کل زینب تھی آج فرشتہ ہے، آخر کیوں؟
میں لندن میں جس گھر میں رہتا ہوں اس میں کل پانچ کمرے ہیں۔ دو کمروں میں دو خواتین اور تین کمروں میں ہم تین لڑکے رہتے ہیں۔ ہم کچن اور واش روم شئر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے میں کولچسٹر میں جس گھر میں رہا تھا وہاں ابتدا میں ہم چار لوگ رہتے تھے۔ دو خواتین اور دو مرد۔ ہم چاروں لوگ کچن واش روم اور Conservatory شیئر کرتے تھے۔ دونوں گھروں میں خواتین کو مردوں سے اور مردوں کو خواتین سے کوئی خوف نہیں۔ یہ صرف میرے گھر کی بات نہیں، بلکہ لندن ہو یا کولچسٹر یہ عمومی بات ہے۔ میری یونیورسٹی کے ہاسٹل مردانہ و زنانہ حصوں میں تقسیم نہیں بلکہ سب لوگ بغیر کسی صنفی تفریق کے اکٹھے رہتے ہیں۔
میں نے اس سوال پر سوچا ہے کہ یہاں خواتین محفوظ کیوں ہیں؟ مجھے تین جوابات ملے ہیں:
ایک: خواتین انتہائی حد تک خود اعتماد ہیں۔ ہمارے پاکستان کی طرح صنف نازک نہیں ہیں۔ میں اگر غیر مناسب انداز (Inappropriate way) سے کسی لڑکی کو چھو لوں تو اس نے میرا منہ توڑ دینا ہے۔ پاکستان میں لڑکی اپنا دفاع نہیں کر سکتی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نفسیاتی طور پر اسے کمزور کر دیا ہے۔ صنف نازک قسم کی کوئی صنف یہاں میں نے نہیں دیکھی۔ میرے آفس میں اکثریت انٹرن (Intern) لڑکیاں ہیں، وہ آفس کا وہ سب کام کرتی ہیں جو پاکستان میں لڑکے بھی نہ کریں اور کہیں کہ باہر سے مزدور بلوائیں۔ وہ کانفرنس حال کی ٹیبل کھولتی، بند کرتی، ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کرتیں، کتابیں جب سینکڑوں کی تعداد شائع ہو کر آتی ہیں انہیں گاڑیوں سے نکال کر سٹور میں رکھتیں اور ایسے بہت سارے کام کرتی ہیں۔ میں اگر کسی لڑکی کی طرف گھوروں تو وہ نظریں نہیں جھکائے گی بلکہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے گی کہ جی فرمائیے کیوں دیکھ رہے ہیں ایسے۔ یہاں ویسے بھی مرد ہوں یا عورت، ثقافتی طور پر یہ پسند نہیں کیا جاتا کہ کسی اجنبی کے چہرے کو بار بار دیکھیں۔ بات کرتے ہوئے نظریں ملا کر بات کرنے کا دستور ہے، دوسری کسی بھی صورت میں (سوائے رومانوی تعلق کے) نظریں ملانے کو پسند نہیں کیا جاتا ہے، اسی لئے ٹرینوں میں یا تو لوگ کتاب و اخبار پڑھتے ہیں، یا موبائل سے کھلتے ہیں یا پھر کسی ایسی جگہ نظریں جما کر بیٹھتے ہیں جہاں کوئی نہ بیٹھا ہو۔
دوم: جنس یہاں کا ایک عام موضوع ہے۔ یہ درست ہے کہ آپ اجنبیوں سے اس بارے بات نہیں کرتے، مگر دوستوں سے یا کولیگز سے آپ باآسانی اس پر بات کرتے ہیں۔ صرف بات نہیں کرتے، سب کی جنسی زندگی مکمل ہے۔ جو محسوس کرتا ہے کہ اس کے ساتھی سے اس کی جنسی تسکین مکمل نہیں ہو رہی یا انڈرسٹنڈنگ نہیں پیدا ہو رہی ہے وہ اسے بآسانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس پر پاکستان کی طرح کی فلمی صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ یہاں آپ کو ایسے جوڑے ہر ٹرین سٹیشن پر ملیں گے جو ایک دوسرے کے ہونٹ چوم رہے ہوں گے، ایک دوسرے کے بوسے لے رہے ہوں گے، گلے لگ رہے ہوں گے اور محبت میں نچھاور ہو رہے ہوں گے۔ مگر میں نے گزشتہ آٹھ ماہ میں اب تک دو بندوں کو ایک دوسرے سے لڑتے نہیں دیکھا۔ میرے ایک دوست نے دو خواتین کو آپس میں لڑتے دیکھا ہے، ایک اور دوست نے ایک پب میں دو مردوں کو لڑتے دیکھا ہے۔ مگر یہ سب لوگ کس نسل سے تھے اگر لکھ دوں تو نسل پرستی کا الزام آئے گا۔ مختصر یہ کہ محبت کرنا سماج میں پسند کیا جاتا ہے، سماج میں لڑنا نہیں۔ پاکستان میں اس کے الٹ صورتحال ہے۔
پاکستان میں زینب ہو یا فرشتہ، بچے ہوں یا بچیاں، بالغ لڑکیاں ہوں یا خواتین، اس جنسی فرسٹریشن اور حبس کا شکار ہو رہی ہیں جس کی طرف ہم پاکستانی دیکھنا اور سوچنا نہیں چاہتے
