں میں گیارہ سو ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ بدقسمتی سے تاحال تینوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی ایفا نہیں ہوسکا۔ پانچ سالوں پہ محیط انضمام کا سوال تو اب ختم ہو گیا لیکن حکومت نے تاحال رواج ایکٹ نافذ کیا نہ ترقیاتی پیکج کو عملی صورت دی، حتی کہ حکمراں اشرافیہ ابھی تک فاٹا کے بندوبستی اضلاع کو نشنل ایوارڈ سے تین فیصد دینے پہ متفق نہیں ہوسکی۔
فیس بک پر تبصرے