دھرم راجیکا سٹوپہ، جہاں بُدھا کی باقیات دفن تھیں

بدھا کے یوم نروان و وصال کے حوالے سے خصوصی تقریب، بدھ بھکشووں کے ساتھ وزیر اعظم کے مشیر ذولفی بخاری کی بھی شرکت

1,682

یہ دھرما راجیکا سٹوپہ ہے، 19 مئی، سال 2019ء، بدھ مونکس اپنے وقت کے اس عظیم بدھ سٹوپا کا طواف کر رہے ہیں۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے مختلف شعبہ حیات کے لوگوں کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر ذولفی بخاری اور سری لنکن ہائی کمشنر بھی موجود ہیں۔  مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے یورپ کے سب سے بڑے بدھ پیشوا ڈاکٹر سمانا سری بھی موجود ہیں۔ تقریب کا اہتمام سینٹر فار کلچرل اینڈ ڈویلپمنٹ نے کر رکھا ہے۔ ویساکھ ڈے کے نام سے اس دن کو منانے کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ گوتم بدھ کو نروان بھی اسی روز ملا تھا اور ان کا وصال بھی اسی روز ہوا تھا۔

یہ ٹیکسلا ہے اور اس سے ہزاروں میل دُور نیپال کے جنوب میں ایک ریاست ہے کپل وستو، اور اس کی راج دہانی ہے دیودہ نگر، سال ہے 563 ق م، اس ریاست کے راجہ شدھو دھن کی بیوی پرجاوتی ایک خواب دیکھتی ہے “جنت سے وارد ہونے والے چار دیوتا اس کی سیج کو اٹھا کر ہمالیہ کی ایک بلند ترین چوٹی پر لے جاتے ہیں، یہاں سونے کا ایک میدان ہے جہاں رانی کی سیج کو ایک سایہ دار درخت کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد چاروں دیوتا دُور ہٹ جاتے ہیں۔ رانی تالاب میں غسل کرتی ہے، بہشت کے پھولوں سے خود کو آراستہ کرتی ہے پھر اس کو اپنی سیج پر نیند آجاتی ہے، اتنے میں ایک ہاتھی اپنی سونڈ میں کنول کا پھول لے کر رانی کی طرف آتا ہے اس کے پاؤں کی آواز ناقابل یقین حد تک سماعت شکن اور چنگھاڑیں دھرتی کا سینہ شق کر دینے والی ہوتی ہے۔ رانی کے قریب آ کر ہاتھی تین بار ماتھا جھکا کر رانی کو سلام کرتا ہے اور پھر دائیں پہلو کو چیرتا ہوا اس کے پیٹ میں داخل ہو جاتا ہے”۔

رانی کے اس حیران کن خواب کی تعبیر پانے کے لئے راجہ نے 64 برہمنوں کو طلب کیا جو علم نجوم میں ماہر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مہاراج کے گھر ایک لڑکا آنے والا ہے جس نے اگر عام انداز میں مذہب کی پیروی کی تو تما م کرہ ارض کا حاکم ہو گا اور اگر مذہب کے ذریعے لوگوں کی تہذیب و تعلیم کی طرف مائل ہوا تو تمام دنیا کو جہالت اور گناہوں سے پاک کرے گا “۔

یہ بچہ جب بڑا ہوا تو حقیقت پانے کی آرزو اسے جنگلوں میں لے گئی۔ کئی سال اس نے سنیاس پانے کی جستجو میں گزار دیئے۔ جب عمر رفتہ 29 کو آئی تو اسے نروان ملا، پھر اکیاون سال تک اس نے تبلیغ میں گزارے۔ گوتم بدھ کے خیالات کی جھلک ہمیں بدھ مت کی کتاب “دھم پد” میں ملتی ہے جس میں گوتم بدھ سے موسوم اقوال درج ہیں۔

ہم آج جو ہیں، اپنے گزشتہ کل کے خیالات کی نوعیت کے باعث ہیں۔ ہمارے آج کے خیالات ہمارے آنے والے کل کی تعمیر کریں گے، ہماری زندگی ہمارے ذہن کی تخلیق ہے۔

ہزاروں بے کار اور بے معنی الفاظ کے مقابلے میں یک ایسا لفظ بہتر ہے جو سکون بخشتا ہے۔

بادشاہوں کے آثار تک مٹ جاتے ہیں، جسم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن خیر کی خوبی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔

زندگی کے راستے پر اکیلے چلنا اس سے بہتر ہے کہ ہم سفر احمق ہو۔

گناہوں میں سب سے بڑا گناہ جہالت ہے، اے انسان اس گناہ کو دھو ڈال اور نجاست سے پاک ہو جا۔

موت سے کسی کو راہ فرار نہیں، بدھا کا جب آخری وقت آن پہنچا تو انہوں نے بھکشوؤں کو آخری خطبہ بھی دیا جس میں اپنی تعلیمات کا نچوڑ پیش کیا۔ اپنی آخری رسومات سے متعلق انہوں نے فرمایا “میرا جسد خاکی دھنی ہوئی روئی میں لپیٹ کر تیل سے بھگونا اور نذر آتش کر دینا۔ راکھ کو کسی کھلی جگہ دفن کر کے وہاں سمادھی بنا دینا۔ لیکن یاد رکھو، میری راکھ یا سمادھی کی پوجا اور عبادت کر کے کہیں اپنے حصول نجات کے عمل میں رکاوٹیں نہ پیدا کرنا۔ تمہیں اپنی نجات کاسامان خود ہی پیدا کرنا ہے۔ جوش اور وارفتگی کے ساتھ اپنے لئے نجات تلاش کرو اور مسلسل کوشاں رہو “۔