جب آپ کی جنسی زندگی نامکمل ہو آپ نارمل انسان کی طرح نہیں behave کر سکتے۔ کچھ لوگ ممکن ہے اپنی اس زندگی پر مکمل کنٹرول رکھتے ہوں مگر اکثریت ایسا نہیں کر سکتی۔ جس طرح کھانا اور پینا ہماری جبلت میں شامل ہے اسی طرح سیکس بھی۔ جس طرح کھانا عام ہو تو ہم اس میں خوش خوراکی کا ذوق شامل کرتے ہیں اسی طرح جب آپ کی جنسی ضرورت پوری ہو رہی ہو تب آپ میں حقیقی رومانیت پیدا ہوتی ہے، وگرنہ جس طرح ایک بھوکا آدمی کھانے کا سوچ کر لطف لینے کی کوشش کرتا ہے ویسے ہی جنسی زندگی سے محروم آدمی جس محبت کا تصور کر رہا ہوتا ہے وہ دراصل جنس کی ہی ایک بظاہر اجلی صورت ہوتی ہے۔ روماونیت کا آغاز ہی جنسی زندگی کی تسکین سے ہے۔
سوم: یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے خواتین، بچوں اور LGBT کے معاملات میں انتہائی حساس ہیں۔ آپ کا موبائل چوری ہو گیا ہے، آپ پولیس کو کال کریں وہ کہے گی نیا لے لو اور پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ کر دو۔ ہم نہیں آ رہے۔ اگر کوئی خاتون کال کر دے کہ اس نے مجھے نامناسب (Inappropriate ) انداز سے چھوا ہے، پانچ منٹ میں پولیس دروازے پر ہو گی۔ کوئی خاتوں فون کر دے کہ میرے شوہر نے میری مرضی کے بغیر مجھ سے سیکس کی کوشش کی ہے، پانچ منٹ بعد پولیس گھر میں ہوگی اور پھر میاں جیل خانے۔ اور اگر آپ نے کسی بچی یا بچے (نابالغ) کے ساتھ کوئی غیر مناسب جنسی برتاؤ کیا ہے، سمجھئے آپ کی ساری زندگی برباد ہو گئی۔
یہ وہ سب چیزیں ہیں جس کے سبب یہاں خواتین، بچے اور LGBT محفوظ ہیں۔ میرے خیال میں اس میں پہلے اور دوسرے فیکٹر کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر خواتین یہاں خود کو کمزور (صنف نازک) سمجھنا شروع کر دیں اور جنسی بھوک معاشرے میں غالب آجائے تو چند پولیس والے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان کا اول و اہم مسئلہ جو میں نے زینب قتل کیس کے وقت بھی اٹھایا تھا وہ یہی ہے کہ پاکستان میں جنسی بھوک پورے معاشرے پر غالب ہے۔ اس کا عام مشاہدہ آپ ہر وقت کر سکتے ہیں۔ بسوں، ویگنوں چوراہوں اور یہاں تک کہ گھروں میں مردوں کے اپنے جنسی عضو کو چھوتے ہاتھ اس کا نمونہ ہیں۔
مجھ سے کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ شادی شدہ لوگ پھر ریپ کی کیوں کوشش کرتے ہیں۔ اس کا جواب ایک یہ ہے کہ اگر کسی بھوکے کو چند دن کھانا نہ ملے تو وہ کھانا ملتے ہی تہذیب کے سارے اطوار بھول جائے گا اور ایک عرصے تک ہر بار کھانا کھاتے اس پر اسی جبلت نے حاوی ہونا ہے کہ جانے پھر ملے یا نہ ملے، جتنا کھا سکتا ہوں کھاؤ۔ پاکستان میں تو برسوں بھوکا رکھا جاتا ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں (پاکستان میں) شادی کا تصور قید سے کم نہیں۔ یہ قید بھی منتوں مرادوں کے بعد ملتی ہے، بلوغت سے تقریبا پندرہ برس بعد۔ آپ اس میں داخل ہو گئے تو اب اس سے نکلنا سمجھئے کہ انقلاب لانے کے مترادف ہے جس کی مخالفت پورے معاشرے نے کرنی ہے۔ قید کا یہ تلخ احساس اور برسوں کی فرسٹریشن شادی کے بعد اکثر افراد کو جنسی طور پر بھوکا ہی رکھتی ہے۔
پاکستان میں زینب ہو یا فرشتہ، بچے ہوں یا بچیاں، بالغ لڑکیاں ہوں یا خواتین، اس جنسی فرسٹریشن اور حبس کا شکار ہو رہی ہیں جس کی طرف ہم پاکستانی دیکھنا اور سوچنا نہیں چاہتے۔ ہمارے والدین لڑکیوں کو صنف نازک کی نفسیات دے کر پالتے ہیں جو کہ ایسا ہی ہے کہ آپ ان کو ایک جنسی گھٹن کے مارے جنسی درندے کے آگے بطور شکار پھینک رہے ہیں۔ قانون نافذکرنے والے ادارے شہریوں کے تحفظ کو اپنا فرض منصبی ہی نہیں سمجھتے۔ اس ساری صورتحال میں کل زینب تھی، آج فرشتہ ہے، کل کوئی اور ہو گی۔ ایسے سانحات کا خاتمہ مستقبل قریب تک نظر نہیں آتا، مستقبل بعید کی کسے خبر۔
فیس بک پر تبصرے