مدارس کا مسئلہ بھاری پتھر ہے

561

نیکٹا کے مطابق اس نے مدارس کوقومی دھارے میں لانے کے عمل کو تقریبا مکمل کرلیا ہے۔ اور اپنی رپورٹ ہر صوبے کی وزارت تعلیم کے حوالے کر دی ہے۔ اس ادارے کے مطابق اسلام آباد اورپنجاب میں 90 فیصد مدارس کی رجسٹریشن ہوچکی ہے۔ نقشوں پر ان مدارس کے لیے Geo-tagging  بھی کی گئی ہے۔ لیکن دیگر صوبوں میں کام کی رفتار آہستہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں مدارس کی رجسٹریشن پولیس کے حوالے کی گئی تھی مگریہ ناکام رہی۔

پاکستان میں مدارس  میں اصلاحات کے حوالے سے تمام حکومتیں بیانات جاری کرتی ہیں۔ یقینا یہ ملک کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ جس قدر پھیلا ہوا اور پیچیدہ ہے اسے دیکھتے ہوئے عملی اقدامات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستانی فوج کےترجمان جنرل آصف غفور نے بھی اپنی آخری پریس کانفرنس میں اس قضیہ پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کچھ تفصیلات بھی عوام کے سامنے رکھیں، جیساکہ پاکستان میں 25 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ پاکستان میں 30 ہزارمدارس ہیں جن میں 25 لاکھ  بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ محض 100 مدارس بچوں کوریڈیکل بنانے کاکام کرتے ہیں جوشدت پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ دینی اداروں کو وزارت تعلیم کے ماتحت لایا جائے۔ ان کے نصاب میں جدیدعصری علوم شامل کیے جائیں۔ نصاب میں دیگرفرقوں کے خلاف نفرت انگیزمواد شامل نہیں ہوناچاہیے۔ انہیں پرائیوٹ تعلیمی اداروں جیسے مواقع ملیں گے اور ان کی ڈگری کو تسلیم کیا جائے گا۔ ابتدا میں مدارس کو جدید بنانے پر 2 بلین خرچ کیے جائیں گے۔ اوران کوچلانے کیلئے سالانہ ایک بلین درکارہوں گے۔

ماہرین کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی اور شدت پسندی کی بڑی وجہ اسلامی مدارس کو قراردیتے ہیں۔ جب شدت پسندی کی مختلف قسموں کومذہب سے جوڑا جاتا ہے اور اس کی بنیادوں کو تلاش کیا جاتا ہے تو اسلامی تعلیمی ادارے ہی وہ جگہ قرارپاتے ہیں جہاں شدت پسندی کو بڑھتوری ملتی ہے۔ اگرچہ پاکستانی ریاست ان میں تفریق بھی کرتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ ادارے ملک میں مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور تمام مدارس شدت پسندی اور جہاد کوفروغ نہیں دیتے۔ اسی طرح کااعتراف امریکی ادارے بھی کرتے ہیں۔ البتہ پاکستانی ریاست اور امریکہ دونوں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اسلامی مدارس کا شدت پسندی کوعام کرنے میں کردار ضرورہے۔ 1990 کے وسط سے افغانستان اور 2002 کے بعد پاکستان میں طالبان تحریک کا ابھار اور امریکہ کے خلاف افغانستان میں 18سال جنگ کومدارس سے ہی جوڑا جاتاہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ تحریک ہی طالبان کے نام سے چلائی گئی۔ طالبان کا لفظ طالب یا اسلامی مدارس کے طالبعلم سے نکلا ہے۔ پاکستان میں جب فوج کے خلاف نیک محمد کی قیادت میں وزیرستان  میں پہلی بار تحریک اٹھی تواس نے بھی طالبان کا نام اپنایا۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ تحریک کو مدارس کے طلبہ نے منظم کیا تھا۔ لیکن نیک محمد سمیت کچھ دیگر راہنما ایسےتھے جنہوں نے نچلی صفوں میں روس کے خلاف جہادمیں حصہ لیاتھا اور یہ افغان طالبان تحریک سے متاثرتھے۔ یہ طالبان تحریک کا اثر تھا جس نے پاکستان کے مزاحمت کاروں کو متاثر کیا اور انہوں نے اپنی تحریک کو بھی اس سے جوڑا اور وہی نام اختیارکیا۔ درست ہے کہ یہ سب لوگ مدارس سے نہیں تھے لیکن مدارس کے طلبہ کی ایک تعداد اس کا حصہ تھی۔ امریکہ، سعودی عرب، امارات اور پاکستانی اداروں پرالزام لگایا جاتا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں روسی اثر و نفوذ کے خلاف اسلامی مدارس کوایک ڈھال کے طورپراستعمال کیاگیا۔ لیکن اسلامی تحریکوں کا کردار صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے لبرل، سیکولر اور جمہوری اداروں کے خلاف بھی آوازاٹھائی۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