جب یہاں پر طواف کیا جارہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے تیسری صدی قبل مسیح کا منظر آ جاتا ہے۔ بدھا کا وصال ہوئے تقریباً تین سو سال ہو چکے ہیں، سلطنت موریہ کا بادشاہ جسے دنیا نے اشوک اعظم کا خطاب دیا اس نے بدھ مت اختیار کرلیا ہے۔ اس زمانے میں بادشاہ کا مذہب ہی رعایا کا مذہب ہوتا تھا، چنانچہ بدھ مت کے سنہری دور کا آغاز ہوتا ہے۔ ٹیکسلا جو اس وقت ایک بڑا تہذیبی مرکز ہوتا ہے ہند، چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک اہم کوریڈور ہونے کی وجہ سے اشوک اعظم یہاں سرکاری طور پر ایک بڑے سٹوپا کی تعمیر شروع کرتے ہیں جس میں بدھا کی راکھ بھی لا کر دفن کی جاتی ہے۔ چونکہ اشوکا نے اپنے لئے دھرم راجہ کا خطاب چنا ہے اسی لئےاس سٹوپہ کو بھی دھرم راجا سٹوپہ ہی کہا جانے لگا۔ آنے والے سالوں میں ٹیکسلا بدھ مت کے اہم مرکز کے طور پر سامنے آتا ہے چین اور اس سے پرے کے ممالک تک لوگ یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ افغانستان سے آگے وسطی اشیائی ممالک تک بدھا کا پیغام پہنچتا ہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بدھ مت دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جاتا ہے۔ چنانچہ دوسری صدی عیسوی میں یہاں دنیا بھر سے آنے والے بھکشوؤں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کشان عہد میں دھرم راجیکا سٹوپا کی توسیع کی جاتی ہے۔ تاہم پانچویں صدی میں جب یہاں سفید ہن آئے تو انہوں نے پشاور سے ٹیکسلا تک بدھ عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا ہے اور یہاں سے بدھ مت کے زوال کا دور شروع ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک تھیوری  ہے کیونکہ sfسفید ہن تو یورپ بھی گئے وہاں انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، پھر پشاور سے ٹیکسلا تک پھیلی ہوئی بدھ تہذیب کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ اور کیسے یہاں سے بدھ آثار مٹ گئے؟ اس حوالے سے تاریخ میں ابھی تک کھوج کرید جاری ہے۔

لیکن ایک بات مصدقہ ہے کہ دھرما راجیکا سٹوپہ بدھ مت کے مقدس ترین مقامات میں سے ہے۔ سر جان مارشل نے جب 1913ء میں  ٹیکسلا میں کھدائیاں شروع کیں تو یہاں سے چاندی کے ایک برتن میں دفن شدہ راکھ بھی ملی تھی جسے سری لنکا کے حوالے کر دیا گیا تھا تاکہ وہ اس مقدس راکھ کی دیکھ بھال کرے۔

پاکستان، بدھ مت، ہندو مت اور سکھوں کے مقدس ترین مقامات کا گھر ہے۔ اگر حکومتی سطح پر یہاں مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف پاکستان کو اربوں ڈالر کی آمدنی ہو سکتی ہے بلکہ پاکستانی معاشرے میں تکثیریت کو فروغ ملنے سے رواداری میں بھی اضافہ ہو گا۔ لیکن یہ سب کچھ ممکن بنانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔ ندیم عمر تارڑ نے اسی سلسلے میں یہ تقریب سجائی تھی جس میں وزیراعظم کے مشیر ذولفی بخاری بھی تشریف لائے، برطانیہ اور یورپ سے بدھ مت کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا ڈاکٹر سمانا سری بھی تشریف لائے، انہوں نے یہاں مذہبی رسومات کی امامت کرتے ہوئے اور اسی طرح سٹوپا کا طواف کیا جیسے کسی زمانے میں یہاں آنے والے بدھ مت کے پیروکار کرتے تھے۔ پاکستان میں سری لنکا کے ہائی کمشنر بھی اس موقع پر موجود تھے۔

دھرما راجیکا سٹوپہ میں ویساکھ ڈے کے حوالے سے موم بتیاں اور اگر بتیاں جلائیں گئیں، بدھ مذہب کے ماننے والوں نے روایتی پھول بھی رکھے اور نذر نیاز کا اہتما م بھی کیا۔ رسمی طور پر منائی جانے والی یہ تقریب یقیناً ایک نئے کل کی تعبیر کرے گی۔ دنیا کے تمام مذاہب امن اور رواداری کی بات کرتے ہیں۔ سدھارتھ نے تخت و تاج ٹھکرا کر سنیاس لیا تھا۔ وہ ساری زندگی عدم تشدد کے قائل رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ طاقت، جیت جانے میں نہیں بچھ جانے میں ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...