 امریکہ کے لیے پہلے دیوبندی، سلفی یا وہابی مدارس مسئلہ تھے۔ اب جبکہ طالبان کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے اور شام وعراق میں داعش کوشکست ہوچکی ہے توامریکہ ان سے کم  خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ایران امریکہ تعلقات میں تناؤ کے بعد اب خطرہ اہل تشیع سے منسوب کیا جانے لگا ہے

مدارس مسلک کی بنیاد پر تقسیم بھی ہیں۔ ان سب کے اپنے نصاب اورتعلیمی بورڈز ہیں۔ امریکہ کے لیے پہلے دیوبندی، سلفی یا وہابی مدارس مسئلہ تھے۔ اب جبکہ طالبان کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے اور شام وعراق میں داعش کوشکست ہوچکی ہے توامریکہ ان سے کم  خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ایران امریکہ تعلقات میں تناؤ کے بعد اب خطرہ اہل تشیع سے منسوب کیا جانے لگا ہے۔ چونکہ امریکہ خود طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے اس لئے پاکستانی ریاست کیلئے دیوبندی، وہابی مدارس کومین اسٹریم میں لانے میں کوئی خاص رکاوٹ بھی نظر نہیں آتی۔

مولانا فضل الرحمن نے حکومت اور فوج کی طرف سے مدارس کومین اسٹریم میں لانے کے عمل کو ان کی خودمختاری پر آنچ قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی مخالفت اور مزاحمت کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں بڑے مدارس اوربورڈز کسی نہ کسی طرح جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ ہیں۔ ان کے نزدیک ریاست انہیں قومی دھارے میں لانے کے پس پردہ ان پرکنٹرول چاہتی  ہے۔ جبکہ علما آزادانہ مذہبی تعلیم کی روایت کوجاری رکھناچاہتے ہیں۔ دیوبندی علما اپنے آپ کومدرسہ دیوبند سے جوڑتے ہیں، جس نے برطانوی استعماری دورمیں آزادانہ تشخص اپنائے رکھا اور استعمار کے خلاف مزاحمت کی۔ لیکن پوری دیوبندی تحریک یکسو بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مدرسہ حقانیہ سے وابستہ علما مین اسٹریم کاحصہ بن رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت پہلے ہی دہشت گردی  کے خلاف سمیع الحق کے مدرسہ حقانیہ کے ساتھ اتحاد میں چل رہے ہیں اور ان کو فنڈز دیے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ تمام ریاستی ادارے اور ان کے عناصر مدارس کے مسئلہ کے حل میں اتفاق رائے نہیں رکھتے۔ جس طرح مدارس کی تنظیمیں اور جماعتوں کا ردعمل یکساں نہیں ہے اسی طرح ریاست اورعام لبرل عناصر مدارس کو مین اسٹریم کا حصہ بنانے کے طریقہ کار اور اصولوں پرتقسیم ہیں۔ فی الحال تو بیانات جاری کرنے کے بعد دونوں طرف سے خاموشی ہے۔ دیکھیے آگے کتنا عمل ہوتا ہے۔ یا پھر ماضی کی طرح اس بار بھی حکومت بھاری پتھر کو چُھو کر واپس رکھ دینے پر آمادہ ہے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...